عمر اثری
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 29، 2015
- پیغامات
- 4,404
- ری ایکشن اسکور
- 1,137
- پوائنٹ
- 412
ملت کی یہ بیٹیاں.......
ایم ودود ساجد
سول سروسز میں مسلمانوں کی تشویشناک حد تک کم نمائندگی کو بھی اکثر و بیشتر ہندوستانی مسلمانوں کے ایک بڑے مسئلہ کے طور پرپیش کیا جاتا ہے۔ ان کی آبادی کے تناسب سے اس مسئلہ کی شدت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ اگر مسلمانوں کی مجموعی آبادی 18 فیصد ہے تو سول سروسز میں ان کی نمائندگی محض دویا تین فیصد ہے۔ سول سروسز میں کلیدی طور پر آئی اے ایس ‘آئی پی ایس‘ آئی ایف ایس اور آئی آر ایس کے زمروں کی سروسز آتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی زمرے ہیں لیکن ملک کے اندرونی امور میں ان میں سے تین سروسز بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ایک سے زائد مرحلوں میں ان سروسز کا امتحان یونین پبلک سروسز کمیشن(یو پی ایس سی)کے ذریعہ منعقد ہوتا ہے۔ یوپی ایس سی کا طریقہ کار بظاہر انتہائی شفاف اور تعصب وامتیاز سے پاک سمجھا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے سول سروسز میں زیادہ سے زیادہ ( یا تناسب کی حد کے اندر ) درد مند مسلم نوجوانوں کا تقرر نسبتاً آسان ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر بیورو کریسی میں موجود مسلمان درد مندہوں گے تبھی وہ ان کے مسائل کے حل کا ذریعہ بن سکیں گے۔
آئیے اب کچھ دیر کے لئے اس موضوع کے دوسرے پہلو پر گفتگو کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں مختصر وقت کے لئے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں منعقد ایک نجی تنظیم کے پروگرام میں شرکت کا موقعہ ملا۔ اس پروگرام کا عنوان’ ایک شام شہیدوں کے نام‘ تھا۔ اس پروگرام میں راجستھان سے ایک نو عمر مسلم لڑکی فرح حسین کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ اس کے بارے میں پروگرام کے ناظم نے (جو خیر سے مولوی ہونے کے ساتھ ساتھ اردو صحافی بھی ہیں ) زور دے کر کہا کہ ’انہوں نے آئی اے ایس نکالا ہے‘۔ میں نے ناظم کے بیان کردہ الفاظ کو من وعن لکھا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جب اس ’’آئی اے ایس‘‘ لڑکی نے تقریر کی تو ضرورت سے زیادہ جوش میں آکر کہہ دیا کہ لوگ داڑھیاں رکھ لیتے ہیں اور ٹوپیاں لگالیتے ہیں لیکن اس کی آڑ میں کیا کیا کرتے ہیں۔ میں چونکہ اس موقع پر خود موجود نہیں تھا اس لئے لوگوں کے ذریعہ بیان کردہ سارے الفاظ یہاں نقل نہیں کروں گا۔ممکن ہے کہ الفاظ من وعن نہ ہوں۔ لیکن جو مفہوم مجھے باوثوق ذرائع نے نقل کیا وہ یہ تھا کہ فرح حسین نے داڑھی ٹوپی والوں کو خوب کھری کھوٹی سنائیں اور حد تو اس وقت ہوگئی کہ جب سامعین میں موجود نئی دہلی کی ایک جامع مسجدکے شریف النفس امام کی طرف اشارہ کرکے فرح حسین نے کہاکہ ’داڑھی تو ان کے بھی ہے‘ ہوسکتا ہے کہ یہ ایسے نہ ہوں‘۔ اس پر مولانا پروگرام سے خاموشی کے ساتھ اٹھ کر چلے گئے۔ ایک دو لوگوں نے سنا ہے کہ اعتراض بھی کیا لیکن نہ تو صاحب پروگرام نے اس کی گرفت کی اور نہ ہی ناظم پروگرام نے اس پر کچھ کہا۔ جب کہ خود ان دونوں کے چہرہ پر بھی داڑھی موجود ہے۔
فرح حسین نے وندے ماترم پر بھی اظہار خیال کیا اور کہا کہ ’ آخر اس کو پڑھنے گانے میں حرج کیا ہے۔ اگر دوسروں کو اس سے خوشی ملتی ہے تو ان کی خوشی کی خاطر وندے ماترم پڑھنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔آپ کے دل میں جو ہو اسے رکھئے لیکن ظاہر تو نہ کیجئے‘۔ انہوں نے بھارت ماتا کی جے کے نعرے کو بھی بے ضرر قرار دیا۔ یعنی انہیں مسلمانوں کے داڑھی رکھنے اور ٹوپی اوڑھنے میں تو خرابی نظر آئی لیکن بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگانے اور وندے ماترم گانے میں انہیں کوئی خرابی نظر نہیں آئی۔ مجھے افسوس ہوا کہ اس موقع پر اگر میں موجود ہوتا تو ضرورکچھ ردعمل ظاہر کرتا۔ میں کہتا کہ محترمہ زکوۃ فاؤنڈیشن کے جس خرچ پر آپ نے یوپی ایس سی کے انٹرویو کی تیاری کی وہ زکوۃ کی رقم سے کیا گیا تھا اور ان زکوۃ دہندگان میں سب ہی بے داڑھی تو نہ ہوں گے۔ کوئی تو داڑھی اور ٹوپی والا ہوگا۔خود اس تنظیم کے ہی بعض ارکان چہرے پر داڑھی اور سر پر ٹوپی رکھتے ہیں۔ میں ان سے کہتا کہ جس آزاد ہندوستان میں آپ نے جنم لیا اور جس میں آپ سانس لے رہی ہیں یہ بھی داڑھی والوں کی بدولت ہی ممکن ہوسکا۔ اس لئے کہ جدوجہد آزادی میں سب سے زیادہ قربانیاں ان داڑھی اور ٹوپی والوں نے ہی دی تھیں۔ میں کہتا کہ اگر آپ کو صرف یہ معلوم ہے کہ ملک کو گاندھی اور پٹیل نے آزاد کرایا تھا تو یہ بھی جان لیجئے کہ گاندھی کو مہاتما گاندھی ان داڑھی ٹوپی والوں نے ہی بنایا تھا جب جمعیۃ علماء ہند نے چندہ کرکے موہن داس کرم چند گاندھی کو تیس ملکوں کے سفر پر بھیجا تھا۔میں کہتا کہ اگر آپ کے والدین نے آپ کا نام فرح حسین رکھا تو یہ انہی داڑھی ٹوپی والوں کی بدولت رکھا۔ ورنہ آپ ہی کے (میو) علاقے میں آزادی کے بعد ایک طویل عرصہ تک مسلمانوں کے نام ’اقبال سنگھ‘ اور رام رکھا بھی ملے اور انہیں یہ تک معلوم نہ تھا کہ کلمہ کیا ہوتا ہے۔وہ صرف یہ جانتے تھے کہ وہ مسلمان ہیں اور یہ کہ ان کے ماں باپ بھی مسلمان تھے۔ انہیں نماز سے کوئی مطلب تھا اور نہ روزہ سے۔ سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے وہ ساری رسوم اختیار کر رکھی تھیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
میں یہ بھی کہتا کہ آپ سول سروینٹس کی جس برادری میں شامل ہوئی ہیں اس کے ایک سینئر فرد عامر سبحانی بھی اپنے چہرہ پر باشرع (ایک مشت سے بھی لمبی) داڑھی رکھے ہوئے ہیں اور اس وقت حکومت بہار کے داخلہ سیکریٹری ہیں۔ ذرا ان کے بارے میں بتائیے کیا خیال ہے۔ کیا وہ بھی ایسے ہی ہوں گے جیسے تمہاری نظر میں داڑھی والے ہوتے ہیں؟ پھر میں ان سے پوچھتا کہ اب یہ بتائیے کہ آپ کو کس داڑھی والے نے اتنا تنگ کیا کہ آپ نے سب کے بارے میں یہ رائے قائم کرلی اور آج پروگرام کا یہ موضوع نہ ہوتے ہوئے بھی آپ نے اسی کو موضوع بنالیا؟۔ ممکن ہے کہ کسی داڑھی والے سے انہیں کوئی تلخ تجربہ ہوا ہولیکن میں ان سے پوچھتا کہ اگر داڑھی رکھتے ہی انسان بدمعاش ہوجاتا ہے تو یہ بتائیے کہ دہلی کی سڑکوں پرچلتی بس میں نربھیا کی عصمت دری کرنے والے درندوں میں سے کس کے چہرہ پر داڑھی تھی؟ اور اگر ساری برائیوں کی جڑ یہ داڑھی ہی ہے تو داڑھی تو آپ کے وزیر اعظم کے چہرہ پر بھی ہے‘ ان کے بارے میں بھی کچھ ارشاد ہوجائے۔ یا آپ کو صرف مسلمانوں کے چہرہ پر ہی داڑھی بری لگتی ہے؟ یا یہ صرف مسلمان ہی ہے جو داڑھی رکھتے ہی بدمعاش بن جاتا ہے؟ کچھ تو وضاحت آپ کو اپنی اس یاوہ گوئی کی ضرور کرنی چاہئے۔
آئیے اب کچھ بات اعداد و شمار کی روشنی میں کرلی جائے۔ اس مرتبہ یوپی ایس سی نے کل 1078امیدواروں کا سلیکشن کیا ہے۔ ان میں سے آئی اے ایس کے زمرہ میں محض 91 اسامیاں تھیں لہذا ایک نمبر سے لے کر91 نمبر کے رینک تک آنے والے امیدواروں کو آئی اے ایس الاٹ کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس سے زائد رینک میں آنے والے جن مسلم امیدواروں کو آئی اے ایس ملا ہے وہ ریزرویشن والی کیٹگری کے ہیں۔ ان میں مسلمان صرف پانچ ہیں۔ ایک مسلم امیدوار نے بہر حال اپنی میرٹ سے دوسرا مقام حاصل کیا ہے۔ اسی طرح اس کے بعد 25 امیدواروں کو آئی ایف ایس اور 77 امیدواروں کو آئی پی ایس ملا ہے۔ اس کے بعد گروپ اے کی سروسز شروع ہوتی ہیں۔فرح حسین کا رینک 267ہے۔ یعنی نہ انہیں آئی اے ایس ملا‘نہ آئی ایف ایس اور نہ آئی پی ایس۔ لیکن ہمارے لوگ (بشمول داڑھی والے) انہیں سر پر اٹھائے پھر رہے ہیں کہ انہوں نے ’’آئی اے ایس نکالاہے‘‘۔ اور خود ان کا حال یہ ہے کہ انہیں داڑھی اور ٹوپی والے سے نہ صرف یہ کہ نفرت ہے بلکہ وہ داڑھی والوں کے ہی پروگرام میں اس نفرت کا اظہار علی الاعلان کر رہی ہیں۔ اب بتائیے کہ اگر سول سروسز میں مسلمانوں کے نام پر ایسے ہی امیدوار جانے لگے تو مسلمانوں کے مسائل پر انہیں کیا قلق ہوگا اور کیا ان کے حل سے انہیں دلچسپی ہوگی۔ہمیں یقین ہے کہ یوپی ایس سی میں ان سے داڑھی اور ٹوپی پر انٹرویو کے وقت کوئی سوال نہیں کیا گیا ہوگا لیکن اب جب ان کے حکام ان کے ان زریں خیالات سے واقف ہوں گے تو انہیں کیوں نہ نوازیں گے۔ اس وقت جو ادارے مسلم نوجوانوں کو سول سروسز کی تیاری کرا رہے ہیں وہ قابل قدر کام کر رہے ہیں۔ ان میں ہمدرد اسٹڈی سرکل ‘زکوۃ فاؤنڈیشن آف انڈیا‘ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ممبئی حج کمیٹی شامل ہیں۔ لیکن تیاری کے لئے ان اداروں کو جو وقت ملتا ہے اس میں ان مسلم نوجوانوں کے نظریات اور افکارکا جائزہ نہیں لیا جاسکتا۔ پھر اس مختصر وقت میں ان کے بگڑے ہوئے افکار کو درست کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ کام تو گھر سے ہوتا ہے اور والدین کی نگرانی میں ہوتا ہے۔کیا ہماری مسلم تنظیمیں اور علماء کی جماعتیں ان ’فرحاؤں‘ کے افکار کی خرابی کے نقصانات کا اندازہ رکھتی ہیں؟ بڑے بڑے جلسے جلوس اور کانفرنسوں کے ساتھ ساتھ اگر ہم اصلاح کے اس پہلو کی طرف بھی توجہ دیں تبھی سول سروسز میں مسلمانوں کی متناسب نمائندگی کی مہم کا کوئی فائدہ ہوگا۔ ورنہ ہمارے لئے تو ایسے ہی ’وہ‘ ہیں اور ایسی ہی یہ ’ فرحائیں ‘ ہیں۔جب مسلمانوں کے پروگراموں میں ان کی بدفکری کی یہ شدت ہے تو اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ’وہاں‘ ان کی شدت کیا ہوگی جہاں انہیں کوئی ٹوکنے والا نہ ہوگا بلکہ جہاں ان کی مزید حوصلہ افزائی کی جائے گی اور انہیں’ انعامات‘ سے سرفراز کیا جائے گا؟ہرچند کہ یہ مشکل ہے لیکن اگر تیاری کرانے والے مذکورہ ادارے بھی امیدواروں کے افکارکی ’جانچ‘ کے لئے کوئی طریقہ وضع کرلیں اور پھر جس امیدوار میں اصلاح کی گنجائش ہو اس کی اصلاح کا بھی کوئی سیشن منعقد کرادیں تو شاید اس کے اچھے اثرات برآمد ہوسکتے ہیں۔وندے ماترم کی دلداہ ’فرحاؤں‘ کو تیار کرکے بھیجنے سے بہتر تو میرے خیال میں یہی ہے کہ ایسے نوجوانوں پر ’جوا‘ نہ کھیلاجائے۔
آئیے اب کچھ دیر کے لئے اس موضوع کے دوسرے پہلو پر گفتگو کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں مختصر وقت کے لئے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں منعقد ایک نجی تنظیم کے پروگرام میں شرکت کا موقعہ ملا۔ اس پروگرام کا عنوان’ ایک شام شہیدوں کے نام‘ تھا۔ اس پروگرام میں راجستھان سے ایک نو عمر مسلم لڑکی فرح حسین کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ اس کے بارے میں پروگرام کے ناظم نے (جو خیر سے مولوی ہونے کے ساتھ ساتھ اردو صحافی بھی ہیں ) زور دے کر کہا کہ ’انہوں نے آئی اے ایس نکالا ہے‘۔ میں نے ناظم کے بیان کردہ الفاظ کو من وعن لکھا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جب اس ’’آئی اے ایس‘‘ لڑکی نے تقریر کی تو ضرورت سے زیادہ جوش میں آکر کہہ دیا کہ لوگ داڑھیاں رکھ لیتے ہیں اور ٹوپیاں لگالیتے ہیں لیکن اس کی آڑ میں کیا کیا کرتے ہیں۔ میں چونکہ اس موقع پر خود موجود نہیں تھا اس لئے لوگوں کے ذریعہ بیان کردہ سارے الفاظ یہاں نقل نہیں کروں گا۔ممکن ہے کہ الفاظ من وعن نہ ہوں۔ لیکن جو مفہوم مجھے باوثوق ذرائع نے نقل کیا وہ یہ تھا کہ فرح حسین نے داڑھی ٹوپی والوں کو خوب کھری کھوٹی سنائیں اور حد تو اس وقت ہوگئی کہ جب سامعین میں موجود نئی دہلی کی ایک جامع مسجدکے شریف النفس امام کی طرف اشارہ کرکے فرح حسین نے کہاکہ ’داڑھی تو ان کے بھی ہے‘ ہوسکتا ہے کہ یہ ایسے نہ ہوں‘۔ اس پر مولانا پروگرام سے خاموشی کے ساتھ اٹھ کر چلے گئے۔ ایک دو لوگوں نے سنا ہے کہ اعتراض بھی کیا لیکن نہ تو صاحب پروگرام نے اس کی گرفت کی اور نہ ہی ناظم پروگرام نے اس پر کچھ کہا۔ جب کہ خود ان دونوں کے چہرہ پر بھی داڑھی موجود ہے۔
فرح حسین نے وندے ماترم پر بھی اظہار خیال کیا اور کہا کہ ’ آخر اس کو پڑھنے گانے میں حرج کیا ہے۔ اگر دوسروں کو اس سے خوشی ملتی ہے تو ان کی خوشی کی خاطر وندے ماترم پڑھنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔آپ کے دل میں جو ہو اسے رکھئے لیکن ظاہر تو نہ کیجئے‘۔ انہوں نے بھارت ماتا کی جے کے نعرے کو بھی بے ضرر قرار دیا۔ یعنی انہیں مسلمانوں کے داڑھی رکھنے اور ٹوپی اوڑھنے میں تو خرابی نظر آئی لیکن بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگانے اور وندے ماترم گانے میں انہیں کوئی خرابی نظر نہیں آئی۔ مجھے افسوس ہوا کہ اس موقع پر اگر میں موجود ہوتا تو ضرورکچھ ردعمل ظاہر کرتا۔ میں کہتا کہ محترمہ زکوۃ فاؤنڈیشن کے جس خرچ پر آپ نے یوپی ایس سی کے انٹرویو کی تیاری کی وہ زکوۃ کی رقم سے کیا گیا تھا اور ان زکوۃ دہندگان میں سب ہی بے داڑھی تو نہ ہوں گے۔ کوئی تو داڑھی اور ٹوپی والا ہوگا۔خود اس تنظیم کے ہی بعض ارکان چہرے پر داڑھی اور سر پر ٹوپی رکھتے ہیں۔ میں ان سے کہتا کہ جس آزاد ہندوستان میں آپ نے جنم لیا اور جس میں آپ سانس لے رہی ہیں یہ بھی داڑھی والوں کی بدولت ہی ممکن ہوسکا۔ اس لئے کہ جدوجہد آزادی میں سب سے زیادہ قربانیاں ان داڑھی اور ٹوپی والوں نے ہی دی تھیں۔ میں کہتا کہ اگر آپ کو صرف یہ معلوم ہے کہ ملک کو گاندھی اور پٹیل نے آزاد کرایا تھا تو یہ بھی جان لیجئے کہ گاندھی کو مہاتما گاندھی ان داڑھی ٹوپی والوں نے ہی بنایا تھا جب جمعیۃ علماء ہند نے چندہ کرکے موہن داس کرم چند گاندھی کو تیس ملکوں کے سفر پر بھیجا تھا۔میں کہتا کہ اگر آپ کے والدین نے آپ کا نام فرح حسین رکھا تو یہ انہی داڑھی ٹوپی والوں کی بدولت رکھا۔ ورنہ آپ ہی کے (میو) علاقے میں آزادی کے بعد ایک طویل عرصہ تک مسلمانوں کے نام ’اقبال سنگھ‘ اور رام رکھا بھی ملے اور انہیں یہ تک معلوم نہ تھا کہ کلمہ کیا ہوتا ہے۔وہ صرف یہ جانتے تھے کہ وہ مسلمان ہیں اور یہ کہ ان کے ماں باپ بھی مسلمان تھے۔ انہیں نماز سے کوئی مطلب تھا اور نہ روزہ سے۔ سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے وہ ساری رسوم اختیار کر رکھی تھیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
میں یہ بھی کہتا کہ آپ سول سروینٹس کی جس برادری میں شامل ہوئی ہیں اس کے ایک سینئر فرد عامر سبحانی بھی اپنے چہرہ پر باشرع (ایک مشت سے بھی لمبی) داڑھی رکھے ہوئے ہیں اور اس وقت حکومت بہار کے داخلہ سیکریٹری ہیں۔ ذرا ان کے بارے میں بتائیے کیا خیال ہے۔ کیا وہ بھی ایسے ہی ہوں گے جیسے تمہاری نظر میں داڑھی والے ہوتے ہیں؟ پھر میں ان سے پوچھتا کہ اب یہ بتائیے کہ آپ کو کس داڑھی والے نے اتنا تنگ کیا کہ آپ نے سب کے بارے میں یہ رائے قائم کرلی اور آج پروگرام کا یہ موضوع نہ ہوتے ہوئے بھی آپ نے اسی کو موضوع بنالیا؟۔ ممکن ہے کہ کسی داڑھی والے سے انہیں کوئی تلخ تجربہ ہوا ہولیکن میں ان سے پوچھتا کہ اگر داڑھی رکھتے ہی انسان بدمعاش ہوجاتا ہے تو یہ بتائیے کہ دہلی کی سڑکوں پرچلتی بس میں نربھیا کی عصمت دری کرنے والے درندوں میں سے کس کے چہرہ پر داڑھی تھی؟ اور اگر ساری برائیوں کی جڑ یہ داڑھی ہی ہے تو داڑھی تو آپ کے وزیر اعظم کے چہرہ پر بھی ہے‘ ان کے بارے میں بھی کچھ ارشاد ہوجائے۔ یا آپ کو صرف مسلمانوں کے چہرہ پر ہی داڑھی بری لگتی ہے؟ یا یہ صرف مسلمان ہی ہے جو داڑھی رکھتے ہی بدمعاش بن جاتا ہے؟ کچھ تو وضاحت آپ کو اپنی اس یاوہ گوئی کی ضرور کرنی چاہئے۔
آئیے اب کچھ بات اعداد و شمار کی روشنی میں کرلی جائے۔ اس مرتبہ یوپی ایس سی نے کل 1078امیدواروں کا سلیکشن کیا ہے۔ ان میں سے آئی اے ایس کے زمرہ میں محض 91 اسامیاں تھیں لہذا ایک نمبر سے لے کر91 نمبر کے رینک تک آنے والے امیدواروں کو آئی اے ایس الاٹ کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس سے زائد رینک میں آنے والے جن مسلم امیدواروں کو آئی اے ایس ملا ہے وہ ریزرویشن والی کیٹگری کے ہیں۔ ان میں مسلمان صرف پانچ ہیں۔ ایک مسلم امیدوار نے بہر حال اپنی میرٹ سے دوسرا مقام حاصل کیا ہے۔ اسی طرح اس کے بعد 25 امیدواروں کو آئی ایف ایس اور 77 امیدواروں کو آئی پی ایس ملا ہے۔ اس کے بعد گروپ اے کی سروسز شروع ہوتی ہیں۔فرح حسین کا رینک 267ہے۔ یعنی نہ انہیں آئی اے ایس ملا‘نہ آئی ایف ایس اور نہ آئی پی ایس۔ لیکن ہمارے لوگ (بشمول داڑھی والے) انہیں سر پر اٹھائے پھر رہے ہیں کہ انہوں نے ’’آئی اے ایس نکالاہے‘‘۔ اور خود ان کا حال یہ ہے کہ انہیں داڑھی اور ٹوپی والے سے نہ صرف یہ کہ نفرت ہے بلکہ وہ داڑھی والوں کے ہی پروگرام میں اس نفرت کا اظہار علی الاعلان کر رہی ہیں۔ اب بتائیے کہ اگر سول سروسز میں مسلمانوں کے نام پر ایسے ہی امیدوار جانے لگے تو مسلمانوں کے مسائل پر انہیں کیا قلق ہوگا اور کیا ان کے حل سے انہیں دلچسپی ہوگی۔ہمیں یقین ہے کہ یوپی ایس سی میں ان سے داڑھی اور ٹوپی پر انٹرویو کے وقت کوئی سوال نہیں کیا گیا ہوگا لیکن اب جب ان کے حکام ان کے ان زریں خیالات سے واقف ہوں گے تو انہیں کیوں نہ نوازیں گے۔ اس وقت جو ادارے مسلم نوجوانوں کو سول سروسز کی تیاری کرا رہے ہیں وہ قابل قدر کام کر رہے ہیں۔ ان میں ہمدرد اسٹڈی سرکل ‘زکوۃ فاؤنڈیشن آف انڈیا‘ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ممبئی حج کمیٹی شامل ہیں۔ لیکن تیاری کے لئے ان اداروں کو جو وقت ملتا ہے اس میں ان مسلم نوجوانوں کے نظریات اور افکارکا جائزہ نہیں لیا جاسکتا۔ پھر اس مختصر وقت میں ان کے بگڑے ہوئے افکار کو درست کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ کام تو گھر سے ہوتا ہے اور والدین کی نگرانی میں ہوتا ہے۔کیا ہماری مسلم تنظیمیں اور علماء کی جماعتیں ان ’فرحاؤں‘ کے افکار کی خرابی کے نقصانات کا اندازہ رکھتی ہیں؟ بڑے بڑے جلسے جلوس اور کانفرنسوں کے ساتھ ساتھ اگر ہم اصلاح کے اس پہلو کی طرف بھی توجہ دیں تبھی سول سروسز میں مسلمانوں کی متناسب نمائندگی کی مہم کا کوئی فائدہ ہوگا۔ ورنہ ہمارے لئے تو ایسے ہی ’وہ‘ ہیں اور ایسی ہی یہ ’ فرحائیں ‘ ہیں۔جب مسلمانوں کے پروگراموں میں ان کی بدفکری کی یہ شدت ہے تو اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ’وہاں‘ ان کی شدت کیا ہوگی جہاں انہیں کوئی ٹوکنے والا نہ ہوگا بلکہ جہاں ان کی مزید حوصلہ افزائی کی جائے گی اور انہیں’ انعامات‘ سے سرفراز کیا جائے گا؟ہرچند کہ یہ مشکل ہے لیکن اگر تیاری کرانے والے مذکورہ ادارے بھی امیدواروں کے افکارکی ’جانچ‘ کے لئے کوئی طریقہ وضع کرلیں اور پھر جس امیدوار میں اصلاح کی گنجائش ہو اس کی اصلاح کا بھی کوئی سیشن منعقد کرادیں تو شاید اس کے اچھے اثرات برآمد ہوسکتے ہیں۔وندے ماترم کی دلداہ ’فرحاؤں‘ کو تیار کرکے بھیجنے سے بہتر تو میرے خیال میں یہی ہے کہ ایسے نوجوانوں پر ’جوا‘ نہ کھیلاجائے۔