عبيدالرحمن شفيق
رکن
- شمولیت
- اپریل 26، 2013
- پیغامات
- 17
- ری ایکشن اسکور
- 8
- پوائنٹ
- 48
کی نظام تعلیم کو درپیش چیلنجز،اور حکومتی ذمہ داریاں
تعلیم کسی بھی قوم وملت کی ترقی اور اس کے دوام میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے،بلکہ معاشرتی زیست کی فناءوبقا کا مکمل تر انحصار اسی تعلیم کے گرد ہوتا ہے،ماضی میں جب مسلمان اس حقیقت سے آشنا تھےتو دنیا بھر کے ہر میدان میں مسلمانوں کا طوطی بولتا تھا ،پھر چاہے وہ میدان علومِ شریعت کا ہو یا سائنس ، طبیعات،جراحت،طب جغرافیا،ریاضی،فلکیات ،فلسفہ اور منطق کا ، یا پھروہ میدان معاشرت ،معیشت ،سیاست ،سماج اور اقتدارکا ہو، دنیا کے ہر منظر نامے پے منتہائے نظر تک مسلمانوں کا ہمسر اور ہم مثیل تو دور کی بات کوئی عشر عشیر بھی نظر نہ آتا تھا۔
اہل مغرب جو آج اپنی ترقی پر نازاں ہیں پس پردہ ان کی یہ ترقی مسلمان علماء اور درسگاہوں کی مرہون منت ہے،اگر آپ تاریخ کی ورق گردانی کریں توپتا چلتا ہے ظلم وجہل کی لہر کے خا تمے کے لئےیورپی تشنگان علم نے مکمل تر نوراور فیضان ہسپانوی علماء اور درسگاہوں سے حاصل کیا ،جہاں انہوں نے سائنسی اور عمرانی علوم میں دست رس حاصل کی اور انہیں اپنی زبان ورنگ میں ڈھال کر نہ صرف ماہر سائنس دان اور ماہر عمرانیات پیدا کئے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ علوم شرعیہ میں ماہرایسے مستشرقین بھی نمودار ہوئےجنہوں نے اسلام اورمسلمانوں کی تسخیر کا سامان فراہم کیا!............وہاں پر ہی انہوں نے ان مادی علوم کے ارتقاءا ن کے احیاء اور عصری تقاضوں کے مطابق ان کی تجدید کی بھی اہتمام بھی کیا۔
اور ان ما دی علوم پر اس قدر اپنی اِجارہ داری قائم کی کہ مسلمانوں کو نہ صرف ان علوم سے بے دخل کیا بلکہ دنیا کو یہ باور کرا یا کہ جیسے مسلمانوں کا ان علوم کی ترویج اور فروغ میں سرے سے کوئی حصہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ تو ان علو م سے بالکل نا بلد ہیں ۔
علامہ اقبال ؒ بھی اسی المیے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے میں:
مگر وہ علم کے موتی ،کتابیں اپنے اباء کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
اس اثناءمیں ان علوم کے حقیقی جانشین کچھ تو خارجی سازشوں سے اور کچھ داخلی غفلتوں کی بنا پر ان مادی علوم سےکنارہ کش ہوگئے،نتیجتا،
علماء اس مادی زندگی سے کٹ گئے اور فقط مسجدو مدرسہ کے منبرو محراب تک محصور ہو کر رہ گئے۔
اسلام جو ایک مکمل اور مربوط نظام حیات تھا ایک مذہب کی شکل اختیار کر گیا ۔
علماء جو اصل سائق وقائد معاشرہ تھےفقط داعیان اسلام رہ گئے۔
بقول اقبال ؒ:
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
بالاخر مسلمان معاشرے کو اپنی مادی ضروریات کی تسکین کے لئےاغیار کا رخ کرنا پڑھا جو کہ پہلے ہی ویلکم کرنے کھڑے تھے،انہوں نے اپنی اس تعلیم کےذریعےمعصوم پودوں کی ایسی آبیا ری کی کہ ان کی فطرت، جبلت،عادات،اطوارحتی کہ روح تک میں مغربی کلچر ، تہذیب ، رہن سہن اور اخلاق واقداراس قدر پیوست کردیئے کہ اسے ذہنی اور فکری غلام بنادیا ،تاکہ کل کو جب وہ ایک شجر ناتواں بنے تو مغربی تہذیب کا آلہ کار ہو۔
بر صغیر میں فرنگی استعمار کے وقت اس وقت کے مسلمان مدبّر مفکرین نے اپنی دور اندیشی سے اس نظامِ تعلیم کے ہولناک اور تباہ کن اثرات کا اندازہ لگالیا تھا۔
بقول اکبر الہ آبادی ؒ:
یو ں قتل سے وہ بچوں کے بدنام نہ ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔افسوس کے فرعون کو کالج کی نہ سوجھی۔
اور بقول اقبالؒ:
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہو جائے ملائم تو جدھر چاہےادھر پھیر
تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے ایک ڈھیر
اس ذہنی غلامی نے جہاں دین ،مذہب اور اسلامی تہذیب وروایات کا کباڑہ تو کیا ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ مادی ترقی میں بھی کئی رکاوٹیں حائل کیں ،چناچہ خود ہمارے اسلامی ممالک کا حال یہ ہوا کہ یہاں کی یونی ورسٹی سےپڑھا ہوا طالب علم ایک اسلامی ریاست کافرد کم اور مغربی تہذیب کا پروردہ زیادہ معلوم ہوتا ہے جو دیکھنے میں تو ایک مسلمان ہے لیکن اس کا انداز فکر وفہم مغربی سانچے میں ڈھلا ہوا ہے،
اب جب کہ پاکستان میں اسلام سےجانثاری کی حد تک محبت کرنے اور اس کے پیرو بے شمار ہیں اور ویسے بھی ان مشرقی ممالک کی روایا ت اورمغربی اقدارآپس میں کوئی میل، جوڑ نہیں رکھتیں،تو نتیجتا یہاں ایک عجیب فکری اور نظریاتی کشمکش پیدا ہوگئی،اس دو رخی پالیسی سے ملک میں دو قسم کےمکا تِب فکر معرض وجود میں آئے۔
1. سیکولر مکتب فکر
2. مذہی مکتب فکر
ان دونوں میں اختلاف ِاساس کی بنا پر آپسی ڈراڑیں اس قدر بڑھ گئیں کہ اب نہ تو سیکولر مکتبِ فکر ،مذہبی مکتبِ فکر کو آگے آنے دیتا ہے کیو ں کہ وہ ان کے مزاج کے یکسر منافی ہیں ،اور نہ ہی مذہبی مکتبِ فکر ،سیکولر مکتب ِفکرکو بڑھنے دیتا ہے کیوں کہ ان کی ملحدانہ سوچ قوم وملت کے لئے خطرہ ہیں ۔
نتیجتا صلاحیتیں آپسی نزاعات کی نذر ہوگئیں ،سوآج کا طالب علم چاہے اس کا تعلق مدارس دینیہ سے ہویا کالج ویو نی ورسٹی سے شدیدفکری انتشار ،نظریاتی انحطاط اور روحانی اضطراب سے دوچار ہے۔
جبکہ اصول یہ ہے ۔۔۔!
ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد ہے
سوال......؟
بعض حضرات کے ذہن میں یہ سوال پنپتا ہے آخر مغربی استعمار صرف پاکستان اور اسلامی ممالک مثلا شام ،مصر تیونس ،لبنان وغیرہ تک تو محدود نہیں رہا بلکہ کئی غیر اسلامی ممالک مثلا انڈیا،جاپان وغیرہ یہ بھی تو اس سامراجی استعمار کی ضد میں رہے ہیں،
پھر یہاں ایسی کشمکش اور خانہ جنگی کے حالات کیوں نہیں ۔۔۔؟
سید ابو الحسن علی ندوی ؒاس سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
اصلا بات یہ کہ جو فلسفہ تعلیم ان غیر اسلامی ممالک میں آیا ،وہاں کے اقدار اور بنیادی عقائد سے متصادم نہیں تھا،ان میں اول تو جان نہیں تھی،جان تھی بھی تو ان میں ہر نئے فلسفےکو قبول کرنے کی صلاحیت تھی ،ان کی تو بنیاد مستحکم نہیں ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لئے فرض کیجئے مغرب کا نظام تعلیم جب ہندستان میں آیا تو اس نے ہندو سوسائٹی میں کوئی بے چینی پیدا نہیں کی ،کچھ پرانے لوگ تھے جو کہتے تھے کہ سمندرکا سفر نہیں کر سکتے،صبح کا نہانا ضروری ہے،اس کے بغیر کھانا نہیں کھا سکتے،اس کے اندر کیا جان ہے ۔۔۔۔۔؟ تھوڑے دن کے اندر معلوم ہوگیا ہم نے بے سوچے سمجھے باتیں قبول کر لی تھیں،یہ موجودہ تمدن کے ساتھ نہیں چل سکتیں، اصل مسئلہ پیش آیا ہمارے مسلم معاشرہ کو،وہاں توحید کا ایک مفہوم ہے ، اس کے متعین حدود ہیں،کہ یہاں تک ایمان ہے ،اس کے بعد کفر کی حدود شروع ہوجاتی ہے،ایک وقت میں آدمی کئی مذاہب کا وفادار نہیں رہ سکتا،بیک وقت آدمی توحید اور شرک کو جمع نہیں کر سکتا، یہ خیال کہ مغرب سب کچھ ہے،اور وہی قیادت کے اہل ہے ،پھر اس کے بعد رسول اکرم ﷺ کو عالمی اور دائمی رہنما اور معیار ماننا۔
اقبال ؒہی کے الفاظ ہیں کہ:
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائےکل جس نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غبارہ راہ کو بخشا فروغ وادئ سینا
وہ رسو ل اللہ ﷺکو دانائے سبل، ختم الرسل، مولائےکل بھی سمجھے اور مغربی تہذیب کو حرف آخر بھی،سائنس کو علوم کی معراج بھی یہ دونووں چیزیں جمع نہیں ہو سکتیں۔
[بحوالہ:نظام تعلیم مغربی رجحانات اور میں تبدیلی کی ضروریات،ص [15:
مقاصد تعلیم:
تعلیم تو وہ نور ہے جو ظلم و جہل کی تاریکیوں اور پستیوں سے نکال کر اوج ثریا تک انسان کی رہنمائی کرتا ہے،تعلیم وہ زیور ہے جس سے آرستہ ہو کر ایک حیوان ِناطق ''انسان'' کا درجہ پاتا ہے ،تعلیم کی مثال تو پارس پتھر کی سی ہے جو بھی چھوتا جاتا ہے کندن ہوتا جاتاہے، لیکن موجودہ ( جو بقول سیکولر طبقہ کے چودہ سو سالہ فرسودہ نظام و روایات کےمقابلے میں ماڈرن اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ) نظام تعلیم ، بنیادی تعلیمی خصوصیات سے بھی عاری ہے۔
تعلیم کا اصل مقصد تو اپنی قوم ملت کی حفاظت اس کی خدمت اور اس کا ارتقا ء ہے ،معذرت کے ساتھ ۔۔۔۔!پاکستانی سرسٹھ سالہ تاریخ میں اس نظام تعلیم نےسوا ئے رشوت ستانی، خود غرضی ،طبقاتی تقسیم کےعلاوہ ہمیں کچھ نہیں دیا،میں یہ نہیں کہتا کہ ہر ایک بندہ ہی کرپٹ اور خود غرض ہےہاں۔۔ اس نظام کےسیلِ رواں سے صرف وہ ہی بچ سکا جس کے اندر ابھی بھی سسکتی اور دم توڑتی کچھ دینی رمق ، طبعی سلامت اور ابراہیمی فطرت زندہ تھی۔
اس کے مد مقابل اسلامی روایات میں حاکم وقت دریا دجلہ کے قریب پیاس کے مارے مر جانے والے کتے کا بھی اپنے آپ کو جوابدہ سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔!
اگر ہمارے ملک میں اسلامی نظام تعلیم رائج ہوتا۔
تو آج آ پ کو چند سکوں کی عوض ملکی سالمیت اور خود مختاری کے سوداگر نظر نہ آتے۔
مائنر سرجری کے نام پے دھوکے سےمعصوم لوگوں کے گردو ں کو بیچ کر پلازے کھڑے کرنے والے ڈاکٹرز نظر نہ آتے۔
چند ہزاروں کے فنڈ ز کی ساز باز کی خاطر ناقص اور کھوکھلا مٹیریل استعمال کرکے معصوم نفوس کی جانوں سے کھلواڑ کرنے والے انجینئرز نظر نہ آتے۔
موجودہ تعلیم کا شعبہ عملاً مسائل کے خاردار جنگل کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ ناقص منصوبہ بندی، لاپروائی اور غفلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2006مئی، 2007ءمیں کریکولم اور میٹریل ڈویلپمنٹ پالیسی کے تحت یکساں اور آزادانہ نصاب تعلیم
(اچھی یا بُری) رائج کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ چھے سال گزرنے کے باوجود اب تک 50 فی صد سے بھی کم کتب تیار کی جا سکیں۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ 18ویں ترمیم کے ذریعے شعبہ تعلیم کو کلی طور پر صوبوں کے حوالے کرکے پوری کی گئی۔ اس طرح عالمی استعمار، جس کے ایجنڈے میں تعلیم سرفہرست ہے، کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیا گیا۔ اس وقت وطن عزیزمیں بیک وقت کئی قسم کے نصاب رائج ہیں۔ گزشتہ حکومت میں صوبہ خیبر پختونخوا میں اگر نصاب سازی کا کام جرمنی کی این جی او کے حوالے کر دیا گیا، تو پنجاب میں برطانوی ماہرینِ تعلیم کی خدمات حاصل کی گئیں۔ کچھ علاقوں میں تعلیم کو آغا خان بورڈ کے حوالے کرکے تعلیم میں بیرونی ایجنڈے کی نفاذ کی راہ ہموار کی گئی ہے ۔
ہمیشہ عقلمند انسان وہ ہوتا ہے جو اپنے ماضی کی غلطیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے اپنے حال و استقبال کی اصلاح کر لیتا ہے،اگرآج امن ُسلامتی ، خوشحالی اور اپنی ماضی کی اسی ترقی ، حکمرانیاور اقتدار کے خواہاں ہیں تو ہمیں اپنے طلباء کو ایک صحت مندانہ ٹھوس اور روحانی نظام تعلیم اور نشو ونما کے لئے پاکیزہ ماحول فراہم کرنا ہوگا،طلباء کسی بھی ملت کی فصلِ بہار ہوا کرتی ہے اگرعلی الوقت اس کی آبیاری نہ کی جائے تو پورا چمن ہی روکھا سوکھا اور ویران ہو جاتا ہے ۔
در اصل ہم کنویں کا کتا چھوڑ کر فقط پانی کی بالٹیا ں نکال کر صفائی کے خواہا ں ہیں ،اس لئے ہماری حکومت کی پہلے پہل یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ نظام تعلیم کے حوالے سے کوئی مؤثر اقدامات کرے جس سے معاشرہ از خود امنُ سلامتی ،خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔
ذیل میں چند بنیادی اور اساسی ضروریات درج ہیں ۔
1. کلچری یلغارکا خاتمہ:
یہ ظاہر بات ہے کہ تعلیمی نظام کسی نہ کسی کلچر کا خادم ہوتا ہے ،ایسی مجرد تعلیم جو ہر قسم کے رنگ صورت سے خالی ہو نہ آج تک کسی ادارےمیں دی گئی ہے اور نہ دی جا رہی ہے ایک مسلما ن ہونے کے ناطے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام اسلامی کلچرکا خادم ہو سو ہمیں اپنے تعلیمی ڈھانچے کی مکمل ساخت بدلنا ہوگی جوبحیثیت ِمجموع اسلامی کلچر کے مزاج اور اس کی سپرٹ کے مناسب ہو ،نہ صرف اسلامی اقدار کی حفاظت کرےبلکہ اس کو آگے بڑھانے کے لئے ایک قوت اور طاقت بن جائے ،لہذا ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں مغربی کلچر کے استعمار کو ختم کرکے اسلامی، روحانی،الہامی اور پاکیزہ کلچر فراہم کرنا ہوگا۔
2. وحدانی نظام تعلیم :
اسلام کی حقیقت پر غور خوض کرنے سے یہ حقیقت از خود آپ پر منکشف ہو جائے گی کہ دنیوی علم و تربیت اور دینی علوم کی راہیں یکسر جدا کر دینا کس طور مناسب نہیں ہاں متخصصین کی راہیں من جملہ جزئیات میں علیحدہ ہو سکتی ہیں لیکن طلب العلم فریضة علی کل مسلم کی تحت علماء ،ڈاکٹرز ،انجینئرز بنیادی تعلیما ت میں ایک دوسرے کے برابر ہو ں ،اسلام مسیحیت کی طرح کوئی ایسا مذہب نہیں جس کا ''دین ''دنیا سے کوئی الگ چیز ہو، اور دنیا کو دنیا والوں کے لئے چھوڑکر صرف اعتقادات اور اخلاقیات کاتعین کرتے ہوئے اپنے آپ کو فقط کلیسا کی دیواروں تک محصور کر لے ۔
اسلام کا اصل مقصد انسان کو دنیا میں رہنے اور دنیاوی امور و معاملات کو انجام دہی کے لئے اس طرز پر تربیت کرنا ہے جو اِس زندگی سے لیکر آخرت کی زندگی تک سلامتی ،عزت اور برتری کی راہ ہو۔اس غرض کے لئے وہ اسکی نظرو فکر کو درست کرتا ہے ،اس کے اخلاق کو سنوارتا ہے ،اس کی سیرت کو ایک خاص سانچے میں ڈھالتا ہے ،اس کے حقوق و فرائض متعین کرتا ہے ،اور اس کی اجتماعی زندگی کے لئے اجتماعی نظام وضع کرتا ہے ،
افراد کی ذہنی و عملی تر بیت،سوسائٹی کی تشکیل و تنظیم ،اور زندگی کے تما م شعبوں میں اس کی تربیت وتعدیل کے باب میں اس کے اسلام کے اصول ومبادی سب سے جدا ہیں ، اسلام اپنا ایک جدا گانہ کامل و اکمل نظام ِمعاشرت ،معاشیات ، سیاسیات ،سماجیات ،قانون،اقتدار من جملہ مکمل طرز حیات رکھتا ہے ،
سو اس فکری انتشار کے خاتمے کے لئے ماضی کی طرح ان جداگانہ راہوں کو علی منہاج النبوۃ پھر سے یکجا کرنا ہو گا،
رسول اللہ ﷺ نے قرآنی اور دینی تعلیمات سیکھنے کےساتھ ساتھ علم الانساب اور دیگر معاشی ضروریا ت کو پورا کرنے والے علوم کے حصول کا بھی حکم دیا ،اسی لئے رسول ﷺ نے غزوہ بدر کے کے قیدوں کی آزادی کے لیے دس مسلمان بچوں کو پڑھانے لکھانے کی شرط عائد کی ۔
اگر اسلام کے اصول و مبادی ایک طالب علم کے دوران خون ، اس کی روح رواں ، اس کے احساس ادراک ،اس کا شعور اورنظریات وافکار بن جائیں ،تو وہ مغربی فنوں کے تمام تر صالح اجزا کو اپنے اندر جذب کر کے اپنی تہذیب کا جز بناتا چلا جائے اس طرح آپ مسلمان فلسفی ، مسلمان سائنسدان ،مسلمان ماہر معاشیات، مسلماں ماہر عمرانیات الغرض ایسے مسلمان ماہر علوم وفنون میسر ہو نگےجو زندگی کے من جملہ مسائل کو اسلامی نقطہ نظر سے حل کریں گے ،لہذاایک مستقل قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعے سے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں اسلام کی تعلیمات کے مطابق یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
3. مقصد (وژن)کا تعین :
مقصد(وژن) ہی وہ رفعت ہے جو ایک انسان کی زندگی کو دوسرےانسان سےجدا کرکے اسے درجہ کمال تک پہنچاتی ہے،بے مقصد زندگی تو صرف انسان کوذلت کی گہرائیوںمیں دھکیلتی ہے لیکن اگر آپ زندگی میں صحیح مقصد کے تعین سے چوک گئے تو پھر نامرادی وناکامی ہی آپ کی منزل ہوگی ۔ جس قدر آپ کا مقصدبلند ہوگا آپ کی شان اور آپ کا مقام بھی اسی قدر ہی اونچا ہوگا اور اس کاپتہ چلتا ہے مثبت اورحقیقی سوچ وفکرسے! وطن عزیز میں اب تک نوتعلیمی پالیسیاں وجود میں آ چکی ہیں، لیکن دیکھا جائے تو جہاں یہ تعلیم مقصدیت سے عاری، بے سمت اور انتہائی ناقص ہے،وہاں ہما رے آج کے طلباء بھی اپنے مقصدِ زیست سے کورے ہیں اگر ہم اپنے بچوں کو وژن نہیں دیں گے تو کوئی دوسرا ان کے لئے وژن تیار کرے گا اور ان کو اپنے وژن میں استعمال کرے گا جیسے آج امت مرحومہ سیکولر وژن میں استعمال ہو رہی ہے سو ہمیں اپنے طلباء کو خدمت انسانیت احترام آدمیت ،تحفظ دین ،نفاذ اسلام جیسے عظیم مقاصد سے سرشار کرنا ہوگا۔
4. طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ:
جہاں مغربی تمدن دیگر بہت ساری خرابیاں پیدا کی ہیں وہاں پر تعلیم کو ایک بزنس اور تجارت بنا کر رکھ دیا،
تعلیم جو کہ ہر فرد کا بنیادی حق ہےجو کسی فرق و تناسب سےماوراہے اورجو ہر کسی کو کسی بھی امتیاز سے بالا تر ہو کریکساں طور پےملنی چاہئے،اسلئے اسلام نے حصول علم محض روزینہ کمانے کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ تعلیم کو عبادت کا درجہ دیااور اسے خوشنودیِ الہی کا باعث ٹھہرایا ، اسلام کی پہلی درسگاہ صفہ میں بغیر کسی رنگ ونسل حسب و نسب ،اور مال ودولت کے امتیاز کے سب تعلیم حاصل کرتے تھے اور رسول ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں تمام نسلی امتیازات کو ختم کر دیا تھا۔
5. مخلوظ نظام کا خاتمہ:
مخلوط نظام تعلیم در اصل مغربی تحریک آزادی (جو در حقیقت بربادیِ) نسواں کا شاخسانہ ہے،مخلوط نظام تعلیم نےتعلیم اور تخلیقی صلاحیتوں کو متاثر کرنے کے ساتھ معاشرتی بگاڑ میں بھی کلیدی اور اساسی کردار ادا کیا ہے ،اگرمخلوط نظام تعلیم کے نتائج کامشاہدہ کرنا چاہتے ہیں تو زیادہ دور نہیں صرف آزادیِ نسواں کے علمبردار امریکہ کو ہی دیکھ لیجئے جہاں سینکڑوں بچیا ں وقت بلوغت سے قبل ہی پرگننٹ ہو جاتی ہیں اور بن باپ کے بچے جن کا تناسب ہر سال مزید سے مزید تر ہوتا جا رہا ہے ،صرف امریکہ ہی میں ہرسال سینکڑوں خواتین پورن کو پروفیشن کے طور اختیار کرتی ہیں ،اور یہ کوئی قحبہ خانے کی بیسوا نہیں جن کا خاندانی پیشہ ہی یہ ہے، بلکہ یہ معاشرے کی وہ تعلیم یافتہ فردۃ ہے جو پہلے کسی دفتر ،دوکان ،ہاسپٹل ،وغیرہ میں جاب کرتی تھی۔
ویسے بھی سائنسی اعتبارسے تخلیقی طور پر عورت اور مرد کی صلاحیت میں کوئی زیادہ ہم آہنگی نہیں ہے جو کہ تعلیم پر برے طریقے اثر انداز ہوتی ہے
6. زبان کا مسئلہ:
ہمارے تعلیمی نظام میں اُردو ہ''ہماری قومی و سرکاری زبان ''کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے جوکہ ایک قومی غفلت اور آئینی انحراف کے مترادف ہے۔ پوری دنیا میں قومی زبان ایک آزاد ور با وقار قوم کی شناخت سمجھی جاتی ہے ۔ MDGکے مطابق 2015ءتک پاکستان کو 100فیصد شرح خواندگی حاصل کرنا لازمی ہے ۔ قومی زبان کی بے توقیری اور عدم فعالیت کی صورت میں ا س ہدف کا حصول ناممکن ہے۔ اب جب کہ پاکستان میں انگریزی بطور تعلیمی نظام کے رائج ہو چکی ہے،ملک تو پھر ترقی کی راہ پے گامزن ہو جانا چاہیے تھا،اس خطے میں اعلی سائنسدان ،بہترین انتظامی آفیسر ، اور عظیم دانشور پیدا ہو جانے چاہئے تھے، لیکن جادو وہ سرچڑ کےبولے۔۔۔۔!اس سال کے سول سروس کے امتحانی نتائج آپ کے سامنے ہیں ،صرف دو فیصد امیدوار یہ امتحان پاس کر سکے،کسی بھی مادری زبان کے مقابلےدوسری زبان میں انسان کے سیکھنے کی صلاحیت تیس فیصد سے زیادہ نہیں ہوتی اور اس کے لکھنے اور سمجھانے کی بھی صلاحیت کم ہو جاتی ہے ،پچھلی پانچ ہزار سالہ تاریخ ہمیں یہ ہی بتاتی ہے جس قوم نے بھی دنیا پرحکومت اور ترقی کی ہے تو اپنی زبان ہی کی مرہون منت ۔۔۔۔۔۔!اوردنیا میں کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں جس نے کسی دوسری قوم کی زبان اپنا کر ناخواندگی کے چیلنج پر قابو پایا ہو۔
ان چند گزارشات کا ما حصل یہ ہے کہ تعلیم کا مسئلہ انتہائی نزاکت کا حامل ہے ،ترقی اور تعلیم دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے، قوموں کا عروج تعلیم کے ذریعے سے ہی ممکن ہوتا ہے، تعلیم کسی بھی ملک و قوم کی مستقبل سازی کے لیے ناگزیر ہے، تعلیم کا عمل جتنا بامقصد، موثر اور وقتی اور عصری سے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوگا، اتنا ہی قوم اور ملک کا مستقبل شاندار اور تابناک ہوگا۔
لہذا اس مسئلہ پر سنجیدہ غور فکر کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
خیر اندیش: عبید الر حمن شفیق
تعلیم کسی بھی قوم وملت کی ترقی اور اس کے دوام میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے،بلکہ معاشرتی زیست کی فناءوبقا کا مکمل تر انحصار اسی تعلیم کے گرد ہوتا ہے،ماضی میں جب مسلمان اس حقیقت سے آشنا تھےتو دنیا بھر کے ہر میدان میں مسلمانوں کا طوطی بولتا تھا ،پھر چاہے وہ میدان علومِ شریعت کا ہو یا سائنس ، طبیعات،جراحت،طب جغرافیا،ریاضی،فلکیات ،فلسفہ اور منطق کا ، یا پھروہ میدان معاشرت ،معیشت ،سیاست ،سماج اور اقتدارکا ہو، دنیا کے ہر منظر نامے پے منتہائے نظر تک مسلمانوں کا ہمسر اور ہم مثیل تو دور کی بات کوئی عشر عشیر بھی نظر نہ آتا تھا۔
اہل مغرب جو آج اپنی ترقی پر نازاں ہیں پس پردہ ان کی یہ ترقی مسلمان علماء اور درسگاہوں کی مرہون منت ہے،اگر آپ تاریخ کی ورق گردانی کریں توپتا چلتا ہے ظلم وجہل کی لہر کے خا تمے کے لئےیورپی تشنگان علم نے مکمل تر نوراور فیضان ہسپانوی علماء اور درسگاہوں سے حاصل کیا ،جہاں انہوں نے سائنسی اور عمرانی علوم میں دست رس حاصل کی اور انہیں اپنی زبان ورنگ میں ڈھال کر نہ صرف ماہر سائنس دان اور ماہر عمرانیات پیدا کئے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ علوم شرعیہ میں ماہرایسے مستشرقین بھی نمودار ہوئےجنہوں نے اسلام اورمسلمانوں کی تسخیر کا سامان فراہم کیا!............وہاں پر ہی انہوں نے ان مادی علوم کے ارتقاءا ن کے احیاء اور عصری تقاضوں کے مطابق ان کی تجدید کی بھی اہتمام بھی کیا۔
اور ان ما دی علوم پر اس قدر اپنی اِجارہ داری قائم کی کہ مسلمانوں کو نہ صرف ان علوم سے بے دخل کیا بلکہ دنیا کو یہ باور کرا یا کہ جیسے مسلمانوں کا ان علوم کی ترویج اور فروغ میں سرے سے کوئی حصہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ تو ان علو م سے بالکل نا بلد ہیں ۔
علامہ اقبال ؒ بھی اسی المیے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے میں:
مگر وہ علم کے موتی ،کتابیں اپنے اباء کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
اس اثناءمیں ان علوم کے حقیقی جانشین کچھ تو خارجی سازشوں سے اور کچھ داخلی غفلتوں کی بنا پر ان مادی علوم سےکنارہ کش ہوگئے،نتیجتا،
علماء اس مادی زندگی سے کٹ گئے اور فقط مسجدو مدرسہ کے منبرو محراب تک محصور ہو کر رہ گئے۔
اسلام جو ایک مکمل اور مربوط نظام حیات تھا ایک مذہب کی شکل اختیار کر گیا ۔
علماء جو اصل سائق وقائد معاشرہ تھےفقط داعیان اسلام رہ گئے۔
بقول اقبال ؒ:
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
بالاخر مسلمان معاشرے کو اپنی مادی ضروریات کی تسکین کے لئےاغیار کا رخ کرنا پڑھا جو کہ پہلے ہی ویلکم کرنے کھڑے تھے،انہوں نے اپنی اس تعلیم کےذریعےمعصوم پودوں کی ایسی آبیا ری کی کہ ان کی فطرت، جبلت،عادات،اطوارحتی کہ روح تک میں مغربی کلچر ، تہذیب ، رہن سہن اور اخلاق واقداراس قدر پیوست کردیئے کہ اسے ذہنی اور فکری غلام بنادیا ،تاکہ کل کو جب وہ ایک شجر ناتواں بنے تو مغربی تہذیب کا آلہ کار ہو۔
بر صغیر میں فرنگی استعمار کے وقت اس وقت کے مسلمان مدبّر مفکرین نے اپنی دور اندیشی سے اس نظامِ تعلیم کے ہولناک اور تباہ کن اثرات کا اندازہ لگالیا تھا۔
بقول اکبر الہ آبادی ؒ:
یو ں قتل سے وہ بچوں کے بدنام نہ ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔افسوس کے فرعون کو کالج کی نہ سوجھی۔
اور بقول اقبالؒ:
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہو جائے ملائم تو جدھر چاہےادھر پھیر
تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے ایک ڈھیر
اس ذہنی غلامی نے جہاں دین ،مذہب اور اسلامی تہذیب وروایات کا کباڑہ تو کیا ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ مادی ترقی میں بھی کئی رکاوٹیں حائل کیں ،چناچہ خود ہمارے اسلامی ممالک کا حال یہ ہوا کہ یہاں کی یونی ورسٹی سےپڑھا ہوا طالب علم ایک اسلامی ریاست کافرد کم اور مغربی تہذیب کا پروردہ زیادہ معلوم ہوتا ہے جو دیکھنے میں تو ایک مسلمان ہے لیکن اس کا انداز فکر وفہم مغربی سانچے میں ڈھلا ہوا ہے،
اب جب کہ پاکستان میں اسلام سےجانثاری کی حد تک محبت کرنے اور اس کے پیرو بے شمار ہیں اور ویسے بھی ان مشرقی ممالک کی روایا ت اورمغربی اقدارآپس میں کوئی میل، جوڑ نہیں رکھتیں،تو نتیجتا یہاں ایک عجیب فکری اور نظریاتی کشمکش پیدا ہوگئی،اس دو رخی پالیسی سے ملک میں دو قسم کےمکا تِب فکر معرض وجود میں آئے۔
1. سیکولر مکتب فکر
2. مذہی مکتب فکر
ان دونوں میں اختلاف ِاساس کی بنا پر آپسی ڈراڑیں اس قدر بڑھ گئیں کہ اب نہ تو سیکولر مکتبِ فکر ،مذہبی مکتبِ فکر کو آگے آنے دیتا ہے کیو ں کہ وہ ان کے مزاج کے یکسر منافی ہیں ،اور نہ ہی مذہبی مکتبِ فکر ،سیکولر مکتب ِفکرکو بڑھنے دیتا ہے کیوں کہ ان کی ملحدانہ سوچ قوم وملت کے لئے خطرہ ہیں ۔
نتیجتا صلاحیتیں آپسی نزاعات کی نذر ہوگئیں ،سوآج کا طالب علم چاہے اس کا تعلق مدارس دینیہ سے ہویا کالج ویو نی ورسٹی سے شدیدفکری انتشار ،نظریاتی انحطاط اور روحانی اضطراب سے دوچار ہے۔
جبکہ اصول یہ ہے ۔۔۔!
ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد ہے
سوال......؟
بعض حضرات کے ذہن میں یہ سوال پنپتا ہے آخر مغربی استعمار صرف پاکستان اور اسلامی ممالک مثلا شام ،مصر تیونس ،لبنان وغیرہ تک تو محدود نہیں رہا بلکہ کئی غیر اسلامی ممالک مثلا انڈیا،جاپان وغیرہ یہ بھی تو اس سامراجی استعمار کی ضد میں رہے ہیں،
پھر یہاں ایسی کشمکش اور خانہ جنگی کے حالات کیوں نہیں ۔۔۔؟
سید ابو الحسن علی ندوی ؒاس سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
اصلا بات یہ کہ جو فلسفہ تعلیم ان غیر اسلامی ممالک میں آیا ،وہاں کے اقدار اور بنیادی عقائد سے متصادم نہیں تھا،ان میں اول تو جان نہیں تھی،جان تھی بھی تو ان میں ہر نئے فلسفےکو قبول کرنے کی صلاحیت تھی ،ان کی تو بنیاد مستحکم نہیں ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لئے فرض کیجئے مغرب کا نظام تعلیم جب ہندستان میں آیا تو اس نے ہندو سوسائٹی میں کوئی بے چینی پیدا نہیں کی ،کچھ پرانے لوگ تھے جو کہتے تھے کہ سمندرکا سفر نہیں کر سکتے،صبح کا نہانا ضروری ہے،اس کے بغیر کھانا نہیں کھا سکتے،اس کے اندر کیا جان ہے ۔۔۔۔۔؟ تھوڑے دن کے اندر معلوم ہوگیا ہم نے بے سوچے سمجھے باتیں قبول کر لی تھیں،یہ موجودہ تمدن کے ساتھ نہیں چل سکتیں، اصل مسئلہ پیش آیا ہمارے مسلم معاشرہ کو،وہاں توحید کا ایک مفہوم ہے ، اس کے متعین حدود ہیں،کہ یہاں تک ایمان ہے ،اس کے بعد کفر کی حدود شروع ہوجاتی ہے،ایک وقت میں آدمی کئی مذاہب کا وفادار نہیں رہ سکتا،بیک وقت آدمی توحید اور شرک کو جمع نہیں کر سکتا، یہ خیال کہ مغرب سب کچھ ہے،اور وہی قیادت کے اہل ہے ،پھر اس کے بعد رسول اکرم ﷺ کو عالمی اور دائمی رہنما اور معیار ماننا۔
اقبال ؒہی کے الفاظ ہیں کہ:
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائےکل جس نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غبارہ راہ کو بخشا فروغ وادئ سینا
وہ رسو ل اللہ ﷺکو دانائے سبل، ختم الرسل، مولائےکل بھی سمجھے اور مغربی تہذیب کو حرف آخر بھی،سائنس کو علوم کی معراج بھی یہ دونووں چیزیں جمع نہیں ہو سکتیں۔
[بحوالہ:نظام تعلیم مغربی رجحانات اور میں تبدیلی کی ضروریات،ص [15:
مقاصد تعلیم:
تعلیم تو وہ نور ہے جو ظلم و جہل کی تاریکیوں اور پستیوں سے نکال کر اوج ثریا تک انسان کی رہنمائی کرتا ہے،تعلیم وہ زیور ہے جس سے آرستہ ہو کر ایک حیوان ِناطق ''انسان'' کا درجہ پاتا ہے ،تعلیم کی مثال تو پارس پتھر کی سی ہے جو بھی چھوتا جاتا ہے کندن ہوتا جاتاہے، لیکن موجودہ ( جو بقول سیکولر طبقہ کے چودہ سو سالہ فرسودہ نظام و روایات کےمقابلے میں ماڈرن اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ) نظام تعلیم ، بنیادی تعلیمی خصوصیات سے بھی عاری ہے۔
تعلیم کا اصل مقصد تو اپنی قوم ملت کی حفاظت اس کی خدمت اور اس کا ارتقا ء ہے ،معذرت کے ساتھ ۔۔۔۔!پاکستانی سرسٹھ سالہ تاریخ میں اس نظام تعلیم نےسوا ئے رشوت ستانی، خود غرضی ،طبقاتی تقسیم کےعلاوہ ہمیں کچھ نہیں دیا،میں یہ نہیں کہتا کہ ہر ایک بندہ ہی کرپٹ اور خود غرض ہےہاں۔۔ اس نظام کےسیلِ رواں سے صرف وہ ہی بچ سکا جس کے اندر ابھی بھی سسکتی اور دم توڑتی کچھ دینی رمق ، طبعی سلامت اور ابراہیمی فطرت زندہ تھی۔
اس کے مد مقابل اسلامی روایات میں حاکم وقت دریا دجلہ کے قریب پیاس کے مارے مر جانے والے کتے کا بھی اپنے آپ کو جوابدہ سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔!
اگر ہمارے ملک میں اسلامی نظام تعلیم رائج ہوتا۔
تو آج آ پ کو چند سکوں کی عوض ملکی سالمیت اور خود مختاری کے سوداگر نظر نہ آتے۔
مائنر سرجری کے نام پے دھوکے سےمعصوم لوگوں کے گردو ں کو بیچ کر پلازے کھڑے کرنے والے ڈاکٹرز نظر نہ آتے۔
چند ہزاروں کے فنڈ ز کی ساز باز کی خاطر ناقص اور کھوکھلا مٹیریل استعمال کرکے معصوم نفوس کی جانوں سے کھلواڑ کرنے والے انجینئرز نظر نہ آتے۔
موجودہ تعلیم کا شعبہ عملاً مسائل کے خاردار جنگل کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ ناقص منصوبہ بندی، لاپروائی اور غفلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2006مئی، 2007ءمیں کریکولم اور میٹریل ڈویلپمنٹ پالیسی کے تحت یکساں اور آزادانہ نصاب تعلیم
(اچھی یا بُری) رائج کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ چھے سال گزرنے کے باوجود اب تک 50 فی صد سے بھی کم کتب تیار کی جا سکیں۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ 18ویں ترمیم کے ذریعے شعبہ تعلیم کو کلی طور پر صوبوں کے حوالے کرکے پوری کی گئی۔ اس طرح عالمی استعمار، جس کے ایجنڈے میں تعلیم سرفہرست ہے، کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیا گیا۔ اس وقت وطن عزیزمیں بیک وقت کئی قسم کے نصاب رائج ہیں۔ گزشتہ حکومت میں صوبہ خیبر پختونخوا میں اگر نصاب سازی کا کام جرمنی کی این جی او کے حوالے کر دیا گیا، تو پنجاب میں برطانوی ماہرینِ تعلیم کی خدمات حاصل کی گئیں۔ کچھ علاقوں میں تعلیم کو آغا خان بورڈ کے حوالے کرکے تعلیم میں بیرونی ایجنڈے کی نفاذ کی راہ ہموار کی گئی ہے ۔
ہمیشہ عقلمند انسان وہ ہوتا ہے جو اپنے ماضی کی غلطیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے اپنے حال و استقبال کی اصلاح کر لیتا ہے،اگرآج امن ُسلامتی ، خوشحالی اور اپنی ماضی کی اسی ترقی ، حکمرانیاور اقتدار کے خواہاں ہیں تو ہمیں اپنے طلباء کو ایک صحت مندانہ ٹھوس اور روحانی نظام تعلیم اور نشو ونما کے لئے پاکیزہ ماحول فراہم کرنا ہوگا،طلباء کسی بھی ملت کی فصلِ بہار ہوا کرتی ہے اگرعلی الوقت اس کی آبیاری نہ کی جائے تو پورا چمن ہی روکھا سوکھا اور ویران ہو جاتا ہے ۔
در اصل ہم کنویں کا کتا چھوڑ کر فقط پانی کی بالٹیا ں نکال کر صفائی کے خواہا ں ہیں ،اس لئے ہماری حکومت کی پہلے پہل یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ نظام تعلیم کے حوالے سے کوئی مؤثر اقدامات کرے جس سے معاشرہ از خود امنُ سلامتی ،خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔
ذیل میں چند بنیادی اور اساسی ضروریات درج ہیں ۔
1. کلچری یلغارکا خاتمہ:
یہ ظاہر بات ہے کہ تعلیمی نظام کسی نہ کسی کلچر کا خادم ہوتا ہے ،ایسی مجرد تعلیم جو ہر قسم کے رنگ صورت سے خالی ہو نہ آج تک کسی ادارےمیں دی گئی ہے اور نہ دی جا رہی ہے ایک مسلما ن ہونے کے ناطے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام اسلامی کلچرکا خادم ہو سو ہمیں اپنے تعلیمی ڈھانچے کی مکمل ساخت بدلنا ہوگی جوبحیثیت ِمجموع اسلامی کلچر کے مزاج اور اس کی سپرٹ کے مناسب ہو ،نہ صرف اسلامی اقدار کی حفاظت کرےبلکہ اس کو آگے بڑھانے کے لئے ایک قوت اور طاقت بن جائے ،لہذا ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں مغربی کلچر کے استعمار کو ختم کرکے اسلامی، روحانی،الہامی اور پاکیزہ کلچر فراہم کرنا ہوگا۔
2. وحدانی نظام تعلیم :
اسلام کی حقیقت پر غور خوض کرنے سے یہ حقیقت از خود آپ پر منکشف ہو جائے گی کہ دنیوی علم و تربیت اور دینی علوم کی راہیں یکسر جدا کر دینا کس طور مناسب نہیں ہاں متخصصین کی راہیں من جملہ جزئیات میں علیحدہ ہو سکتی ہیں لیکن طلب العلم فریضة علی کل مسلم کی تحت علماء ،ڈاکٹرز ،انجینئرز بنیادی تعلیما ت میں ایک دوسرے کے برابر ہو ں ،اسلام مسیحیت کی طرح کوئی ایسا مذہب نہیں جس کا ''دین ''دنیا سے کوئی الگ چیز ہو، اور دنیا کو دنیا والوں کے لئے چھوڑکر صرف اعتقادات اور اخلاقیات کاتعین کرتے ہوئے اپنے آپ کو فقط کلیسا کی دیواروں تک محصور کر لے ۔
اسلام کا اصل مقصد انسان کو دنیا میں رہنے اور دنیاوی امور و معاملات کو انجام دہی کے لئے اس طرز پر تربیت کرنا ہے جو اِس زندگی سے لیکر آخرت کی زندگی تک سلامتی ،عزت اور برتری کی راہ ہو۔اس غرض کے لئے وہ اسکی نظرو فکر کو درست کرتا ہے ،اس کے اخلاق کو سنوارتا ہے ،اس کی سیرت کو ایک خاص سانچے میں ڈھالتا ہے ،اس کے حقوق و فرائض متعین کرتا ہے ،اور اس کی اجتماعی زندگی کے لئے اجتماعی نظام وضع کرتا ہے ،
افراد کی ذہنی و عملی تر بیت،سوسائٹی کی تشکیل و تنظیم ،اور زندگی کے تما م شعبوں میں اس کی تربیت وتعدیل کے باب میں اس کے اسلام کے اصول ومبادی سب سے جدا ہیں ، اسلام اپنا ایک جدا گانہ کامل و اکمل نظام ِمعاشرت ،معاشیات ، سیاسیات ،سماجیات ،قانون،اقتدار من جملہ مکمل طرز حیات رکھتا ہے ،
سو اس فکری انتشار کے خاتمے کے لئے ماضی کی طرح ان جداگانہ راہوں کو علی منہاج النبوۃ پھر سے یکجا کرنا ہو گا،
رسول اللہ ﷺ نے قرآنی اور دینی تعلیمات سیکھنے کےساتھ ساتھ علم الانساب اور دیگر معاشی ضروریا ت کو پورا کرنے والے علوم کے حصول کا بھی حکم دیا ،اسی لئے رسول ﷺ نے غزوہ بدر کے کے قیدوں کی آزادی کے لیے دس مسلمان بچوں کو پڑھانے لکھانے کی شرط عائد کی ۔
اگر اسلام کے اصول و مبادی ایک طالب علم کے دوران خون ، اس کی روح رواں ، اس کے احساس ادراک ،اس کا شعور اورنظریات وافکار بن جائیں ،تو وہ مغربی فنوں کے تمام تر صالح اجزا کو اپنے اندر جذب کر کے اپنی تہذیب کا جز بناتا چلا جائے اس طرح آپ مسلمان فلسفی ، مسلمان سائنسدان ،مسلمان ماہر معاشیات، مسلماں ماہر عمرانیات الغرض ایسے مسلمان ماہر علوم وفنون میسر ہو نگےجو زندگی کے من جملہ مسائل کو اسلامی نقطہ نظر سے حل کریں گے ،لہذاایک مستقل قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعے سے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں اسلام کی تعلیمات کے مطابق یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
3. مقصد (وژن)کا تعین :
مقصد(وژن) ہی وہ رفعت ہے جو ایک انسان کی زندگی کو دوسرےانسان سےجدا کرکے اسے درجہ کمال تک پہنچاتی ہے،بے مقصد زندگی تو صرف انسان کوذلت کی گہرائیوںمیں دھکیلتی ہے لیکن اگر آپ زندگی میں صحیح مقصد کے تعین سے چوک گئے تو پھر نامرادی وناکامی ہی آپ کی منزل ہوگی ۔ جس قدر آپ کا مقصدبلند ہوگا آپ کی شان اور آپ کا مقام بھی اسی قدر ہی اونچا ہوگا اور اس کاپتہ چلتا ہے مثبت اورحقیقی سوچ وفکرسے! وطن عزیز میں اب تک نوتعلیمی پالیسیاں وجود میں آ چکی ہیں، لیکن دیکھا جائے تو جہاں یہ تعلیم مقصدیت سے عاری، بے سمت اور انتہائی ناقص ہے،وہاں ہما رے آج کے طلباء بھی اپنے مقصدِ زیست سے کورے ہیں اگر ہم اپنے بچوں کو وژن نہیں دیں گے تو کوئی دوسرا ان کے لئے وژن تیار کرے گا اور ان کو اپنے وژن میں استعمال کرے گا جیسے آج امت مرحومہ سیکولر وژن میں استعمال ہو رہی ہے سو ہمیں اپنے طلباء کو خدمت انسانیت احترام آدمیت ،تحفظ دین ،نفاذ اسلام جیسے عظیم مقاصد سے سرشار کرنا ہوگا۔
4. طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ:
جہاں مغربی تمدن دیگر بہت ساری خرابیاں پیدا کی ہیں وہاں پر تعلیم کو ایک بزنس اور تجارت بنا کر رکھ دیا،
تعلیم جو کہ ہر فرد کا بنیادی حق ہےجو کسی فرق و تناسب سےماوراہے اورجو ہر کسی کو کسی بھی امتیاز سے بالا تر ہو کریکساں طور پےملنی چاہئے،اسلئے اسلام نے حصول علم محض روزینہ کمانے کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ تعلیم کو عبادت کا درجہ دیااور اسے خوشنودیِ الہی کا باعث ٹھہرایا ، اسلام کی پہلی درسگاہ صفہ میں بغیر کسی رنگ ونسل حسب و نسب ،اور مال ودولت کے امتیاز کے سب تعلیم حاصل کرتے تھے اور رسول ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں تمام نسلی امتیازات کو ختم کر دیا تھا۔
5. مخلوظ نظام کا خاتمہ:
مخلوط نظام تعلیم در اصل مغربی تحریک آزادی (جو در حقیقت بربادیِ) نسواں کا شاخسانہ ہے،مخلوط نظام تعلیم نےتعلیم اور تخلیقی صلاحیتوں کو متاثر کرنے کے ساتھ معاشرتی بگاڑ میں بھی کلیدی اور اساسی کردار ادا کیا ہے ،اگرمخلوط نظام تعلیم کے نتائج کامشاہدہ کرنا چاہتے ہیں تو زیادہ دور نہیں صرف آزادیِ نسواں کے علمبردار امریکہ کو ہی دیکھ لیجئے جہاں سینکڑوں بچیا ں وقت بلوغت سے قبل ہی پرگننٹ ہو جاتی ہیں اور بن باپ کے بچے جن کا تناسب ہر سال مزید سے مزید تر ہوتا جا رہا ہے ،صرف امریکہ ہی میں ہرسال سینکڑوں خواتین پورن کو پروفیشن کے طور اختیار کرتی ہیں ،اور یہ کوئی قحبہ خانے کی بیسوا نہیں جن کا خاندانی پیشہ ہی یہ ہے، بلکہ یہ معاشرے کی وہ تعلیم یافتہ فردۃ ہے جو پہلے کسی دفتر ،دوکان ،ہاسپٹل ،وغیرہ میں جاب کرتی تھی۔
ویسے بھی سائنسی اعتبارسے تخلیقی طور پر عورت اور مرد کی صلاحیت میں کوئی زیادہ ہم آہنگی نہیں ہے جو کہ تعلیم پر برے طریقے اثر انداز ہوتی ہے
6. زبان کا مسئلہ:
ہمارے تعلیمی نظام میں اُردو ہ''ہماری قومی و سرکاری زبان ''کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے جوکہ ایک قومی غفلت اور آئینی انحراف کے مترادف ہے۔ پوری دنیا میں قومی زبان ایک آزاد ور با وقار قوم کی شناخت سمجھی جاتی ہے ۔ MDGکے مطابق 2015ءتک پاکستان کو 100فیصد شرح خواندگی حاصل کرنا لازمی ہے ۔ قومی زبان کی بے توقیری اور عدم فعالیت کی صورت میں ا س ہدف کا حصول ناممکن ہے۔ اب جب کہ پاکستان میں انگریزی بطور تعلیمی نظام کے رائج ہو چکی ہے،ملک تو پھر ترقی کی راہ پے گامزن ہو جانا چاہیے تھا،اس خطے میں اعلی سائنسدان ،بہترین انتظامی آفیسر ، اور عظیم دانشور پیدا ہو جانے چاہئے تھے، لیکن جادو وہ سرچڑ کےبولے۔۔۔۔!اس سال کے سول سروس کے امتحانی نتائج آپ کے سامنے ہیں ،صرف دو فیصد امیدوار یہ امتحان پاس کر سکے،کسی بھی مادری زبان کے مقابلےدوسری زبان میں انسان کے سیکھنے کی صلاحیت تیس فیصد سے زیادہ نہیں ہوتی اور اس کے لکھنے اور سمجھانے کی بھی صلاحیت کم ہو جاتی ہے ،پچھلی پانچ ہزار سالہ تاریخ ہمیں یہ ہی بتاتی ہے جس قوم نے بھی دنیا پرحکومت اور ترقی کی ہے تو اپنی زبان ہی کی مرہون منت ۔۔۔۔۔۔!اوردنیا میں کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں جس نے کسی دوسری قوم کی زبان اپنا کر ناخواندگی کے چیلنج پر قابو پایا ہو۔
ان چند گزارشات کا ما حصل یہ ہے کہ تعلیم کا مسئلہ انتہائی نزاکت کا حامل ہے ،ترقی اور تعلیم دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے، قوموں کا عروج تعلیم کے ذریعے سے ہی ممکن ہوتا ہے، تعلیم کسی بھی ملک و قوم کی مستقبل سازی کے لیے ناگزیر ہے، تعلیم کا عمل جتنا بامقصد، موثر اور وقتی اور عصری سے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوگا، اتنا ہی قوم اور ملک کا مستقبل شاندار اور تابناک ہوگا۔
لہذا اس مسئلہ پر سنجیدہ غور فکر کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
خیر اندیش: عبید الر حمن شفیق