• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معصیت الہی کے انسانی زندگی پر اثرات؛

مہوش حمید

مبتدی
شمولیت
اگست 31، 2013
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
19
معصیت کا مطلب نافرمانی کرنا۔اطاعت الہی سے انکار کرنا،اپنے نفس کی سننا، جو شخص اللہ کی نافرمانی کرتا ہے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خسارہ میں رہے گا۔ قرآن مجید میں اللہ نے پچلھی امتوں کا حال بیان کیا ہے کہ انہوں کسطرح اللہ کی نافرمانی کی اور آخر کار ہلاک کر دیئے گے؛
اللہ تعالی سورۃ انعام میں فرماتا ہے آیت نمبر ۴۲ تا ۴۵ میں۔
"اور ہم نے تم سے پہلی بہت سی امتوں کی طرف پیغمبربھیجے [پھر ان کی نافرمانیوں کے سبب] ہم انہیں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے تاکہ عاجزی کریں۔تو ان پر جب ہمارا عذاب آتا رہا تو وہ کیوں عاجزی نہ کرتے رہے مگر ان کے دل تو سخت ہوگئے تھے اور جو وہ کام کرتے تھے شیطان انکو [ان کی نظروں میں]آراستہ کرکے دکھاتا تھا پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو جو انہیں کی گئی تھی فراموش کردیا تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب ان چیزوں سے جو ان کو دی گئی تھی خوب خوش ہوگئے تو ہم نے انہیں ناگہاں پکڑ لیا اور وہ اس وقت مایوس ہوکر رہ گئے،غرض ظالم لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئِ،تمام تعریفیں اللہ کے لیے خاص ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔۔
اللہ تعالی نے اپنے برگزیدہ نبیوں کے ذریعے انسان کی ہدایت کا سامان فرمایا۔یہ سلسلہ آدم علیہ السلام سے لیکر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوا۔اللہ تعالی نے بنی نوع انسان کو مکمل ضابطہ حیات عطا کیا اگر انسان اس میں اپنی مرضی کرتا ہے تو کائنات میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے چونکہ جب انسان قانون شکنی کرتا ہے اور اللہ کی حکم عدولی کرتا ہے تو سزاوں کا مستحق ہوجاتا ہے،اللہ کی نعمتوں کی ناشکری اور احسان فراموشی کی وجہ سے وہ اللہ کے غضب کو دعوت دیتا ہے،گویا ایسی قوموں کی تباہی اللہ کی شان ربوبیت کا حصہ ہے،جیسے زہر آلود عضو کو کاٹ دیا جائے تاکہ باقی جسم بچ جائَے اسی طرح وہ معاشرے جن میں بد اخلاقی کا زہر سرایت کرجاتا ہے تو انہیں بھی مٹادیا جاتا ہے،پہلے قوموں کو برائی سے روکا جاتا ہے پھر انہیں مصائب میں مبتلا کیا جاتا ہے تاکہ وہ اللہ کی طرف رجوع کریں ،برے افعال ترک کردیں پھر انکی رسی دراز کردی جاتی ہے اور انہیں دنیاوی اشیاء کی فراوانی حاصل ہوجاتی ہے جب غفلت اور برائی انکے کردار کا حصہ بن جاتی ہے تو پھر عذاب الہی آتا ہے اور انہیں ملیا میٹ کردیتا ہے،
ہر دور میں ہر نبی نے اپنی اپنی قوم کو اللہ کی پکڑ سے ڈرایا انہیں اللہ کی نافرمانی اور سرکشی بغاوت سے روکا لیکن وہ باوجود وعظ و نصیحت کے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر اڑی رہی اور اپنے بعد آنے والوں کے لیے نشان عبرت بن گئی،جن کا تذکرہ ہمیں احادیث اور قرآن مجید میں متعدد مقامات پہ ملتا ہے۔
ابلیس محض ایک سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے مردود ہوگیا تھا،اور جنت کے قیام اور عیش سے ہمیشہ کے لیے محروم کردیا گیا تھا،حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اور فرشتوں سے سجدہ کراکے اشرف المخلوقات کا درجہ عطاکیا،لیکن جب انہوں نے شیطان کے بہکاوےمیں آکر درخت کا پھل کھا لیا اور اللہ کی حکم عدولی کی تو جنت سے نکال دئیے گئے،سورۃ البقرہ میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے؛
اور جب ہم نے فرشتوں کو کہا آدم علیہ السلام کو سجدہ مت کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کےاور تکبر کیا نافرمانوں میں ہوگیا اور ہم نے کہہ دیا کہ اے آدم علیہ السلام تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو کھاو پیو جہاں سے جاو مگر اس درخت کے قریب مت جانا ورنہ ظالم ہوجاوگے لیکن شیطان بے بہکا کہ نکلوا ہی دیا،اور ہم نےے کہہ دیا کہ نکل جاو تم ایک دوسرے کے دشمن ہو۔اور ایک وقت مقرہ تک تمہارے لیے زمین میں ٹَھرنا اور ایک وقت مقررہ تک فائدہ اٹھانا ہے۔'"
ہمارے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام محض ایک غلطی کی وجہ سے جنت سے نکال دئیے گئے تو ہم لوگ دنیا میں رہتے ہوئَے ہر بات میں اللہ کی نافرمانی کرکے جنت میں کیسے چلیں جائیں گے؟ حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال اپنی قوم کو دعوت نیکی دی انہیں برائی سے روکا،لیکن انہوں نے اپنے پیغمبر کی بات نہ مانی اللہ کی نافرمانی کی بالاخر اپنے تکبر کی بناء پر ہلاک کردئیے گئے۔
جیسا کہ اللہ نے فرمایا؛ترجمہ؛ اپنے گناہوں کے سبب یہ لوگ ہلاک کردیئے گئے پھر داخل کئے جائیں گے آگ میںاور اللہ کے سوا انہوں نے اپنا کوئی مددگار نہ پایا؛[سورۃ نوح ؛۲۵]
اسی طرح قوم عاد قوم لوط قوم ثمود قوم شعیب انہوں نے بھی اپنے پیغمبروں کو جھٹلایا حق بات کا انکار کیا اللہ کی نافرمانی کی تو اللہ کے عذاب سے ہلاک کردئیے گئے،
یہ چند مثالیں ہیں ورنہ قرآن پاک اور احادیث کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ کتنی ہی قومیں اللہ کی نافرمانی کی سزا اس دنیا میں بھگت چکی ہیں اور ان کی آبادیاں کھنڈرات بن کر آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بن چکی ہیں، اگر ہم سابقہ قوموں کے حالات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ کتنی ہی قومیں کسی ایک برائی یا نافرمانی کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹادی گئی۔ اور ان کا نام و نشان باقی نہ رہا۔
مثلا قوم شیعب صرف کم تولنے کی وجہ سے،نوح علیہ السلام کی قوم حکم عدولی اور ضد کی وجہ سے،لوط علیہ السلام کی قوم ہم جنس پرستی جیسے گھناونے جرم کی وجہ سے ہلاک کردئیے گئے ،،مگر ایک ہم ہیں کہ کون سی ایسی برائی نہیں جو ہمارے معاشرے میں نہیں؟ قتل و غارت گری رشوت خوری،سود،زنا،ناپ تول میں کمی،چوری ۔ڈاکہ زنی،جھوٹ وغیرہ یہ سب ہی عام ہے،پھر بھی ہم آس لگائے بیٹھے ہیں کہ اللہ ہم پر اپنی رحمتوں کی بارش کرئے گا،ہم کو دونوں جہاں کی کامیابی عطا فرمائے گا،ہمارے ہاں نہ تو حقوق اللہ کو پورا کیا جاتا ہے اور نہ حقوق العباد کو،ہماری مسجدیں ویران ہیں اور ہماری محفلیں تقریبات شیطانی کرداروں کی آئینہ دار ہیں۔ہماری عورتیں برائے نام لباس ذیب تن کئے مغربی تہذیب کی تقلید میں سڑکوں پر سرگرداں ہیں،ہماری عدایتیں انصاف سے قاصر نظر آتی ہیں،پھر کیوں نہ ہم پریشان ہو؟ ہمارے معاشرے کا ہر فرد حزن وملال کی تصویر کیوں نہ بنے؟یہ زلزلے،یہ خودکش دھماکے ،یہ سیلاب کی تباہ کاریاں،یہ مہنگائی،جس نے ہر بندے کی کمر توڑ دی ہے،ذہنی انتشار بے سکونی ،ناعاقبت اندیش حکمران،ڈکیتی چوری کی وارداتیں،کیا ہے یہ سب ،یہ سب ہمارے اعمالکی شامتیں ہیں،اللہ سے دوری اور ہر معاملے میں اسکی ناشکری کا نتیجہ ہے،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہر عمل ہماری زندگی کا حصہ ہے،پھر ہم کسطرح دنیا میں سکون اور عزت و عظمت کے خواہاں ہیں اور آخرت میں جنت کی نعمتوں کی آس لگائے ہوئے ہیں۔کیا ہم نے اپنی غمی ،خوشی،لیل ونہار ،معاشرت ،معاملات،اور اخلاقیات کا جائزہ لیا؟ کیا ہم نے مغرب زدہ ہونے کے لیے یہود وہنود کو مات نہیں کیا؟کیا ہم نے اپنے اسلاف کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جو اپنے صحیح عقائد اور اعمال کی وجہ سے ہر علاقے اور ہر جگہ غلبہ و تسلط حاصل کرتے رہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ جب میری امت میں پندرہ کام ہونے لگے تو ان پر مصیبتیں اترتی رہیں گی؛
[۱] مسلمان حاکم ملک کے لگان کو اپنی ذاتی دولت بنالیں گے یعنی اسکو شرعی مصرف میں خرچ نہیں کریں گے۔۔
[۲]امانت کو مال غنیمت کی طرح حلال سمجھیں گے،،۳ لوگ زکوۃ کو تاوان سمجھنے لگے گے۔۔۴علم صرف دنیاوی اغراض کے لیے حاصل کیا جائے گا،،
[۵] شوہر بیوی کی اطاعت کرئے گا۔
[۶]اولاد اپنے والدین کی نافرمانی کریں گی۔
[۷]اپنے دوست کو قریب کرئے گی اور باپ کو دور کرے گی۔
[۸]مسجدوں میںکھیل وغوغا کریں گے۔
[۹]خوف کی وجہ سے لوگوں کی آو بھگت کی جائَے گی۔
[۱۰]قوم کے لیڈر بہت ہی ذلیل اور لالچی قسم کے ہوں گے۔
[۱۱]اور گانے بجانے ظاہر ہوں گے،یعنی گ گانے والی عورتیں علانیہ طور پر لوگوں کو گانا سنائیں گی۔
[۱۲]طبلہ سارنگی اور بجانے کے آلات بہیت پھیل جائَے گے۔[یعنی جگہ جگہ گانے بجانے کی آواز سنائی دے گی]
[۱۳]شراب نوشی کثرت سے کھلم کھلا ہوگی۔
[۱۴]اور اس امت کی پچھلی جماعت پہلے لوگوں کو برا بھلا کہیں گی اور اگلے لوگوں پر لعنت اور طعنہ زنی کریں گی۔
[۱۵]اور ریشمی لباس پہنے جائَے گے۔
جب یہ سب باتیں ہونے لگے تو تم سرخ آندھی کا انتظار کرو ،زلزلہ ،زمین میں دھنسنا اور صورتوں کا بگڑنا اور آسمانی پتھراو اور دیگر نشانیاں جو مسلسل یکے بعد دیگرے ہونے لگیں گی۔۔۔[ترمذی]یہ تمام باتیں ہمارے مشاہدے میں ہیں،ہمارے معاشرے میں یہ برائیاں آچکی ہیں، اور ان بد اعمالیوں کی سزا ہم مختلف صورتوں میں بھگتے رہتے ہیں،کبھی زلزے کی صورت میں کبھی سیلاب کی صورت میں لیکن پھر بھی ہم اپنی اصلاح کی فکر نہیں کرتے،نہ توبہ استغفار کرتے ہیں،نہ ہی احکام خداوندی پہ عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں یہ ہمارے کمزور اور ناقص ایمان کی دلیل ہے،،،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ جس نے میری امت پر غلہ روک لیا اللہ اسکو کوڑھی اور مفلس بنادے گا۔۔
کیا آج کے ذخیرہ اندوذ حضرات ،مل مالکان اور تاجروں تک اللہ کے رسول کا یہ پیغام نہیں پہنچا جو آئے دن اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کرکے عوام سے منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں،ہمارے ملک میں اللہ کی دی ہوئی ہر نعمت موجود ہے یہاں کی زمءن سونا اگلتی ہے لیکن مصنوعی قلتییں پیدا کرکے عوام کو ترسایا جاتا ہے،
اللہ تعالی فرماتا ہے؛؛ظھر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس" لوگوں کے اعمال بد کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہوگیا؛
مسند احمد میں روایت ہے؛کہ حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے کہا؛کہ میرے رب تو آسمان میں ہے اور ہم زمین میں ہیں،تو تیرے غصے اور خوشی کی نشانی کیا ہے؟ تو اللہ تعالی نے فرمایا؛ جب میں تم پہ نیک حاکم اور بادشاہ مقرر کردوں تو یہ میری تمسے خوش ہونے کی نشانی ہے،اور جب میں تم پر ظالم بادشاہ مقرر کردوں تو یہی تم سے میری ناخوشی کی علامت ہے؛
امام شافعی رحمہ اللہ نے امام وکیع رحمہ اللہ سے اپنے حافظے کی کمزوری کی شکایت کی تو امام وکیع رحمہ اللہ نے کہا،کسی گناہ میں مبتلا مت ہو،کیونکہ علم و ذکاء نور اور روشنی ہے،اور گناہ،ظلمت اور تاریکی ہے،ایک ہی جگہ نور اورتاریکی جمع نہیں ہوسکتی۔۔۔
امام ابن قیم رحمہ اپنی کتاب {الداء والدواء]میں گناہوں کے نقصانات تحریر فرماتے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں؛ گناہ سے دل میں تاریکی پیدا ہوجاتی ہے اور یہ گناہوں کی تاریکی اسقدر زبردست اور طاقتور ہوجاتی ہے کہ اسکا اثر آنکھوں میں ظاہر ہوجاتا ہے ،پھر جب گناہوں کی تاریکی پہلے سے زیادہ قوی ہوجاتی ہے تو پھر چہرے پہ تاریکی مسلط ہوجاتی ہے جس سے چہرہ کالا ہوجاتا ہے جس کو ہر دیکھنے والا دیکھتا ہے یعنی گناہوں کا اثر دل پر بھی پڑتا ہے،خیر کی رغبت جاتی رہتی ہے اور چہرے پر بھی بے رونقی پیدا ہوجاتی ہے۔۔۔
یہ چند باتیں تھی جو میں نے یہاں بیان کی حقیقتا یہی راہ نجات ہے کہ ہم اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرلیں اپنی اصلاح کے ساتھ دوسروں کی بھی اصلاح کریں کیونکہ نیکی کی دعوت دینا برائی سے روکنا مت محمدیہ کی ذمہ داری ہے۔کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛اللہ تعالی خاص لوگوں کے عمل پر عام لوگوں کو ٰعذاب نہیں دیتے لیکن جب وہ اپنے سامنے برائی دیکھیں اور اسکو قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکیں تو اللہ تعالی خاص اور عام سب لوگوں کو عذاب میں مبتلا کردیتا ہے۔۔۔[مشکوۃ]
آخر میں اللہ سے یہی دعا ہے کہ ہم سب کو برے اعمال سے بچنے اور اپنی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ اگر ہر شخص اپنی اصلاح کی طرف توجہ دے تو معاشرہ بہتر ہوسکتا ہے ،دوسروں پہ تنقید کرنے سے بہتر ہے کہ ہم پہلے خود کو دیکھیں اور اپنی اصلاح کی فکر کریں اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ہمیں اپنے عذابات سے اللہ محفوظ رکھے اور ایمان کے ساتھ ہمارا خاتمہ ہو،آمین،،
 
Top