بخاری سید
رکن
- شمولیت
- مارچ 03، 2013
- پیغامات
- 255
- ری ایکشن اسکور
- 470
- پوائنٹ
- 77
(اصل تجزیے کی طوالت کے پیش نظر اس اقتباس کوتفصیلات منہا کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے )
28 مئی کو پاکستان بھر میں یوم تکبیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ خطے میں اپنی روایتی حریف بھارت کے ساتھ طاقت کا توازن برقرار رکھنے کی خاطر 1998 میں آج کے دن پاکستان نے 6 ایٹمی دھماکے کئے تھے۔
اس اہم مشن کی تکمیل بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقعہ دالبدین کے پہاڑوں ہوئی اور مشن پر کام کرنے والے انجنیئرز کو اس مشن کا خاطر خواہ معاوضہ بھی دیا گیا تھا۔
ان دھماکوں نے جہاں پاکستان کو دنیا کی ایٹمی طاقتوں کی صف میں لا کھڑا کیا وہیں دنیا بھر کی طاغوتی طاقتوں کے لیے یہ بات تشویش کا باعث بن گئی۔
ایسے میں اقتصادی پابندیوں، سفارتی دباؤ اور دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے پاکستان کو ہر گذرتے دن کے ساتھ اپنا ایٹمی پروگرام محدود کرنے یا اسے "امریکہ" کے "محفوظ" ہاتھوں میں دینے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے۔
اس وقت کے وزیر اعظم نوازشریف کے علاوہ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم کے کچھ اور ساتھیوں کو بھی اس فیصلے کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔
اس فیصلے کو کرنے والے بہت سے کردار تا حال بقید حیات ہیں اور تب کے وزیر اعظم نواز شریف کو دوبارہ اقتدار سونپنے کی تیاری زور و شور سے جاری ہے تکمیل کے مراحل کے قریب ہے۔
آج کے دن ملک بھر میں مسلم لیگ ن کی جانب سے تقریبات بھی ہوں گی اور یوم تکبیر کے کارنامے کو بڑھ چڑھ کر بیان کیا جائے گا۔
بے شک پاکستان کے عوام کے لیے یہ دن تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس دن کو تاریخی حیثیت دلوانے کے لیے اہم ترین قربانی دینے والے 400 خاندانوں کا تذکرہ بھی کہیں پر ہوگا جنہوں نے دالبدین کے پہاڑوں پر موجود اپنا گھر بار اس مشن کی تکمیل کی خاطر اس وعدے پر چھوڑا تھا کہ حکومت ان کی بھرپور داد رسی کرے گی اور انہیں دوسری جگہ ایسے ہی ماحول میں بسایا جائے گا؟
کیا متوقع نو منتخب وزیر اعظم یہ بتا سکتے ہیں کہ ان 400 خاندانوں کے لیے آپ کی جانب سے اعلان شدہ 10 کروڑ روپیہ کہاں موجود ہے اور ان خاندانوں کو اب تک فراہم کیوں نہیں کیا گیا؟
فقط ایک خیمہ اور 3 بوری گندم فی خاندان جو حکومت کی جانب سے 1998 میں ان خاندانوں کو فراہم کی گئی تھی 15 سال گذارنے کے لیے کافی تصور کر لی گئی؟
ملک بھر میں "انسانی حقوق" کیلئے کام کرنے والی ہزاروں این جی اوز نے ایک مرتبہ بھی ان خاندانوں کے حقوق کے لیے آواز کیوں نہیں اُٹھائی؟
15 سال گذرنے کے باوجود یہ خاندان سڑک کنارے موسمی حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے خیمہ بستی میں رہنے پر مجبور ہیں۔ یوم تکبیر کے موقع پر ان کی قربانی کو یاد کیا جائے گا؟
چیف جسٹس کسی بھی معاملے پر سوموٹو ایکشن لینے کا اختیار رکھتے ہیں تو ان مظلوم 400 خاندانوں کی داد رسی سے تاحال چشم پوشی کیوں؟
کیا ان سوالات کے جوابات اگلے 15 سال میں بھی ملنے کی امید کی جا سکتی ہے؟
28 مئی کو پاکستان بھر میں یوم تکبیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ خطے میں اپنی روایتی حریف بھارت کے ساتھ طاقت کا توازن برقرار رکھنے کی خاطر 1998 میں آج کے دن پاکستان نے 6 ایٹمی دھماکے کئے تھے۔
اس اہم مشن کی تکمیل بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقعہ دالبدین کے پہاڑوں ہوئی اور مشن پر کام کرنے والے انجنیئرز کو اس مشن کا خاطر خواہ معاوضہ بھی دیا گیا تھا۔
ان دھماکوں نے جہاں پاکستان کو دنیا کی ایٹمی طاقتوں کی صف میں لا کھڑا کیا وہیں دنیا بھر کی طاغوتی طاقتوں کے لیے یہ بات تشویش کا باعث بن گئی۔
ایسے میں اقتصادی پابندیوں، سفارتی دباؤ اور دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے پاکستان کو ہر گذرتے دن کے ساتھ اپنا ایٹمی پروگرام محدود کرنے یا اسے "امریکہ" کے "محفوظ" ہاتھوں میں دینے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے۔
اس وقت کے وزیر اعظم نوازشریف کے علاوہ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم کے کچھ اور ساتھیوں کو بھی اس فیصلے کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔
اس فیصلے کو کرنے والے بہت سے کردار تا حال بقید حیات ہیں اور تب کے وزیر اعظم نواز شریف کو دوبارہ اقتدار سونپنے کی تیاری زور و شور سے جاری ہے تکمیل کے مراحل کے قریب ہے۔
آج کے دن ملک بھر میں مسلم لیگ ن کی جانب سے تقریبات بھی ہوں گی اور یوم تکبیر کے کارنامے کو بڑھ چڑھ کر بیان کیا جائے گا۔
بے شک پاکستان کے عوام کے لیے یہ دن تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس دن کو تاریخی حیثیت دلوانے کے لیے اہم ترین قربانی دینے والے 400 خاندانوں کا تذکرہ بھی کہیں پر ہوگا جنہوں نے دالبدین کے پہاڑوں پر موجود اپنا گھر بار اس مشن کی تکمیل کی خاطر اس وعدے پر چھوڑا تھا کہ حکومت ان کی بھرپور داد رسی کرے گی اور انہیں دوسری جگہ ایسے ہی ماحول میں بسایا جائے گا؟
کیا متوقع نو منتخب وزیر اعظم یہ بتا سکتے ہیں کہ ان 400 خاندانوں کے لیے آپ کی جانب سے اعلان شدہ 10 کروڑ روپیہ کہاں موجود ہے اور ان خاندانوں کو اب تک فراہم کیوں نہیں کیا گیا؟
فقط ایک خیمہ اور 3 بوری گندم فی خاندان جو حکومت کی جانب سے 1998 میں ان خاندانوں کو فراہم کی گئی تھی 15 سال گذارنے کے لیے کافی تصور کر لی گئی؟
ملک بھر میں "انسانی حقوق" کیلئے کام کرنے والی ہزاروں این جی اوز نے ایک مرتبہ بھی ان خاندانوں کے حقوق کے لیے آواز کیوں نہیں اُٹھائی؟
15 سال گذرنے کے باوجود یہ خاندان سڑک کنارے موسمی حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے خیمہ بستی میں رہنے پر مجبور ہیں۔ یوم تکبیر کے موقع پر ان کی قربانی کو یاد کیا جائے گا؟
چیف جسٹس کسی بھی معاملے پر سوموٹو ایکشن لینے کا اختیار رکھتے ہیں تو ان مظلوم 400 خاندانوں کی داد رسی سے تاحال چشم پوشی کیوں؟
کیا ان سوالات کے جوابات اگلے 15 سال میں بھی ملنے کی امید کی جا سکتی ہے؟