محمد طالب حسین
رکن
- شمولیت
- فروری 06، 2013
- پیغامات
- 156
- ری ایکشن اسکور
- 93
- پوائنٹ
- 85
منکرين حديث اور احناف
بے شمار احادیث میں آتا ہے کہ نماز شروع کرتے وقت تکبیر کہنی چاہئے اورعموماً ’’کبر‘‘ کے
الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس سے مرا د ’’اللہ اکبر ‘‘ ہی ہے کیونکہ سنن ابن ماجہ (۸۵۲) میں اسی کی صراحت ہے ۔
اسی صراحت سے تمام تاویلات ختم ہوجاتی ہیں کہ ’’ کبر‘‘ سے کیا مراد ہے ؟
فقہ حنفی کی مشہور کتاب (الھدیہ : ۱/۵۰) میں لکھا ہوا ہے’’ولھما أن التکبیر ھوالتعظیم لغۃ وھو حاصل ‘‘ (نماز شروع کرتے وقت اللہ اعظم ،اللہ اجل کہنا احناف کے ہاں درست ہے اسی کی توجیہ بیان کی جا رہی ہے) ان دونوں امام (امام ابو حنیفہ اور محمد ) کے نزدیک تکبیر لغوی اعتبار سے تعظیم ہی ہے اوروہ (ان کلمات سے اللہ اعظم وغٰیرہ ) حاصل ہے۔
مولانا تقی محمد عثمانی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں ’’ پھر اس ذکر کے بارے میں اختلاف ہے امام حنیفہ اور امام محمد کے نزدیک کوئی بھی ایسا ذکر جو اللہ تعالی کی بڑائی پر دلالت کرتا ہو اسی سے فریضہ تحریمہ ادا ہو جاتا ہے مثلاً اللہ اجل ، یا اللہ اعظم کا صیغہ استعمال کرے تو اس کی نماز کا فریضہ ادا ہو جائے گا لیکن اعادہ صلوۃ واجب ہوگا ‘‘
(درس ترمذی : ۱/۴۹۴)
فقہ حنفی کیسی الٹی منطق ہے کہ انسانی سمجھ سے بالاتر ،آئیں ہم سمجھاتے ہیں کہ اللہ اکبر مسنون کلمہ چھوڑ کر فقہ حنفی پر عمل کرنے کی غرض سے کوئی اللہ اجل یا اللہ اعظم کہ کر نماز شروع کر دے تو فریضہ تحریمہ ادا ہو گیا اعادہ صلوۃ واجب ہو گا ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
ایسی غیر معقول باتیں کرنے کی کیا ضرورت ، نماز کے شروع میں اللہ اجل وغیرہ کیوں کہا جائے کیا یہ دین ہے جوبھی یہ کہے گا وہ دین اسلام کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور وہ اس کلمے سے ابتداء کی کی گئی نماز پڑھ بھی لے توبعد میں اپنی نماز دہرائے ۔
یعنی فقہ حنفی اس قدر ناقص اور غیر معقول ہے کہ جو شخص فقہ حنفی کے اس مسئلے پر عمل کرتا ہے وہ نماز کو دوبارہ دہرائے ۔
احناف کے امام علامہ ابن ابی العز الحنفی نے احناف کے اس نقطہ نظر کا خوب رد کیا ہے اور لکھا کہ ’’ تکبیر کو تعظیم قرار دینا درست نہیں ہے کیونکہ تکبیر تعظیم کے مترادف نہیں ہے بلکہ تکبیر تعظیم سے زیادہ بلیغ ہے ، تکبیر میں تعظیم کا معنی بھی اور زیادہ بھی ہے ، کیونکہ ایک حدیث قدسی ہے اللہ تعالی نے فرمایا :’’عظمت میری ازار ہے اور کبریائی میری رداء ہے ۔ ‘‘
اور یہ بات معلوم شدہ ہے کہ رداء کا مرتبہ ازار سے زیادہ ہے تو تکبیر کو تعظیم پر فضیلت حاصل ہوئی ۔ اسی وجہ سے تکبیر کو جھر کرنا دین کے شعائر میں سے ہے اور اس کو ہماری شریعت نے کئی مقامات پر معین کیا ہے ۔ مثلاً اذان میں ، ایام تشریق میں تکبیرات ، نماز عیدین میں زوائد تکبیرات اور نماز میں تکبیرات انتقال میں ۔
رسول اللہ کبھی بھی اللہ اکبر کے علاوہ کسی کلمہ کے ساتھ داخل نہیں ہوئے ۔ اگر بلفرض تکبیر کے ماسوا کلمات (اللہ اعظم وغیرہ) تکبیر کے قائم مقام ہوتے تو آپ ایسا ضرور کرتے اور اگرچہ پوری زندگی میں بطور تعلیم صرف ایک مرتبہ ہی کرتے ۔
رسول اللہ نے فرمایا : ’’ جس نے نماز کے بعد ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ ، ۳۳ مرتبہ الحمد اللہ اور ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر کہا اس کے پہلے تمام گناہ معاف کر دئیے جائیں گے
(صحیح مسلم : ۱۴۴،۱۴۵)
یہاں بھی اللہ اکبر کو دیگر کلمات سے زیادتی حاصل ہوئی ہے ۔
اسی طرح سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں :’’ میں رسول اللہ کی نمازوں کا مکمل ہونا اللہ اکبر کے ساتھ پہچانتا تھا
(صحیح البخاری : ۸۴۲ ، صحیح مسلم ۱۲۱)
اس مقام پر بھی ذکر بالجھر کے ساتھ اللہ اکبر کو کیا گیا ہے اس کے ساتھ بھی اللہ اکبر کو برتری حاصل ہوتی ہے دیگر کلمات سے ۔
پس تکبیر کے غیر کو اس پر قیاس کرنا محل نظر ہے ۔
(التبیہ علی مشکلات الھدریہ : ۳/۵۲۵ ۵۲۶)
فقہ حنفی کا غلط اصول
محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں ،،چنانچہ زیر بحث مسئلہ میں بھی حنفیہ کا استدلال آیات قرآنی ’’ذکر اسمہ ربہ فصلی ‘‘سے ہے کہ اس میں مطلق اسم باری کا بیان ہے،صیغہ تکبیر کی کوئی خصوصیت نہیں،اور حدیث باب میں صیغہ تکبیر کی جو تخصیص کی گئی ہے وہ خبر واحد ہونے کی بناء پر قطعی الثبوت نہیں، لھذا اس سے فرضیت ثابت نہیں ہو گی ، البتہ وجوب ثابت ہو گا
(درس ترمذی :۱/۴۹۵)
پھلی بات :یہ ہے کہ احناف کا یہ اصول درست نہیں کہ قرآن مجید کی تخصیص خبر واحد سے درست نہیں کیونکہ خبر واحد قطعی الثبوت نہیں ہوتی۔
یاد رہے کہ احادیث متواترہ بہت ھی کم ہیں کیا دین معاذ اللہ قطعی الثبوت تھوڑا سا ہے باقی تمام دین ظنی ہے؟
یہ اصول انکار حدیث کا دروازہ کھولتا ہے اور اس طرح کی باتیں منکرین حدیث کرتے ہیں مگر وہی احناف بھی استعمال کر رہے ہیں
صحیح حدیث دین ہے اور ہر صحیح حدیث قطیت کا فائدہ دیتی ہے خواہ آحاد ہو یا متواتر ہو امام شافعی خبر واحد کو قبول کرنا فرض سمجھتے تھے
(اجماع العلم لشافعی ص۸فقرہ۱)
امام احمد بن حنبل نے فرمایا :’’جس نے رسول کی(صحیح) حدیث رد کی تو وہ شخص ہلاکت کے کنارے پر ہے۔
احناف کے ہاں امام ابو حنیفہ کے بارے میں مشہور ہے کہ ’’اذاصح الحدیث فہو مذہبی‘‘ جب حدیث صحیح ہو تو میرا مذہب ہے۔(چاہے وہ آحاد ہو یا متواتر)
احناف تو امام ابو حنیفہ کے مقلد ہیں کیا یہ فرق کہ خبر آحاد سے قرآن کریم کی کسی آیت کی تخصیص درست نہیں،، یہ بات ابو حنیفہ سے ثابت ہے؟ اگر نہیں تو تم نے یہ بات کس سے لی اس امام ،محدث کا نام لکھیں ۔گویا تم نے باطل اصول وضع کرنے میں اپنے امام کو چھوڑدیا آخر کیوں؟!
ََََََََََََََْْْْْْْْْْْ ْْ
علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی نے کہا :’’اما بالخبر الواحد فقال بجوزہ الائمۃ الابعۃ قرآن کریم کی خبر واحد کے ساتھ تخصیص ائمہ اربعہ کے نزدیک جائز ہے
غیث الغمام ص ۲۷۷آآل تقلید سے گزارش ہے کہ بقول عبدالحئی لکھنوی امام ابو حنیفہ کے نزدیک بھی قرآن کریم کی تخصیص خبر آحاد سے جائز ہے ہم اس بات کی تصدیق بھی کرتے ہیں کیونکہ جو تقی عثمانی صاحب نے لکھا وہ محض مسلکی حمایت ہے اصلا ابوحنیفہ ایسے باطل اصولوں سے بری ہیں
کیا کوئی حنفی عالم امام ابوحنیفہ سے باسند صحیح ثابت کر سکتا ہے کہ نھوں نے کہا ہو نماز شروع کرتے وقت اللہ اجل یا اللہ اعظم کہنا درست ہے
ہل من مجیب ؟
حافظ ابن حجر عسقلانی نے فرمایا:خبر واحد پر کسی رد کے بغیرصحابہ و تابعین کے درمیان وسیع پیمانے پر عمل جاری تھا اور یہ اس بات کی (واضح )دلیل ہے کہ وہ خبر واحد کے مقبول ہونے پر متفق تھے ۔(فتح الباری ج۱۳ص۲۳۴)
علامہ ابن ابی العز الحنفی نے فرمایا:خبر واحد کو عمل یا تصدیق کے لحاظ سے امت کی تلقی بالقبول حاصل ہو تو تو جمہور امت کے نزدیک یہ یقینی علم کا فائدہ دیتی ہے اور یہ متواتر کی دو قسموں میں سے ایک ہے ،سلف صالحین کے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں تھا ۔(شرح العقیدۃ الطحاویہ ص۳۹۹۔۴۰۰)
مزید تفصیلات کے لئے امام شافعی کی الرسالہ ،امام البانی کی الحدیث حجۃ بنفسہ فی العقائد والاحکام ،امام محمد گوندلوی کی دوام حدیث ، مولانا غازی عزیر مبارکپوری کی انکار حدیث کا نیا روپ اور حافظ عبدالستار الحماد کی حجیت حدیث دیکھیں
بے شمار احادیث میں آتا ہے کہ نماز شروع کرتے وقت تکبیر کہنی چاہئے اورعموماً ’’کبر‘‘ کے
الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس سے مرا د ’’اللہ اکبر ‘‘ ہی ہے کیونکہ سنن ابن ماجہ (۸۵۲) میں اسی کی صراحت ہے ۔
اسی صراحت سے تمام تاویلات ختم ہوجاتی ہیں کہ ’’ کبر‘‘ سے کیا مراد ہے ؟
فقہ حنفی کی مشہور کتاب (الھدیہ : ۱/۵۰) میں لکھا ہوا ہے’’ولھما أن التکبیر ھوالتعظیم لغۃ وھو حاصل ‘‘ (نماز شروع کرتے وقت اللہ اعظم ،اللہ اجل کہنا احناف کے ہاں درست ہے اسی کی توجیہ بیان کی جا رہی ہے) ان دونوں امام (امام ابو حنیفہ اور محمد ) کے نزدیک تکبیر لغوی اعتبار سے تعظیم ہی ہے اوروہ (ان کلمات سے اللہ اعظم وغٰیرہ ) حاصل ہے۔
مولانا تقی محمد عثمانی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں ’’ پھر اس ذکر کے بارے میں اختلاف ہے امام حنیفہ اور امام محمد کے نزدیک کوئی بھی ایسا ذکر جو اللہ تعالی کی بڑائی پر دلالت کرتا ہو اسی سے فریضہ تحریمہ ادا ہو جاتا ہے مثلاً اللہ اجل ، یا اللہ اعظم کا صیغہ استعمال کرے تو اس کی نماز کا فریضہ ادا ہو جائے گا لیکن اعادہ صلوۃ واجب ہوگا ‘‘
(درس ترمذی : ۱/۴۹۴)
فقہ حنفی کیسی الٹی منطق ہے کہ انسانی سمجھ سے بالاتر ،آئیں ہم سمجھاتے ہیں کہ اللہ اکبر مسنون کلمہ چھوڑ کر فقہ حنفی پر عمل کرنے کی غرض سے کوئی اللہ اجل یا اللہ اعظم کہ کر نماز شروع کر دے تو فریضہ تحریمہ ادا ہو گیا اعادہ صلوۃ واجب ہو گا ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
ایسی غیر معقول باتیں کرنے کی کیا ضرورت ، نماز کے شروع میں اللہ اجل وغیرہ کیوں کہا جائے کیا یہ دین ہے جوبھی یہ کہے گا وہ دین اسلام کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور وہ اس کلمے سے ابتداء کی کی گئی نماز پڑھ بھی لے توبعد میں اپنی نماز دہرائے ۔
یعنی فقہ حنفی اس قدر ناقص اور غیر معقول ہے کہ جو شخص فقہ حنفی کے اس مسئلے پر عمل کرتا ہے وہ نماز کو دوبارہ دہرائے ۔
احناف کے امام علامہ ابن ابی العز الحنفی نے احناف کے اس نقطہ نظر کا خوب رد کیا ہے اور لکھا کہ ’’ تکبیر کو تعظیم قرار دینا درست نہیں ہے کیونکہ تکبیر تعظیم کے مترادف نہیں ہے بلکہ تکبیر تعظیم سے زیادہ بلیغ ہے ، تکبیر میں تعظیم کا معنی بھی اور زیادہ بھی ہے ، کیونکہ ایک حدیث قدسی ہے اللہ تعالی نے فرمایا :’’عظمت میری ازار ہے اور کبریائی میری رداء ہے ۔ ‘‘
اور یہ بات معلوم شدہ ہے کہ رداء کا مرتبہ ازار سے زیادہ ہے تو تکبیر کو تعظیم پر فضیلت حاصل ہوئی ۔ اسی وجہ سے تکبیر کو جھر کرنا دین کے شعائر میں سے ہے اور اس کو ہماری شریعت نے کئی مقامات پر معین کیا ہے ۔ مثلاً اذان میں ، ایام تشریق میں تکبیرات ، نماز عیدین میں زوائد تکبیرات اور نماز میں تکبیرات انتقال میں ۔
رسول اللہ کبھی بھی اللہ اکبر کے علاوہ کسی کلمہ کے ساتھ داخل نہیں ہوئے ۔ اگر بلفرض تکبیر کے ماسوا کلمات (اللہ اعظم وغیرہ) تکبیر کے قائم مقام ہوتے تو آپ ایسا ضرور کرتے اور اگرچہ پوری زندگی میں بطور تعلیم صرف ایک مرتبہ ہی کرتے ۔
رسول اللہ نے فرمایا : ’’ جس نے نماز کے بعد ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ ، ۳۳ مرتبہ الحمد اللہ اور ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر کہا اس کے پہلے تمام گناہ معاف کر دئیے جائیں گے
(صحیح مسلم : ۱۴۴،۱۴۵)
یہاں بھی اللہ اکبر کو دیگر کلمات سے زیادتی حاصل ہوئی ہے ۔
اسی طرح سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں :’’ میں رسول اللہ کی نمازوں کا مکمل ہونا اللہ اکبر کے ساتھ پہچانتا تھا
(صحیح البخاری : ۸۴۲ ، صحیح مسلم ۱۲۱)
اس مقام پر بھی ذکر بالجھر کے ساتھ اللہ اکبر کو کیا گیا ہے اس کے ساتھ بھی اللہ اکبر کو برتری حاصل ہوتی ہے دیگر کلمات سے ۔
پس تکبیر کے غیر کو اس پر قیاس کرنا محل نظر ہے ۔
(التبیہ علی مشکلات الھدریہ : ۳/۵۲۵ ۵۲۶)
فقہ حنفی کا غلط اصول
محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں ،،چنانچہ زیر بحث مسئلہ میں بھی حنفیہ کا استدلال آیات قرآنی ’’ذکر اسمہ ربہ فصلی ‘‘سے ہے کہ اس میں مطلق اسم باری کا بیان ہے،صیغہ تکبیر کی کوئی خصوصیت نہیں،اور حدیث باب میں صیغہ تکبیر کی جو تخصیص کی گئی ہے وہ خبر واحد ہونے کی بناء پر قطعی الثبوت نہیں، لھذا اس سے فرضیت ثابت نہیں ہو گی ، البتہ وجوب ثابت ہو گا
(درس ترمذی :۱/۴۹۵)
پھلی بات :یہ ہے کہ احناف کا یہ اصول درست نہیں کہ قرآن مجید کی تخصیص خبر واحد سے درست نہیں کیونکہ خبر واحد قطعی الثبوت نہیں ہوتی۔
یاد رہے کہ احادیث متواترہ بہت ھی کم ہیں کیا دین معاذ اللہ قطعی الثبوت تھوڑا سا ہے باقی تمام دین ظنی ہے؟
یہ اصول انکار حدیث کا دروازہ کھولتا ہے اور اس طرح کی باتیں منکرین حدیث کرتے ہیں مگر وہی احناف بھی استعمال کر رہے ہیں
صحیح حدیث دین ہے اور ہر صحیح حدیث قطیت کا فائدہ دیتی ہے خواہ آحاد ہو یا متواتر ہو امام شافعی خبر واحد کو قبول کرنا فرض سمجھتے تھے
(اجماع العلم لشافعی ص۸فقرہ۱)
امام احمد بن حنبل نے فرمایا :’’جس نے رسول کی(صحیح) حدیث رد کی تو وہ شخص ہلاکت کے کنارے پر ہے۔
احناف کے ہاں امام ابو حنیفہ کے بارے میں مشہور ہے کہ ’’اذاصح الحدیث فہو مذہبی‘‘ جب حدیث صحیح ہو تو میرا مذہب ہے۔(چاہے وہ آحاد ہو یا متواتر)
احناف تو امام ابو حنیفہ کے مقلد ہیں کیا یہ فرق کہ خبر آحاد سے قرآن کریم کی کسی آیت کی تخصیص درست نہیں،، یہ بات ابو حنیفہ سے ثابت ہے؟ اگر نہیں تو تم نے یہ بات کس سے لی اس امام ،محدث کا نام لکھیں ۔گویا تم نے باطل اصول وضع کرنے میں اپنے امام کو چھوڑدیا آخر کیوں؟!
ََََََََََََََْْْْْْْْْْْ ْْ
علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی نے کہا :’’اما بالخبر الواحد فقال بجوزہ الائمۃ الابعۃ قرآن کریم کی خبر واحد کے ساتھ تخصیص ائمہ اربعہ کے نزدیک جائز ہے
غیث الغمام ص ۲۷۷آآل تقلید سے گزارش ہے کہ بقول عبدالحئی لکھنوی امام ابو حنیفہ کے نزدیک بھی قرآن کریم کی تخصیص خبر آحاد سے جائز ہے ہم اس بات کی تصدیق بھی کرتے ہیں کیونکہ جو تقی عثمانی صاحب نے لکھا وہ محض مسلکی حمایت ہے اصلا ابوحنیفہ ایسے باطل اصولوں سے بری ہیں
کیا کوئی حنفی عالم امام ابوحنیفہ سے باسند صحیح ثابت کر سکتا ہے کہ نھوں نے کہا ہو نماز شروع کرتے وقت اللہ اجل یا اللہ اعظم کہنا درست ہے
ہل من مجیب ؟
حافظ ابن حجر عسقلانی نے فرمایا:خبر واحد پر کسی رد کے بغیرصحابہ و تابعین کے درمیان وسیع پیمانے پر عمل جاری تھا اور یہ اس بات کی (واضح )دلیل ہے کہ وہ خبر واحد کے مقبول ہونے پر متفق تھے ۔(فتح الباری ج۱۳ص۲۳۴)
علامہ ابن ابی العز الحنفی نے فرمایا:خبر واحد کو عمل یا تصدیق کے لحاظ سے امت کی تلقی بالقبول حاصل ہو تو تو جمہور امت کے نزدیک یہ یقینی علم کا فائدہ دیتی ہے اور یہ متواتر کی دو قسموں میں سے ایک ہے ،سلف صالحین کے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں تھا ۔(شرح العقیدۃ الطحاویہ ص۳۹۹۔۴۰۰)
مزید تفصیلات کے لئے امام شافعی کی الرسالہ ،امام البانی کی الحدیث حجۃ بنفسہ فی العقائد والاحکام ،امام محمد گوندلوی کی دوام حدیث ، مولانا غازی عزیر مبارکپوری کی انکار حدیث کا نیا روپ اور حافظ عبدالستار الحماد کی حجیت حدیث دیکھیں