مقتدی کے لئے قرات کا حکم
مقتدی کو امام کے پیچھے قرات کرنا منع ہے ۔ چنانچہ حکم خدا وندی ہے ۔واذا قرا القرآن فاستمعو لہ و انصتوا لعلکم ترحمون oسورہ اعراف آیت نمبر 204 ۔
ارشاد ربانی ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔
حدیث: عن یسیر بن جابر قال صلی ابن مسعودؓ فسمع ناسا یقرون مع الامام فلما انصرف قال اما آن لکم ان تفھموا اما آن لکم ان تعقلوا و اذا قری القرآن فاستمعوا لہ و انصتوا کما امر کم اللہ ۔ تفسیری طبری ج9 ص 110 بحوالہ تفسیر ابن کثیر ج2 ص 245مکتبہ داراحیاء۔
حدیث: عن عبد اللہ قال والذی لا الہ الا غیرہ ما من کتاب اللہ سورة الا انا اعلم حیث نزلت وما من آیت الا انا اعلم فی ما انزلت ولو اعلم احدا ھوا علم بکتاب اللہ منی تبلغہ الا بل لرکبت الیہ ۔ صحیح مسلم ج2 ص 293 ۔
ترجمہ :حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی الہ نہیں قرآن کریم کی کوئی سورت کو آیت ایسی نہیں جس کا شان نزول مجھے معلوم نہ ہو کہ کس موقعہ پر اتری اور کس حالت میں نازل ہوئی ہے اور میں اپنے سے بڑا کتاب اللہ کا عالم کسی کو نہیں پاتا اگر (اس وقت یعنی دور صحابہؓ میں ) مجھ سے بڑا کوئی عالم ہوتا جس تک پہنچنا ممکن ہوتا تو میں اس کی طرف رجوع کرتا۔
یہی عبد اللہ بن مسعود ؓ اس آیت کے متعلق کیا فرماتے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے (ایک دفعہ) نماز پڑھی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قرات کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو جب قرآن کی تلاوت ہو رہی ہو تو تم اس کی طرف کان لگاﺅ اور خاموش رہو جیسا کہ اللہ نے تمہیں اس کا حکم دیا ہے ۔
آیت مذکورہ کی تفسیر رئیس المفسرین و حبر الامہ حضرت ابن عباس ؓ سے ۔
یوں تو سب صحابہ ؓ آسمان ہدایت کے روشن ستارے ہیں مگر عبد اللہ بن عباسؓ وہ صحابی رسول ہیں کہ آپ علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ۔ اللھم فقھہ فی الدین و علمہ التاویل ۔ (مسند احمد ج 1 ص 540 حدیث نمبر 3024 مکتبہ داراحیاءالترات العربی ) ۔ اے اللہ ان کو (حضرت ابن عباسؓ ) کو دین کی سمجھ اور قرآن کی تاویل و تفسیر میں مہارت عطا فرما۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں ۔
عن ابن عباس ؓ فی الا یةقولہ ”واذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا“یعنی فی الصلاة المفروضہ ۔ تفسیر ابن کثیر ج 2 ص 245 و تفسیر ابن جریر و تفسیر روح المعانی و کتاب القراة للبیہقی۔
ترجمہ :حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ واذا قری القرآن کا شان نزول فرض نماز ہے ۔ ان کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ ؓ ، حضرت مقداد بن اسودؓ ، حضرت عبد اللہ مغفل ؓ سے بھی مروی ہے کہ اس آیت کا تعلق نماز سے ہے حوالہ جات کے لئے ملاحظہ فرمائیں تفسیر ابن کثیر تفسیری مظہری ، تفسیر روح المعانی و کتاب القراة للبیھقی و غیرہ ۔ تابعین میں بھی مندرجہ ذیل حضرات بھی ہی فرماتے ہیں کہ اس آیت کا تعلق نماز سے ہے ۔
-1حضرت مجاہد ؒ -2حضرت سعید بن مسیب ؒ -3حضرت سعید بن جبیر ؒ
-4حضرت حسن بصری ؒ-5حضرت عبید بن عمیر ؒ -6حضرت عطاءبن ابی رباح ؒ
-7حضرت ضحاکؒ -8حضرت ابراہیم نخعیؒ-9قتادہ ؒ
-10حضرت شعبیؒ-11امام السدیؒ -12حضرت عبد الرحمن بن زیدؒ
حوالہ جات کے لئے ملاحظہ فرمائیں ۔ تفسیر ابن کثیر ، تفسیر ابن جریر، تفسیر روح المعانی، کتاب القراة للبیھقی ۔
امام احمد بن حنبلؒ :امام احمد بن حنبل ؒ نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ یہ آیت (واذا قرای القرآن ) نماز کے بارہ میں نازل ہوئی ۔ فتاوی ابن تیمیہ ج 2 ص 128۔
مقتدی کو امام کے پیچھے قرات کرنا منع ہے ۔ چنانچہ حکم خدا وندی ہے ۔واذا قرا القرآن فاستمعو لہ و انصتوا لعلکم ترحمون oسورہ اعراف آیت نمبر 204 ۔
ارشاد ربانی ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔
حدیث: عن یسیر بن جابر قال صلی ابن مسعودؓ فسمع ناسا یقرون مع الامام فلما انصرف قال اما آن لکم ان تفھموا اما آن لکم ان تعقلوا و اذا قری القرآن فاستمعوا لہ و انصتوا کما امر کم اللہ ۔ تفسیری طبری ج9 ص 110 بحوالہ تفسیر ابن کثیر ج2 ص 245مکتبہ داراحیاء۔
حدیث: عن عبد اللہ قال والذی لا الہ الا غیرہ ما من کتاب اللہ سورة الا انا اعلم حیث نزلت وما من آیت الا انا اعلم فی ما انزلت ولو اعلم احدا ھوا علم بکتاب اللہ منی تبلغہ الا بل لرکبت الیہ ۔ صحیح مسلم ج2 ص 293 ۔
ترجمہ :حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی الہ نہیں قرآن کریم کی کوئی سورت کو آیت ایسی نہیں جس کا شان نزول مجھے معلوم نہ ہو کہ کس موقعہ پر اتری اور کس حالت میں نازل ہوئی ہے اور میں اپنے سے بڑا کتاب اللہ کا عالم کسی کو نہیں پاتا اگر (اس وقت یعنی دور صحابہؓ میں ) مجھ سے بڑا کوئی عالم ہوتا جس تک پہنچنا ممکن ہوتا تو میں اس کی طرف رجوع کرتا۔
یہی عبد اللہ بن مسعود ؓ اس آیت کے متعلق کیا فرماتے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے (ایک دفعہ) نماز پڑھی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قرات کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو جب قرآن کی تلاوت ہو رہی ہو تو تم اس کی طرف کان لگاﺅ اور خاموش رہو جیسا کہ اللہ نے تمہیں اس کا حکم دیا ہے ۔
آیت مذکورہ کی تفسیر رئیس المفسرین و حبر الامہ حضرت ابن عباس ؓ سے ۔
یوں تو سب صحابہ ؓ آسمان ہدایت کے روشن ستارے ہیں مگر عبد اللہ بن عباسؓ وہ صحابی رسول ہیں کہ آپ علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ۔ اللھم فقھہ فی الدین و علمہ التاویل ۔ (مسند احمد ج 1 ص 540 حدیث نمبر 3024 مکتبہ داراحیاءالترات العربی ) ۔ اے اللہ ان کو (حضرت ابن عباسؓ ) کو دین کی سمجھ اور قرآن کی تاویل و تفسیر میں مہارت عطا فرما۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں ۔
عن ابن عباس ؓ فی الا یةقولہ ”واذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا“یعنی فی الصلاة المفروضہ ۔ تفسیر ابن کثیر ج 2 ص 245 و تفسیر ابن جریر و تفسیر روح المعانی و کتاب القراة للبیہقی۔
ترجمہ :حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ واذا قری القرآن کا شان نزول فرض نماز ہے ۔ ان کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ ؓ ، حضرت مقداد بن اسودؓ ، حضرت عبد اللہ مغفل ؓ سے بھی مروی ہے کہ اس آیت کا تعلق نماز سے ہے حوالہ جات کے لئے ملاحظہ فرمائیں تفسیر ابن کثیر تفسیری مظہری ، تفسیر روح المعانی و کتاب القراة للبیھقی و غیرہ ۔ تابعین میں بھی مندرجہ ذیل حضرات بھی ہی فرماتے ہیں کہ اس آیت کا تعلق نماز سے ہے ۔
-1حضرت مجاہد ؒ -2حضرت سعید بن مسیب ؒ -3حضرت سعید بن جبیر ؒ
-4حضرت حسن بصری ؒ-5حضرت عبید بن عمیر ؒ -6حضرت عطاءبن ابی رباح ؒ
-7حضرت ضحاکؒ -8حضرت ابراہیم نخعیؒ-9قتادہ ؒ
-10حضرت شعبیؒ-11امام السدیؒ -12حضرت عبد الرحمن بن زیدؒ
حوالہ جات کے لئے ملاحظہ فرمائیں ۔ تفسیر ابن کثیر ، تفسیر ابن جریر، تفسیر روح المعانی، کتاب القراة للبیھقی ۔
امام احمد بن حنبلؒ :امام احمد بن حنبل ؒ نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ یہ آیت (واذا قرای القرآن ) نماز کے بارہ میں نازل ہوئی ۔ فتاوی ابن تیمیہ ج 2 ص 128۔