سرفراز فیضی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 22، 2011
- پیغامات
- 1,091
- ری ایکشن اسکور
- 3,807
- پوائنٹ
- 376
ملت اسلامیہ ہند اور اس کے چند داخلی مسائل
رفیق احمد رئیس سلفی(علی گڑھ)
قوت فکروعمل پہلے فنا ہوتی ہے
پھر کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے
اس بات میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ اس وقت ہندوستان کی ملت اسلامیہ اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزررہی ہے۔ملکی سیاست میں ایسے عناصر ابھر کر سامنے آگئے ہیں اور ان کا زور دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے جو اس کثیر مذہبی ،لسانی اور ثقافتی ملک کو اپنے مخصوص رنگ اور کلچر کا ملک بنانے پر کمر بستہ ہیں۔ایک خاص قوم اور تہذیب کے خلاف پون صدی سے جو تحریک چلائی جارہی تھی ،اب اسی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔ملک کی یہ صورت حال صرف مسلمانوں ہی کے لیے بلکہ یہاں کے تمام کمزور اور پس ماندہ طبقات کے لیے انتہائی تشویشناک ہے۔علوم وفنون کی وسعت اور روشن خیالی کے تمام تر دعووں کے باوجود ابھی تک یہ ملک ذات برادری اور اونچ نیچ کی تفریق سے آزاد نہیں ہوسکا ہے بلکہ دور قدیم کی کئی ایک خرافات اور طلسمات کو علمی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو استعمال کرکے ماضی کی بھیانک تصویر کو خوبصورت اور پُرکشش بنانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ملک میں غربت وافلاس کی سطح بڑھتی جارہی ہے،ظلم وناانصافی کے خلاف آواز یں مدھم ہونے لگی ہیں اور سماج میں نفرت وعداوت کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔صحت عامہ کے شعبے شدید اخلاقی بحران کا شکار ہیں اور انتظام وانصرام کے محکمے کرپشن اور بدعنوانی کی علامت بن چکے ہیں۔پھر کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے
نصف صدی گزرگئی ،ابھی تک ہمارا ملک عدل ومساوات کی اس منزل تک نہیں پہنچ سکا ہے ،جہاں اسے ہونا چاہئے۔آج بھی زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم سماج کو ذات پات اور مذہب ومسلک کی سیاست میں الجھا کررکھا گیا ہے ۔ملک کی حکمراں جماعتوں کو اس کی فکر نہیں ہے کہ تعلیم،صحت،وسائل آمد ورفت اور روزی روٹی کے تعلق سے ملک کو بے نیاز کردیں اور اس کے لیے مضبوط منصوبہ بندی کریں ،اس کے برعکس وہ ہندومسلم اور مندر مسجد کے تنازعات کو ہوا دے کر اقتدار تک پہنچتی اور حکومت کرتی ہیں۔نوٹ بندی کے حالیہ قضیہ میں تشویشناک بات یہ ہے کہ غریب عوام بینکوں کے سامنے قطار میں کھڑی ہے اور لاکھوں کروڑوں روپے کی جدید کرنسی پولس کے ذریعے مارے جانے والے چھاپوں میں برآمد ہورہی ہے۔کوئی نہیں پوچھتا کہ اتنی بڑی رقم کسی بینک سے کیسے نکلی،جہاں یہ نوٹ چھاپے جارہے ہیں،وہاں سے کون ان کی دلالی کررہا ہے ؟دانستہ طور پر جڑوں کو تحفظ فراہم کیا جارہا ہے اور چھوٹی شاخیں اور پتیاں کاٹی اور توڑی جارہی ہیں۔جڑوں کو کھاد پانی ملتا رہا تو شاخوں اور پتیوں کے دوبارہ ہرا ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ملک کا باشعور طبقہ اس حقیقت کو سمجھتا ہے ،میڈیا کے لوگ بھی اس سے واقف ہیں اور انتظام وانصرام سے وابستہ اعلی سرکاری آفیسر بھی اس سے آشنا ہیں لیکن مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت کوئی نہیں کررہا ہے۔ملک کا کسان قرض اور بھوک کے تلے دب کر خود کشی کررہا ہے اور کروڑوں روپیہ لے کر بعض لوگ ملک سے بھاگ جاتے ہیں اور ہم انھیں واپس نہیں لاپاتے ۔ملک کی اصلی اور صحیح تصویر دیکھنی ہو تو کسی دور دراز گاؤں میں چلے جائیں اور علاقے کے چھوٹے بڑے تعلیمی ادارے اور سول ہاسپٹل دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ ہمارے ملک نے کتنی ترقی کی ہے اور ملکی عوام کے ساتھ کتنا انصاف کیا جارہا ہے۔قساوت قلبی اور ظلم کی انتہا یہ ہے کہ کسی مظلوم کی ایف آئی آر بھی بغیر پیسوں کے نہیں لکھی جاتی ،اخبارات میں ہم روزانہ ایسی خبریں پڑھتے ہیں کہ اعلی پولس آفیسرز تک جب مظلوم پہنچا تب اس کی فریاد رجسٹر میں قلم بند کی گئی ہے لیکن یہ خبر پڑھنے اور سننے کے لیے آنکھیں ترس جاتی ہیں کہ فریاد نہ سننے والوں کے خلاف کارروائی کیا کی گئی؟لا اینڈ آرڈر کی ذمہ دارمقامی یونٹ نے اپنا فرض کیوں نہیں ادا کیا؟اگر کسی مگرمچھ نے ایسا نہیں کرنے دیا تو اس کو غذا فراہم کرنے والے ملک کے عوام کے تئیں مخلص کیوں کر ہوسکتے ہیں ؟انھیں اپنے سینوں اور شانوں پر ملک کے لیے باعث صد افتخار تمغے سجانے کا حق کیوں کر حاصل ہوسکتا ہے؟
ملک کی یہ وہ تصویر ہے جس پر بہت زیادہ روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے ۔سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد جو یہاں آباد ہے ،ان ملکی مسائل کے تعلق سے اس کا رویہ کیا ہے؟کیا اس نے کبھی یہ سوچا کہ جس ملک میں ہم رہتے ہیں اور جس کی تعمیر وترقی پر ہماری اپنی تعمیروترقی موقوف ہے،اس کے لیے ہمیں کچھ کرنا چاہئے۔دینی مجالس اور جلسوں میں ہم اپنی عوام کو کیا بتاتے اور سکھاتے ہیں۔اسلام نے جس امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دیا ہے،وہ کیا ہے ؟دینی جلسوں کے اشتہارات کا یہ جملہ دیکھئے کہ جلسۂ ہذا کا سیاست حاضرہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔کب ہماری سمجھ میں یہ بات آئے گی کہ جس سیاست حاضرہ نے آج زندگی کے بنیادی مسائل کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ،اس سیاست حاضرہ پر گفتگو نہ کرنا کون سی دین داری ہے؟ہماری دینی جماعتوں کی یہ تصویر کس قدر ’’خوبصورت‘‘ ہے کہ ان سے ملک اور اہل ملک کو کوئی پریشانی نہیں ہے کیوں کہ یہ زمین کے نیچے کی بات کرتی ہیں یا آسمان کے اوپر کی باتیں ان کی ترجیح ہیں ۔زمین پر اٹھنے یا پیدا ہونے والے مسائل سے انھیں کوئی سروکار نہیں۔آپ ذرا سوچیں !اللہ کی مخلوق گھٹ گھٹ کر مررہی ہے،اس کی زندگی کے وسائل پر غاصبانہ قبضہ کرلیا گیا ہے،اس کی فریاد پر کان دھرنے والا کوئی نہیں اور اسی اللہ کی کتاب اور اسی اللہ کے رسول کی تعلیمات ان مسائل سے کوئی واسطہ نہیں رکھتیں ؟اگر یہی بات ہے تو پھر کیا دل چسپی ہوسکتی ہے کسی انسان کی اس اسلام سے جو سماج اور انسان کے بنیادی مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا بلکہ اس کے نمائندے ان موضوعات پر گفتگو کرنا بھی اسلام کے منافی سمجھتے ہیں۔ ہمارا یہ رویہ دین اسلام سے بغاوت ہے ،اس کی غلط تعبیر ہے اور اجازت دیں تو یہ کہا جائے گا کہ واضح طور پر دین اسلام کی تحریف ہے ۔
اللہ کا شکرواحسان اور اس کا سب سے بڑا کرم ہے کہ یہاں اس کے محبوب دین سے نسبت رکھنے والے مسلمان موجود ہیں اور جو قیامت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کام پر مامور کیے گئے ہیں کہ دنیا کا نظام خالق کائنات کی مرضی کے مطابق چلائیں ،اگر وہ کسی وجہ سے ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوپاتے تو یہ فریضہ ان پر باقی رہتا ہے کہ اس دین حق کی روشنی ہر جگہ موجود رہے تاکہ کوئی مسافر اگر صحیح راستہ تلاش کرنا چاہے تو اسے اپنی منزل مل جائے۔انسان اپنے بنائے ہوئے سماجی ڈھانچے کو ناکام ہوتا دیکھے تو اسے دین حق کا سماج صاف نظر آجائے ۔وہ اپنے وضع کردہ قوانین کو کارگہ حیات میں فیل ہوتا دیکھے تو اسے یہ دکھائی دے کہ دین حق کے قوانین یہ ہیں جو کبھی فیل نہیں ہوتے۔ہمیں سوچنا یہ ہے کہ مسلمان اس ملک میں اپنا واجبی کردار کیوں نہیں ادا کرپارہا ہے؟اس کے اسباب کیا ہیں؟ذیل کی سطور میں وطن عزیز کے پس منظر میں ملت کے چند داخلی مسائل پر گفتگو کی گئی ہے۔مسائل اور بھی ہوسکتے ہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ جن مسائل کو یہاں ابھارا گیا ہے ،بعض دوسرے مسائل ان سے زیادہ اہم ہوں۔راقم سطور کو اپنی کسی تحریر یا فکر پر کبھی اصرار نہیں رہا ،سوچنے اور اپنی رائے ظاہر کرنے کی آزادی ہر شخص کو ہے ۔بہتر ہوگا اگر ہمارے اسکالرس اس موضوع پر اپنے افکار وتجربات سے ملت کو مستفید ہونے کا موقع فراہم کریں ۔اللہ نے اگر سوچنے سمجھنے کی طاقت دی ہے اور اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کی صلاحیتوں سے نوازاہے تو اللہ کے لیے میدان میں آئیں اور اس ملت کے لیے کوئی صحیح رخ متعین کرنے میں اس کی مدد کریں ۔یہ آپ کا نہ صرف اس ملت پر احسان ہوگا بلکہ شاید اسی ذریعے سے کسی حد تک اس فرض سے بھی آپ عہدہ برآ ہوسکیں جو آپ پر ایک مسلمان کی حیثیت سے عائد ہوتا ہے۔
دین اسلام کی صحیح پوزیشن کی وضاحت
قرآن اور سنت،سیرت نبوی اور اسلامی تاریخ پر گہری اور مجتہدانہ نظر رکھنے والے اہل علم جانتے ہیں کہ اسلام اللہ کا آخری دین ہے اور دنیا کے تمام لوگوں کی ہدایت کا ضامن ہے۔قرآن کا موضوع انسان ہے ۔دنیا میں انسان جن مسائل سے دوچار ہوتا ہے ،ان کے بارے میں قرآن اس کی رہنمائی کرتا ہے اور اس کی زندگی کی ترجیحات اس کے سامنے پیش کرتا ہے۔قرآن یہ بھی واضح کرتا ہے کہ اللہ نے اس دنیا کے لیے ایک نظام بنادیا ہے ،اسی نظام کے تحت یہاں انقلابات آتے اور تغیرات کا ظہور ہوتا ہے۔اسلام اور اس کی تعلیمات صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ہیں۔اسلام نفرت کے لیے بلکہ محبت کا پیغام عام کرنے کے لیے آیا ہے ۔وہ انسان کو اندر سے بھی بدلتا ہے اور باہر سے بھی ۔قرآن اور حدیث کی کتابیں ،ان کے متون وشروح کا مطالعہ جس طرح ایک مسلمان کرتا ہے،اسی طرح ایک غیر مسلم بھی کرسکتا ہے ۔دینی مجالس میں جس طرح ایک مسلمان شریک ہوتا ہے ،اسی طرح ایک غیر مسلم بھی شریک ہوسکتا ہے ۔ایک بھوکا،ننگا،بیمار،معذور اور پریشان حال مسلمان جس طرح ہماری مدد اور ہم دردی کا مستحق ہے،اسی طرح ایک غیر مسلم بھی ہماری توجہ کا حق دار ہے۔جس طرح ایک مسلمان کی جان ،مال اور عزت کو تکریم وتحفظ حاصل ہے،اسی طرح ایک غیر مسلم کی جان،اس کا مال اور اس کی عزت قابل تکریم اور قابل تحفظ ہے۔بعض ہوشیار لوگوں نے دین اسلام کو ایک حریف اور انسان دشمن کی حیثیت سے عوام کے سامنے پیش کیا ہے ،ضرورت ہے کہ اسلام کی صحیح پوزیشن سے ملک اور اہل ملک کو آگاہ کیا جائے۔اس کے لیے صرف نظریاتی باتیں کافی نہیں ہوسکتیں بلکہ مسلم سماج کو اسلام کا چلتا پھرتا نمونہ بنانا ہوگا۔اپنی تحریروں اور تقریروں میں نمایاں طور پر ان باتوں کو جگہ دینی ہوگی جن سے مسلم سماج کی تصویر بہتر ہوسکے۔قتل وخون ریزی،لوٹ مار،چوری ڈکیتی،رشوت کالا بازاری ،ظلم وزیادتی اور بد اخلاقی اور بدعملی میں ملوث مسلم سماج اسلام پر دھبہ ہے،اسلام کا نمائندہ نہیں۔آج بہت سے داعی ایک عجیب کشمکش کا شکار ہوگئے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ دعوت تو صرف غیر مسلموں کو دینی ہے ،مسلمانوں کی اصلاح ہوتی ہے اور اسی کشمکش کا نتیجہ ہے کہ وہ مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلموں کو اپنی دعوت کا اصل مخاطب بناتے ہیں۔قیل وقال اور بلاوجہ کی بحث کی بجائے ایسے مخلصین سے یہ درخواست کی جاسکتی ہے کہ آپ جس غیر مسلم کو اسلام کی دعوت دے رہے ہیں،اس کے اس سوال کا بھی جواب تیار رکھئے کہ بھائی صاحب! آپ جس اسلام کی باتیں پیش کررہے ہیں،وہ تو مسلمانوں میں دور دور تک نظر نہیں آتیں۔ہمارے لیے دونوں کام اہم ہیں۔صورت حال اس قدر خراب ہے کہ کسی کو اہم اور کسی کو غیراہم بتاکر ہم دونوں میں مقدم وموخر کرنے کا بھی کوئی فارمولہ نہیں اپنا سکتے۔دین اسلام کی اساسیات سے مسلمانوں کا واقف ہونا ضروری ہے۔اسلام کے حلال وحرام پر انھیں کاربند ہونے کی ضرورت ہے ۔انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ان اخلاقی اصولوں کو اپنا نا بھی لازمی ہے جن کی تعلیم اسلام دیتا ہے۔ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم ایک ایسے دینی ماحول میں زندگی گزارتے ہیں جس میں اساسیات اسلام،حلال وحرام ،اخلاق اور بداخلاقی تو شاید کبھی زیر بحث آتی ہو ،مسلکی امتیازات سب سے پہلے زیر غور اور زیر التفات آتے ہیں۔مسلمانوں کے اندر مسلکی منافرت کی صورت حال ملاحظہ فرمائیں:
مسلکی منافرت
آ ج ملت کی خاصی بڑی تعداد کسی نہ کسی مسلک سے وابستہ ہے۔کوئی حنفی ہے تو کوئی شافعی ،کوئی خود کو بریلوی علم کلام سے جوڑے ہوئے ہے تو کسی نے دیوبندیت کا تمغہ اپنے سینے پر سجا رکھا ہے،کوئی خود کو اہل حدیث کہتا ہے اور کسی نے اپنا رشتہ جماعت اسلامی اور ندوہ سے استوار کررکھا ہے۔صوفیاء کے بھی کئی ایک سلسلے ہیں اور ملک میں ان سلسلوں کے اپنے اپنے مخصوص حلقے ہیں۔ملک میں ایک قابل لحاظ آبادی شیعہ حضرات کی بھی ہے جو خود کو اہل سنت سے الگ تھلگ رکھ کر زندگی گزارتے ہیں۔ان تمام مسلمانوں میں مسلک ومشرب کے حوالے سے کافی اختلافات پائے جاتے ہیں ۔یہی اختلافات انھیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار نہیں بننے دیتے اور نہ کسی مشترکہ پروگرام میں ان کو ایک ساتھ جمع ہونے دیتے ہیں۔مسلکی اختلافات کو کچھ ایسا رنگ دے دیا گیا ہے کہ مختلف مسالک سے وابستہ عوام دینی حیثیت سے ایک دوسرے سے قریب رہنے کی بجائے باہم فاصلہ بنائے رہتے ہیں اور یہ فاصلے بسااوقات نفرت،عداوت اور حقارت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔بعض مسالک نے اس سلسلے میں اس قدر شدت اختیار کر رکھی ہے کہ آپس میں شادی بیاہ تک نہیں کرتے بلکہ مخالف مسلک والوں کے ہاتھ کے ذبیحے کو کفارومشرکین کے ذبیحوں کی طرح حرام اور ناجائز سمجھتے ہیں۔مسالک سے وابستہ بڑے اورذمہ دار علماء عوام میں پھیلی اس منافرت کو کم کرنے کی بجائے ،اس کو مزید ہوا دیتے ہیں اور اس طرح وہ اپنے مریدوں اور معتقدوں پر اپنی گرفت مضبوط بنائے رکھنے میں کامیاب ہیں۔اسی مسلکی منافرت اور شدت کا نتیجہ ہے کہ ملک کی دوسری بڑی اکثریت بے وزن ہوگئی ہے اور ملک کے سیاسی بازیگر اسے جب ،جہاں اور جیسے چاہیں استعمال کرتے ہیں اور ضرورت ختم ہونے پر ٹھوکر ماردیتے ہیں۔اس ملک میں آزادی کے بعد مسلمانوں کا کوئی مضبوط سیاسی اتحاد وجود میں نہیں آسکا کیوں کہ مسلک کے نمائندے نیم سیاسی علماء اپنے اپنے مفادات کے پیش نظر مختلف سیاسی جماعتوں میں بکھرے ہوئے ہیں ۔ملت پر کوئی برا وقت آتا ہے تو اپنی سیاسی جماعت کی پالیسی سے اوپر اٹھ کر کبھی کچھ نہیں بولتے ،انھیں یہ اندیشہ لاحق رہتا ہے کہ بادشاہ سلامت کے حضور جو نام نہاد عزت ملی ہوئی ہے،وہ خاک میں مل جائے گی اور جو مراعات اہل خانہ اور اعزہ واحباب کو حاصل ہیں،وہ آن واحد میں چھین لی جائیں گی۔یاد رکھئے!ہندوستان کی اس مظلوم ملت کے جنازے پر اپنی شان وشوکت کا تاج محل کھڑا کرنا بڑے خسارے کا سودا ہے۔قرآن مجید میں اسی کو آخرت کے بدلے دنیا کوخریدنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ مسالک کے علماء سرجوڑ کر بیٹھیں اور دیانت داری سے عوام کو یہ بتائیں کہ دین اسلام میں فقہی اختلافات کی
حقیقت کیا ہے اور ان اختلافات کو بنیاد بناکر اسلامی اخوت اور اسلامی اجتماعیت کو نقصان پہنچانا کتنا سنگین جرم ہے ۔اسلامی تراث کے فقہی
سرمایے پر نظر رکھنے والے اہل علم بخوبی جانتے ہیں کہ زیادہ تر اختلافات راجح ومرجوح اور افضل ومفضول کے درمیان ہیں ۔نقطہائے نظر کے اختلافات کے پیچھے ایک بڑا سبب وہ فقہی اصول بھی ہیں جو احکام دین کی تفہیم یا نصوص کتاب وسنت سے مسائل کی تخریج واستنباط کے لیے علمائے اسلام نے متعین کیے ہیں ۔اسلامی تاریخ کے دوبڑے علماء شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اس موضوع پر بڑا اہم علمی کام کیا ہے اور اتفاق دیکھئے کہ ان دونوں اماموں نے اپنے اپنے دور میں ملت کی مسیحائی کا فریضہ انجام دیا ہے اور امت کے انتشار وافتراق اور اس کے بھیانک انجام کو دیکھا ہے اور اس درد کو محسوس کیا ہے جو ایسی صورت حال میں ایک مخلص مسلمان کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔
فکر ونظر کا اختلاف ایک فطری چیز ہے ۔پیش آمدہ مسائل میں غور وفکر کرنے کا طریقہ بھی الگ الگ ہوسکتا ہے ۔کسی عالم کے سامنے کوئی پہلو ہوتا ہے اور کسی کے سامنے دوسرا پہلو ہوتا ہے ۔دونوں اپنی اپنی جگہ صحیح ہوسکتے ہیں ،شرط اخلاص ہے ،حکم الٰہی کے آگے سراطاعت خم کرنے کا جذبہ ہے ،رسول گرامی کی بغیر کسی تحفظ کے اتباع اور پیروی ہے۔اگر ایک پاکیزہ نیت میں یہ احساسات موجود ہیں تو اس پر سوال کھڑا کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن ان پاکیزہ احساسات اور جذبات کا تعلق دل سے ہے جس میں مخفی باتوں سے صرف ایک ذات واحد واقف ہے ۔دلوں کو پھاڑنے ،چیرنے اور اس میں پوشیدہ باتوں کو طشت از بام کرنے کا مطلب توحید میں مداخلت ہے اور رب کائنات کے دائرۂ اختیار میں دخل اندازی ہے جس کی توقع کسی ایسے عالم دین سے ہرگز نہیں کی جاسکتی جو توحید کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھنے کا مدعی ہے۔
محبت رسول کے حوالے سے بعض باتیں مسلکی منافرت کو ہوا دیتی ہیں ۔ایک محب رسول سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ منافقین کی شناخت ہونے کے باوجود جس رسول گرامی نے ان کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی بلکہ منافقین کے سردار کے مرنے پر اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور کفن کے لیے اپنا بابرکت کرتا عطا فرمایا ،اس رسول سے محبت کا حوالہ دے کر آج بڑے بڑے علماء کو کافر قرار دیا جارہا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ جو ان کو کافر نہ کہے وہ خود کافر ہے ۔خود تراشیدہ فلسفوں سے اتقیاء وزہاد کو دشمن رسول اور کافر قرار دیں اور جو کوئی اس نوزائیدہ فلسفے سے مطمئن نہ ہو اس پر بھی درانتی چلادیں ،یہ کیسا انصاف ہے اور کہاں کی دین داری ہے ؟بعض صحابہ کرام نے کسی جنگ میں کافر کے سینے پر سوار وہ کر اس وقت بھی گردن کاٹ دی جب وہ زبان سے کلمہ لاالہ الااللہ پڑھ رہا تھا اور دربار رسالت سے جب سوال ہوا تو یہ عذر پیش کیا گیا کہ اس نے موت کے خوف سے کلمہ پڑھا تھا،پیارے رسول نے فرمایاکہ کیا تو نے اس کا دل پھاڑ کردیکھا تھا؟ مختصر یہ کہ دین اسلام جس رواداری کا علم بردار ہے،اس میں موجودہ مسلکی منافرت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور دینی جماعتوں اور تنظیموں سے وابستہ جو حضرات اس منافرت کو ہوا دیتے اور اس کا کاروبار کرتے ہیں،وہ اس ملت کے بدترین دشمن اور اس کے بدخواہ ہیں۔اللہ ان کی سازشوں اور نفرت بھری باتوں سے ملت کو محفوظ رکھے اور حالات کو اس طرح تبدیل فرمادے کہ ملت کے یہ نام نہاد مسیحا ننگے ہوجائیں اور ان کی اصلی شکل سب کے سامنے آجائے۔
تعلیم پر خصوصی اور بھرپور توجہ
شاید یہ بتانا یہاں غیر ضروری ہے کہ اسلام نے تعلیم کو کیا اہمیت دی ہے اور اس کے بارے میں اس کا نقطۂ نظر کیا ہے۔قارئین ذی اکرام ان باتوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ جس اسلام نے اپنے سفر کاآغاز علم سے کیا تھا اور جس کی پہلی ربانی تعلیم میں تعلیم،تعلم،علم اور قلم کا حوالہ موجود ہے ،اس اسلام پر چلنے والا بے علم کیسے رہ سکتا ہے اور تعلیم سے دوری اسے کیوں کر برداشت ہوسکتی ہے لیکن دنیا کا یہ کتنا بڑا عجوبہ ہے کہ اسی اسلام کے ماننے والوں کی اکثریت آج اس ملک میں تعلیم سے غافل ہے اور جہالت وناخواندگی اس کی اولین شناخت بن گئی ہے۔ایک مسلمان کے لیے یہ قطعی غیر مناسب ہے کہ وہ تعلیم کو جدید وقدیم کے دوخانوں میں تقسیم کرکے ایک کو اہم اور دوسرے کو غیر اہم قرار دے۔اسلام اس دنیا کا مذہب ہے ،دنیا کا نظام اور انسان کی تغیر پذیر زندگی اس کے بنیادی اہداف ہیں ،یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ صحت عامہ اور وسائل حیات کو اپنے موضوع سے خارج کردے ۔اسلام کے لیے جس قدر اہم ایک نماز پڑھانے والا امام ہے ،اسی قدر اہم ایک ٖاکٹر اور طبیب بھی ہے جو زندگی جیسی اللہ کی عطا کردہ نعمت کو اللہ کے فضل وکرم سے پرسکون بناتااور تکلیفوں سے دور کرتا ہے۔انسانوں نے جو علوم وفنون ایجاد کیے ہیں اور جن سے ہمیں دنیا کو سمجھنے اور اسے برتنے کا سلیقہ آتا ہے ،وہ سب اہم ہیں اور ان میں سے کسی ایک کو نظرانداز کرنا انسانیت کے لیے نقصان دہ ہے۔یہ عجیب بات ہے کہ پدرم سلطان بود کا نعرہ لگانے کی جب ضرورت ہوتی ہے تو ہم اسلام کے دور عروج کے ان افراد کا نام فخر سے لیتے ہیں جنھوں نے اندلس میں علم وحکمت کے چراغ اس وقت روشن کیے تھے جب سارا یورپ جہالت اور تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا ،کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اہل اسلام کی جس میراث پر موجودہ سائنس اور ایجادات کا تاج محل کھڑا ہے ،اسی میراث کو ایک عالم دین دنیاوی علم کہہ کر اس کی اہمیت گھٹا رہا ہے۔یاد رکھئے!اس ملک میں ہماری عزت اور اہمیت کا تمام تر دارومدار علم پر ہے۔دین کی بنیادی اور اساسی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری اور سائنسی علوم وفنون میں ہماری برابر کی حصہ داری ہی ہماری بقا کی ضمانت فراہم کرسکتی ہے۔مادی نقطۂ نظر رکھنے والے اس وقت تعلیم کو ایک تجارت اور کاروبار بناچکے ہیں،میدان خالی ہے ،مسلمان آگے آئیں اور عصری تعلیمی اداروں کا قیام کرکے یہ ثابت کریں کہ اسلام انسانیت کا مذہب ہے اور انسانیت کا بہی خواہ ہے۔علوم شرعیہ کے لیے جو ادارے قائم ہیں،ان اداروں سے کم ازکم ہائی اسکول تک کی تعلیم کا سلسلہ لازمی طور پر جوڑا جائے اور اپنے اسی پسندیدہ روایتی نظام جس میں اخلاق اور قناعت پسندی کا بول بالا ہے،کے تحت عصری تعلیمی ادارے چلاکر اہل ملک کو دکھایا جائے کہ مادیت سے ہٹ کر بھی ملک کی تعمیر وترقی کے لیے افراد تیار کیے جاسکتے ہیں۔الحمد للہ ملک کے کئی ایک حصوں میں مسلمانوں نے آگے بڑھ کر یہ کام اپنے ہاتھوں میں لیا ہے اور اس کے نتائج بھی حوصلہ افزا ہیں ،ضرورت ہے کہ ملک کے گوشے گوشے تک اس بابرکت سلسلے کو دراز کیا جائے۔مسلمانوں کو یہ بات بھی بتانے کی ہے کہ غربت وافلاس کا بہانہ بناکر وہ اپنی نسلوں کو تعلیم سے محروم نہ کریں ،اگر اس ملک میں اپنی آنے والی نسلوں کو عزت سے ہم کنار کرنا ہے تو ہماری ایک دو نسلوں کو قربانی لازمی طور پر دینی ہوگی۔اپنا پیٹ کاٹ کر اور موٹا جھوٹا پہن کر جن والدین نے اپنے بچوں کو تعلیم دلائی ،آج ان کے بچے آسمان کے چاند ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں اور حسب توفیق الٰہی ملک وملت کا نام روشن کررہے ہیں۔