کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
ملا محمد عمر، افواہ اور حقیقت
کالم: حامد میرجمعرات 6 اگست 2015م
ملا محمد عمر کی زندگی اور موت کی اصل کہانی ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ ان کے طاقتور دشمنوں نے ان کے سر کا انعام 10 ملین ڈالر مقرر کیا لیکن وہ اپنے ڈالروں اور ماڈرن ٹیکنالوجی کے ذریعے ملا محمد عمر کا کھوج نہ لگا سکے اور آج بند کمروں میں ایک دوسرے کے سامنے یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ ملا محمد کو ہتھکڑیاں لگانے یا میزائل حملے میں ان کی موت کا اعلان کرنے کا خواب حقیقت نہ بن سکا۔ ملا محمد عمر کی زندگی ان کے دشمنوں کی شکست تھی اور ان کی موت بھی ان کے طاقتور دشمنوں کی شکست کا اعلان تھی۔ ملا محمد عمر کی زندگی اور موت کی ادھوری کہانی کی بنیاد پر افغان طالبان کے مستقبل کا تجزیہ کرنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ کو مطلوب ایک مفرور شخص نے دنیا کے سامنے آئے بغیر طالبان کو اتنا مضبوط کیسے کردیا کہ امریکہ ان کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہوگیا؟
امریکی تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق 2001ء کے بعد سے لے کر اب تک 2015ء افغانستان میں اتحادی افواج کے لئے مشکل ترین سال تھا کیونکہ طالبان کے حملے افغانستان کے جنوب سے شمال تک کونے کونے میں پھیل رہے ہیں۔ ایک طرف افغانستان کے زمینی حقائق ہیں، دوسری طرف ملا محمد عمر اور طالبان کے متعلق افواہوں کا طوفان ہے۔ امریکہ نے افواہوں کے ذریعہ عالمی میڈیا میں پروپیگنڈے کی جنگ کامیابی سے لڑی ہے لیکن ملا محمد عمر افواہوں کی بجائے ایک زمینی حقیقت بن کر امریکیوں کے سامنے ڈٹے رہے۔ ملا محمد عمر کی زندگی اور موت اکثر افواہوں کی زد میں رہی۔ اس ناچیز کو اعتراف ہے کہ بہت سال پہلے افغانستان میں طالبان ابھرے تو مجھے یہ تاثر ملا کہ طالبان کو امریکہ کی تائید حاصل ہے کیونکہ اس وقت کی امریکی نائب وزیر خارجہ رابن رافیل طالبان کی حمایت کر رہی تھیں۔
1995ء میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے میری غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی اور ان کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے مجھے بتایا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت طالبان کی حمایت اس لئے کر رہی تھی کہ شمالی اتحاد والوں نے کابل میں پاکستانی سفارتخانے پرحملہ کر دیا۔ طالبان نے پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ نصیر اللہ بابر صاحب کے ذریعہ میرا ملا محمد عمر اور طالبان سے تعارف ہوا۔ بابر صاحب کا برہان الدین ربانی، احمد شاہ مسعود، حکمت یار اور رشید دوستم سے بھی رابطہ تھا۔ وہ طالبان اور شمالی ا تحاد میں مفاہمت کے لئے سرگرم تھے تاکہ افغانستان میں امن قائم کرکے ترکمانستان سے پاکستان تک گیس پائپ لائن بچھانے کے منصوبے کو حقیقت بنایا جاسکے۔ امریکی آئل کمپنی یونوکول طالبان کو اپنی’’پائپ لائن پولیس‘‘ کے طور پر استعمال کرنا چاہتی تھی لیکن طالبان کسی کے ہاتھوں استعمال ہونے کو تیار نہ تھے۔
1996ء کے اوائل میں طالبان نے ملا محمد عمر کو ایک فوجی کمانڈر سے امیر المومنین بنا دیا۔
اپریل 1996ء میں رابن رافیل ان سے ملاقات کے لئے قندھار پہنچ گئیں لیکن ملا محمد عمر نے ان کے ساتھ تصویر کھنچوا کر شمالی اتحاد پر رعب جمانے کی ضرورت محسوس نہ کی اور اپنے معاونین کو ملاقات کے لئے بھیج دیا۔
26 ستمبر1996ء کو طالبان نے کابل پر قبضہ کرلیا۔
6 نومبر 1996ء کو طالبان نے اسلام آباد میں شمالی اتحاد کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر دی۔ نصیر اللہ بابر ایک مفاہمتی یاداشت کا مجوزہ ڈرافٹ بھی تیار کرچکے تھے
لیکن 5 نومبر کی شب محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا اور یوں دونوں فریق قریب نہ آسکے۔
عالمی میڈیا میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ طالبان کو آئی ایس آئی نے منظم کیا اور ملا محمد عمر کو آئی ایس آئی نے پاکستان میں چھپا رکھا تھا۔ طالبان کی تشکیل میں آئی ایس آئی کا کوئی کردار نہیں تھا
بلکہ 1994ء میں آئی ایس آئی کا طالبان کے ایک بڑے مخالف گلبدین حکمت یار سے زیادہ قریبی رابطہ تھا۔ طالبان کے ساتھ ابتدائی روابط نصیر اللہ بابر نے قائم کئے۔ بعد ازاں وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی ہدایت پر آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل جاوید اشرف قاضی نے طالبان کو اسلام آباد میں ملاقات کی دعوت دی تو ملا محمد عمر نے اسلام آباد آنے سے معذرت کرلی اور اپنے کچھ ساتھیوں کو ملاقات کے لئے بھیجا۔ اس ملاقات میں طالبان نے آئی ایس آئی اور حکمت یار کی قربتوں پر اعتراضات کئے ۔ بعدازاں پاکستان کی حکومت اور ریاستی اداروں نے طالبان کی بھرپور حمایت کی۔ ملامحمد عمر جتنا عرصہ کابل کے حکمران رہے انہوں نے پاکستان کے مفادات کا خیال تو رکھا لیکن نا پاکستان سے اور نا ہی کبھی سعودی عرب سے ڈکٹیشن قبول کی حالانکہ دونوں نے طالبان حکومت کو تسلیم کر رکھا تھا۔
1997ء میں افغان طالبان کے ایک وفد کو امریکہ کے دورے پر بلایا گیا۔ اسی زمانے میں ایک عرب این جی او کے ذریعہ طالبان کو یہ ترغیب دی گئی کہ وہ چین کے صوبہ سنکیا نگ کے مسلمان علیحدگی پسندوں کی مدد کریں تو انہیں بہت فائد ہ ہوگا۔ اس سازش کو ناکام بنانے میں ایک پاکستانی عالم دین مفتی نظام الدین شامزئی اور مولانا فضل الرحمان خلیل نے اہم کردار ادا کیا۔ کچھ عرصے کے بعد پاکستان میں چین کے سفیر لوشولین نے قندھار کا دورہ کیا جہاں ملا محمد عمر نے چینی سفیر کو یقین دلایا کہ طالبان چین کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہ بنیں گے۔ دوسری طرف پاکستان اور سعودی عرب کی حکومتوں سے ملا محمد عمر کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔
سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ ترکی الفیصل نے جون 1998ء اور ستمبر 1998ء میں ملا محمد عمر سے دو ملاقاتیں کیں اور اسامہ بن لادن کو افغانستان سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔ ملا محمد عمر نے انکار کردیا۔ جب ترکی الفیصل نے دبائو ڈالا تو ملا محمد عمر نے ایک دیہاتی پختون بن کراتنی سخت باتیں کیں کہ ترکی الفیصل کو پسینے آگئے۔ اسی دور میں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ضیاء الدین بٹ کو ملا محمد عمرکے پاس بھیجا گیا۔ موضوع گفتگو اسامہ بن لادن تھے۔ بٹ صاحب بھی ناکام لوٹے۔
ملا محمد عمر نے اسامہ بن لادن کی خاطر اپنے اقتدار کو دائو پر لگا دیا تھا۔
اگست 1999ء میں قندھار میں ملا محمد عمر کی رہائش گاہ پر ٹرک بم دھماکے کے ذریعہ حملہ کیا گیا جس میں ان کا ایک بیٹا اور بیوی سمیت خاندان کے چار افراد مارے گئے۔ ملا محمد عمر معمولی زخمی ہوئے لیکن اس حملے کے بعد امریکہ کے بارے میں ان کا موقف مزید سخت ہوگیا۔ اسی حملے کا جواب دینے کے لئے اسامہ بن لادن نے امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پنٹا گون پر حملوں کی منصوبہ بندی شروع کی لیکن ملا محمد عمر اس منصوبہ بندی سے بے خبر تھے۔
11 ستمبر 2001ء کو امریکہ میں القاعدہ کے حملوں نے صرف ملا محمد عمر کے لئے نہیں بلکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے لئے بہت سی مشکلات کھڑی کردیں۔
16 ستمبر 2001ء کو جنرل پرویزمشرف نے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل محمود احمد کو ملا محمد عمر کے پاس بھیجا اور اسامہ بن لادن کو افغانستان سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔ ملا محمد عمر کو سخت افسوس تھا کہ اسامہ بن لادن نے کئی معاملات میں’’اطاعت امیر‘‘ کے تقاضے پورے نہ کئے لیکن انہوں نے جنرل محمود کو بھی ناں کہہ دی۔ اب پاکستان اور سعودی عرب سمیت پوری دنیا طالبان کے خلاف متحد ہوچکی تھی۔
نومبر2001ء میں طالبان کی حکومت ختم ہونے سے چند دن پہلے میں نے کابل میں طالبان کے وزیر داخلہ ملا عبدالرزاق اخونزادہ سے پوچھا کہ کیا آپ اسامہ بن لادن کی خاطر اپنا اقتدار قربان کر دیں گے؟
انہوں نے جواب میں کہا کہ ان کے قائد ملا محمد عمر کے نزدیک اقتدار سے زیادہ افغان قوم کی اقدار زیادہ اہم ہیں۔
کچھ دنوں کے بعد طالبان کا اقتدار ختم ہو گیا لیکن طالبان ختم نہ ہوئے۔ طالبان کے ختم نہ ہونے کی بڑی وجہ طالبان کا طبقاتی کردار ہے۔ دنیا کے نزدیک یہ ایک انتہا پسند مذہبی تحریک ہے۔ حقیقت میں یہ دولت مند قبائلی سرداروں اور کرپٹ وار لارڈز کے خلاف دیہاتی کسانوں کی مسلح تحریک ہے جس کی قیادت کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہ تھا۔
ملا محمد عمر نے 2002ء کے بعد اپنی حکمت عملی کو تبدیل کیا۔
انہوں نے شمالی افغانستان میں تاجک، ازبک اور ہزارہ قبائل میں رابطے بڑھائے۔ بامیان، دائے کنڈی اور غزنی میں اہل تشیع کو طالبان میں شامل کیا اور ایران کے ساتھ تعلقات قائم کرلئے۔ اہل تشیع اور ایران کے بارے میں ان کی تبدیل شدہ پالیسی نے ثابت کیا کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان میں بہت فرق ہے۔
مئی 2015ء میں افغان طالبان کے ایک وفد نے ایران کا دورہ کیا جس پر کابل حکومت میں شامل شمالی ا تحاد کے نمائندہ وزیر داخلہ نورالحق علومی بہت ناراض تھے۔ افغان طالبان ایران نہ جاتے تو شاید افغان انٹیلی جنس ملا محمد عمر کی موت کی خبر نہ اچھالتی۔ نورالحق علومی سابق کمیونسٹ فوج کے جرنیل اور ڈاکٹر نجیب اللہ دور میں قندھار کے گورنر تھے۔ کابل حکومت اور طالبان میں مذاکرات شروع ہونے کے باوجود طالبان کا ترجمان جریدہ ’’شریعت‘‘ علومی پر تنقید سے باز نہ آرہا تھا کیونکہ علومی نے افغانستان کی جیلوں میں طالبان کے قیدیوں پر تشدد کی انتہا کردی ہے۔ علومی کے مشکوک رویے کے باعث طالبان امن مذاکرات میں بہت محتاط ہوچکے ہیں کیونکہ افغان انٹیلی جنس بھی مذاکرات میں سنجیدہ نظر نہیں آتی۔
مذاکرات میں دلچسپی رکھنے والی عالمی طاقتوں کو یاد رکھنا ہوگا کہ امن مذاکرات کے نام پر طالبان کو چند وزارتوں کے عوض خریدنا بہت مشکل ہے۔ طالبان کو کمزور اور داعش کو مضبوط کرنے سے امن قائم نہیں ہوگا۔ افواہوں کے ذریعے پروپیگنڈے کی جنگ جیتی جاسکتی ہے لیکن افغانستان کے دیہاتی اور پہاڑی علاقوں کے زمینی حقائق تبدیل نہیں کئے جا سکتے۔ ملا محمد عمر کا نام اور طالبان کے دیہاتی جنگجو کابل کے دولت مند حکمرانوں کے سامنے زمینی حقیقت بن کر مزاحمت کرتے رہیں گے۔
ح