محمد زاہد بن فیض
سینئر رکن
- شمولیت
- جون 01، 2011
- پیغامات
- 1,957
- ری ایکشن اسکور
- 5,787
- پوائنٹ
- 354
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں نے کچھ سال پہلے اس فارم پر ایک تھریڈ لکھا جس میں مقلدین کو ایک سچے واقعے کے ذریعے آئینہ دیکھانے کی کوشش کی ۔لیکن کیونکہ مقلد کی عقل محدود ہوتی ہے اور ہر سچائی پر """میں نہ مانوں""" کا ورد زباں پر ہوتا ہے۔تو ان لوگوں نے مجھے کیا کچھ کہا اور وہ بھی بغیر دلیل کے آپ اس تھریڈ میں ملاحظہ فرمالیں
اپنے لئے اور غیروں کے لئے اور فتویٰ تقلید کےکرشمے
لیکن کل ایک اور سچا واقعہ ہوا۔کل ایک نہایت ہی قریبی دوست نے مجھے صبح دس بجے بلایا اور اپنی دکھ بھری داستان سنائی۔وہ کیا تھی ملاحظہ فرمائیں۔
لڑکے نے کہا کہ میرے بہنوئی نے میری والدہ یعنی اُس نے اپنی ساس کے ساتھ کچھ تلخ کلامی کی۔اور ساس اپنے اُس داماد کو جو حال ہی میں تبلیغی جماعت کے ساتھ چلا لگا کر آیا ہے۔مجبور کیا کہ آپ اپنی بیوی کو طلاق دے ۔تو اُس نے غصے میں طلاق دے دی یعنی تین مرتبہ کہہ دیا حالانکہ لڑکی نہ موجود تھی نہ طلاق لینا چاہتی تھی۔ساس اور داماد کے جھگڑے کی ذد میں آگئی۔لڑکا وقتی طور پر تو بہت غصے میں تھا جب گھر گیا ٹھنڈے دل سے سوچا کہ میں نے کیا کہہ دیا۔تو اپنے دیوبند علماء سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ طلاق ہوگئی اب حلالے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔لیکن ضمیر نے گوارا نہیں کیا۔تو لڑکے نے سوچا کہ اہل حدیث عالم کے پاس جا کر مسئلے کے حل کی اُمید کی جاسکتی ہے۔تو اُس نے اپنے سالے کو میرے پاس بھیجا ۔اور اُس نے مجھے یہ داستان سنائی اور مشورہ مانگا تو میں نے اپنے شہر کے ایک عالم صاحب کے پاس بھیجا۔
مقصد لکھنے کا یہ تھا کہ آخر کار جب آپ لوگوں کو مسائل کے لئے ایک نہ ایک دن اہل حدیث عالم کا رخ کرنا پڑتا ہے۔تو کیوں نہ اپنی ساری زندگی کو تقلید کے زہر سے بچاؤ۔اور تمہاری ساری زندگی کی روحانی بیماریوں کا حل صرف اورصرف قرآن وسنت میں ہے تو جگہ جگہ تقلید کےہاتھوں پٹنے کے لئے کیوں جاتے ہو۔اللہ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔آمین
وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا ﴿٢٧﴾يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا﴿٢٨﴾لَّقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي ۗ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا ﴿٢٩﴾وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (فرقان۔27)
میں نے کچھ سال پہلے اس فارم پر ایک تھریڈ لکھا جس میں مقلدین کو ایک سچے واقعے کے ذریعے آئینہ دیکھانے کی کوشش کی ۔لیکن کیونکہ مقلد کی عقل محدود ہوتی ہے اور ہر سچائی پر """میں نہ مانوں""" کا ورد زباں پر ہوتا ہے۔تو ان لوگوں نے مجھے کیا کچھ کہا اور وہ بھی بغیر دلیل کے آپ اس تھریڈ میں ملاحظہ فرمالیں
اپنے لئے اور غیروں کے لئے اور فتویٰ تقلید کےکرشمے
لیکن کل ایک اور سچا واقعہ ہوا۔کل ایک نہایت ہی قریبی دوست نے مجھے صبح دس بجے بلایا اور اپنی دکھ بھری داستان سنائی۔وہ کیا تھی ملاحظہ فرمائیں۔
لڑکے نے کہا کہ میرے بہنوئی نے میری والدہ یعنی اُس نے اپنی ساس کے ساتھ کچھ تلخ کلامی کی۔اور ساس اپنے اُس داماد کو جو حال ہی میں تبلیغی جماعت کے ساتھ چلا لگا کر آیا ہے۔مجبور کیا کہ آپ اپنی بیوی کو طلاق دے ۔تو اُس نے غصے میں طلاق دے دی یعنی تین مرتبہ کہہ دیا حالانکہ لڑکی نہ موجود تھی نہ طلاق لینا چاہتی تھی۔ساس اور داماد کے جھگڑے کی ذد میں آگئی۔لڑکا وقتی طور پر تو بہت غصے میں تھا جب گھر گیا ٹھنڈے دل سے سوچا کہ میں نے کیا کہہ دیا۔تو اپنے دیوبند علماء سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ طلاق ہوگئی اب حلالے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔لیکن ضمیر نے گوارا نہیں کیا۔تو لڑکے نے سوچا کہ اہل حدیث عالم کے پاس جا کر مسئلے کے حل کی اُمید کی جاسکتی ہے۔تو اُس نے اپنے سالے کو میرے پاس بھیجا ۔اور اُس نے مجھے یہ داستان سنائی اور مشورہ مانگا تو میں نے اپنے شہر کے ایک عالم صاحب کے پاس بھیجا۔
مقصد لکھنے کا یہ تھا کہ آخر کار جب آپ لوگوں کو مسائل کے لئے ایک نہ ایک دن اہل حدیث عالم کا رخ کرنا پڑتا ہے۔تو کیوں نہ اپنی ساری زندگی کو تقلید کے زہر سے بچاؤ۔اور تمہاری ساری زندگی کی روحانی بیماریوں کا حل صرف اورصرف قرآن وسنت میں ہے تو جگہ جگہ تقلید کےہاتھوں پٹنے کے لئے کیوں جاتے ہو۔اللہ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔آمین
وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا ﴿٢٧﴾يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا﴿٢٨﴾لَّقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي ۗ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا ﴿٢٩﴾وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (فرقان۔27)