• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ممبئی حملہ بھارت، اسرائیل اور امریکا کا گٹھ جوڑ تھا، جرمن صحافی کا انکشاف

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
ممبئی حملہ بھارت، اسرائیل اور امریکا کا گٹھ جوڑ تھا، جرمن صحافی کا انکشاف

مریکا نے ایک بار پھر زور دیا ہے کہ پاکستان ممبئی حملوں کے ذمہ داروں خاص کر حافظ سعید کے خلاف کارروائی کرے، ٹرمپ کی ٹویٹ کے بعد پاک امریکا تعلقات میں جوخلیج پیدا ہوئی ہے اس کے تناظر میں دیکھا جائے تو ممبئی دہشت گرد حملوں کے معاملے پر بھارت کی زبان بولنے کے امریکی طرز عمل میں چند ہفتوں سے تیزی آنے کی وجوہ کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں۔

مگر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ممبئی حملوں کو لے کر پاکستان کو دباؤ میں لانے کے پرانے حربے کو پھر سے استعمال کرنے کے غبارے سے ہوا خود بھارت میں شائع ہونے والی تحقیقاتی کتاب ’’Betrayal of India – Revisiting the 26/11 Evidence‘‘ نے ہی نکال دی ہے۔ ممبئی حملوں سے متعلق ہوش ربا انکشافات اور حقائق پر مبنی تجزیے پر مشتمل یہ کتاب بھارتی پبلشر فروز میڈیا، نیو دہلی کی شائع کردہ ہے۔ مصنف معروف تحقیقاتی صحافی ایلیس ڈیوڈسن کی، جن کا تعلق یہودی مذہب اور جرمنی سے ہے، غیرجانبداری نے سامنے لائے گئے حقائق کو مصدقہ اور قابل بھروسہ بنا دیا ہے۔

2017 میں سامنے آنے والی اس کتاب میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ دہلی سرکار اور بھارت کے بڑے اداروں نے حقائق مسخ کیے، بھارتی عدلیہ انصاف کی فراہمی اور سچائی سامنے لانے کی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہی۔ ممبئی حملوں کے مرکزی فائدہ کار ہندو انتہا پسندو قوم پرست رہے کیوں کہ ان حملوں کے نتیجے میں ہیمنت کرکرے اور دوسرے پولیس افسران کو راستے سے ہٹایا گیا۔ انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ ساتھ نہ صرف بھارت بلکہ امریکا اور اسرائیل کے کاروباری، سیاسی اور فوجی عناصرکو بھی اپنے مقاصد پورے کرنے کے لیے ان حملوں کا فائدہ پہنچا جب کہ صحافی ایلیس ڈیوڈسن اپنی تحقیقات میں اس نتیجے پر بھی پہنچا کہ ممبئی حملوں کا پاکستانی حکومت اور فوج کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔


مصنف ایلیس ڈیوڈسن کی تحقیقات کے مطابق ممبئی دہشت گرد حملوں کے حقائق چھپانا بھارتی سیکیورٹی و انٹیلی جنس اداروں کی نااہلی نہیں بلکہ منصوبہ بندی کے تحت حقائق میں جان بوجھ کر کی گئی ہیرا پھیری تھی۔ اس کیس کی عدالتی کارروائی بھی غیرجانبدار نہیں تھی بلکہ اہم ثبوت اور گواہوں کو نظرانداز کیا گیا۔

تحقیقاتی صحافی کے نزدیک ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی و عمل درآمد کی سازش میں بھارت کے ساتھ ساتھ امریکا اور اسرائیلی کردار بھی پنہاں ہے۔ مصنف نے ممبئی حملوں کو خفیہ آپریشنز طرز کے حملے قرار دیا جس سے یہ تاثر قائم کیا گیا کہ بھارت کو دہشت گردی سے مستقل خطرہ ہے۔ اس سے بھارت کو دہشت گردی کی عالمی جنگ کے لیڈنگ ممالک کے ساتھ کھڑا ہونے میں مدد ملی۔ ممبئی حملوں میں ہیمنت کرکرے اور دوسرے پولیس افسروں کے قتل کے حوالے سے اہم اطلاعات کو بھی چھپایا گیا۔

مصنف نے اجمل قصاب والے پہلو پر بھی بھرپور توجہ دی۔ ایلیس ڈیوڈسن کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ ممبئی حملوں کے ان متاثرین اور گواہوں کے بیانات نہیں لیے گئے جو واقعے کے سرکاری بیانیے کو اپنانے پر تیار نہ ہوئے۔ ان گواہوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے نریمان ہاؤس میں حملوں سے دو روز قبل اجمل قصاب اور چند دیگر افراد کو اکٹھا ہوتے دیکھا۔ کچھ مقامی دکاندار اور رہائشیوں نے یہ گواہی بھی دی کہ شدت پسند کم از کم پندرہ دن نریمان ہاؤس میں رہتے رہے۔

کتاب میں بتایا گیا ہے کہ کئی گواہوں کو سکھایا گیا کہ کس طرح انہیں سرکاری مؤقف اختیار کرنا ہے۔ بھارتی اور اسرائیلی حکومتیں نریمان ہاؤس واقعے سے متعلق ثبوت گھڑتی رہیں اور مرضی کی گواہیاں حاصل کرنے میں ملوث نظر آئیں۔ دہشت گردوں کے سہولت کار فون نمبر 012012531824 استعمال کرتے رہے جو امریکا میں تھا۔

اجمل قصاب کے اقبالی بیان کے مطابق وہ ممبئی سے حملوں سے بیس دن پہلے گرفتار کیا گیا اور پھر ملوث کیا گیا۔ بعد ازاں اجمل قصاب اپنے اس بیان سے مکر گیا۔ مصنف نے اپنے تجزیئے میں یہ سوال بھی اٹھایا کہ دعوی کیا گیا کہ قصاب پورے تاج ہوٹل کو اڑانا چاہتا تھا، تاہم اس مقصد کے لیے اس کے پاس آٹھ آٹھ کلو کے محض چار بم تھے جو بہت ہی ناکافی تھے۔

Betrayal of India – Revisiting the 26/11 Evidence نے ممبئی حملوں کے نام پر پاکستان کو دباؤ میں لانے کے امریکا، بھارت اور اسرائیلی گٹھ جوڑ کا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے۔ مگر یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان معروف تحقیقاتی صحافی کی کتاب میں اٹھائے گئے اہم پہلوؤں کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں روایتی سستی کیوں دکھا رہا ہے جس کے لیے دفتر خارجہ کا کردار نہایت اہم ہے۔

احمد منصور
جمعرات 25 جنوری 2018
 
Top