ابوابراہیم فیصل
مبتدی
- شمولیت
- فروری 27، 2025
- پیغامات
- 13
- ری ایکشن اسکور
- 2
- پوائنٹ
- 5
میں نے اپنی تحریر میں یہ لکھا تھا " شر کو پیدا کرنے کے بعد اللہ نے شر سے بچنے کا حکم بھی دیا اب اگر کوئی ملحد شر کو خیر اور خیر کو شر بنا دے تو اس میں اللہ کا کیا قصور " ؟
ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہو گی کہ آخر ایسا ہوتا کیوں ہے ؟ اس کے لئے ہمیں ملحدین کے خیالات کا جائزہ لینا ہو گا ۔ ان کے خیالات و نظریات میں سے چند چیزیں میں یہاں درج کرتا ہوں ۔ جس سے اندازہ کیا جا سکے گا کہ ملحدین کے افکار کیا ہیں ۔
“We must continually remind ourselves that there is a difference between what is natural and what is actually good for us.”
― Sam Harris, The Moral Landscape: How Science Can Determine Human Values
سیم حارث کا کہنا ہے : " ہمیں اپنے آپ کو مسلسل ان کے درمیان فرق کی یاد دہانی کروانی چاہیئے کہ ہمارے لئے حقیقت میں کیا اچھا ہے اور فطرتی اور قدرتی کیا ہے ۔"
سیم حارث ملحدین کا امام ہے ۔ اگر اخلاقیات کے بارے میں اس کی اس سوچ کو مثبت انداز میں نقل کیا جائے تو یقینی طور پر ہر انسان کو سوچنا چاہیئے کہ ہمارے لئے کیا اچھا ہے ؟ لیکن کیا اس کا معیار ہم انسانی عقل کو ٹھہرائیں گے ؟ یا وحی الٰہی کو ؟ کیونکہ ہماری عقل تو ہمیں " سور کا گوشت " کھانے پر مجبور کر سکتی ہے ۔ ہماری عقل تو ہمیں پانی اور دودھ کی جگہ شراب کے استعمال پر مجبور کر سکتی ہے ۔ ہماری عقل انسانی صحت کے لئے ہر مہلک شے کو کھانے پینے کے لئے مجبور کر سکتی ہے ۔ عقل مایوسی میں ہمیں خودکشی کرنے پر مجبور کر سکتی ہے ۔ زہر کھانے پر مجبور کر سکتی ہے ۔ لالچ کی بنیاد پر کسی دوسرے انسان کا قتل کرنے پر مجبور کر سکتی ہے ۔
کسی پاک دامن عورت کو اپنے مفاد کے لئے داغدار کرنے کے لئے اس پر زنا کی تہمت لگانے پر مجبور کر سکتی ہے ۔ کسی مجبور انسان کی مدد کے بہانے اسے قرض دے کر اس سے سود پر بڑی رقم کھانے پر مجبور کر سکتی ہے ۔ ہمیں منافقت اور غداری پر مجبور کر سکتی ہے غرض ہر وہ گناہ جس سے کسی دوسرے کو نقصان پہنچ سکتا ہے اس کو اپنانے پر مجبور کر سکتی ہے ۔ انسانی عقل کا معیار بھی سیم حارث کی تحریر میں طے کیا گیا ہے ۔
“The fact that millions of people use the term "morality" as a synonym for religious dogmatism, racism, sexism, or other failures of insight and compassion should not oblige us to merely accept their terminology until the end of time.”
― Sam Harris, The Moral Landscape: How Science Can Determine Human Values
سیم حارث کا کہنا ہے : " "حقیقت یہ ہے کہ لاکھوں لوگ "اخلاقیات" کی اصطلاح کو مذہبی عقیدہ پرستی، نسل پرستی، جنس پرستی، یا بصیرت اور ہمدردی کی دیگر ناکامیوں کے مترادف کے طور پر استعمال کرتے ہیں، ہمیں کسی کو اس بات پر مجبور نہیں کرنا چاہیے کہ ہم ان کی اصطلاحات کو آخری وقت تک قبول کریں۔"
سیم حارث یہ کہنا چاہتا ہے کہ اس کائنات میں جتنی اخلاقی برائیائیوں کی جتنی ناکامیاں ہیں ان کو کسی صورت بھی مذہبی کامیابی تسلیم نہیں کرنا چاہیئے ۔ یا یوں کہیئے کہ وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ عقل پرستی قطعی طور پر اخلاقی برائیوں میں پائی جانے والی ناکامیوں کی ذمہ دار نہیں ہو سکتی ۔ یعنی اس طرح مان لیجیئے کہ عقل پرستوں نے کھبی بھی کسی اخلاقی نتیجے یعنی کامیابی یا ناکامی کی اصطلاح کو تسلیم ہی نہیں کیا ۔ یعنی اگر سیکولر معاشروں میں بھی " نسل پرستی " موجود ہے تو یہ کوئی ناکامی نہیں ۔ " ہم جنس پرستی موجود ہے تو یہ کوئی ناکامی نہیں ۔ کسی فلسفی کے قول سے کسی عام انسان کی اخلاقیات اور انسانی قدروں کو نقصان پہنچتا ہے تو یہ کوئی ناکامی نہیں ۔ اب ہم آگے بڑھتے ہیں۔
“A child is not a Christian child, not a Muslim child, but a child of Christian parents or a child of Muslim parents. This latter nomenclature, by the way, would be an excellent piece of consciousness-raising for the children themselves. A child who is told she is a 'child of Muslim parents' will immediately realize that religion is something for her to choose -or reject- when she becomes old enough to do so.”
― Richard Dawkins, The God Delusion
رچرڈ ڈاکن کا کہنا ہے کہ : کوئی بچہ عیسائی بچہ نہیں ہے ، مسلمان بچہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک مسلمان اور عیسائی والدین کا بچہ ہے ۔ یہ موخر الذکر پہچان حقیقت میں شعور کے لئے انکے اپنے بچوں کے لئے ایک بہترین جملہ ہو گا ، ایک بچہ جس کو یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ لڑکی ایک مسلمان والدین کی بچی ہے فوری طور پر اسے سوچنے پر مجبور کر دے گا کہ اسے قبول کرنا ہے یا چھوڑ دینا ہے جبکہ یہ سوچتے سوچتے وہ بوڑھی ہو چکی ہو گی ۔ "
یہاں پر" رچرڈ ڈاکنز " یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہے کہ انسانوں میں مذہبی تفریق نے انسانوں کو باہمی افزائش نسل یا تعلق داری اور قرابت داری سے روک رکھا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کو یہ سیکھایا جاتا ہے کہ فلاں لڑکا عیسائی والدین کا بچہ ہے یا فلاں لڑکی مسلمان والدین کی بچی ہے ۔ یہاں پر وہ ایک مغالطہ پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ مذہب کوئی چیز نہیں ہوتی اصل چیز انسانی عقل ہے ۔ جو اس کو اس کے فائدے یا نقصان کا انتخاب کر نے کے لئے مکمل آزاد رکھتی ہے ۔ یعنی یہاں پر بھی ملحدین کے اس امام نے خواہشات نفس کو مقدم رکھا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسان کو فطری طور پر آزاد پیدا کیا گیا ہے جبکہ اس کے والدین اس کو عیسائی یا مسلمان بناتے ہیں ۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا انسان واقعی فطری طور پر آزاد پیدا کیا گیا ہے ؟ اس سوال کا جواب ہے بالکل نہیں ۔ انسان فطری طور پر ہی " مطیع اور فرمانبردار " پیدا کیا گیا ہے ۔ یا یوں کہہ لیجیئے کہ انسان کو فطرت اسلام پر پیداکیا گیا ہے ۔ پہلے ہم چند اصول شریعہ سے اس کی وضاحت حاصل کر لیتے ہیں ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ كَمَثَلِ الْبَهِيمَةِ تُنْتَجُ الْبَهِيمَةَ هَلْ تَرَى فِيهَا جَدْعَاءَ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بچہ کی پیدائش فطرت اسلام پر ہوتی ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں بالکل اس طرح جیسے جانور کے بچے صحیح سالم ہوتے ہیں۔ کیا تم نے ( پیدائشی طورپر ) کوئی ان کے جسم کا حصہ کٹا ہوا دیکھا ہے۔ صحیح البخاری حدیث نمبر 1385
یہ دلیل کہ بچے آزاد پیدا ہوتے ہیں وہ کسی طور پر درست مانی ہی نہیں جا سکتی ۔ بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے ۔ اس وقت اس کے اندر شعور نہیں ہوتا تو اس کی خوراک کا انتظام اس کی ماں کے پیٹ کے اندر کر دیا جاتا ہے ۔ اگر ماں اپنی خوراک کم کر لے تو بچے کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے اور اگر ماں بالکل خوراک بند کر دے تو بچے کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے اگر دنیاوی اعتبار سے دیکھا جائے تو بچے کو مطیع و فرمانبردار بنانے کے لئے ماں کے پیٹ میں ہی ٹریننگ شروع کر دی جاتی ہے ۔ ملحدین سے سوال ہے کہ اگر بچہ فطری طور پر آزاد پیدا کیا گیا ہے تو اس کو ماں کے پیٹ میں ماں کی خوراک پر انحصار کیوں کرنا پڑتا ہے ؟ وہ اپنی خوراک کا بند و بست خود کیوں نہیں کرتا ؟ یہ بات درست ہے کہ بچے کی پیدائش بھی اس کے ماں باپ کے نظریات کی محتاج ہوتی ہے ۔ پیدائش کے بعد کی تربیت اس کو اس طرف لے جاتی ہے کہ وہ ان کا مذہب اختیار کرے ۔ لیکن اگر اس بات کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو ہمیں سمجھنا یہ ہے کہ وہ اپنی فطری ٹریننگ کے مطابق ماں باپ کا مطیع ہے ۔ یہ کہنا کہ بچہ آزاد پیدا ہوتا ہے یا ایسے نظریات ترتیب دینا جس کا معنی و مفہوم یہ بنے کہ بچہ فطری طور پر آزاد پیدا ہوتا ہے قطعی طور پر غیر منطقی اور غیر فطری ہے ۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، وَرَفَعَ الْحَدِيثَ، أَنَّهُ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ وَكَّلَ بِالرَّحِمِ مَلَكًا، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ نُطْفَةٌ؟ أَيْ رَبِّ عَلَقَةٌ؟ أَيْ رَبِّ مُضْغَةٌ؟ فَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَقْضِيَ خَلْقًا، قَالَ: قَالَ الْمَلَكُ: أَيْ رَبِّ ذَكَرٌ أَوْ أُنْثَى؟ شَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ؟ فَمَا الرِّزْقُ؟ فَمَا الْأَجَلُ؟ فَيُكْتَبُ كَذَلِكَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ ".
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے یہ حدیث مرفوعا بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اللہ عزوجل رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر کر دیتا ہے ، وہ کہتا ہے : اے میرے رب! ( اب ) یہ نطفہ ہے ، اے میرے رب! ( اب ) یہ علقہ ہے ، اے میرے رب! ( اب یہ مضغہ ہے ، پھر جب اللہ تعالیٰ اس کی ( انسان کی صورت میں ) تخلیق کا فیصلہ کرتا ہے تو انہوں نے کہا : فرشتہ کہتا ہے : اے میرے رب! مرد ہو یا عورت؟ بدبخت ہو یا خوش نصیب؟ رزق کتنا ہو گا؟ مدت عمر کتنی ہو گی؟ وہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اور اسی طرح ( سب کچھ ) لکھ لیا جاتا ہے ۔ " صحیح مسلم 6730
یعنی انسان کے پاس پیدائش کے وقت یہ علم نہیں ہوتا کہ وہ جنسی اعتبار پر مرد پیدا ہو گا یا عورت ۔ وہ کتنا رزق کمائے گا ؟ امیر ہو گا یا غریب ؟ اس کی عمر کتنی ہو گی ؟ اگر انسان فطری طور پر آزاد ہوتا تو یقینا کوئی انسان غریب پیدا نہ ہوتا ۔ عورت کی خواہش ہوتی کہ وہ مرد پیدا ہوتی اور مرد کی خواہش ہوتی کہ وہ عورت پیدا ہو ! انسان کا نصیب اچھا ہی ہو ۔ کوئی برائی اس تک نہ پہنچتی ۔ تقدیر کا یہی خاصہ ہے کہ اس کا علم اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ۔ ورنہ انسان کی آزادی اس کی اپنی عقل کے تابع ہوتی ۔ وہ اپنی تقدیر خود لکھتا ۔ وہ اپنے لئے وہ رزق کما پاتا جس کی چاہت اور لالچ اس میں موجود ہے ۔
وَعَسٰٓى اَنْ تَكْـرَهُوْا شَيْئًا وَّهُوَ خَيْـرٌ لَّكُمْ ۚ وَعَسٰٓى اَنْ تُحِبُّوْا شَيْئًا وَّهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَاللّـٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُـمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
اور ممکن ہے تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو، اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لیے مضر ہو، اور اللہ ہی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔سورہ البقرہ :216
سوال یہ ہے کہ یہ مغالطہ کس طرح انسانی ذہن میں شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے کہ جو انسانی عقل پسند کرتی ہے وہی درست ہوتا ہے اور جو انسانی عقل مسترد کرتی ہے وہی رد ہوتا ہے۔
“Faith can be very very dangerous, and deliberately to implant it into the vulnerable mind of an innocent child is a grievous wrong.”
― Richard Dawkins, The God Delusion
"ایمان بہت خطرناک ہو سکتا ہے، اور جان بوجھ کر اسے ایک معصوم بچے کے کمزور ذہن میں پیوند کرنا ایک سنگین غلطی ہے۔"
رچرڈ ڈاکنز کے مطابق بچوں میں ایمان پیدا کرنا ایک خطرناک چیز ہے ۔ ایک طرف ان ملحدین نے یہ شور مچایا ہوتا ہے کہ مذہب کا کاروبار خوف سے چلتا ہے ۔ اپنی تحریر و تقریر میں یہ ملحدین ریشنل تھنکنگ پر زور دیتے ہیں ۔ دوسری جانب ایمان کو خطرہ کہہ کر انسانی ذہن میں ایک خوف پیدا کرتے ہیں ؟ ایسا کیوں ؟ یہی وجہ ہے کہ ملحدین کی اخلاقیات کا معیار کسی نتیجہ خیز فلسفے پر ختم نہیں ہوتا ۔ ایک نظریہ جسے یہ خوف کی بدولت پھیلتا دیکھتے ہیں اور اس کا رد کرتے ہیں دوسری طرف اپنے نظریئےکے پھیلائو کے لئے یہ ملحدین خوف کا استعمال کرتے ہیں ! کیا یہ منافقت نہیں ہے ۔۔۔ یا پھر منافقت کو بھی آپ کسی اخلاقی معیار سے جدا کر کے غیر نتیجہ خیز تسلیم کرتے ہیں ۔ یعنی ایک مغالطہ ۔؟ ملحدین کا اخلاق انہیں دنیا میں تو جنت مہیا کرتا ہے ۔ زنا ، شراب ، بے حیائی ، موسیقی ، ہم جنس پرستی ، حرام معیشت سے دنیا کا بے پناہ نفع ۔ لیکن ان کے پاس اس خوف کے بدلے جس کو انسانی ذہن میں ڈال کر یہ ملحدین الحادی فکر کو عام کرتے ہیں کچھ بھی نہیں بچتا ۔
انسان کو اگر یہ خوف دلایا جاتا ہے کہ سود کھانا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف جنگ ہے ۔ تو دوسری جانب رزق حلال کمانے کی نہ صرف اجازت دی جاتی ہے بلکہ ایمان دار تاجر کو جنت میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہنے کی بشارت بھی سنائی گئی ہے ۔ جہاں پر ایک ایمان والے کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ زنا کے قریب بھی مت جائو۔ وہیں پر ایمان والوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ نکاح کرو ۔ زیادہ بچے جننے والی عورت سے نکاح کرو ۔ یعنی ایسی خاتون جو مطلقہ یا بیوہ ہو جائے اور اس کے بارے معلوم ہو کہ وہ افزائش نسل میں ایک صحت مند خاتون ہے ایمان والوں کے لئے اس خاتون سے نکاح پر حوصلہ افزائی کی گئی ہے ۔
ایمان گناہوں اور برائیوں سے بچنے کی ضمانت دیتا ہے جبکہ الحاد میں گناہ اور برائی کا سرے سے کوئی تصور ہی نہیں ۔ ایمان والے کی مثال گناہوں سے بچنے والے تقویٰ اختیار کرنے والے سے دی گئی ہے ۔
سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
((لا یزنی الزانی حین یزنی وہو مومن، ولا یسرق السارق حین یسرق وہو مومن، ولا یشرب الخمر حین یشربہا وہو مومن، ولا ینہب نہبۃ ذات شرف یرفع الناس إلیہ فیہا أبصارہم حین ینتہبہا وہو مومن۔))
’’زانی زنا کرتے وقت مومن نہیں ہوتا، چور چوری کرتے وقت مومن نہیں ہوتا، شرابی شراب نوشی کرتے وقت مومن نہیں ہوتا، اور لوٹنے والا جب کوئی ایسی قیمتی چیز لوٹتا ہے جس کی طرف لوگ نظریں اٹھا کر دیکھتے ہوں تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔ صحیح مسلم : 43‘‘
اس حدیث کے بعد اگر ہم یہ کہیں کہ ایمان اور الحادی نظریات کی جنگ فلسفہ خیر و شر کا مظہر ہے تو غلط نہ ہو گا ۔ ایک ایمان والا فاسق ہو جاتا ہے گناہ گار ہو جاتا ہے ۔ لیکن ایمان والے کے پاس تو توبہ /استغفار کا آپشن موجود ہے ۔ لیکن اگر ملحد ان برائیوں میں مبتلا ہو جائے اور عدالتوں میں اسے ریلیف کی ضرورت ہو تو کیا کرے گا ؟ یقینا وہ قوانین کی ان شقوں کو تلاش کرے گا جس سے وہ قوانین میں بتائی گئی سزائوں سے بچ سکے ۔ اگر وہ معاشرتی قوانین کو بھی مجبوری سمجھ کر مانتا ہے تو ان قوانین کے خلاف بغاوت کیوں نہیں کرتا ؟ ایسے حکمرانوں کے خلاف بندوق کیوں نہیں اٹھاتا جنہوں نے اسے چور ، شرابی اور زانی بننے سے روک رکھا ہے ۔ ان حکمرانوں کے بنائے قوانین کے خوف کا اطلاق تو اپنے نفس پر مجبورا کرنے کو تیار ہے ۔ لیکن خواہشات نفس کی پیروی کے لئے اچھائی اور برائی کو حلال اور حرام ماننے کو تیار نہیں ۔ گناہ و ثواب ماننے کو تیار نہیں ۔ آخر کیوں؟ ملحدین اور اہل ایمان میں فرق یہ ہے کہ وہ گناہ کو جرم نہیں سمجھتے ۔ اور کسی جرم کو قابل مواخذہ نہیں سمجھتے ۔ ان کا ماننا ہے کیونکہ انسان ایک جاندار ہے اس لئے وہ یہ سمجھتے ہیں جانور فطری طور پر کسی بھی برائی اور بھلائی کو انجام دیں ان کو اسکا نتیجہ نہیں ملتا ۔
ملحدین اپنے دنیاوی نفع اور نقصان کے معاملے میں بہت زیادہ خود غرض ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے انسانی جذبات و احساسات کو کسی صورت ایمان کی بنیاد پر نہیں پرکھا ہوتا ۔
“Let us try to teach generosity and altruism, because we are born selfish. Let us understand what our own selfish genes are up to, because we may then at least have the chance to upset their designs, something that no other species has ever aspired to do.”
― Richard Dawkins, The Selfish Gene
"آئیے ہم سخاوت اور پرہیزگاری سکھانے کی کوشش کریں، کیونکہ ہم خود غرض پیدا ہوئے ہیں۔ آئیے ہم یہ سمجھیں کہ ہمارے اپنے خودغرض جینز کیا ہیں، کیونکہ اس کے بعد ہمارے پاس کم از کم ان کے ڈیزائن کو خراب کرنے کا موقع مل سکتا ہے، ایسا کچھ جو کسی دوسری نسل نے کبھی کرنے کی خواہش نہیں کی۔"
رچرڈ ڈاکنز کی اس کوٹ سے آپ اندازا کریں کہ فلسفی انسان کو باغی بنانے میں کردار ادا کرتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ انسانی نفس اس مذہب کا رد کر دے جو انسانیت کے آغاز سے اس دنیا میں وجود میں آ گیا ۔
جس نے مختلف زبانیں بولنے والی مختلف اقوام تک اپنی رسائی حاصل کی اور قیامت تک کے لئے کامل و مکمل بھی کر دیا گیا ۔ یہ ان نظریات کو بدلنے کی بغاوت پیدا کرتے ہیں جن نظریات کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے پھیلایا تو ان کی دعوت کو اربوں انسانوں نے آج تک قبول کیا ، کر رہے ہیں اور آئندہ کرتے رہیں گے ۔
اِنَّ الَّـذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِىٓ اٰيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا ۗ اَفَمَنْ يُّلْقٰى فِى النَّارِ خَيْـرٌ اَمْ مَّنْ يَّاْتِـىٓ اٰمِنًا يَّوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُـمْ ۖ اِنَّهٝ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْـرٌ
بے شک جو لوگ ہماری آیتوں میں کجروی کرتے ہیں وہ ہم سے چھپے نہیں رہتے، کیا وہ شخص جو آگ میں ڈالا جائے گا بہتر ہے یا وہ جو قیامت کے دن امن سے آئے گا، جو چاہو کرو، جو کچھ تم کرتے ہو وہ دیکھ رہا ہے۔
سورہ فصلت : 40
باوجود اس کے لوگ اس کے حکموں میں کجروی کرتے ہیں پس سنو جو لوگ اللہ کے احکام میں کجروی کرتے ہیں یعنی بدنیتی سے ان کا مقابلہ کرتے ہیں اور ان پر غالب آنے کا خیال پکاتے ہیں وہ ہم سے مخفی نہیں ہم ان کو الٹا جہنم میں ڈالیں گے ان کی اس وقت کی حالت کو ملحوظ رکھ کر بتلائو کیا جو شخص قیامت کے روز آگ میں ڈالا جائے گا وہ بہتر ہوگا یا جو امن وامان سے پروردگار کے پاس آئے گا اور اپنے نیک اعمال کا بدلہ پائے گا کون دانا ہے جو پہلے شخص کو اچھا کہے بے شک دوسرا شخص ہی اچھا ہوگا پس تم سے اے منکرو ! جو چاہو عمل کرو بے شک وہ اللہ تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے (تفسیر ثنائی )
ڈاکنز کی کوٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ دین و مذہب کو بدلنے کی بغاوت انسان میں پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ اور دین کے خلاف جانا ہی اصل میں اللہ کی آیات میں الحاد یعنی کجروی ہے ۔ یعنی ان احکامات دینیہ کا انکار کرنا جس کی بنیاد پر انسان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا تابع ہو جاتا ہے ۔ہم یہاں پر ملحدین سے سوال کر سکتے ہیں کہ اگر ملحدین دین کو فرسودہ روایت سمجھتے ہیں اور یہ ان کا بنیادی حق ہے ۔ تو ایک مسلمان بعض سائنسی تھیوریز کو فرسودہ تصور کیوں نہیں کر سکتا ؟ ایک انسان اس بات کا انکار کرنے میں حق بجانب کیوں نہیں کہ وہ بندر کی اولاد نہیں بلکہ وہ سیدنا آدم علیہ السلام کی اولاد ہے ۔ وہ اپنا یہ عقیدہ رکھنے میں حق بجانب کیوں نہیں کہ سیدنا آدم علیہ اسلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا ۔ سیدنا آدم علیہ السلام وہ پہلے انسان تھے جن کو اللہ نے بولنا سیکھایا ۔ سیدنا آدم علیہ السلام نے جو سب سے پہلے الفاظ بولے وہ اللہ کی تعریف تھی یعنی "الحمدللہ" سیدنا آدم علیہ السلام کا رنگ گندمی تھا ۔ سیدنا آدم علیہ السلام کو اسم یعنی اشیاء کے نام یاتمام زبانوں کے اسم سیکھا دیئیے گئے یعنی جس اسم کے بغیر کسی لغت کا وجود محال ہے ۔ سیدنا آدم علیہ السلام سے نسل انسانی کا آغاز ہوا ۔ وہ پہلے نبی تھے ۔ ان کو اسلام کی ابتدائی تعلیمات سے آراستہ کیا گیا تاکہ وسیع پیمانے پر پھیلی ان کی اولاد کی رہنمائی ہو سکے ۔ جب کے اس کے برعکس ! وہ نظریہ جو ڈاکنز اور اس کے ماننے والوں نے دین سے بغاوت کر کے انسانیت کو دیا اس میں انسانیت کے نکتہ آغاز سے متعلق کوئی حتمی نتیجہ خیز با سند معلومات موجود ہی نہیں ۔ کہ پہلے مکمل انسان کا رنگ کیسا تھا ؟ اس نے کس زبان میں سب سے پہلے کیا لفظ بولے ۔ اس کا قد کتنا تھا ؟ وہ دنیا کے کس علاقے میں رہتا تھا ؟ وغیرہ ۔ محض مفروضوں اور قیاس آریائیوں کے علاوہ کچھ بچتا نہیں ۔ تو کیا اہل دین اہل ایمان حق رائے دہی، حق مذہب اور آزادی اظہار رائے کا حق رکھتے ہوئے اس بات میں حق بجانب نہیں کہ وہ کسی نتیجہ خیز علم کےماننے والے ہیں جنہیں کسی لا متناہی سلسلہ سوال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور اس وجہ سے وہ کسی شک و شبہ میں مبتلا نہیں ہوتے ؟
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الـدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَّذْكُوْرًا
انسان پر ضرور ایک ایسا زمانہ بھی آیا ہے کہ اس کا کہیں کچھ بھی ذکر نہ تھا۔
اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍۖ نَّبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنَاهُ سَـمِيْعًا بَصِيْـرًا
ے شک ہم نے انسان کو ایک مرکب بوند سے پیدا کیا، ہم اس کی آزمائش کرنا چاہتے تھے پس ہم نے اسے سننے والا دیکھنے والا بنا دیا۔
اِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا
بے شک ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، یا تو وہ شکر گزار ہے اور یا ناشکرا۔ سورہ الدھر : آیت 1 تا 3
ایک راستہ دیکھا دیا ۔ یا تو وہ مطیع بن جائے یا نا فرمان بن جائے ۔ اب اگر ایک ملحد نافرمانی کو بھی ایک " مغالطہ " کہہ دے ۔ تو فرمانبرداری تو بالاولیٰ مغالطہ ہو جائے گی ۔ اگر ملحدین اپنے شعور کر اتنا پیچھے لے جائیں کہ ان میں طاقت ہو کہ ان کا شعور مادہ منویہ میں چلا جائے اور پھر وہ اپنی باقیات تک پہنچنے کی کوشش بھی کر لے تو اس کے پاس اس کی نسل کے ان افراد تک پہنچنا لازم ہو جائے گا جو منوں مٹی ہو گئے ۔ اور یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ اس کائنات کے کسی انسان کے پاس کسی مردے کی شعوری حالت کو جانچنے کا پیمانہ موجود ہی نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو قرآن نے اس کی اوقات یاد دلائی ہے کہ تم پر ایک ایسا زمانہ گزرا کہ تمہارا کچھ بھی ذکر موجود نہ تھا ۔ کسی ملحد کو اس کے عدم کی کہانی معلوم نہیں ۔ اور تب تک معلوم نہیں ہوتی جب تک ان معدوم جسموں کی لکھی تاریخ سے اپنا ماضی نہ جان لیں کہ ان سے پہلے کیا گزرا جو منوں مٹی دب چکے ۔ عدم کو جاننے کی کشمکش کے لئے انسان پیدا ہی نہیں ہوا ۔ ملحدین سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ اللہ نے قرآن میں مرکب بوند سے پیدائش کا ذکر کر کے ہی کیوں فلسفہ آزمائش کا ذکر کیا ؟ یہ سوال کوئی چھوٹا سوال نہیں ہے ۔ ؟ ملحدین کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ انسان کی موجودہ پیدائش کا عمل مرد و عورت کے مادہ منویہ کے ملاپ کے بعد ہی ارتقائی منازل طے کرتا ہے ۔ اور انسان اسی وقت سے آزمائش کے لئے تیار کر دیا جاتا ہے ۔ اس کا رحم مادر سے پیدائش پانا ۔ ماں کی گود میں تربیت پانا ، سکول میں اساتذہ سے تربیت پانا ، کالج اور یونیورسٹی میں پروفیسرز سے تربیت پانا اور اس کے بعد معاشرے معیشت کمانے کے لئے کاروباری افراد اور تجربات سے تربیت پانا غرض لمحہ لمحہ علم کے حصول میں مبتلا رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کسی بھی موقع پر اتباع کے جذبے و احساس سے خالی رہتا ہی نہیں ۔ ورنہ انسان اس قد ر باغی ہو جاتا کہ وہ اس کائنات کی حدود سے باہر نکل جاتا اور انسان کو خدا کے وجود کے انکار پر ایسا حتمی شاہکار پیش کرتا کہ جمیع انسانیت اس دلیل پر کھڑی ہو جاتی اور مذہب کا وجود قرہ ارض سے ختم ہو جاتا ۔ حیرت و تشکیک کے سب پیمانے ختم ہو جاتے ہیں جب انسان عدم کے علم میں مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے ۔ پھر صرف سوچیں ، مفروضے اور قیاس آرائیاں رہ جاتی ہیں ۔ علم کے جن دریچوں سے بغاوت کر کے ان ملحدین نے اپنی عقل کو ترجیح وہ روز قیامت تک قائم و دائم رہنے والے ہیں ۔
يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْاۗ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍۚ
الرحمٰن : 33 اے جنوں اور انسانوں کے گروہ! اگر تم آسمانوں اور زمین کی حدود سے باہر نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ، تم بغیر زور کے نہ نکل سکو گے (اور وہ ہے نہیں)۔
آئیے ! اپنی عقل کو دین کے تابع کیجیئے ۔ اپنے سینے میں شکوک و شبہات کی بنائی گئی کمزور فصیلوں کو گرا دیجیئے ۔ حیرت و تشکیک سے نقل کر نتیجیت کی طرف آئیئے ۔ تاکہ آپ کی زندگی میں ٹھہرائو پیدا ہو ۔ اسلام قبول کیجیئے ۔ کیونکہ یہ بھی ایک مغالطہ ہے کہ آپ دلیل کو مغالطہ کہتے ہیں ۔ اپنی سوچ کی حدود کو اس دلیل تک لے جائیں جس دلیل نے تمام مذاہب و ادیان کو شکست دی اور وہ دلیل قرآن و حدیث کی شکل میں قیامت تک کے لئے غلبہ کی صورت میں قائم و دائم رہنے والی ہے ۔
ازقلم : عبدالسلام فیصل
ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہو گی کہ آخر ایسا ہوتا کیوں ہے ؟ اس کے لئے ہمیں ملحدین کے خیالات کا جائزہ لینا ہو گا ۔ ان کے خیالات و نظریات میں سے چند چیزیں میں یہاں درج کرتا ہوں ۔ جس سے اندازہ کیا جا سکے گا کہ ملحدین کے افکار کیا ہیں ۔
“We must continually remind ourselves that there is a difference between what is natural and what is actually good for us.”
― Sam Harris, The Moral Landscape: How Science Can Determine Human Values
سیم حارث کا کہنا ہے : " ہمیں اپنے آپ کو مسلسل ان کے درمیان فرق کی یاد دہانی کروانی چاہیئے کہ ہمارے لئے حقیقت میں کیا اچھا ہے اور فطرتی اور قدرتی کیا ہے ۔"
سیم حارث ملحدین کا امام ہے ۔ اگر اخلاقیات کے بارے میں اس کی اس سوچ کو مثبت انداز میں نقل کیا جائے تو یقینی طور پر ہر انسان کو سوچنا چاہیئے کہ ہمارے لئے کیا اچھا ہے ؟ لیکن کیا اس کا معیار ہم انسانی عقل کو ٹھہرائیں گے ؟ یا وحی الٰہی کو ؟ کیونکہ ہماری عقل تو ہمیں " سور کا گوشت " کھانے پر مجبور کر سکتی ہے ۔ ہماری عقل تو ہمیں پانی اور دودھ کی جگہ شراب کے استعمال پر مجبور کر سکتی ہے ۔ ہماری عقل انسانی صحت کے لئے ہر مہلک شے کو کھانے پینے کے لئے مجبور کر سکتی ہے ۔ عقل مایوسی میں ہمیں خودکشی کرنے پر مجبور کر سکتی ہے ۔ زہر کھانے پر مجبور کر سکتی ہے ۔ لالچ کی بنیاد پر کسی دوسرے انسان کا قتل کرنے پر مجبور کر سکتی ہے ۔
کسی پاک دامن عورت کو اپنے مفاد کے لئے داغدار کرنے کے لئے اس پر زنا کی تہمت لگانے پر مجبور کر سکتی ہے ۔ کسی مجبور انسان کی مدد کے بہانے اسے قرض دے کر اس سے سود پر بڑی رقم کھانے پر مجبور کر سکتی ہے ۔ ہمیں منافقت اور غداری پر مجبور کر سکتی ہے غرض ہر وہ گناہ جس سے کسی دوسرے کو نقصان پہنچ سکتا ہے اس کو اپنانے پر مجبور کر سکتی ہے ۔ انسانی عقل کا معیار بھی سیم حارث کی تحریر میں طے کیا گیا ہے ۔
“The fact that millions of people use the term "morality" as a synonym for religious dogmatism, racism, sexism, or other failures of insight and compassion should not oblige us to merely accept their terminology until the end of time.”
― Sam Harris, The Moral Landscape: How Science Can Determine Human Values
سیم حارث کا کہنا ہے : " "حقیقت یہ ہے کہ لاکھوں لوگ "اخلاقیات" کی اصطلاح کو مذہبی عقیدہ پرستی، نسل پرستی، جنس پرستی، یا بصیرت اور ہمدردی کی دیگر ناکامیوں کے مترادف کے طور پر استعمال کرتے ہیں، ہمیں کسی کو اس بات پر مجبور نہیں کرنا چاہیے کہ ہم ان کی اصطلاحات کو آخری وقت تک قبول کریں۔"
سیم حارث یہ کہنا چاہتا ہے کہ اس کائنات میں جتنی اخلاقی برائیائیوں کی جتنی ناکامیاں ہیں ان کو کسی صورت بھی مذہبی کامیابی تسلیم نہیں کرنا چاہیئے ۔ یا یوں کہیئے کہ وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ عقل پرستی قطعی طور پر اخلاقی برائیوں میں پائی جانے والی ناکامیوں کی ذمہ دار نہیں ہو سکتی ۔ یعنی اس طرح مان لیجیئے کہ عقل پرستوں نے کھبی بھی کسی اخلاقی نتیجے یعنی کامیابی یا ناکامی کی اصطلاح کو تسلیم ہی نہیں کیا ۔ یعنی اگر سیکولر معاشروں میں بھی " نسل پرستی " موجود ہے تو یہ کوئی ناکامی نہیں ۔ " ہم جنس پرستی موجود ہے تو یہ کوئی ناکامی نہیں ۔ کسی فلسفی کے قول سے کسی عام انسان کی اخلاقیات اور انسانی قدروں کو نقصان پہنچتا ہے تو یہ کوئی ناکامی نہیں ۔ اب ہم آگے بڑھتے ہیں۔
“A child is not a Christian child, not a Muslim child, but a child of Christian parents or a child of Muslim parents. This latter nomenclature, by the way, would be an excellent piece of consciousness-raising for the children themselves. A child who is told she is a 'child of Muslim parents' will immediately realize that religion is something for her to choose -or reject- when she becomes old enough to do so.”
― Richard Dawkins, The God Delusion
رچرڈ ڈاکن کا کہنا ہے کہ : کوئی بچہ عیسائی بچہ نہیں ہے ، مسلمان بچہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک مسلمان اور عیسائی والدین کا بچہ ہے ۔ یہ موخر الذکر پہچان حقیقت میں شعور کے لئے انکے اپنے بچوں کے لئے ایک بہترین جملہ ہو گا ، ایک بچہ جس کو یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ لڑکی ایک مسلمان والدین کی بچی ہے فوری طور پر اسے سوچنے پر مجبور کر دے گا کہ اسے قبول کرنا ہے یا چھوڑ دینا ہے جبکہ یہ سوچتے سوچتے وہ بوڑھی ہو چکی ہو گی ۔ "
یہاں پر" رچرڈ ڈاکنز " یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہے کہ انسانوں میں مذہبی تفریق نے انسانوں کو باہمی افزائش نسل یا تعلق داری اور قرابت داری سے روک رکھا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کو یہ سیکھایا جاتا ہے کہ فلاں لڑکا عیسائی والدین کا بچہ ہے یا فلاں لڑکی مسلمان والدین کی بچی ہے ۔ یہاں پر وہ ایک مغالطہ پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ مذہب کوئی چیز نہیں ہوتی اصل چیز انسانی عقل ہے ۔ جو اس کو اس کے فائدے یا نقصان کا انتخاب کر نے کے لئے مکمل آزاد رکھتی ہے ۔ یعنی یہاں پر بھی ملحدین کے اس امام نے خواہشات نفس کو مقدم رکھا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسان کو فطری طور پر آزاد پیدا کیا گیا ہے جبکہ اس کے والدین اس کو عیسائی یا مسلمان بناتے ہیں ۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا انسان واقعی فطری طور پر آزاد پیدا کیا گیا ہے ؟ اس سوال کا جواب ہے بالکل نہیں ۔ انسان فطری طور پر ہی " مطیع اور فرمانبردار " پیدا کیا گیا ہے ۔ یا یوں کہہ لیجیئے کہ انسان کو فطرت اسلام پر پیداکیا گیا ہے ۔ پہلے ہم چند اصول شریعہ سے اس کی وضاحت حاصل کر لیتے ہیں ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ كَمَثَلِ الْبَهِيمَةِ تُنْتَجُ الْبَهِيمَةَ هَلْ تَرَى فِيهَا جَدْعَاءَ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بچہ کی پیدائش فطرت اسلام پر ہوتی ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں بالکل اس طرح جیسے جانور کے بچے صحیح سالم ہوتے ہیں۔ کیا تم نے ( پیدائشی طورپر ) کوئی ان کے جسم کا حصہ کٹا ہوا دیکھا ہے۔ صحیح البخاری حدیث نمبر 1385
یہ دلیل کہ بچے آزاد پیدا ہوتے ہیں وہ کسی طور پر درست مانی ہی نہیں جا سکتی ۔ بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے ۔ اس وقت اس کے اندر شعور نہیں ہوتا تو اس کی خوراک کا انتظام اس کی ماں کے پیٹ کے اندر کر دیا جاتا ہے ۔ اگر ماں اپنی خوراک کم کر لے تو بچے کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے اور اگر ماں بالکل خوراک بند کر دے تو بچے کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے اگر دنیاوی اعتبار سے دیکھا جائے تو بچے کو مطیع و فرمانبردار بنانے کے لئے ماں کے پیٹ میں ہی ٹریننگ شروع کر دی جاتی ہے ۔ ملحدین سے سوال ہے کہ اگر بچہ فطری طور پر آزاد پیدا کیا گیا ہے تو اس کو ماں کے پیٹ میں ماں کی خوراک پر انحصار کیوں کرنا پڑتا ہے ؟ وہ اپنی خوراک کا بند و بست خود کیوں نہیں کرتا ؟ یہ بات درست ہے کہ بچے کی پیدائش بھی اس کے ماں باپ کے نظریات کی محتاج ہوتی ہے ۔ پیدائش کے بعد کی تربیت اس کو اس طرف لے جاتی ہے کہ وہ ان کا مذہب اختیار کرے ۔ لیکن اگر اس بات کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو ہمیں سمجھنا یہ ہے کہ وہ اپنی فطری ٹریننگ کے مطابق ماں باپ کا مطیع ہے ۔ یہ کہنا کہ بچہ آزاد پیدا ہوتا ہے یا ایسے نظریات ترتیب دینا جس کا معنی و مفہوم یہ بنے کہ بچہ فطری طور پر آزاد پیدا ہوتا ہے قطعی طور پر غیر منطقی اور غیر فطری ہے ۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، وَرَفَعَ الْحَدِيثَ، أَنَّهُ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ وَكَّلَ بِالرَّحِمِ مَلَكًا، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ نُطْفَةٌ؟ أَيْ رَبِّ عَلَقَةٌ؟ أَيْ رَبِّ مُضْغَةٌ؟ فَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَقْضِيَ خَلْقًا، قَالَ: قَالَ الْمَلَكُ: أَيْ رَبِّ ذَكَرٌ أَوْ أُنْثَى؟ شَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ؟ فَمَا الرِّزْقُ؟ فَمَا الْأَجَلُ؟ فَيُكْتَبُ كَذَلِكَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ ".
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے یہ حدیث مرفوعا بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اللہ عزوجل رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر کر دیتا ہے ، وہ کہتا ہے : اے میرے رب! ( اب ) یہ نطفہ ہے ، اے میرے رب! ( اب ) یہ علقہ ہے ، اے میرے رب! ( اب یہ مضغہ ہے ، پھر جب اللہ تعالیٰ اس کی ( انسان کی صورت میں ) تخلیق کا فیصلہ کرتا ہے تو انہوں نے کہا : فرشتہ کہتا ہے : اے میرے رب! مرد ہو یا عورت؟ بدبخت ہو یا خوش نصیب؟ رزق کتنا ہو گا؟ مدت عمر کتنی ہو گی؟ وہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اور اسی طرح ( سب کچھ ) لکھ لیا جاتا ہے ۔ " صحیح مسلم 6730
یعنی انسان کے پاس پیدائش کے وقت یہ علم نہیں ہوتا کہ وہ جنسی اعتبار پر مرد پیدا ہو گا یا عورت ۔ وہ کتنا رزق کمائے گا ؟ امیر ہو گا یا غریب ؟ اس کی عمر کتنی ہو گی ؟ اگر انسان فطری طور پر آزاد ہوتا تو یقینا کوئی انسان غریب پیدا نہ ہوتا ۔ عورت کی خواہش ہوتی کہ وہ مرد پیدا ہوتی اور مرد کی خواہش ہوتی کہ وہ عورت پیدا ہو ! انسان کا نصیب اچھا ہی ہو ۔ کوئی برائی اس تک نہ پہنچتی ۔ تقدیر کا یہی خاصہ ہے کہ اس کا علم اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ۔ ورنہ انسان کی آزادی اس کی اپنی عقل کے تابع ہوتی ۔ وہ اپنی تقدیر خود لکھتا ۔ وہ اپنے لئے وہ رزق کما پاتا جس کی چاہت اور لالچ اس میں موجود ہے ۔
وَعَسٰٓى اَنْ تَكْـرَهُوْا شَيْئًا وَّهُوَ خَيْـرٌ لَّكُمْ ۚ وَعَسٰٓى اَنْ تُحِبُّوْا شَيْئًا وَّهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَاللّـٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُـمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
اور ممکن ہے تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو، اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لیے مضر ہو، اور اللہ ہی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔سورہ البقرہ :216
سوال یہ ہے کہ یہ مغالطہ کس طرح انسانی ذہن میں شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے کہ جو انسانی عقل پسند کرتی ہے وہی درست ہوتا ہے اور جو انسانی عقل مسترد کرتی ہے وہی رد ہوتا ہے۔
“Faith can be very very dangerous, and deliberately to implant it into the vulnerable mind of an innocent child is a grievous wrong.”
― Richard Dawkins, The God Delusion
"ایمان بہت خطرناک ہو سکتا ہے، اور جان بوجھ کر اسے ایک معصوم بچے کے کمزور ذہن میں پیوند کرنا ایک سنگین غلطی ہے۔"
رچرڈ ڈاکنز کے مطابق بچوں میں ایمان پیدا کرنا ایک خطرناک چیز ہے ۔ ایک طرف ان ملحدین نے یہ شور مچایا ہوتا ہے کہ مذہب کا کاروبار خوف سے چلتا ہے ۔ اپنی تحریر و تقریر میں یہ ملحدین ریشنل تھنکنگ پر زور دیتے ہیں ۔ دوسری جانب ایمان کو خطرہ کہہ کر انسانی ذہن میں ایک خوف پیدا کرتے ہیں ؟ ایسا کیوں ؟ یہی وجہ ہے کہ ملحدین کی اخلاقیات کا معیار کسی نتیجہ خیز فلسفے پر ختم نہیں ہوتا ۔ ایک نظریہ جسے یہ خوف کی بدولت پھیلتا دیکھتے ہیں اور اس کا رد کرتے ہیں دوسری طرف اپنے نظریئےکے پھیلائو کے لئے یہ ملحدین خوف کا استعمال کرتے ہیں ! کیا یہ منافقت نہیں ہے ۔۔۔ یا پھر منافقت کو بھی آپ کسی اخلاقی معیار سے جدا کر کے غیر نتیجہ خیز تسلیم کرتے ہیں ۔ یعنی ایک مغالطہ ۔؟ ملحدین کا اخلاق انہیں دنیا میں تو جنت مہیا کرتا ہے ۔ زنا ، شراب ، بے حیائی ، موسیقی ، ہم جنس پرستی ، حرام معیشت سے دنیا کا بے پناہ نفع ۔ لیکن ان کے پاس اس خوف کے بدلے جس کو انسانی ذہن میں ڈال کر یہ ملحدین الحادی فکر کو عام کرتے ہیں کچھ بھی نہیں بچتا ۔
انسان کو اگر یہ خوف دلایا جاتا ہے کہ سود کھانا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف جنگ ہے ۔ تو دوسری جانب رزق حلال کمانے کی نہ صرف اجازت دی جاتی ہے بلکہ ایمان دار تاجر کو جنت میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہنے کی بشارت بھی سنائی گئی ہے ۔ جہاں پر ایک ایمان والے کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ زنا کے قریب بھی مت جائو۔ وہیں پر ایمان والوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ نکاح کرو ۔ زیادہ بچے جننے والی عورت سے نکاح کرو ۔ یعنی ایسی خاتون جو مطلقہ یا بیوہ ہو جائے اور اس کے بارے معلوم ہو کہ وہ افزائش نسل میں ایک صحت مند خاتون ہے ایمان والوں کے لئے اس خاتون سے نکاح پر حوصلہ افزائی کی گئی ہے ۔
ایمان گناہوں اور برائیوں سے بچنے کی ضمانت دیتا ہے جبکہ الحاد میں گناہ اور برائی کا سرے سے کوئی تصور ہی نہیں ۔ ایمان والے کی مثال گناہوں سے بچنے والے تقویٰ اختیار کرنے والے سے دی گئی ہے ۔
سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
((لا یزنی الزانی حین یزنی وہو مومن، ولا یسرق السارق حین یسرق وہو مومن، ولا یشرب الخمر حین یشربہا وہو مومن، ولا ینہب نہبۃ ذات شرف یرفع الناس إلیہ فیہا أبصارہم حین ینتہبہا وہو مومن۔))
’’زانی زنا کرتے وقت مومن نہیں ہوتا، چور چوری کرتے وقت مومن نہیں ہوتا، شرابی شراب نوشی کرتے وقت مومن نہیں ہوتا، اور لوٹنے والا جب کوئی ایسی قیمتی چیز لوٹتا ہے جس کی طرف لوگ نظریں اٹھا کر دیکھتے ہوں تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔ صحیح مسلم : 43‘‘
اس حدیث کے بعد اگر ہم یہ کہیں کہ ایمان اور الحادی نظریات کی جنگ فلسفہ خیر و شر کا مظہر ہے تو غلط نہ ہو گا ۔ ایک ایمان والا فاسق ہو جاتا ہے گناہ گار ہو جاتا ہے ۔ لیکن ایمان والے کے پاس تو توبہ /استغفار کا آپشن موجود ہے ۔ لیکن اگر ملحد ان برائیوں میں مبتلا ہو جائے اور عدالتوں میں اسے ریلیف کی ضرورت ہو تو کیا کرے گا ؟ یقینا وہ قوانین کی ان شقوں کو تلاش کرے گا جس سے وہ قوانین میں بتائی گئی سزائوں سے بچ سکے ۔ اگر وہ معاشرتی قوانین کو بھی مجبوری سمجھ کر مانتا ہے تو ان قوانین کے خلاف بغاوت کیوں نہیں کرتا ؟ ایسے حکمرانوں کے خلاف بندوق کیوں نہیں اٹھاتا جنہوں نے اسے چور ، شرابی اور زانی بننے سے روک رکھا ہے ۔ ان حکمرانوں کے بنائے قوانین کے خوف کا اطلاق تو اپنے نفس پر مجبورا کرنے کو تیار ہے ۔ لیکن خواہشات نفس کی پیروی کے لئے اچھائی اور برائی کو حلال اور حرام ماننے کو تیار نہیں ۔ گناہ و ثواب ماننے کو تیار نہیں ۔ آخر کیوں؟ ملحدین اور اہل ایمان میں فرق یہ ہے کہ وہ گناہ کو جرم نہیں سمجھتے ۔ اور کسی جرم کو قابل مواخذہ نہیں سمجھتے ۔ ان کا ماننا ہے کیونکہ انسان ایک جاندار ہے اس لئے وہ یہ سمجھتے ہیں جانور فطری طور پر کسی بھی برائی اور بھلائی کو انجام دیں ان کو اسکا نتیجہ نہیں ملتا ۔
ملحدین اپنے دنیاوی نفع اور نقصان کے معاملے میں بہت زیادہ خود غرض ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے انسانی جذبات و احساسات کو کسی صورت ایمان کی بنیاد پر نہیں پرکھا ہوتا ۔
“Let us try to teach generosity and altruism, because we are born selfish. Let us understand what our own selfish genes are up to, because we may then at least have the chance to upset their designs, something that no other species has ever aspired to do.”
― Richard Dawkins, The Selfish Gene
"آئیے ہم سخاوت اور پرہیزگاری سکھانے کی کوشش کریں، کیونکہ ہم خود غرض پیدا ہوئے ہیں۔ آئیے ہم یہ سمجھیں کہ ہمارے اپنے خودغرض جینز کیا ہیں، کیونکہ اس کے بعد ہمارے پاس کم از کم ان کے ڈیزائن کو خراب کرنے کا موقع مل سکتا ہے، ایسا کچھ جو کسی دوسری نسل نے کبھی کرنے کی خواہش نہیں کی۔"
رچرڈ ڈاکنز کی اس کوٹ سے آپ اندازا کریں کہ فلسفی انسان کو باغی بنانے میں کردار ادا کرتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ انسانی نفس اس مذہب کا رد کر دے جو انسانیت کے آغاز سے اس دنیا میں وجود میں آ گیا ۔
جس نے مختلف زبانیں بولنے والی مختلف اقوام تک اپنی رسائی حاصل کی اور قیامت تک کے لئے کامل و مکمل بھی کر دیا گیا ۔ یہ ان نظریات کو بدلنے کی بغاوت پیدا کرتے ہیں جن نظریات کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے پھیلایا تو ان کی دعوت کو اربوں انسانوں نے آج تک قبول کیا ، کر رہے ہیں اور آئندہ کرتے رہیں گے ۔
اِنَّ الَّـذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِىٓ اٰيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا ۗ اَفَمَنْ يُّلْقٰى فِى النَّارِ خَيْـرٌ اَمْ مَّنْ يَّاْتِـىٓ اٰمِنًا يَّوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُـمْ ۖ اِنَّهٝ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْـرٌ
بے شک جو لوگ ہماری آیتوں میں کجروی کرتے ہیں وہ ہم سے چھپے نہیں رہتے، کیا وہ شخص جو آگ میں ڈالا جائے گا بہتر ہے یا وہ جو قیامت کے دن امن سے آئے گا، جو چاہو کرو، جو کچھ تم کرتے ہو وہ دیکھ رہا ہے۔
سورہ فصلت : 40
باوجود اس کے لوگ اس کے حکموں میں کجروی کرتے ہیں پس سنو جو لوگ اللہ کے احکام میں کجروی کرتے ہیں یعنی بدنیتی سے ان کا مقابلہ کرتے ہیں اور ان پر غالب آنے کا خیال پکاتے ہیں وہ ہم سے مخفی نہیں ہم ان کو الٹا جہنم میں ڈالیں گے ان کی اس وقت کی حالت کو ملحوظ رکھ کر بتلائو کیا جو شخص قیامت کے روز آگ میں ڈالا جائے گا وہ بہتر ہوگا یا جو امن وامان سے پروردگار کے پاس آئے گا اور اپنے نیک اعمال کا بدلہ پائے گا کون دانا ہے جو پہلے شخص کو اچھا کہے بے شک دوسرا شخص ہی اچھا ہوگا پس تم سے اے منکرو ! جو چاہو عمل کرو بے شک وہ اللہ تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے (تفسیر ثنائی )
ڈاکنز کی کوٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ دین و مذہب کو بدلنے کی بغاوت انسان میں پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ اور دین کے خلاف جانا ہی اصل میں اللہ کی آیات میں الحاد یعنی کجروی ہے ۔ یعنی ان احکامات دینیہ کا انکار کرنا جس کی بنیاد پر انسان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا تابع ہو جاتا ہے ۔ہم یہاں پر ملحدین سے سوال کر سکتے ہیں کہ اگر ملحدین دین کو فرسودہ روایت سمجھتے ہیں اور یہ ان کا بنیادی حق ہے ۔ تو ایک مسلمان بعض سائنسی تھیوریز کو فرسودہ تصور کیوں نہیں کر سکتا ؟ ایک انسان اس بات کا انکار کرنے میں حق بجانب کیوں نہیں کہ وہ بندر کی اولاد نہیں بلکہ وہ سیدنا آدم علیہ السلام کی اولاد ہے ۔ وہ اپنا یہ عقیدہ رکھنے میں حق بجانب کیوں نہیں کہ سیدنا آدم علیہ اسلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا ۔ سیدنا آدم علیہ السلام وہ پہلے انسان تھے جن کو اللہ نے بولنا سیکھایا ۔ سیدنا آدم علیہ السلام نے جو سب سے پہلے الفاظ بولے وہ اللہ کی تعریف تھی یعنی "الحمدللہ" سیدنا آدم علیہ السلام کا رنگ گندمی تھا ۔ سیدنا آدم علیہ السلام کو اسم یعنی اشیاء کے نام یاتمام زبانوں کے اسم سیکھا دیئیے گئے یعنی جس اسم کے بغیر کسی لغت کا وجود محال ہے ۔ سیدنا آدم علیہ السلام سے نسل انسانی کا آغاز ہوا ۔ وہ پہلے نبی تھے ۔ ان کو اسلام کی ابتدائی تعلیمات سے آراستہ کیا گیا تاکہ وسیع پیمانے پر پھیلی ان کی اولاد کی رہنمائی ہو سکے ۔ جب کے اس کے برعکس ! وہ نظریہ جو ڈاکنز اور اس کے ماننے والوں نے دین سے بغاوت کر کے انسانیت کو دیا اس میں انسانیت کے نکتہ آغاز سے متعلق کوئی حتمی نتیجہ خیز با سند معلومات موجود ہی نہیں ۔ کہ پہلے مکمل انسان کا رنگ کیسا تھا ؟ اس نے کس زبان میں سب سے پہلے کیا لفظ بولے ۔ اس کا قد کتنا تھا ؟ وہ دنیا کے کس علاقے میں رہتا تھا ؟ وغیرہ ۔ محض مفروضوں اور قیاس آریائیوں کے علاوہ کچھ بچتا نہیں ۔ تو کیا اہل دین اہل ایمان حق رائے دہی، حق مذہب اور آزادی اظہار رائے کا حق رکھتے ہوئے اس بات میں حق بجانب نہیں کہ وہ کسی نتیجہ خیز علم کےماننے والے ہیں جنہیں کسی لا متناہی سلسلہ سوال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور اس وجہ سے وہ کسی شک و شبہ میں مبتلا نہیں ہوتے ؟
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الـدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَّذْكُوْرًا
انسان پر ضرور ایک ایسا زمانہ بھی آیا ہے کہ اس کا کہیں کچھ بھی ذکر نہ تھا۔
اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍۖ نَّبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنَاهُ سَـمِيْعًا بَصِيْـرًا
ے شک ہم نے انسان کو ایک مرکب بوند سے پیدا کیا، ہم اس کی آزمائش کرنا چاہتے تھے پس ہم نے اسے سننے والا دیکھنے والا بنا دیا۔
اِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا
بے شک ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، یا تو وہ شکر گزار ہے اور یا ناشکرا۔ سورہ الدھر : آیت 1 تا 3
ایک راستہ دیکھا دیا ۔ یا تو وہ مطیع بن جائے یا نا فرمان بن جائے ۔ اب اگر ایک ملحد نافرمانی کو بھی ایک " مغالطہ " کہہ دے ۔ تو فرمانبرداری تو بالاولیٰ مغالطہ ہو جائے گی ۔ اگر ملحدین اپنے شعور کر اتنا پیچھے لے جائیں کہ ان میں طاقت ہو کہ ان کا شعور مادہ منویہ میں چلا جائے اور پھر وہ اپنی باقیات تک پہنچنے کی کوشش بھی کر لے تو اس کے پاس اس کی نسل کے ان افراد تک پہنچنا لازم ہو جائے گا جو منوں مٹی ہو گئے ۔ اور یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ اس کائنات کے کسی انسان کے پاس کسی مردے کی شعوری حالت کو جانچنے کا پیمانہ موجود ہی نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو قرآن نے اس کی اوقات یاد دلائی ہے کہ تم پر ایک ایسا زمانہ گزرا کہ تمہارا کچھ بھی ذکر موجود نہ تھا ۔ کسی ملحد کو اس کے عدم کی کہانی معلوم نہیں ۔ اور تب تک معلوم نہیں ہوتی جب تک ان معدوم جسموں کی لکھی تاریخ سے اپنا ماضی نہ جان لیں کہ ان سے پہلے کیا گزرا جو منوں مٹی دب چکے ۔ عدم کو جاننے کی کشمکش کے لئے انسان پیدا ہی نہیں ہوا ۔ ملحدین سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ اللہ نے قرآن میں مرکب بوند سے پیدائش کا ذکر کر کے ہی کیوں فلسفہ آزمائش کا ذکر کیا ؟ یہ سوال کوئی چھوٹا سوال نہیں ہے ۔ ؟ ملحدین کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ انسان کی موجودہ پیدائش کا عمل مرد و عورت کے مادہ منویہ کے ملاپ کے بعد ہی ارتقائی منازل طے کرتا ہے ۔ اور انسان اسی وقت سے آزمائش کے لئے تیار کر دیا جاتا ہے ۔ اس کا رحم مادر سے پیدائش پانا ۔ ماں کی گود میں تربیت پانا ، سکول میں اساتذہ سے تربیت پانا ، کالج اور یونیورسٹی میں پروفیسرز سے تربیت پانا اور اس کے بعد معاشرے معیشت کمانے کے لئے کاروباری افراد اور تجربات سے تربیت پانا غرض لمحہ لمحہ علم کے حصول میں مبتلا رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کسی بھی موقع پر اتباع کے جذبے و احساس سے خالی رہتا ہی نہیں ۔ ورنہ انسان اس قد ر باغی ہو جاتا کہ وہ اس کائنات کی حدود سے باہر نکل جاتا اور انسان کو خدا کے وجود کے انکار پر ایسا حتمی شاہکار پیش کرتا کہ جمیع انسانیت اس دلیل پر کھڑی ہو جاتی اور مذہب کا وجود قرہ ارض سے ختم ہو جاتا ۔ حیرت و تشکیک کے سب پیمانے ختم ہو جاتے ہیں جب انسان عدم کے علم میں مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے ۔ پھر صرف سوچیں ، مفروضے اور قیاس آرائیاں رہ جاتی ہیں ۔ علم کے جن دریچوں سے بغاوت کر کے ان ملحدین نے اپنی عقل کو ترجیح وہ روز قیامت تک قائم و دائم رہنے والے ہیں ۔
يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْاۗ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍۚ
الرحمٰن : 33 اے جنوں اور انسانوں کے گروہ! اگر تم آسمانوں اور زمین کی حدود سے باہر نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ، تم بغیر زور کے نہ نکل سکو گے (اور وہ ہے نہیں)۔
آئیے ! اپنی عقل کو دین کے تابع کیجیئے ۔ اپنے سینے میں شکوک و شبہات کی بنائی گئی کمزور فصیلوں کو گرا دیجیئے ۔ حیرت و تشکیک سے نقل کر نتیجیت کی طرف آئیئے ۔ تاکہ آپ کی زندگی میں ٹھہرائو پیدا ہو ۔ اسلام قبول کیجیئے ۔ کیونکہ یہ بھی ایک مغالطہ ہے کہ آپ دلیل کو مغالطہ کہتے ہیں ۔ اپنی سوچ کی حدود کو اس دلیل تک لے جائیں جس دلیل نے تمام مذاہب و ادیان کو شکست دی اور وہ دلیل قرآن و حدیث کی شکل میں قیامت تک کے لئے غلبہ کی صورت میں قائم و دائم رہنے والی ہے ۔
ازقلم : عبدالسلام فیصل