• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منکرین حدیث کا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کا نیا طریقہ :: " اس حدیث پر اس زمانے میں عمل ک

شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
" روایت میں ھے کہ : ((نھینا ان یبیع حاضر لباد و لو کان لابیہ و امہ)) (متفق علیہ) :"ہمیں اس بات سے منع کیا گیا ھے کہ کوئی شہری کسی دیھاتی کا مال فروخت کرے خواہ اسکا بھائی کیوں نہ ھو"

ایک روایت میں ھے کہ : " کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال فروخت نا کرے، لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ اللہ ان کو ایک دوسرے کے ذریعے رزق دیتا ھے" ((مسلم))

غور کریں اس وقت ھمارا پورا معاشی نظام اس دلالی (کمیشن) پر قائم ھے، دیھات کے لوگ اپنا مال براہ راست شہروں میں لے جا کر فروخت نھیں کرتے اور نا ھی ایسا کرنا ممکن ھے، پوری دنیا میں یہی طریقہ قائم ھے کہ دیھاتی اپنا مال منڈیوں میں پھنچاتے ہیں یا منڈیوں والے خود ان سے خرید کر شہر لا کر فروخت کرتے ہیں۔۔۔۔ دیہاتی اپنا ہر قسم کا مال شہروں کو بھیج دیتے ہیں اور شہری اسے فروخت کرتے ھیں اور کوئی مکتب فکر اسکو حرام نھیں کھتا۔ آخر کیوں۔۔۔ در اصل یہ بنیادیں اختراعی ہیں جو حالات زمانہ نے مکمل طور پر ھلا کر رکھ دی ہیں۔۔۔ مگر ہمارے علماء کرام انکو اختراعی تسلیم کرنے کے لئے تیار نھیں بلکہ انھوں نے انکا نام کتاب و سنت رکھ دیا ھے حالانکہ یہ تمام رسمی تعلیم ھے جس کا دائرہ بھت تنگ ھوتا ھے۔ (حلال کیا ھے اور حرام کیا؟ صفحہ ٢١٥ موئلف: عبد الکریم اثری)

اثری صاحب مندرجہ ذیل حدیث کے بارہ میں فرماتے ہیں:
" حضرت ابو سعید خزری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سونے کا تبادلہ سونے سے، چاندی کا مبادلہ چاندی سے، ۔۔۔۔۔ چھوارے کا چھوارے سے، نمک کا نمک سے برابر برابر اور ھاتھ در ہاتھ ھونا چاھیئے، جس شخص نے زیادہ طلب کیا یا زیادہ دیا تو اس نے سودی معاملہ کیا،لینے والا اور دینے والا دونو برابر ہیں: ((مسلم))۔"

اس حدیث کا مذاق اڑاتے ھوئے اثری صاحب رقمطراز ہیں:

" کون ھے جو ایک ھی قسم کے غلہ کو ایک ھی وزن یا ماپ رکھ کر دست بدست لیتا دیتا ھے۔ آج کسی چیز پر یہ شرط عائد کر کے کوئی شخٌص لیتا دیتا دکھاو تو تمھاری علمی طاقت کا لوہا مان لیں۔۔۔۔ ایسا کرنے والا بیوقوف نادان، بے عقل اور وقت ذائع کرنے والا قرار دیا جائیگا"(حلال کیا ھے اور حرام کیا؟ صفحہ ٢١٠ موئلف: عبد الکریم اثری)

(انا للہ و انا الیہ راجعون)

صاحب علم حضرات ان اعتراضات اور شبھات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیں۔۔۔ جزاک اللہ۔۔۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
یہ تو بہت ہی عجیب اعتراض ہے کہ اگر تمام لوگ ہی شریعت کی خلاف ورزی کرنے لگیں تو بجائے ان کو سمجھانے کے شریعت کی ہی تضحیک واستہزاء کرتے ہوئے اسے قدیم اور دقیانوسی کہہ کر ردّ کر دیا جائے۔

اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے کیا وہ دلیل ہے یا شریعت کے احکامات؟؟؟

آج شرک، قتل وغارت، سودی نظام، خیانت، جھوٹ، دھوکا دہی اور بے انصافی وغیرہ کا دور دورہ ہے تو کیا اس کو پیش کرکے احکاماتِ قرآنی کو ردّ کر دیا جائے؟؟؟

اللہ تعالیٰ نے عقلمندوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

﴿ قُل لا يَستَوِى الخَبيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَو أَعجَبَكَ كَثرَ‌ةُ الخَبيثِ ۚ فَاتَّقُوا اللَّـهَ يـٰأُولِى الأَلبـٰبِ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ١٠٠ ﴾ ۔۔۔ سورة المائدة
آپ فرما دیجیئے کہ ناپاک اور پاک برابر نہیں گو آپ کو ناپاک کی کثرت بھلی لگتی ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اے عقل مندو! تاکہ تم کامیاب ہو (100)

اگر یہ طرز استدلال درست ہے تو کیا آج کوئی شخص سیدنا موسیٰ﷤ کے اس طریقے پر عمل کرکے دکھا سکتا ہے؟؟؟

﴿ قالَ إِنّى أُر‌يدُ أَن أُنكِحَكَ إِحدَى ابنَتَىَّ هـٰتَينِ عَلىٰ أَن تَأجُرَ‌نى ثَمـٰنِىَ حِجَجٍ ۖ فَإِن أَتمَمتَ عَشرً‌ا فَمِن عِندِكَ ۖ وَما أُر‌يدُ أَن أَشُقَّ عَلَيكَ ۚ سَتَجِدُنى إِن شاءَ اللَّـهُ مِنَ الصّـٰلِحينَ ٢٧ قالَ ذٰلِكَ بَينى وَبَينَكَ ۖ أَيَّمَا الأَجَلَينِ قَضَيتُ فَلا عُدوٰنَ عَلَىَّ ۖ وَاللَّـهُ عَلىٰ ما نَقولُ وَكيلٌ ٢٨ ﴾ ۔۔۔ سورة القصص

اگر نہیں کر سکتا تو کیا سورۃ القصص کو ردّ کر دیا جائے؟؟
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
" روایت میں ھے کہ : ((نھینا ان یبیع حاضر لباد و لو کان لابیہ و امہ)) (متفق علیہ) :"ہمیں اس بات سے منع کیا گیا ھے کہ کوئی شہری کسی دیھاتی کا مال فروخت کرے خواہ اسکا بھائی کیوں نہ ھو"

ایک روایت میں ھے کہ : " کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال فروخت نا کرے، لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ اللہ ان کو ایک دوسرے کے ذریعے رزق دیتا ھے" ((مسلم))

غور کریں اس وقت ھمارا پورا معاشی نظام اس دلالی (کمیشن) پر قائم ھے، دیھات کے لوگ اپنا مال براہ راست شہروں میں لے جا کر فروخت نھیں کرتے اور نا ھی ایسا کرنا ممکن ھے، پوری دنیا میں یہی طریقہ قائم ھے کہ دیھاتی اپنا مال منڈیوں میں پھنچاتے ہیں یا منڈیوں والے خود ان سے خرید کر شہر لا کر فروخت کرتے ہیں۔۔۔۔ دیہاتی اپنا ہر قسم کا مال شہروں کو بھیج دیتے ہیں اور شہری اسے فروخت کرتے ھیں اور کوئی مکتب فکر اسکو حرام نھیں کھتا۔ آخر کیوں۔۔۔ در اصل یہ بنیادیں اختراعی ہیں جو حالات زمانہ نے مکمل طور پر ھلا کر رکھ دی ہیں۔۔۔ مگر ہمارے علماء کرام انکو اختراعی تسلیم کرنے کے لئے تیار نھیں بلکہ انھوں نے انکا نام کتاب و سنت رکھ دیا ھے حالانکہ یہ تمام رسمی تعلیم ھے جس کا دائرہ بھت تنگ ھوتا ھے۔ (حلال کیا ھے اور حرام کیا؟ صفحہ ٢١٥ موئلف: عبد الکریم اثری
حدیث کے الفاظ کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال نہ بیچے سے مراد وہ نہیں جو اثری صاحب نے بیان کی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ حدیث میں شہری دراصل بستی والے کو کہا گیا ہے۔ اور دیہاتی وہ بستی سے باہر والا شخص ہے، جو بستی میں اپنا مال بیچنے لایا ہے۔ اس کی وضاحت اور مزید تفصیل صحیح بخاری میں موجود ہے:

حدیث نمبر : 2158
حدثنا الصلت بن محمد، حدثنا عبد الواحد، حدثنا معمر، عن عبد الله بن طاوس، عن أبيه، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏لا تلقوا الركبان ولا يبيع حاضر لباد‏"‏‏. ‏ قال فقلت لابن عباس ما قوله لا يبيع حاضر لباد قال لا يكون له سمسارا‏.
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معمر نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن طاؤس نے، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابن عباس رضی ا للہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( تجارتی ) قافلوں سے آگے جاکر نہ ملاکرو ( ان کو منڈی میں آنے دو ) اور کوئی شہری، کسی دیہاتی کا سامان نہ بیچے، انہوں نے بیان کیا کہ اس پر میں نے ابن عباس رضی ا للہ عنہما سے پوچھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا کہ ” کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال نہ بیچے “ کا مطلب کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ مطلب یہ ہے کہ اس کا دلال نہ بنے۔

درج بالا حدیث سے وضاحت ہو گئی کہ اس ممانعت کا سبب یہ ہے کہ لوگوں کو بیچنے اور خریدنے والے کے درمیان دلالی کرنے اور کوئی قابل ذکر عمل یا خدمت انجام دئے بغیر پیسہ حاصل کرنے سے روکا جائے۔ کیونکہ بستی کے لوگ (شہری) ، باہر سے آنے والے (غیر شہری، دیہاتی) صاحب مال کی لاعلمی و نادانی سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے مال کے تبادلے میں اپنی دخل اندازی کے ذریعہ پیسہ کماتے ہیں۔ مزید یہ کہ شہری دلال مال لانے والے دیہاتیوں پر اپنا نظریہ تھوپ کر اسے اپنا مال ایسی قیمتوں پر فروخت کرنے کے لئے مجبور کرتے ہیں، جو ان پر ظلم وزیادتی شمار ہوتی ہے۔
اس ممانعت کا دوسرا اہم سبب یہ ہے کہ بستی کا آدمی جب باہر سے آنے والے شخص سے دلالی کی اجرت لے کر اس کا مال بیچے گا تو بستی کے لوگوں کو وہ مال مہنگا ملے گا، اگر یہ بستی کا شخص درمیان میں نہ ہوتا تب بستی کے لوگ باہر سے آنے والے شخص سے براہ راست مال خریدتے اور وہ مال انہیں سستا ملتا۔

لہٰذا کسی بستی کے شخص کا دیہاتی کے مال میں دلالی کرنا اور اس کی اجرت لینا، دو میں سے ایک قباحت سے خالی نہیں:
1۔ یا تو اس کا نقصان باہر سے آنے والے دیہاتی کو ہوگا، کیونکہ اسے بستی میں قیمتوں کا علم نہیں۔ اور یہ شخص درمیان میں پڑ کر غلط معلومات کے ذریعے اسے کم قیمت پر بیچنے پر مجبور کر سکتا ہے۔
2۔ یا پھر اس کا نقصان بستی والوں کو ہوگا، کیونکہ باہر سے آنے والا (دیہاتی) تو اپنا مکمل نفع وصول کرے گا اور اس شہری (بستی والے) کی دلالی کی اجرت وہ بستی والوں ہی سے دام مہنگے کر کے وصول کرے گا۔

موجودہ دور میں شہری اور دیہاتی کے الفاظ جن معنوں میں مستعمل ہیں، ان معنوں کو یہ احادیث شامل نہیں۔ غور کیجئے کہ جن بعض صورتوں کی جانب اثری صاحب نے اشارہ کیا ہے۔ ان میں شہری بیٹھے بیٹھے بغیر محنت کے دلالی کی اجرت وصول نہیں کرتے، بلکہ دیہاتوں میں جا کر مال خریدتے ہیں اور شہروں میں لا کر بیچتے ہیں۔ اور یہ تجارت ہے۔ نا رباہے اور نہ ہی ممنوع ہے۔ دوسری بات یہ کہ ان دنوں جو دیہاتی شہروں میں مال لاتے بھی ہیں، وہ End Users کو بیچنے لاتے ہی نہیں، وہ بیچتے ہی فقط ڈسٹری بیوٹرز کو ہیں۔ اور پھر ڈسٹری بیوٹر انہیں شہر میں ہر جگہ موجود چھوٹے چھوٹے سینٹرز تک پہنچا کر آگے عوام تک اس کی رسد کو ممکن بناتے ہیں۔ اس سب تفصیل سے مقصد یہ ہے کہ اس قسم کی خرید و فروخت میں شہری بیٹھے بیٹھے فقط دلالی کر کے اس کا ناجائز منافع نہیں وصول کر رہا ( جس کی حدیث میں ممانعت آئی ہے)۔ بلکہ وہ خود محنت کر رہا ہے۔
امام نووی نے شرح مسلم میں یہی بات کہی ہے کہ "ہمارے اصحاب کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ ایک اجنبی آدمی دیہاتی سے یا دوسرے شہر سے ایسا ساز و سامان جس کی سبھی کو ضرورت ہے، اس روز کے نرخ کے مطابق فروخت کرنے کے لیے لے کر آتا ہے مگر اسے شہری کہتا ہے کہ اس سامان کو میرے پاس چھوڑ دو تاکہ میں اسے بتدریج اعلیٰ نرخ پر بیچ دوں۔ "

امام بخاری نے یہ حدیث نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
وهل يعينه أو ينصحه وقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏إذا استنصح أحدكم أخاه فلينصح له ‏" ورخص فيه عطاء‏.
اور کیا اس کی مدد یا اس کی خیر خواہی کر سکتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "جب کوئی شخص اپنے کسی بھائی سے خیر خواہی چاہے تو اس سے خیر خواہانہ معاملہ کرنا چاہئے۔" عطاء رحمہ اللہ علیہ نے اس کی اجازت دی ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مطلب یہ ہے کہ حدیث میں جو ممانعت آئی ہے کہ بستی والا باہر والے کا مال نہ بیچے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے اجرت لے کر نہ بیچے۔ اگر بطور امداد اور خیر خواہی کے اس کا مال بیچ دے تو منع نہیں ہے کیوں کہ دوسری حدیثوں میں مسلمان کی امداد اور خیر خواہی کرنے کا حکم ہے۔
لہٰذا ممانعت اس صورت میں ہے جب اجرت لے کر ایسا کرے۔ اور بستی والوں کو نقصان پہنچانے اور اپنا فائدہ کرنے کی نیت ہو، یہ ظاہر ہے کہ ناجائز ہے، انما الاعمال بالنیات، اور اگر محض خیر خواہی کے لیے ایسا کر رہا ہے تو جائز ہے۔

اثری صاحب مندرجہ ذیل حدیث کے بارہ میں فرماتے ہیں:
" حضرت ابو سعید خزری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سونے کا تبادلہ سونے سے، چاندی کا مبادلہ چاندی سے، ۔۔۔۔۔ چھوارے کا چھوارے سے، نمک کا نمک سے برابر برابر اور ھاتھ در ہاتھ ھونا چاھیئے، جس شخص نے زیادہ طلب کیا یا زیادہ دیا تو اس نے سودی معاملہ کیا،لینے والا اور دینے والا دونو برابر ہیں: ((مسلم))۔"

اس حدیث کا مذاق اڑاتے ھوئے اثری صاحب رقمطراز ہیں:

" کون ھے جو ایک ھی قسم کے غلہ کو ایک ھی وزن یا ماپ رکھ کر دست بدست لیتا دیتا ھے۔ آج کسی چیز پر یہ شرط عائد کر کے کوئی شخٌص لیتا دیتا دکھاو تو تمھاری علمی طاقت کا لوہا مان لیں۔۔۔۔ ایسا کرنے والا بیوقوف نادان، بے عقل اور وقت ذائع کرنے والا قرار دیا جائیگا"(حلال کیا ھے اور حرام کیا؟ صفحہ ٢١٠ موئلف: عبد الکریم اثری)
اس حدیث کا اصل مفاد ربا یا سود کی نشاندہی ہے کہ جب ایک جنس کی شے اسی جنس کے بدلے میں خرید و فروخت کی جائے تو اول تو وہ نقد ہونی چاہئے اور دوم برابر ہونی چاہئے۔ اس کا مقصد یہ نہیں کہ ایک جنس کی اسی جنس سے خریدو فروخت کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اگر کبھی ایسی ضرورت پیش آ جائے کہ ایک جنس کو اسی جنس کے بدلے تبادلہ کرنا ہو تو ان دو باتوں کا خیال رکھنا چاہئے ورنہ اس میں اضافہ یا ادھار میں ربا کا اندیشہ ہے۔

اب رہا یہ سوال کہ ایک جنس کی اسی جنس سے تبادلے جیسی حرکت وقت ضائع کرنا، نادانی اور بے وقوفی ہے، تو اس کا ایک جواب تو یہ کہ اس حدیث میں سود کی حقیقت بیان ہوئی ہے نا کہ خریدو فروخت کا راستہ سمجھایا گیا ہے۔ دوسرا یہ کہ ایسی صورت حال گزشتہ ادوار میں بھی پیش آتی تھی اور آج بھی پیش آ سکتی ہے۔ مثلاً گیلی جو کو خشک جو کے بدلے کوئی بیچنا چاہے۔ سفید آٹے کی لال آٹے کے بدلے خرید و فروخت۔ سونے یا چاندی کے ایک ہی وزن کے دو مختلف ڈیزائن کے زیورات کا تبادلہ کرنا بھی عام ہے۔ یہ تو چھوڑئے دور حاضر میں تو کرنسی نوٹوں کے بھی تبادلے ہوتے ہیں۔ اگر آپ پاکستان ہی میں رہتے ہیں تو کبھی عید سے قبل نئے کرارے نوٹ لینے کی کوشش کیجئے۔ گزشتہ عید پر ہمارے ہاں سو روپے پر دس اور ہزار روپے پر پچیس کا ریٹ چل رہا تھا۔ ایک ہی کرنسی، ایک ہی ویلیو، لیکن ایک ہی جنس سے اسی جنس کا تبادلہ آج بھی ہو رہا ہے۔ لیکن حدیث نے ہمیں یہ بتا دیا کہ اگر ایک جنس سے اسی جنس کا تبادلہ ہو تو ادھار بھی نہ کریں اور اس پر اضافہ بھی نہ کریں، نقد ہو اور برابر وزن کا سودا ہو تو قبول کرنا چاہئے ورنہ نہیں۔
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
جزاک اللہ کثیرا راجا بھائی۔۔۔ rana ammar mazhar صاحب سے انٹرنٹ پر انکی سرگرمیوں کے حوالے سے کچھ تعارف ھے، مگر انکو یھاں دیکھ کر خوشی ہوئی، رانا بھائی آپ سے گزارش ھے کہ آپ اثری صاحب کے خاص عقیدت مندوں میں سے ہیں، تو آپ اپنا موقف اور دلائل بھی شیئر کیا کریں تاکہ گفتگو میں دونوں طرف کے دلائل سے حسن پیدا ہو سکے۔ دوسرے اہل علم حضرات بھی اس پوسٹ کے سلسلے میں کچھ مذید وضاحت کر سکیں تو جزاک اللہ۔۔۔
 
Top