صحابہ کرام کے زمانہ بلکہ تینوں زمانوں میں اس کا وجود نہیں ملتا، بعد کی ایجاد ہے ۔
جناب احمد یار خاں نعیمی بریلوی صاحب نقل کرتے ہیں :
لَمْ یَفْعَلْہُ أَحَدٌ مِّنَ الْقُرُونِ الثَّلَاثَۃِ، إِنَّمَا حَدَثَ بَعْدُ .
میلاد شریف تینوں زمانوں میں کسی نے نہ کیا ، بعد میں ایجاد ہوا ۔''(جاء الحق : ١/٢٣٦)
جناب غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب یوں اعتراف ِحقیقت کرتے ہیں:
''سلف صالحین یعنی صحابہ اور تابعین نے محافلِ میلاد نہیں منعقد کیں بجا ہے۔''
(شرح صحیح مسلم : ٣/١٧٩)
جناب عبد السمیع رامپوری بریلوی لکھتے ہیں :ــ''یہ سامان فرحت و سرور اور وہ بھی مخصوص مہینے ربیع الاول کے ساتھ اور اس میں خاص وہی بارہواں دن میلاد شریف کا معین کرنا بعد میں ہوایعنی چھٹی صدی کے آخر میں۔''(انوارِ ساطعہ : ١٥٩)
اہلِ بدعت علی الاعلان تسلیم کر رہے ہیں کہ صحابہ و تابعین نے یہ جشن نہیں منایا ، ہم بھی یہی کہتے ہیں ، لہٰذا یہ کہنا کہ اس فعل سے منع بھی تو نہیں کیا ، یہ سراسر جہالت اور سنت دشمنی کی دلیل ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم نعمت ِعظمیٰ ہیں ، اس نعمت کی قدرآپ کی اطاعت و اتّباع اور آپ کی سنّتوں سے محبت میں ہے ، نہ کہ دینِ حق میں بدعات و خرافات جاری کرنے میں ۔
بدعتی حضرات خود اس میلاد کے بارے میں یہ اقرار بھی کرتے ہیں کہ صحابہ کرام اور تابعین اور ائمہ دین کے دور میں اس کا وجود نہ تھا بلکہ چھٹی صدی کے آخر میں شروع ہوا ، پھر اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم اس کو منانے کے دلائل بھی رکھتے ہیں ۔ کیسی بات ہے کہ وہ دلائل چھ صدیوں تک کسی مسلمان کو سمجھ نہ آئے !!!