کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
"ملّا کی گالیاں" اسلام خطرے میں
روزنامہ پاکستان، 30 مارچ 2016 شاہد نذیر چوھدری
ہاتھوں میں راڈ اٹھائے چند نوجوان ملاّ حضرات وزیر اعظم نواز شریف اور انکے اہل خانہ کو انتہائی گندی گالیاں دیتے ہوئے بڑے فخر کا اظہار کر رہے تھے۔
ایک معتبر عالم دین علامہ طاہر القادری کو دوسرے علمائے دین کی موجودگی میں مغلظات سے نواز رہے تھے۔
ایک دوست نے مجھے کچھ وڈیوز کلپس بھیجے تھے جن میں سے صرف دو کے متعلق ہی اشارے دے رہا ہوں، باقی ویڈیوز کلپس اس سے بھی زیادہ افسوسناک اورشرمناک صورتحال کی عکاسی کررہے تھے۔ اس دوست کا کہنا تھا کہ آپ مذہبی کردار کی بہت حمایت کرتے ہیں ذرا اپنے لوگوں کو دیکھیں کہ وہ اسلام کی کیا تصویر پیش کر رہے ہیں۔
دوستو، اسلام کو یہود و نصاریٰ سے خطرات بجا، لیکن جب دین اسلام سے جڑے لوگ ہی اسلامی تعلیمات کے منافی حرکتیں کرنے پر اتر آئیں تو اسلام کا تشخص زیادہ خراب ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں بالخصوص مذہبی لوگوں میں عدم برداشت کی شرح بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اختلاف رائے پر دوسروں کو کافر اور انتہائی غلیظ گالیاں دینا عام رواج بن گیا ہے لہٰذا جب مسلمانوں کا ذاتی کردار اور اخلاق گراوٹ کا شکار ہو جائے تو لامحالہ غیر مسلموں، روشن خیالوں اور ملحدین کو تنقید کر کے کھلا کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ کسی مسلمان کے ذاتی کردار کو اسلام پر تھوپ دیتے اور دین کی تعلیمات کے بارے میں بدگمانی پیدا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک عام باریش نوجوان یا بوڑھا بھی ایسی معیوب اور غیر اخلاقی گفتگو کرتا نظر آئے تو اس بنا پراسے سخت ملامت کی جاتی ہے کہ وہ داڑھی رکھ کر ایسا گھٹیا کام کر رہا ہے جس سے ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ عام داڑھی والے مسلمان سے معاشرہ کیا توقع رکھتا ہے لیکن دین سے جڑے لوگوں سے ہماری توقعات اس سے بھی زیادہ ہوتی ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ وہ کسی جگہ بھی اور کسی بھی موقع پر گالی گلوچ کرتے یا بے وجہ مارکٹائی کرتے نظر آئیں۔ کیونکہ انکے اس فعل کو مسلمانوں کے مجموعی اخلاق کی پستی قرار دے دیا جاتا ہے۔ لہذا دین کی تعلیم رکھنے والا، مدارس کا تعلیم یافتہ، چاہے کم پڑھا ہو یا زیادہ یا پھر فقہ کی مکمل تعلیم رکھنے والا ایک عالم دین جب اختلاف رکھنے والے کسی مذہبی رہنما، سیاستدان یا مقتدر شخصیات کو ننگی گالیاں دیتا نظر آئے گا تو اسلام پر گہری زد پڑے گی۔ دین سے جڑے لوگ مذہب و دین کی پہچان ہوتے ہیں اور دنیا انکے روّیوں سے ہماری تعلیم وتربیت کا اندازہ لگاتی ہے۔ اس حوالے سے علماء حضرات کا اصلاحی کردار بہت محدود ہے۔ ان سے جب گفتگو ہوتی ہے اور انہیں ایسے ویڈیوز کلپ دکھائے جاتے ہیں جس میں کئی نامور دینی رہنما اور ملاّ حضرات انتہائی غلیظ گالیاں دیتے نظر آتے ہیں تو شرمندگی سے ان کے سر جھک جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں مسلمان بھائی ہی کو نہیں غیر مسلموں کو بھی گالیاں دینا، دشنام طرازی کرنا حرام ہے اور اللہ اور رسول اللہﷺ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔
اس بارے میں جب نرم خو اہل علم علماء سے کہا جاتا ہے کہ وہ گالیاں بکنے والے ملاّ حضرات کو بُرے فعل سے کیوں نہیں روکتے تو اس پر وہ اپنا دامن بچاتے ہوئے برملا کہتے ہیں کہ ”یہ مٹھی بھر لوگ ہیں جو تماشا لگانے کے لوگوں کو بھڑکانے کے لئے غلیظ زبان استعمال کرتے ہیں۔ ہم ان کے فعل کے ذمہ دار نہیں، وہ اللہ سے سزا پائیں گے۔ ہم نے انہیں منع کیا تو ہمارے کپڑوں پر گند پھینکیں گے۔“ لیکن افسوس کہ ہمارے اہل علم مفتیان و علماء حضرات اپنے دامن کو بچانے کی فکر میں اسلام کی قباکو تارتار اور گندہ کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر گالیاں دینے والے ملّا حضرات کی سینکڑوں ویڈیوزگردش کرتی رہتی ہیں، ان کے نیچے دیئے ریمارکس کو پڑھنے سے اس بات کی سنگینی کا احساس لگایا جا سکتا ہے کہ عام پاکستانی کے دل میں ملّا حضرات کے بارے میں کتنی نفرت بڑھ جاتی ہے اور وہ نفیس طبع علماء و ملّا کو بھی رگیدنے لگتے ہیں۔ اس موقع پر دین سے متنفر لوگوں کو موقع مل جاتا ہے اور وہ عام مسلمانوں کو دینی رہنماﺅں سے بدگمان کرنے لگ جاتے ہیں۔ ظاہر ہے جب ہمارے مذہبی لوگ معاشرے میں امن، بھائی چارے اور شائستگی پیدا کرنے میں اپنے اعلا کردار کو نبھانا چھوڑ دیں گے تو دین کی تعلیم کا حق کیسے ادا ہو گا۔ دین اسلام ہمیں برداشت، تحمل، خوش اخلاقی، خوش گفتاری اورعقل و دانش کی تعلیم دیتا اور گالی سے روکتا ہے لیکن دین سے جڑے ننگی گالیاں بکنے والے ان مٹھی بر ملّاؤں کو کون سمجھائے کہ انکی وجہ سے اسلام خطرے میں ہے۔
-----
( جیسے گندی گالیاں نکالے والے یہ علماء ویسا ان کا خود ساختہ شہید، استغراللہ!، یوٹیوب پر چیک کر سکتے ہیں یہاں لگانے کے قابل نہیں)