ظہیر احمد
مبتدی
- شمولیت
- دسمبر 29، 2014
- پیغامات
- 16
- ری ایکشن اسکور
- 5
- پوائنٹ
- 6
مقامات حضرت امام حسنؓ
نہایت محترم بزرگو اور دوستو ،ماہ محرم پاک جن ہستیوں سے منسوب ہےوہ ہستیاں درحقیقت روحانیت کو تقسیم کرنے والی ہیں ۔جس گھرانےسے روحانیت کا فیض تقسیم ہوا آج اسی گھرانےکی قربانیوں کا ذکر منایا جارہا ہےمعلوم یہ ہوا کہ ذکروفقر جس گھرانے سے چلا وہ صرف اللہ ،اللہ نہیں کرتے رہے بلکہ جب بھی دین پر مشکل وقت آیا ان ہستیوں نے اپنی گردنیں،اپنے سر دین اسلام کی سربلندی کے لیے قربان کر دی۔روحانیت کا فروغ دراصل قربانیوں کے جذبے بیدار کرنے کا نا م ہے۔روحانیت انسان کے اندر وہ جذبہ بیدار کر نے کا نا م ہے جو انسان کی ہستی کو مٹا کر رب العزت کی بارگا ہ میں پیش کردے۔
میں آپ کے سامنےبڑے نواسہ رسولﷺحضرت امام حسن ؓ کی سیرت طیبہ اور شان کے حوالہ سے پانچ نکات پر بات کروں گا۔حضرت امام حسن ؓ اور حضرت امام حسینؓ بدل ہیں حضرت ابراھیم بن محمدﷺ کے۔جب حضرت ابراھیم ؑ،حضورﷺ کی اولاد پاک اس دنیا سے وصال کر گئے تو دکھ سے حضورﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔حضرت عائشہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺاللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا فرئیں تو اللہ تعالیٰ حضرت ابراھیم کو زندگی عطا فرما دیں گے۔تاریخ اس کی گواہ ہے اور قرآن اس کا شاھد ہے کہ ہر نبی کی ایک دعا ضرور قبول ہو تی ہے۔حضورﷺ نے جوارشادفرمایا وہ میرے جیسے گناگار اورآپ جیسے اچھے انسانوں کے لیے رحمتوں،بخششوں اور خوشیوں کا پیغام ہےآپﷺ نے اراشاد فرمایا۔اے عائشہؓ وہ دعا جو قبولیت والی دعا ہے وہ میں نے اپنی امت کے لئے آخرت میں بخشش لے لئے رکھی ہے۔میں اگر آج اپنے بیٹے کی حیات کے لیے دعا ما نگ لوں تو اللہ تعالیٰ حیات فرما دیں گے لیکن میری وہ دعا اس دنیا میں ختم ہو جائے گی۔بالآخر حضرت ابراھیم ؑ نے اس دنیا سے رخصت ہو ناہےلیکن میں اپنی دعا کو اپنی امت کے لیے آخرت تک بچا کر رکھنا چاہتا ہوں جب میری امت مصیبتوں میں گھرِی ہو گی اس وقت میں دعا کر کے اپنی امت کو بخشوا لوں گا۔دوستوجب سے میں نے یہ حدیث مبارکہ پڑھی ہےتو بخشش پر میرا یقین اتنا بڑھ گیا ہے جس طرح دن اور رات کے ہونے پر ہے۔مجھے اپنے اور آپ کی بخشش کا اتنا یقین ہے کہ گناہوں سے توبہ کرتے رہو اللہ تعالیٰ حضورﷺ کے نعلین مقدسہ کے صدقہ میں ہمیں معاف فرما دیں گے۔معافی اس کی ہوگی جو اس کا امیدوار اور خواستگار ہے جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ مجھے معافی ہو جائے گی۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا(حدیث مبارکہ ہے)کہ بندہ سے اسکے ظن اور گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں۔میرا بندہ مجھ سے جس طرح کا گمان رکھتا ہے میں اس گمان کے مطابق معاملہ کر تا ہوںتو ہمارا گمان اپنے رب کے بارے میں بہت خوبصورت ہے کہ ہمارا رب ہمار ے حضور ﷺکی کوئی دُعا رد نہیں کرے گااور ہم سب جنت میں چلے جائیں گے۔
حضورﷺ نے حضرت امام حسن ؓکے بارے میں ارشاد فرمایا :
اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ وَأَحْبِبْ مَنْ يُحِبُّهُ.(مسلم شریف حدیث نمبر؟؟ تحریر کریں)
حدیث مبارک کے دوجزو ہوتے ہیں پہلا جزو سند کہلاتا ہےاور دوسرا جزو یہاں سے قال رسول اللہ ﷺ شروع ہوتا ہے وہ متن کہلاتا ہے۔آپ حدیث کی کسی بھی کتاب کا مطالعہ کریں توآپ دیکھیں گے کہ محدث پہلے سند بیان کرتا ہےاور اس کے بعد متن بیان کرتا ہے۔سند سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کے متن کو اِن اِن لوگوں نے اپنے سینوں میں سجایا ہے۔ان سینوں کی کیا شان اور رتبہ ہےجن سے حضورﷺکے ارشادات گزر کر ہم تک پہنچے ہیں۔
حضرت امام مسلمؓ نے یہ حدیث امام احمد بن حنبلؓ سے روایت کی ہے۔امام حسنؓ اس وقت بچے تھے آپؓ پر ابھی نماز،روزہ ،زکوۃ،حج فرض نہیں ہوئے تھے۔یاد رکھیے کسب کا مرتبہ ریاضت،محنت ،عبادت سے،مجاہدہ سے مرتبہ ملتا ہےوہ اور بات ہےلیکن جو نسب سے مرتبہ ملتا ہےوہ اور بات ہے۔نسب کا مرتبہ کسب،ریاضت،محنت،عبادت،زکوۃ،حج کا مرہون منت نہیں ہوتا۔کیونکہ اس وقت مراقبہ میں سجود،نہ قیام،نہ قیود اور نہ کوئی اور بات حضرت اامام حسنؓ کے پاس تھی اگر اس وقت حضرت امام حسن کے پاس تھا تو وہ ان کا نسب تھا
حضورﷺ ارشاد فرماتے ہیں: (اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ)اے میرے رب میں اپنے نواسے سے محبت کرتا ہوںمیر رب تو بھی اس سے محبت کر۔
اصول تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ امام حسنؓ سے محبت کرتے تو اللہ تعالیٰ فرماتے کہ اے میرے محبوبﷺ میں اس سے محبت کرتا ہوں توبھی اس سے محبت کر۔لیکن یہاں محبت کا چینل بدل گیا اب رسولﷺ حسن سے محبت کر رہے ہے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کررہے ہیںکہ اے میرے رب تو بھی اس سے محبت کر۔اس کا مطلب ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا بندہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت کرتا ہے۔
دوستو یا تو اللہ تعالیٰ کے محبوب بن جاو یا محب بن جاو،کامیابی دونوں صورتوں میں ملے گی۔لیکن محبوب بننا بھی آسان نہیں اور محب بنا بھی آسان نہیں یہ کسی کی نگاہ کرم کے طفیل ہوتا ہے۔
حضورﷺ آگے ارشاد فرمارہے ہیں (وَأَحْبِبْ مَنْ يُحِبُّهُ) یا اللہ تعالیٰ تو اس سے بھی محبت کر جو حضرت حسنؓ سے محبت کرتا ہے۔یعنی محبت کا یہ معاملہ اللہ اور اس کے رسولﷺ تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ حضورﷺ کے امتیوں کی محبت کا مرکز نگاہ بننا چاہیے۔
اللہ کی محبت کو پانے کا کتنا آسان نسخہ ہے۔نہ راتوں کو جاگنا پڑتا ہےبس حسنؓسے محبت اپنے دل میں بسا لو اور اللہ کے محبوب بن جاو۔
اس بات کا انکار کرنے والا یا تو حدیث کا انکار کرے یا پھر متن حدیث کو تسلیم کر لے۔جب حدیث کو پڑھے گا تو ماننا پڑھے گا کہ اللہ کے بندوںسے محبت ،اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کا ذریعہ ہے۔
ہمارے آقا حضورﷺ کی اپنے نواسے سے محبت کا ایک اور منظر ملاحظہ فرمائیں تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ حضورﷺ نےکسی اندرونی طبعی جذبہ کے تحت یہ بات نہیں فرمائی اور نہ ایک مرتبہ بیان فرمائی ہے بلکہ مختلف موقع پر محبت حسنؓکو بیان فرمایا ہے ۔یہ ترمذی شریف کی حدیث ہے پہلی بیان کردہ حدیث سماعت کی حدیث تھی اور یہ مشاہدہ کی حدیث ہے۔
حدثنا محمد بن بشار حدثن محمد بن جعفر حدثنا شعبة عن عدي بن ثابت قال سمعت البراء بن عازب يقول : رأيت النبي صلى الله عليه و سلم واضعا الحسن بن علي على عاتقه وهو يقول اللهم إني أحبه فأحبه (ترمذی شریف 3783)
میں نے دیکھا کہ حضورﷺ کے کندھامبارک پر امام حسنؓ بیٹھے ہوئےہیں۔ذراچشم نظر سے غور فرمائیںتو انسان پر ایک عجیب سی کفیت طاری ہو جاتی ہے کہ حضورﷺ تشریف لارہے ہوںگے اور دوسری طرف حضرت بر ا ابن عازب آرہے ہوں گےاور حضرت اما م حسن خوش خرامیاں کررہے ہوں حضورﷺکے کندھامبارک پر بیٹھے ہوئے جو تمام نسل انسانیت کاسہارا ہے ،تمام مومنوں کا سہارا ہے اس پر حضرت حسنؓ بیٹھے ہوئے ہیں۔
حضرت برا ابن عازب فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضورﷺ کے کندھا مبارک پر حضرت امام حسنؓ ہیں اور حضورﷺ ارشاد فرمارہے ہیں۔یا اللہ میں حسن سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔
حضرت امام حسنؓ میں حضورﷺ کا رنگ نمایاں تھا،فیضان نبوت نمایاں تھا۔نبوت کا فیضان یہ ہےکہ اپنا سب کچھ لٹا دے اور دین مصطفےﷺکو بچا لے۔
بخاری شریف کی حدیث میں حضرت انس ؓ روایت کر تے ہیں۔
حدثني إبراهيم بن موسى أخبرنا هشام بن يوسف عن معمر عن الزهري عن أنس . وقال عبد الرزاق أخبرنا معمر عن الزهري أخبرني أنس قال : لم يكن أحد أشبه بالنبي صلى الله عليه و سلم من الحسن بن علي (بخاری شریف 42)
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ دنیا میںحضرت امام حسنؓ سے زیادہ کوئی بھی حضورؑ سے مشاہبت نہیں رکھتا تھا۔سوائےحضرت امام حسنؓکے،حضورﷺکا ظاہری حسن حضرت امام حسنؓ میںمنتقل ہو گیا تھا اورحضرت امام حسن ؓکا ظاہری حسن ان کی اولاد میں منتقل ہوا اور پھر یہ حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کی صورت میں ظاہر ہوا تویہ سارے کے سارےشبیہ مصطفےٰﷺ تھے ۔
ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں بخاری شریف
- حدثنا عبدان أخبرنا عبد الله قال أخبرني عمر بن سعيد بن أبي حسين عن ابن أبي مليكة عن عقبة بن الحارث قال : رأيت أبا بكر رضي الله عنه وحمل الحسن وهو يقول بأبي شبيه بالنبي ليس شبيه بعلي . وعلي يضحك
ترجمہ عقبہ بن الحارث روایت کرتےہیںکہ میں نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو دیکھا ہ انہوں نے حضرت امام حسن ؓکو اٹھایا ہوا تھا۔حضورﷺ ایک عمل کریں اور حضرت ابوبکرصدیق نہ کریں تویہ محبت تو نہ ہوئی،محبت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ حضورﷺ جیسا عمل اختیار کریں حضرت ابو بکرؓ بھی ویسا ہی طرز عمل اختیار کریں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حضورﷺ تو حضرت امام حسن ؓ کو اپنے کندھوں پر اٹھائیں اورحضرت ابو بکر نہ اٹھائیں ۔حضرت ابن حارث فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو بکرؓکو دیکھا کہ امام کو اٹھائے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے کہ میرے ماں باپ حضرت حسن ؓپر قربان ہو جائیںحضرت امام حسن تو حضورﷺ سے مشاہبت رکھتے ہیں یہ حضرت علیؓ سے مشاہبت نہیں رکھتےاور حضرت علیؓ ساتھ کھڑے ہیں یہ سن ک رمسکرانے لگے۔
ذرا غور فرمائیںکہ کیسے تعلقات ہیں حضرت ابوبکرصدیقؓ کے اہل بیت سے کتنی محبت ہےاب اگر کو ئی یہ کہے کہ حضرت ابوبکرؓکو حسنؓ سے محبت نہیں تھی تو وہ کتنا بڑا جھوٹا ہے۔
جب حضرت امیر معاویہؓ اور حضرت اما م حسنؓ کے درمیان سخت کشیدگی پیدا ہو گئی ،یہ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک بہت حساس اور مشکل باب ہےہم کچھ کہہ بھی نہیں سکتے اور خاموش بھی نہیں رہ سکتے صحابہ رسولﷺ ہونےکی وجہ سےہماری زبانیں بند ہیںلیکن در حقیقت بات یہ کہ جب حضرت امام حسنؓ کی خلافت قائم ہو گئی اور تمام مسلمانوں نے اس کو تسلیم کر لیا اور حضرت امیر معاویہ ؓ نے ان کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا۔حجاز اور سارا عرب حضرت امام حسنؓ کے ساتھ تھا اور شام کوفہ حضرت امیر معاویہؓ کے ساتھ تھاکشید گی کی وجہ سے عین ممکن تھا کہ مسلمانوں کی تلواریں آپس میں ٹکرا جاتیںاور خون کی ندیاں بہہ جاتی اس وقت حالات اس قسم کے تھے کہ ابھی شریعت اسلامیان کی بنیادیں نہیں ہلیں تھی اور اس طرح کا موقع نہیں آیا تھا کہ خروج کیا جائےتو اس وقت حضرت امام حسنؓ نے وسعت قلبی اور فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت امیر معاویہ ؓ کی خلافت کو تسلیم کرلیااور مسلمانوں کے دو گرہوں کو آپس میں ٹکرانے سے بچا لیا۔ہمارے آقاﷺ نے پہلے ہی پیشن گوئی فرما دی تھی
حدیث مبارک نمبر2704کتاب صلح بخاری شریف(ایک حصہ )
وَلَقَدْ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرَةَ، يَقُولُ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ إِلَى جَنْبِهِ، وَهُوَ يُقْبِلُ عَلَى النَّاسِ مَرَّةً وَعَلَيْهِ أُخْرَى، وَيَقُولُ: إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ".
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے سنا ہے اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرماتے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا۔
معلوم یہ ہوا کہ دو گرہوں،دو بھائیوں کے درمیان صلح کروانا سنت امام حسنؓ ہے۔امام حسنؓ سے محبت کرنے والو:انہوں نے ساری طاقت مسلمانوں کے درمیان صلح کے لیے صرف کر دی تھی تو اے مسلمانوں تم بھی مسلمانوں کی فلاح کے لیے اپنی تمام قوتیں صرف کر دو۔
جو معاہدہ حضرت امیر معاویہ اور حضر ت امام حسنؓ کے درمیان ہوا وہ چند ایک آپ کے سامنے بیان کر تا ہوں یہ حضرت امام حسنؓ کی عظمت اور شان کا بہت بڑا ثبوت ہےیہ دستاویزی ثبوت ہے کہ آپ نے کتنی وسعت کا ثبوت دیااس معاہدہ کی جب خلاف ورزی ہوئی تو بھی امامؓ نے کوئی بات نہیں کی کہ اس سے پھر مسلمانوں کا خون بہےگا جن کے لیے یہ معاہدہ کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں ان کا نا دنیا میں کوئی نہیں ہو گا لیکن حسن ؓ کا نام ہمیشہ زند ہ ہے گایہ ساری کوشش درحقیقت حضرت امیر معاویہ کی یزیدکی خلافت اور حکومت کو قائم کرنے،مضبوط اور مستحکم کرنےکے لیے تھیں۔معاہدہ کا ایک ایک لفظ امام حسنؓ کی شان اور فراست کو بیان کر رہا ہے۔
معاہدہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ و حضرت معاویہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
یہ وہ تحریر ہے جس کے مطابق حسن بن علی اور معاویہ بن ابی سفیان نے مصالحت کی ہے۔ یہ مصالحت اس بات پر ہوئی ہے کہ حسن بن علی (رضی اللہ عنہ) معاویہ ( رضی اللہ عنہ ) کو مسلمانوں کی ولایت اس شرط پر دیں گے کہ وہ
۱۔کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ ،سیرت خلفائے راشدین مہدیین کے مطابق عمل پیرا ہوں گے۔
۲۔معاویہ کو اس بات کی اجازت نہ ہوگی کہ وہ اپنے بعد کسی کو خلافت دے جائیںبلکہ ان کے بعد یہ معاملہ مسلمانوں کے مشورے سے طے ہوگا۔
۳۔جو لوگ شام، عراق،حجاز ، یمن اور خدا کی زمین میں جہاں بھی ہوں گے امن میں ہوں گے۔
۴۔اصحاب علی جہاں بھی ہوں گے اپنی جانوں ،مالوں ،عورتوں اور اولادوں کے بارے میں محفوظ ہوں گے۔
۵۔معاویہ بن ابی سفیان کو یہ عہد و پیمان بھی کرنا ہوگا کہ وہ حسن بن علی اور ان ے بھائی حسین اور اہل بیت رسول ﷺ میں سے کسی کی بھی خفیہ اور اعلانیہ طور پر تباہی نہیں چاہیں گے اور نہ ہی ان میں سے کسی کو کسی جگہ خوف زدہ کریں گے۔
جب یہ معاہدہ ہو گیا تو حضرت امیر معاویہؓ نے امامؓ سے گزارش کی کہ آپ ؓ باہر لوگوں کے درمیان اس کا اعلان فرمادیںکہ آپ نے امیر معاویہ کی خلافت کو تسلیم کر لیا ہے۔
امام حسن ؓ نے لوگوں کو خطبہ ارشاد کیا فرمایا لوگو سب سے بڑی دانائی تقویٰ اور سب سے بڑی حماقت فسق وفجورہے۔دانائی تقویٰ کے اندر اور حماقت فسق وفجور کے اندر چھپی ہے لوگو دیکھ لو تقویٰ والے کون ہیں اور حماقت والے کون ہیںپھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے میر ےنانا (رسول اللہﷺ) کے ذریعے سے ہدایت د،گمراہی سے بچایا،جہالت سے نجات دی ذلت کے بعد عزت دی،قلت کے بعد کثرت دی۔معاویہ نے مجھے سے حق کے متعلق جھگڑا کیا تھا اور وہ میرا حق ہےیعنی خلافت میرا حق ہےلوگو تم گواہ رہنا لیکن میں معاویہ کو دے رہا ہوںیہ اس کا حق نہیں ہے اور تم لوگوں نے مجھے سے اس شرط پر بیت کی کہ جو مجھ سے صلح کرے گا تم اس سے صلح کرو گے جو مجھ سے جنگ کرے گا تم اس سے جنگ کرو گےلیکن میں نے امت کی بہتری اور فتنہ کوفرو کرنے کی خاطر معاویہ سے مصالحت کو پسند کیااس لیے معاویہ سے مصالحت کرو،فرماتے ہیں کہ اس جنگ کو بھی ختم کرنے کا اعلان کررہاہوں جومیرے اور ان کے درمیان میں ہیں۔اور میں نے ان کی بعیت بھی کر لی اور میں خونریزی کی نسبت خون کی حفاظت کو بہتر خیال کر تا ہوںمیں نے صرف آپ کی فلاح اور بقا چاہی ہےمیں دیکھ رہا ہوں کہ یزید طاقت ور ہو گا اور سارے معاہدے کی خلاف ورزیاں کرے گااور اہل بیت کو تکلیفوں اور مصیبتوں میں مبتلا کرے گامیں دیکھ رہا ہوں کہ اس نے(حضرت امیر معاویہؓ) صلح تو کر لی ہے لیکن یہ عارضی ہوگی۔
حضرت امام حسنؓ وہ پھول اور خوشبو ہیں جسکی خوشبو اس وقت سے چلی آرہی ہے اور پھیلتی ہی چلی جا رہی ہے اور قیامت تک پھیلتی ہی جائے گی یہ وہ خوشبو ہے جس سے عظیم ہستیاں اس نسل سے پیدا ہونگی یعنی وہ عظیم ہستیاں امام حسنؓکی نسل سے پیدا ہونگی میں آپ کو ایک ایسی بات بتاتا ہوں جو ہمارے ایمان کو اور طاقت ور بنا دے گی۔حضرت امام حسنؓجو شبہیہ مصطفیٰﷺہیں جو سیرت مصطفیٰ ﷺ اور صورت مصطفیٰﷺ کا مجموعہ ہیں ان کی نسل بھی انہی صورتوںاور سیرتوں کا حامل رہی ہے حضرت غوث اعظمؓ حضرت امام حسنؓ کی دسویں یا گیارہوں پشت میں سے ہیں(درست پشت تحریر کریں) حضرت غوث اعظمؓ کو حضورﷺ کی نبوت کا شفاعت کا ،حضورﷺ کی ولائت کا فیضان ملا تھا ،حضرت غوث اعظمؓ نے ولائت کے دریا بہا دیے تھےاور یہ سلسلہ چلتے چلتے ہر طرف پھیلتا جا رہا ہے اور قیامت تک پھیلتا چلا جائے گا۔
حضورﷺ کی خوشبو حضورﷺکے نواسےؓکی نسل میں سے ہر ایک پھول سے آتی ہے۔با لآخر ایک ایسا وقت آئے گاجب امت مسلمہ تکلیفوں اور مصیبتوں کی انتہا ہوں میں چلی جائے گی اسلام ایک مرتبہ پھر مشکل صورت حال سے دوچار ہوگاتو حضورﷺ کا یہ قول سنیں
قَالَ أَبُو دَاوُدَ حُدِّثْتُ عَنْ هَارُونَ بْنِ الْمُغِيرَةِ قَالَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِى قَيْسٍ عَنْ شُعَيْبِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِى إِسْحَاقَ قَالَ قَالَ عَلِىٌّ - رضى الله عنه - وَنَظَرَ إِلَى ابْنِهِ الْحَسَنِ فَقَالَ إِنَّ ابْنِى هَذَا سَيِّدٌ كَمَا سَمَّاهُ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- وَسَيَخْرُجُ مِنْ صُلْبِهِ رَجُلٌ يُسَمَّى بِاسْمِ نَبِيِّكُمْ يُشْبِهُهُ فِى الْخُلُقِ وَلاَ يُشْبِهُهُ فِى الْخَلْقِ 4292 -
(مکمل ترجمہ تحریر کریں) حضرت علیؓ نے اپنے بیٹے حضرت امام حسنؓکے چہرے کی طرف نگا فرمائی اور اپنے بیٹے سے فرمانے لگے کہ میرا بیٹا سید ہے جس طرح حضورﷺ نے اس کا نا سید رکھا عنقریب ایسا زمانی آنے والا ہے کہ اس کی صلب میں سے ایک ایسا شخص پیدا ہو گاجس کا نام تمہارے نبیﷺ کے نام پر ہو گاجو حضورﷺ کی خلف سے مشاہبت رکھتا ہو گا اور وہ کون ہو گا وہ امام مہدی ؓہوں گے امام مہدی ؓ امام حسنؓکی اولاد میں سے ہوں گے جو اسلام کو تمام دنیا پر پھیلا دیں گے۔امام مہدی کعبہ کا طواف کر رہے ہوں گےتو لوگ ان کو پہچان لیں گے کہ یہ امام مہدیؓ ہیںکیونکہ لوگوں کو حضورﷺ کی خوشبو محسوس ہو گی ان کی حسنؓکی خوشبو محسوس ہوگی مشاہبت حضورﷺ نظر آئے گی لوگ امام مہدیؓ کے قدموں میں پڑجائیں گے اور امام بنا لیں گیں امام مہدی مسلمانوں کی قیادت کر تے ہوئے تمام دنیاپر چھا جائیں گے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمارا اسلام ان ہستوں تک پہنچائے جو امام مہدیؓ کی فوج میں شامل ہوں ہمارس سلام ان لوگوں تک پہنچے جو امام مہدیؓ کے ساتھ ہوںاور ہمارا سلام امام مہدیؓ تک پہنچے کیونکہ وہ امام حسنؓ کی سیرت کو زندہ کریں گےامام مہدیؓ اپنے جد اعلیٰ حضورﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اسلام کو سربلند کریں گے۔
جماعت خدام اہل سنت چوراشریف بھی امام حسن ؓوحسینؓکی سنت پر عمل کرتے ہوئے اسلام کی سربلند کے لئے کام کر رہی ہے اگرچہ یہ کوششیں بہت ناقص ہیں ناقابل ہیں لیکن اس کے باوجود ہماری یہ کوشش ہے کہ اپنے کام میں لگے رہیں ہو سکتا ہے کہ ہمارا یہ کام قبول ہوجائے ان ہستیوں کی نقل اتارتے ہوئےیہ عمل قبول ہو جائے۔والسلام
نہایت محترم بزرگو اور دوستو ،ماہ محرم پاک جن ہستیوں سے منسوب ہےوہ ہستیاں درحقیقت روحانیت کو تقسیم کرنے والی ہیں ۔جس گھرانےسے روحانیت کا فیض تقسیم ہوا آج اسی گھرانےکی قربانیوں کا ذکر منایا جارہا ہےمعلوم یہ ہوا کہ ذکروفقر جس گھرانے سے چلا وہ صرف اللہ ،اللہ نہیں کرتے رہے بلکہ جب بھی دین پر مشکل وقت آیا ان ہستیوں نے اپنی گردنیں،اپنے سر دین اسلام کی سربلندی کے لیے قربان کر دی۔روحانیت کا فروغ دراصل قربانیوں کے جذبے بیدار کرنے کا نا م ہے۔روحانیت انسان کے اندر وہ جذبہ بیدار کر نے کا نا م ہے جو انسان کی ہستی کو مٹا کر رب العزت کی بارگا ہ میں پیش کردے۔
میں آپ کے سامنےبڑے نواسہ رسولﷺحضرت امام حسن ؓ کی سیرت طیبہ اور شان کے حوالہ سے پانچ نکات پر بات کروں گا۔حضرت امام حسن ؓ اور حضرت امام حسینؓ بدل ہیں حضرت ابراھیم بن محمدﷺ کے۔جب حضرت ابراھیم ؑ،حضورﷺ کی اولاد پاک اس دنیا سے وصال کر گئے تو دکھ سے حضورﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔حضرت عائشہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺاللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا فرئیں تو اللہ تعالیٰ حضرت ابراھیم کو زندگی عطا فرما دیں گے۔تاریخ اس کی گواہ ہے اور قرآن اس کا شاھد ہے کہ ہر نبی کی ایک دعا ضرور قبول ہو تی ہے۔حضورﷺ نے جوارشادفرمایا وہ میرے جیسے گناگار اورآپ جیسے اچھے انسانوں کے لیے رحمتوں،بخششوں اور خوشیوں کا پیغام ہےآپﷺ نے اراشاد فرمایا۔اے عائشہؓ وہ دعا جو قبولیت والی دعا ہے وہ میں نے اپنی امت کے لئے آخرت میں بخشش لے لئے رکھی ہے۔میں اگر آج اپنے بیٹے کی حیات کے لیے دعا ما نگ لوں تو اللہ تعالیٰ حیات فرما دیں گے لیکن میری وہ دعا اس دنیا میں ختم ہو جائے گی۔بالآخر حضرت ابراھیم ؑ نے اس دنیا سے رخصت ہو ناہےلیکن میں اپنی دعا کو اپنی امت کے لیے آخرت تک بچا کر رکھنا چاہتا ہوں جب میری امت مصیبتوں میں گھرِی ہو گی اس وقت میں دعا کر کے اپنی امت کو بخشوا لوں گا۔دوستوجب سے میں نے یہ حدیث مبارکہ پڑھی ہےتو بخشش پر میرا یقین اتنا بڑھ گیا ہے جس طرح دن اور رات کے ہونے پر ہے۔مجھے اپنے اور آپ کی بخشش کا اتنا یقین ہے کہ گناہوں سے توبہ کرتے رہو اللہ تعالیٰ حضورﷺ کے نعلین مقدسہ کے صدقہ میں ہمیں معاف فرما دیں گے۔معافی اس کی ہوگی جو اس کا امیدوار اور خواستگار ہے جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ مجھے معافی ہو جائے گی۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا(حدیث مبارکہ ہے)کہ بندہ سے اسکے ظن اور گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں۔میرا بندہ مجھ سے جس طرح کا گمان رکھتا ہے میں اس گمان کے مطابق معاملہ کر تا ہوںتو ہمارا گمان اپنے رب کے بارے میں بہت خوبصورت ہے کہ ہمارا رب ہمار ے حضور ﷺکی کوئی دُعا رد نہیں کرے گااور ہم سب جنت میں چلے جائیں گے۔
حضورﷺ نے حضرت امام حسن ؓکے بارے میں ارشاد فرمایا :
اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ وَأَحْبِبْ مَنْ يُحِبُّهُ.(مسلم شریف حدیث نمبر؟؟ تحریر کریں)
حدیث مبارک کے دوجزو ہوتے ہیں پہلا جزو سند کہلاتا ہےاور دوسرا جزو یہاں سے قال رسول اللہ ﷺ شروع ہوتا ہے وہ متن کہلاتا ہے۔آپ حدیث کی کسی بھی کتاب کا مطالعہ کریں توآپ دیکھیں گے کہ محدث پہلے سند بیان کرتا ہےاور اس کے بعد متن بیان کرتا ہے۔سند سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کے متن کو اِن اِن لوگوں نے اپنے سینوں میں سجایا ہے۔ان سینوں کی کیا شان اور رتبہ ہےجن سے حضورﷺکے ارشادات گزر کر ہم تک پہنچے ہیں۔
حضرت امام مسلمؓ نے یہ حدیث امام احمد بن حنبلؓ سے روایت کی ہے۔امام حسنؓ اس وقت بچے تھے آپؓ پر ابھی نماز،روزہ ،زکوۃ،حج فرض نہیں ہوئے تھے۔یاد رکھیے کسب کا مرتبہ ریاضت،محنت ،عبادت سے،مجاہدہ سے مرتبہ ملتا ہےوہ اور بات ہےلیکن جو نسب سے مرتبہ ملتا ہےوہ اور بات ہے۔نسب کا مرتبہ کسب،ریاضت،محنت،عبادت،زکوۃ،حج کا مرہون منت نہیں ہوتا۔کیونکہ اس وقت مراقبہ میں سجود،نہ قیام،نہ قیود اور نہ کوئی اور بات حضرت اامام حسنؓ کے پاس تھی اگر اس وقت حضرت امام حسن کے پاس تھا تو وہ ان کا نسب تھا
حضورﷺ ارشاد فرماتے ہیں: (اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ)اے میرے رب میں اپنے نواسے سے محبت کرتا ہوںمیر رب تو بھی اس سے محبت کر۔
اصول تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ امام حسنؓ سے محبت کرتے تو اللہ تعالیٰ فرماتے کہ اے میرے محبوبﷺ میں اس سے محبت کرتا ہوں توبھی اس سے محبت کر۔لیکن یہاں محبت کا چینل بدل گیا اب رسولﷺ حسن سے محبت کر رہے ہے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کررہے ہیںکہ اے میرے رب تو بھی اس سے محبت کر۔اس کا مطلب ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا بندہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت کرتا ہے۔
دوستو یا تو اللہ تعالیٰ کے محبوب بن جاو یا محب بن جاو،کامیابی دونوں صورتوں میں ملے گی۔لیکن محبوب بننا بھی آسان نہیں اور محب بنا بھی آسان نہیں یہ کسی کی نگاہ کرم کے طفیل ہوتا ہے۔
حضورﷺ آگے ارشاد فرمارہے ہیں (وَأَحْبِبْ مَنْ يُحِبُّهُ) یا اللہ تعالیٰ تو اس سے بھی محبت کر جو حضرت حسنؓ سے محبت کرتا ہے۔یعنی محبت کا یہ معاملہ اللہ اور اس کے رسولﷺ تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ حضورﷺ کے امتیوں کی محبت کا مرکز نگاہ بننا چاہیے۔
اللہ کی محبت کو پانے کا کتنا آسان نسخہ ہے۔نہ راتوں کو جاگنا پڑتا ہےبس حسنؓسے محبت اپنے دل میں بسا لو اور اللہ کے محبوب بن جاو۔
اس بات کا انکار کرنے والا یا تو حدیث کا انکار کرے یا پھر متن حدیث کو تسلیم کر لے۔جب حدیث کو پڑھے گا تو ماننا پڑھے گا کہ اللہ کے بندوںسے محبت ،اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کا ذریعہ ہے۔
ہمارے آقا حضورﷺ کی اپنے نواسے سے محبت کا ایک اور منظر ملاحظہ فرمائیں تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ حضورﷺ نےکسی اندرونی طبعی جذبہ کے تحت یہ بات نہیں فرمائی اور نہ ایک مرتبہ بیان فرمائی ہے بلکہ مختلف موقع پر محبت حسنؓکو بیان فرمایا ہے ۔یہ ترمذی شریف کی حدیث ہے پہلی بیان کردہ حدیث سماعت کی حدیث تھی اور یہ مشاہدہ کی حدیث ہے۔
حدثنا محمد بن بشار حدثن محمد بن جعفر حدثنا شعبة عن عدي بن ثابت قال سمعت البراء بن عازب يقول : رأيت النبي صلى الله عليه و سلم واضعا الحسن بن علي على عاتقه وهو يقول اللهم إني أحبه فأحبه (ترمذی شریف 3783)
میں نے دیکھا کہ حضورﷺ کے کندھامبارک پر امام حسنؓ بیٹھے ہوئےہیں۔ذراچشم نظر سے غور فرمائیںتو انسان پر ایک عجیب سی کفیت طاری ہو جاتی ہے کہ حضورﷺ تشریف لارہے ہوںگے اور دوسری طرف حضرت بر ا ابن عازب آرہے ہوں گےاور حضرت اما م حسن خوش خرامیاں کررہے ہوں حضورﷺکے کندھامبارک پر بیٹھے ہوئے جو تمام نسل انسانیت کاسہارا ہے ،تمام مومنوں کا سہارا ہے اس پر حضرت حسنؓ بیٹھے ہوئے ہیں۔
حضرت برا ابن عازب فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضورﷺ کے کندھا مبارک پر حضرت امام حسنؓ ہیں اور حضورﷺ ارشاد فرمارہے ہیں۔یا اللہ میں حسن سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔
حضرت امام حسنؓ میں حضورﷺ کا رنگ نمایاں تھا،فیضان نبوت نمایاں تھا۔نبوت کا فیضان یہ ہےکہ اپنا سب کچھ لٹا دے اور دین مصطفےﷺکو بچا لے۔
بخاری شریف کی حدیث میں حضرت انس ؓ روایت کر تے ہیں۔
حدثني إبراهيم بن موسى أخبرنا هشام بن يوسف عن معمر عن الزهري عن أنس . وقال عبد الرزاق أخبرنا معمر عن الزهري أخبرني أنس قال : لم يكن أحد أشبه بالنبي صلى الله عليه و سلم من الحسن بن علي (بخاری شریف 42)
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ دنیا میںحضرت امام حسنؓ سے زیادہ کوئی بھی حضورؑ سے مشاہبت نہیں رکھتا تھا۔سوائےحضرت امام حسنؓکے،حضورﷺکا ظاہری حسن حضرت امام حسنؓ میںمنتقل ہو گیا تھا اورحضرت امام حسن ؓکا ظاہری حسن ان کی اولاد میں منتقل ہوا اور پھر یہ حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کی صورت میں ظاہر ہوا تویہ سارے کے سارےشبیہ مصطفےٰﷺ تھے ۔
ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں بخاری شریف
- حدثنا عبدان أخبرنا عبد الله قال أخبرني عمر بن سعيد بن أبي حسين عن ابن أبي مليكة عن عقبة بن الحارث قال : رأيت أبا بكر رضي الله عنه وحمل الحسن وهو يقول بأبي شبيه بالنبي ليس شبيه بعلي . وعلي يضحك
ترجمہ عقبہ بن الحارث روایت کرتےہیںکہ میں نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو دیکھا ہ انہوں نے حضرت امام حسن ؓکو اٹھایا ہوا تھا۔حضورﷺ ایک عمل کریں اور حضرت ابوبکرصدیق نہ کریں تویہ محبت تو نہ ہوئی،محبت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ حضورﷺ جیسا عمل اختیار کریں حضرت ابو بکرؓ بھی ویسا ہی طرز عمل اختیار کریں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حضورﷺ تو حضرت امام حسن ؓ کو اپنے کندھوں پر اٹھائیں اورحضرت ابو بکر نہ اٹھائیں ۔حضرت ابن حارث فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو بکرؓکو دیکھا کہ امام کو اٹھائے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے کہ میرے ماں باپ حضرت حسن ؓپر قربان ہو جائیںحضرت امام حسن تو حضورﷺ سے مشاہبت رکھتے ہیں یہ حضرت علیؓ سے مشاہبت نہیں رکھتےاور حضرت علیؓ ساتھ کھڑے ہیں یہ سن ک رمسکرانے لگے۔
ذرا غور فرمائیںکہ کیسے تعلقات ہیں حضرت ابوبکرصدیقؓ کے اہل بیت سے کتنی محبت ہےاب اگر کو ئی یہ کہے کہ حضرت ابوبکرؓکو حسنؓ سے محبت نہیں تھی تو وہ کتنا بڑا جھوٹا ہے۔
جب حضرت امیر معاویہؓ اور حضرت اما م حسنؓ کے درمیان سخت کشیدگی پیدا ہو گئی ،یہ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک بہت حساس اور مشکل باب ہےہم کچھ کہہ بھی نہیں سکتے اور خاموش بھی نہیں رہ سکتے صحابہ رسولﷺ ہونےکی وجہ سےہماری زبانیں بند ہیںلیکن در حقیقت بات یہ کہ جب حضرت امام حسنؓ کی خلافت قائم ہو گئی اور تمام مسلمانوں نے اس کو تسلیم کر لیا اور حضرت امیر معاویہ ؓ نے ان کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا۔حجاز اور سارا عرب حضرت امام حسنؓ کے ساتھ تھا اور شام کوفہ حضرت امیر معاویہؓ کے ساتھ تھاکشید گی کی وجہ سے عین ممکن تھا کہ مسلمانوں کی تلواریں آپس میں ٹکرا جاتیںاور خون کی ندیاں بہہ جاتی اس وقت حالات اس قسم کے تھے کہ ابھی شریعت اسلامیان کی بنیادیں نہیں ہلیں تھی اور اس طرح کا موقع نہیں آیا تھا کہ خروج کیا جائےتو اس وقت حضرت امام حسنؓ نے وسعت قلبی اور فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت امیر معاویہ ؓ کی خلافت کو تسلیم کرلیااور مسلمانوں کے دو گرہوں کو آپس میں ٹکرانے سے بچا لیا۔ہمارے آقاﷺ نے پہلے ہی پیشن گوئی فرما دی تھی
حدیث مبارک نمبر2704کتاب صلح بخاری شریف(ایک حصہ )
وَلَقَدْ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرَةَ، يَقُولُ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ إِلَى جَنْبِهِ، وَهُوَ يُقْبِلُ عَلَى النَّاسِ مَرَّةً وَعَلَيْهِ أُخْرَى، وَيَقُولُ: إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ".
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے سنا ہے اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرماتے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا۔
معلوم یہ ہوا کہ دو گرہوں،دو بھائیوں کے درمیان صلح کروانا سنت امام حسنؓ ہے۔امام حسنؓ سے محبت کرنے والو:انہوں نے ساری طاقت مسلمانوں کے درمیان صلح کے لیے صرف کر دی تھی تو اے مسلمانوں تم بھی مسلمانوں کی فلاح کے لیے اپنی تمام قوتیں صرف کر دو۔
جو معاہدہ حضرت امیر معاویہ اور حضر ت امام حسنؓ کے درمیان ہوا وہ چند ایک آپ کے سامنے بیان کر تا ہوں یہ حضرت امام حسنؓ کی عظمت اور شان کا بہت بڑا ثبوت ہےیہ دستاویزی ثبوت ہے کہ آپ نے کتنی وسعت کا ثبوت دیااس معاہدہ کی جب خلاف ورزی ہوئی تو بھی امامؓ نے کوئی بات نہیں کی کہ اس سے پھر مسلمانوں کا خون بہےگا جن کے لیے یہ معاہدہ کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں ان کا نا دنیا میں کوئی نہیں ہو گا لیکن حسن ؓ کا نام ہمیشہ زند ہ ہے گایہ ساری کوشش درحقیقت حضرت امیر معاویہ کی یزیدکی خلافت اور حکومت کو قائم کرنے،مضبوط اور مستحکم کرنےکے لیے تھیں۔معاہدہ کا ایک ایک لفظ امام حسنؓ کی شان اور فراست کو بیان کر رہا ہے۔
معاہدہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ و حضرت معاویہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
یہ وہ تحریر ہے جس کے مطابق حسن بن علی اور معاویہ بن ابی سفیان نے مصالحت کی ہے۔ یہ مصالحت اس بات پر ہوئی ہے کہ حسن بن علی (رضی اللہ عنہ) معاویہ ( رضی اللہ عنہ ) کو مسلمانوں کی ولایت اس شرط پر دیں گے کہ وہ
۱۔کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ ،سیرت خلفائے راشدین مہدیین کے مطابق عمل پیرا ہوں گے۔
۲۔معاویہ کو اس بات کی اجازت نہ ہوگی کہ وہ اپنے بعد کسی کو خلافت دے جائیںبلکہ ان کے بعد یہ معاملہ مسلمانوں کے مشورے سے طے ہوگا۔
۳۔جو لوگ شام، عراق،حجاز ، یمن اور خدا کی زمین میں جہاں بھی ہوں گے امن میں ہوں گے۔
۴۔اصحاب علی جہاں بھی ہوں گے اپنی جانوں ،مالوں ،عورتوں اور اولادوں کے بارے میں محفوظ ہوں گے۔
۵۔معاویہ بن ابی سفیان کو یہ عہد و پیمان بھی کرنا ہوگا کہ وہ حسن بن علی اور ان ے بھائی حسین اور اہل بیت رسول ﷺ میں سے کسی کی بھی خفیہ اور اعلانیہ طور پر تباہی نہیں چاہیں گے اور نہ ہی ان میں سے کسی کو کسی جگہ خوف زدہ کریں گے۔
جب یہ معاہدہ ہو گیا تو حضرت امیر معاویہؓ نے امامؓ سے گزارش کی کہ آپ ؓ باہر لوگوں کے درمیان اس کا اعلان فرمادیںکہ آپ نے امیر معاویہ کی خلافت کو تسلیم کر لیا ہے۔
امام حسن ؓ نے لوگوں کو خطبہ ارشاد کیا فرمایا لوگو سب سے بڑی دانائی تقویٰ اور سب سے بڑی حماقت فسق وفجورہے۔دانائی تقویٰ کے اندر اور حماقت فسق وفجور کے اندر چھپی ہے لوگو دیکھ لو تقویٰ والے کون ہیں اور حماقت والے کون ہیںپھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے میر ےنانا (رسول اللہﷺ) کے ذریعے سے ہدایت د،گمراہی سے بچایا،جہالت سے نجات دی ذلت کے بعد عزت دی،قلت کے بعد کثرت دی۔معاویہ نے مجھے سے حق کے متعلق جھگڑا کیا تھا اور وہ میرا حق ہےیعنی خلافت میرا حق ہےلوگو تم گواہ رہنا لیکن میں معاویہ کو دے رہا ہوںیہ اس کا حق نہیں ہے اور تم لوگوں نے مجھے سے اس شرط پر بیت کی کہ جو مجھ سے صلح کرے گا تم اس سے صلح کرو گے جو مجھ سے جنگ کرے گا تم اس سے جنگ کرو گےلیکن میں نے امت کی بہتری اور فتنہ کوفرو کرنے کی خاطر معاویہ سے مصالحت کو پسند کیااس لیے معاویہ سے مصالحت کرو،فرماتے ہیں کہ اس جنگ کو بھی ختم کرنے کا اعلان کررہاہوں جومیرے اور ان کے درمیان میں ہیں۔اور میں نے ان کی بعیت بھی کر لی اور میں خونریزی کی نسبت خون کی حفاظت کو بہتر خیال کر تا ہوںمیں نے صرف آپ کی فلاح اور بقا چاہی ہےمیں دیکھ رہا ہوں کہ یزید طاقت ور ہو گا اور سارے معاہدے کی خلاف ورزیاں کرے گااور اہل بیت کو تکلیفوں اور مصیبتوں میں مبتلا کرے گامیں دیکھ رہا ہوں کہ اس نے(حضرت امیر معاویہؓ) صلح تو کر لی ہے لیکن یہ عارضی ہوگی۔
حضرت امام حسنؓ وہ پھول اور خوشبو ہیں جسکی خوشبو اس وقت سے چلی آرہی ہے اور پھیلتی ہی چلی جا رہی ہے اور قیامت تک پھیلتی ہی جائے گی یہ وہ خوشبو ہے جس سے عظیم ہستیاں اس نسل سے پیدا ہونگی یعنی وہ عظیم ہستیاں امام حسنؓکی نسل سے پیدا ہونگی میں آپ کو ایک ایسی بات بتاتا ہوں جو ہمارے ایمان کو اور طاقت ور بنا دے گی۔حضرت امام حسنؓجو شبہیہ مصطفیٰﷺہیں جو سیرت مصطفیٰ ﷺ اور صورت مصطفیٰﷺ کا مجموعہ ہیں ان کی نسل بھی انہی صورتوںاور سیرتوں کا حامل رہی ہے حضرت غوث اعظمؓ حضرت امام حسنؓ کی دسویں یا گیارہوں پشت میں سے ہیں(درست پشت تحریر کریں) حضرت غوث اعظمؓ کو حضورﷺ کی نبوت کا شفاعت کا ،حضورﷺ کی ولائت کا فیضان ملا تھا ،حضرت غوث اعظمؓ نے ولائت کے دریا بہا دیے تھےاور یہ سلسلہ چلتے چلتے ہر طرف پھیلتا جا رہا ہے اور قیامت تک پھیلتا چلا جائے گا۔
حضورﷺ کی خوشبو حضورﷺکے نواسےؓکی نسل میں سے ہر ایک پھول سے آتی ہے۔با لآخر ایک ایسا وقت آئے گاجب امت مسلمہ تکلیفوں اور مصیبتوں کی انتہا ہوں میں چلی جائے گی اسلام ایک مرتبہ پھر مشکل صورت حال سے دوچار ہوگاتو حضورﷺ کا یہ قول سنیں
قَالَ أَبُو دَاوُدَ حُدِّثْتُ عَنْ هَارُونَ بْنِ الْمُغِيرَةِ قَالَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِى قَيْسٍ عَنْ شُعَيْبِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِى إِسْحَاقَ قَالَ قَالَ عَلِىٌّ - رضى الله عنه - وَنَظَرَ إِلَى ابْنِهِ الْحَسَنِ فَقَالَ إِنَّ ابْنِى هَذَا سَيِّدٌ كَمَا سَمَّاهُ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- وَسَيَخْرُجُ مِنْ صُلْبِهِ رَجُلٌ يُسَمَّى بِاسْمِ نَبِيِّكُمْ يُشْبِهُهُ فِى الْخُلُقِ وَلاَ يُشْبِهُهُ فِى الْخَلْقِ 4292 -
(مکمل ترجمہ تحریر کریں) حضرت علیؓ نے اپنے بیٹے حضرت امام حسنؓکے چہرے کی طرف نگا فرمائی اور اپنے بیٹے سے فرمانے لگے کہ میرا بیٹا سید ہے جس طرح حضورﷺ نے اس کا نا سید رکھا عنقریب ایسا زمانی آنے والا ہے کہ اس کی صلب میں سے ایک ایسا شخص پیدا ہو گاجس کا نام تمہارے نبیﷺ کے نام پر ہو گاجو حضورﷺ کی خلف سے مشاہبت رکھتا ہو گا اور وہ کون ہو گا وہ امام مہدی ؓہوں گے امام مہدی ؓ امام حسنؓکی اولاد میں سے ہوں گے جو اسلام کو تمام دنیا پر پھیلا دیں گے۔امام مہدی کعبہ کا طواف کر رہے ہوں گےتو لوگ ان کو پہچان لیں گے کہ یہ امام مہدیؓ ہیںکیونکہ لوگوں کو حضورﷺ کی خوشبو محسوس ہو گی ان کی حسنؓکی خوشبو محسوس ہوگی مشاہبت حضورﷺ نظر آئے گی لوگ امام مہدیؓ کے قدموں میں پڑجائیں گے اور امام بنا لیں گیں امام مہدی مسلمانوں کی قیادت کر تے ہوئے تمام دنیاپر چھا جائیں گے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمارا اسلام ان ہستوں تک پہنچائے جو امام مہدیؓ کی فوج میں شامل ہوں ہمارس سلام ان لوگوں تک پہنچے جو امام مہدیؓ کے ساتھ ہوںاور ہمارا سلام امام مہدیؓ تک پہنچے کیونکہ وہ امام حسنؓ کی سیرت کو زندہ کریں گےامام مہدیؓ اپنے جد اعلیٰ حضورﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اسلام کو سربلند کریں گے۔
جماعت خدام اہل سنت چوراشریف بھی امام حسن ؓوحسینؓکی سنت پر عمل کرتے ہوئے اسلام کی سربلند کے لئے کام کر رہی ہے اگرچہ یہ کوششیں بہت ناقص ہیں ناقابل ہیں لیکن اس کے باوجود ہماری یہ کوشش ہے کہ اپنے کام میں لگے رہیں ہو سکتا ہے کہ ہمارا یہ کام قبول ہوجائے ان ہستیوں کی نقل اتارتے ہوئےیہ عمل قبول ہو جائے۔والسلام