حافظ محمد عمر
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 427
- ری ایکشن اسکور
- 1,542
- پوائنٹ
- 109
منہج نقد میں ’السنن الکبریٰ‘ کے عمومی خصائص
(یہ میمونہ اسلام کے مقالہ ایم فل سے مواد لیا گیا ہے جو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں پیش کیا)
منہج سے مراد وہ راستہ جو بیہقی نے نقد میں اختیار کیا تو منہج وہ واضح طریقہ ہے جس کے مطابق استعمال جاری ہوا ہو۔ (الكيات في معجم المصطلحات والفروق الغوية لأبو البقاء أيوب بن موسى : 4/ 375)
امام ابو عیسیٰ ترمذی رحمہ اللہ مسائل کی وضاحت و تعیین اور حدیث پر حکم لگانے کے حوالے سے نمایاں ترین ہیں پھر تاریخ میں امام ابو بکر بیہقی رحمہ اللہ کا نام ہے انہوں نے ترمذی کے کام سے استفادہ کرتے ہوئے اس پر معرفت فن حدیث اور سند و متن پر نقد کے حوالے سے گراں قدر اضافہ کیا۔
بعض محدثین نے نقد و کشف کی طرف توجہ نہیں دی ان کی محنت بیہقی کے علاوہ ظاہری محنت ہے جیسے اصحاب سنن اربعہ (سوائے ترمذی)،اصحاب سنن و مسانید اور معروف معاجم کے مصنفین۔ امام بخاری ومسلم رحمہم اللہ نے اپنی کتابوں میں صحت کی شرط لگائی ہے انہوں نے نقد مراحل کی وضاحت کی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں امام بخاری رحمہ اللہ نے فقہی مسائل اور ان کے فوائد کا خوب اہتمام کیا۔ امام مسلم بن حجاج رحمہ اللہ کو الگ اس لیے رکھا اگرچہ انہوں نے بھی فقہی مسائل کا استنباط کیا۔ متون کی باریکیوں کی تحقیق کی۔ لیکن اس میں ان کا جداگانہ اسلوب تھا جس کی صراحت انہوں نے اپنی صحیح مسلم کے مقدمہ میں کی ہے ۔(صحيح المسلم : 1/ 3-5)
1. دیگر کتابوں میں روح نقد کا پھیلاؤ
ظاہری طور پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ’السنن الکبریٰ‘ میں نقدی احوال بکھرے ہوئے اور خلط ملط ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم کوئی ایسی علمی قیمتی کتاب نہیں پاتے اور جس چیز نے فن نقد میں منہج بیہقی کو عمیق اور ’سنن کبریٰ‘ میں اس کے وجود کو بوجھل کر دیا اس کی وجہ یہ ہے کہ بمشکل کوئی صفحہ ایسا ملے گا جو اس فن سے خالی ہو۔
ان کے پاس جمیع مراتب کی اسانید ہیں وہ فی الوقت ثابت حدیث پر اعتماد کرتے ہیں پھر اس باب میں دیگر روایات کو لا کر اس کے حال کی وضاحت کرتے ہیں ۔ یہ اسی منہج کا نتیجہ ہے کہ ہمارے پاس اس قدر نقدی سرمایہ ہے ان مرویات کا درجہ اور مقام مرتبہ واضح ہے ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نقد کا خوب اہتمام کرنے والے ہیں اور یہ ان کی تمام کتب میں نظر آتا ہے ۔ لیکن اس کا زیادہ اظہار فن حدیث میں ان کی کتاب السنن الکبریٰ میں ہوا اور کئی بنیادی امور عمل میں آئے ۔ یہ ایک امانت ہے (مسلمانوں کی خیر خواہی کرنا) اس کی ادائیگی ضروری ہے تاکہ اخبار اپنے درجات کے اعتبار سے جدا ہو جائیں ۔ انہوں نے صرف تعداد روایات کو نقل نہیں کیا بلکہ اس کی تحقیق بھی کی ہے ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے السنن الکبریٰ میں نقدی منہج کو خوب اپنایا تاکہ فقہاء، علماء اور طلباء اس سے مستفید ہو سکیں ۔
اس کی واضح مثال ان کی امام حرمین کے والد امام جوینی رحمہ اللہ سے گفتگو ہے ۔ امام جوینی رحمہ اللہ نے فقہ پر کتاب لکھی ان کی اس کتاب کا نام المحیط تھا۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کے تین اجزاء پر تنقید کی۔ ایک تربیتی باریکیوں اور علمی فوائد پر مشتمل رسالہ تحریر کرنا شروع کیا اورانہوں نے اس میں تنقیدی منہج کو اختیار کیا۔
جب امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنے تنقیدی منہج کو واضح کیا تو شیخ جوینی نے بھی اس طرف اپنی کتاب المحیط میں التفات کیا۔ اور فرمایا:
میں نے شیخ کی سماع حدیث اور اصحاب حدیث کی کتب پر نظر کو دیکھا۔ مجھے ان سے سکون ملا میں اس پر اللہ کا شکر گزار ہوں اورکہتا ہوں : اللہ ایسے افراد پیدا کرے جو حدیث اور فقہ میں رغبت رکھنے والے ہوں اوراس میں صحیح اور کمزور کو نکھارنے والے ہوں ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ شیخ جوینی کے بعض اصحاب نے مجھی المحیط کے تین اجزاء پیش کیے ہیں میں بڑا خوش ہوا اورسمجھا: آئمہ کبار کا اسلوب اپنائیں گے ۔ لیکن جب میں نے پہلی حدیث دیکھی جوکہ:
سورج سے گرم ہونے والے پانی سے غسل کرنے کے بارے میں ہے ۔ (السنن الكبرى : 1/ 6 -10)
میں نے خیال کیاکہ اس کے ضعف کو واضح کریں گے ۔ میں نے املاء میں لکھا دیکھا:
یہ روایت مالک نے عن ھشام بن عروۃ عن ابیہ عن عائشہ کی سند سے نقل کی ہے ۔ میں نے کہاکہ انہوں نے یہ کیوں نہیں کہاکہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے یا اس طرح کہتے : ابن وہب نے مالک سے نقل کیا یا اس طرح سندبیان کرتے کہ روی خالد بن اسماعیل عن وہب بن وہب البختری عن ہشام بن عروۃتاکہ روایت کی نسبت اس راوی کی طرف ہوتی جو نقل کرنے والا ہے ۔
پھر المحیط میں حدیثی اوہام اور تساہل روایت حدیث کا تذکرہ کیا(طبقات الشافعيه الكبرى لسبكي : 4/ 84) اور اس میں مرویات میں تنقیدی کمی کی وضاحت کی۔
اس خط کی وجہ سے امام جوینی رحمہ اللہ نے المحیط مکمل نہیں کی اس بیان سے امام بیہقی رحمہ اللہ کا استغنا واضح ہوتا ہے ۔ وہ شیوخ کی صفوں میں بھی اس طرح بات کرتے جیسے طلبا کی مجلس میں ۔ وہ تنقیدی منہج کو کتب حدیث میں قائم رکھتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی دوسرے محدثین یا فقہا نقل حدیث میں اس پابندی کو لازم پکڑیں ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ اس منہج پر قائم و دائم رہے اور علما کو اس بات پر راغب کرنے کی کوشش کرتے رہے چاہے وہ شیوخ کی صفوف سے تعلق رکھنے والے علما ہی کیوں نہ ہوں انہوں نے تنقیدی منہج کا ایسے دور میں بیڑا اٹھایا جو تحقیق و تجدد سے بالکل خالی تھا۔ (التراث والمعاصرة لأكرم ضياء عمرى :ص 123- 124)
یہ آسان کام نہ تھا۔ علما نے فقہ و حدیث کے دونوں علوم کو اکٹھا کیا پھر بعض جاہل اس سے ناخوش ہوئے حتیٰ کہ بعض علما اس رطعن کرنے لگے اور ایسے علما پر ہنسنے لگے ۔
2. تقلید ائمہ سے ہٹ کر تحقیق روایات
امام بیہقی رحمہ اللہ کی ’السنن الکبریٰ‘ میں یہ عام عادت ہے جس سے تنقیدی منہج آگے بڑھا وہ دلیل کی صورت میں آئمہ کے اقوال کو بیکار خیال کرتے تھے ۔ اس قول پر عمل کرتے ہوئے کی اللہ تعالی فرماتے ہیں :
﴿وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ ﴾(سورة الإسراء 17: 36)
انہوں نے مدخل سنن میں ایک باب قائم کیا جس کا موضوع ترك الحکم بتقلید امثاله من أهل العلم حتی یعلم مثل علمهم (بغیر علم کے علماء کی تقلید کو ترک کرنا)۔
اس کے ذیل میں دس دلائل اس منہج کی تائید و تاکید میں نقل کیے ہیں ۔ (المدخل إلى السنن الكبرى : 207- 211)
ناقد محدثین کا عموماً یہی منہج رہا ہے اورامام بیہقی رحمہ اللہ ان میں سے ایک ہیں ۔ ان کے پاس اس منہج کے دلائل قرآن و سنت سے ہیں ۔ یہ اولیت کے اعتبار سے قرآنی منہج ہے ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس باب کی ابتدا اللہ تعا لی کے قول ولا تقف مالیس لك به علم سے کی ہے ۔ اس کی وضاحت کے لیے اقوال علما نقل کیے ہیں اور اس کے بعد اس منہج کے لیے حدیث بطور دلیل نقل کرتے ہیں ۔ اس نقدی منہج کے آثاری دلائل میں امام بیہقی رحمہ اللہ نے عمدہ علمی نقد نقل کیا ہے وہ ان مرویات کی سند و متن کی تحقیق کرتے ہیں پھر ان کے اوہام و خطا کو واضح کرتے ہیں جیساکہ وہ تابعین اور ان کے بعدکی اور اپنے زمانے تک کے کبار حفاظ پر نقد کرتے ہیں ۔
اس عظیم محنت سے ہمارے سامنے فن نقد کا گراں قدر سرمایہ آتا ہے ۔ ان کے شیوخ ائمہ نے اوہام حدیث کی طرف توجہ نہیں دی یہ مثالیں اس منہج کی تطبیق کا تقاضہ کرتی ہیں ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ شیخ ابو نصر الفامی پر استدراک کرتے ہوئے کہتے ہیں :
یہ فصل اس شخص کے بارے میں ہے جس نے صبح روزہ کی حالت میں کی۔
یہ موقوف ہے جبکہ ہمارے شیخ ابو نصر الفامی کی کتاب میں مرفوع ہے اور یہ وہم ہے ۔ قاضی ابو یوسف سے مختار بن فلفل کی مرفوع روایت بیان کی ہے (السنن الكبرى : 4/ 189) یہ بھی اسی طرح وہم ہے اور اسی طرح ابو یوسف کو بھی اس کے نقل میں وہم ہوا ہے ۔
اسی طرح اپنے شیخ ابو عبداللہ حاکم اور ان کے شیخ امام دارقطنی پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں :
موسیٰ یہ ابن عبیدہ الزبدی ہے جبکہ ہمارے شیخ نے موسیٰ بن عقبہ کہا ہے یہ خطا ہے اور ابو الحسن دارقطنی پر بڑا تعجب ہے وہ اپنے زمانے کے شیخ ہیں ۔ انہوں نے یہ روایت اپنی کتاب السنن میں ابو الحسن مصری سے نقل کی ہے اور موسیٰ بن عقبہ کہا ہے ۔ (السنن الكبرى : 1/ 252)
پھر بیہقی نے یہ مسئلہ بالتفصیل بیان کیا ہے اور اس میں بہت سے دلائل پیش کیے ہیں ۔ یہ امام بیہقی رحمہ اللہ کی تنقیدی منہج کے استعمال کی دلیل ہے ۔ انہوں نے اس میدان کو وسعت دی اور بخاری، شعبہ پر نقد کیا۔
وہ بخاری پر نقد کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔ میں نے امام بخاری رحمہ اللہ سے سوال کیا:آپ کے نزدیک موزوں پرمسح کرنے سے متعلق کونسی روایت زیادہ صحیح ہے تو انہوں نے کہا صفوان بن عسال اور ابن ابی بکرہ حسن کی حدیث۔ ‘‘
امام بیہقی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
اس بارے میں شریح بن ہانی کی روایت جسے مسلم نے نقل کیا ہے وہ سب سے زیادہ صحیح ہے (السنن الكبرى : 1/ 276)اور امام بخاری رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ اس روایت کو اسماعیل بن عیاش نے موسیٰ بن عقبہ سے نقل کیا ہے میں اس کے علاوہ کسی سے نہیں جانتا۔
امام بیہقی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
یہ روایت موسیٰ بن عقبہ کے علاوہ دیگر افراد سے بھی نقل کی گئی ہے لیکن سنداً کمزور ہے ۔(السنن الكبرى : 1/ 89)
امام بخاری رحمہ اللہ نے انفراد کا حکم لگایا تو اس کے مقابلہ میں دوسرا طریق نقل کیا پھر اس طریق پر اس کی قوت کے اعتبار سے حکم لگایا ہے اسے ساقط قرار دیا ہے اور عدم روایت سے پردہ ہٹایا۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے امام مسلم رحمہ اللہ پر اس سے بھی زیادہ سخت اور اہم نقد کیا امام مسلم رحمہ اللہ کی روایت نقل کرتے ہیں :
امام مسلم رحمہ اللہ نے کہا: اہل یمن حدیث معمر کو زیادہ جاننے والے ہیں انہوں نے یہ روایت عن زہری عن سالم بن ابیہ کی سند سے بصریوں سے نقل کی ہے اور انہوں نے اس سے اپنی روایت میں بصریوں سے نقل میں تفرد اختیار کیا ہے اگر وہ غیر اہل بصرہ سے ثقہ روایت کرے تو حدیث حدیث ہو گی وگرنہ روایت مرسل ہو گی۔
امام بیہقی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
ہم نے معمر سے غیر اہل بصرہ سے بھی موصول بیان کیا ہے ۔ انہوں نے اسے ایک دوسری سند عن نافع و سالم عن ابن عمر سے نقل کیا ہے پھر اپنی بات کے مزید دلائل پیش کیے ہیں ۔ (السنن الكبرى :7/ 182-183)
اس سے ہمیں امام بیہقی رحمہ اللہ کی مرویات کی معرفت کا علم ہوتا ہے کہ انہوں نے امام مسلم رحمہ اللہ پر استدارک کرتے ہوئے وہ طرق نقل کیے جن سے وہ بے خبر تھے ۔ امام بیہقی نے اس حدیث سے وہم کو دور کیا اور شک رفع کیا۔
امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ پر نقد کرتے ہوئے کہتے ہیں :
یہ شعبہ کا وہم ہے ، اور جماعت کی روایت صحیح ہے اہل تاریخ کے مطابق عبیدۃ، زبیر سے پہلے فوت ہوئے تو اس سے روایت دور کی بات ہے ۔ (السنن الكبرى : 10/ 73)
عبداللہ بن رجاء کے بارے میں کہتے ہیں :
اسی طرح عبداللہ بن رجاء نے بھی مصعب بن سوار کہا ہے حالانکہ نام سوار بن مصعب ہے اوریہ متروک ہے ۔ (السنن الكبرى : 1/ 252)
امام بیہقی رحمہ اللہ دیگر ائمہ کی طرف بہت بڑے محدث ہیں ۔ انہوں نے اس حقیقت کو خوب واضح کیا اور اپنی کتاب میں اس پر خوب مشق کی اوراس کے سینکڑوں دلائل ہیں ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ کے دور میں محض تقلید کا دور دورہ تھا جو تحقیق و نقد سے بالکل خالی تھا۔ کیونکہ اس دورمیں کتاب میں احتمال، کسی نئی چیز کا آنا یا سند میں وہم ہونے کا احتمال تھا۔ ثقہ آدمی حفظ متابعت کے ذریعے کذاب، گمراہ اور خطا کار سے نقل کرتا تھا۔
امام ابو یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
کسی لیے جائز نہیں کہ وہ ہماری بات میں گفتگو کرے حتیٰ کہ وہ یہ جان کہ یہ بات ہم نے کہاں سے کہی ہے ۔(المدخل إلى السنن الكبرى :ص 210- 211)
امام شافعی رحمہ اللہ کے بقول بغیر دلیل کے علم حاصل کرنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے وہ لکڑیوں کا گٹھا اٹھاتا ہے اور اس میں سانپ ہو اور لاعلمی کی وجہ سے اسے ڈس لے ۔ (المدخل إلى السنن الكبرى :ص 210- 211)
3. نقدی عبارات کی درستگی اور انکے قائلین کی طرف نسبت
امام بیہقی رحمہ اللہ کے نقدی منہج کے جمع مسائل میں سے فن حدیث میں ناقدین کی عبارتوں کی درستگی بھی ہے ۔ وہ بالاستیعاب تمام اقوال کو جمع کر کے ان کی تحقیق کرتے ہیں اس میں سے صحیح کو اختیار کرتے ہیں اس کی اصل کو باقی رکھنے کے ساتھ ساتھ اسے مضبوطی فراہم کرنے کیلئے دیگر دلائل بھی نقل کرتے ہیں ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ کتاب الاضحیہ میں حدیث من وجد سعة ولم یضح کو امام ترمذی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں :
امام ترمذی رحمہ اللہ کے بقول صحیح بات یہ ہے کہ یہ ابو ہریرہ کی موقوف حدیث ہے اور زید بن حباب کی روایت غیر محفوظ ہے ۔ پھر نقد کرتے ہوئے کہتے ہیں اسی طرح عبید اللہ بن جعفر نے عن الاعرج عن ابی ہریرۃ کی سند سے موقوف نقل کیا ہے نیز ابن وہب نے عن عبداللہ بن عیاش عن الاعرج عن ابی ہریرۃ کی سند سے موقوف نقل کیا ہے اسی طرح ابن وہب نے عن عبداللہ بن عیاش بن عیسیٰ بن عبدالرحمن بن فروہ انصاری عن ابن شہاب عن سعید بن مسیب عن ابی ہریرۃکی سند سے نقل کیا ہے :
اس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جو استطاعت کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری جائے نماز کے قریب نہ آئے ۔ اور یہ بھی موقوف ہے ۔ (السنن الكبرى : 9/ 260)
اس سے امام بیہقی رحمہ اللہ کی تنقیدی قوت کی وسعت و گہرائی معلوم ہوتی ہے وہ اہل نقد کے اقوال کی اصلاح کر کے ان کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ وہ اس منہج میں اس قدر آگے تھے کہ انہوں نے اپنی سنن میں موجود روایات پر خود نقد کیا اور ان کے علاوہ دیگر روایات کو ترجیح دی۔
4. نقد کو علمی ادب سے متصف کرنا
’السنن الکبریٰ‘ میں امام بیہقی رحمہ اللہ نے بہت علمی ادب سے تنقید کو متصف کیا ہے وہ اپنے سارے اعتراضات نقد، مناقشہ اور ترجیحات کا عاجزانہ الفاظ سے خاتمہ کرتے ہیں اور وہ اللہ اعلم کہہ کر حقیقی علم کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں ۔ وہ علماء اور آئمہ پر نقد کرنے سے پہلے ان کے لیے رحمت کی دعا کرتے۔
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کے بارے میں کہتے ہیں :
اگرچہ وہ فقہ میں بہت بڑے ہیں ۔ لیکن سوئے حفظ کی وجہ سے روایت میں کمزور ہیں اس طرح اسانید و متون میں خطا کرنے کے ساتھ ساتھ حفاظ کی مخالفت بھی کرتے ہیں ۔ اللہ ہمیں اور انہیں معاف کرے ۔(السنن الكبرى : 5/ 334)
وہ عام حکم بیان کرنے سے پہلے اپنی علم وسعت کو بھی بیان کر دیتے ہیں مثال کے طور پر کہتے ہیں :
میرے علم کے مطابق اس حدیث کو نقل کرنے میں ابو غسان یحییٰ بن کثیرمنفرد ہے ۔ (السنن الكبرى : 2/ 420)
اور اسی طرح وہ بسا اوقات کہتے ہیں :
ناقل اس حدیث کی غرابت اور اہل علم کے ہاں غیر معروف ہونے کی وجہ سے اس سے واقف نہ تھا۔
کتاب الصلوة، باب متی یقوم الماموم کی صحیح سند بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انس بن مالک سے مروی ہے ۔ حسین بن علی کا یہی عمل تھا۔ عطا اور حسن کا یہی قول ہے ۔(السنن الكبرى : 2/ 21)
امام بیہقی رحمہ اللہ اس حدیث پر غرابت یا رد کا حکم لگا سکتے تھے ۔ لیکن انہوں نے یہ ادبی طریقہ اختیار کیا جس سے غرائب و تضعیف واضح ہوتی ہے ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ کے یہ نمایاں خصائص ہیں ۔ بلاشبہ اور بھی کئی خصائص ہیں اس کے سیکڑوں دلائل اور شواہد موجود ہیں ۔ ٍ