• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منی کا حادثہ، مسئلہ جبر اور سیاست

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
منی کا حادثہ، مسئلہ جبر اور سیاست
کالم: خورشید ندیم
پیر28 ستمبر 2015م

کیا منیٰ کا سانحہ مسلمانوں کے باہمی اختلافات کی دھند میں کھو جائے گا؟

کیا یہ تقدیر کا لکھا تھا؟
کیا ہم اس واقعے کا ، بطور حادثہ تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؟

یہ محض اتفاق ہے کہ جس دن یہ حادثہ ہوا، اسی روز انٹرنیشنل نیو یارک ٹائمز میں ایک مضمون شائع ہوا جو اسی سوال کو موضوع بناتا ہے۔ مسلمان ہر وقفے کو تقدیر کا لکھا قرار دیتے ہیں اور اس سے انکی مراد یہ ہوتی ہے کہ اسکا عالم اسباب سے کوئی تعلق نہیں۔ اس مضمون میں کرین حادثے کو بنیاد بناتے ہوئے یہ بتایا گیا کہ پہلی بات اس نوعیت کے واقعے کی تحقیقات ہوئیں تو معلوم ہوا کہ اسکی ذمہ دار تعمیراتی کمپنی ہے جس نے ان حفاظتی ہدایات کا خیال نہیں رکھا جنکا احترام اس پر لازم تھا۔ مضمون نگاریوں متوجہ کرتا ہے کہ عالم اسلام میں ہر معاملے کو قسمت اور تقدیر کا لکھا قرار دینے سے خود احتسابی کی روایت آگے نہیں بڑھی اور یوں ایسے حادثات کا اعادہ ہوتا رہتا ہے۔ اسکے برخلاف جدید دنیا میں عالم اسباب میں جھانکا جاتا ہے اور یوں آنے والے دنوں میں حادثات کی تکرار نہیں ہوتی۔ مضمون کا عنوان ہے:
اسلام کا المناک فلسفہ جبر Islam’s Tragic Fatalism

بدقسمتی سے منیٰ کے حادثے کے بعد بھی اسی فلسفہ جبر کی صدائے بارگشت سنی گئی۔ سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ نے حج کمیٹی کے سربراہ شہزادہ محمد بن نائف سے کہا: ‘‘جو امور انسانی بس میں نہیں ہیں، ان کیلئے آپ کو الزام نہیں دیا جا سکتا۔ قسمت اور تقدیر کے لکھے کو ٹالنا ناممکن ہے۔‘‘ سب مسلمانوں کا اس پر ایمان ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کس واقعے پر اسکا اطلاق ہوتا ہے اور کس پر نہیں؟ اگر اس کو بلاامتیاز مان لیا جائے تو پھر دنیا اور آخرت میں جواب دہی کا قانون بے معنی ہوجاتا ہے۔ تقدیر کے معاملات مالکِ تقدیر پر چھوڑتے ہوئے، ہمیں پانی ذمہ داری ادا کرنا پڑے گی۔ کرین کے حاثے کو بھی تقدیر پر چھوڑا جا سکتا تھا، مگر شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز السعود نے تحقیقات کا حکم دیا۔ تعمیراتی کمپنی کو بلیک لسٹ قرار دیا۔ تحقیقات سے ثابت ہوا کہ یہ حادثہ انسانی غفلت کا نتیجہ تھا۔

جبر و قدر مذہب اور فلسفے کے معرکتہ ال آرا مضامین میں شامل ہے۔ ایک کالم میں اسکی گتھیاں سلجھائی نہیں جا سکتیں اور میں اس کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اس فلسفے کو ہم رویہ نہیں بنا سکتے۔ جبر کی سرحد وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں انسانی اختیار کی سرحد ختم ہوتی ہے۔ یہ ہم نہیں جانتے کہ اختیار اور کوشش کی یہ حد کہاں تک ہے۔ یوں ہم تا دم مرگ کوشش کے پابند ہیں۔ مریض کی سانس جب تک آ جا رہی ہے، ڈاکٹر کا اختیار ختم نہیں ہوتا۔ وہ کوشش کا پابند ہے۔ وہ موت کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ موت کا فیصلہ عالم کا پروردگار کرت اہے اور یہاں سے جبر کا آغاز ہو جاتا ہے۔ منیٰ میں حادثہ کیوں ہوا؟ نائجیریا کی حکومت اس بات کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں کہ اسکے حجاج اسکے ذمہ دار ہیں۔ اس لیے لازم ہے کہ اس کو تقدیر کا معاملہ قرار دینے سے پہلے عالم اسباب میں اسکی وجوہ تلاش کی جائیں۔

انتظامات حج کے باب میں سعودی حکومت کی کارکردگی غیر معمولی ہے۔ حجاج کو سہولتیں فراہم کرنے کا کام مسلسل جاری رہتا ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ حج آسان سے آسان تر ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود یہ ایک انسانی کاوش ہے جس میں اصلاح کا امکان ہر وقت باقی ہے۔ حجاج کی غلطیاں اپنی جگہ لیکن میرا خیال ہے کہ منیٰ جیسے حادثات متقاضی ہیں کہ انکی تحقیقات ہوں۔ ان میں علماء کے ساتھ گورننس کے ماہرین کو شامل کیا جائے اور اس بات کو ممکن حد تک یقینی بنایا جائے کہ مستقبل میں ہم ایسے حادثات سے محفوظ رہیں۔ جیسے جمعرات کو ستون کے بجائے اب دیوار کی صورت دے دی گئی اور اس کی کئی منازل بھی بنا دی گئی ہیں۔ قربانی کی عملی مشکلات کو دیکھتے ہوئے، اس معاملے میں بھی اجتہاد کیا گیا ہے۔ انسانی جانوں کی حفاظت کیلئے اس عمل کو مزید آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اسکے ساتھ میرا خیال ہے کہ حجاج کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ بھی توجہ چاہتا ہے۔ چونکہ سعودی معیشت کو اس سے غیر معمولی فائدہ ہوتا ہے، اس لیے حجاج کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس پر بھی غور کیا جانا چاہیے کہ سعودی حکومت اتنے افراد ہی کو اجازت دے جسکا انتظام کرنا اس کے لیے ممکن ہے۔

اس حادثے پر سارا عالم اسلام افسردہ ہے، مگر ایرانی حکومت نے جس طرح اسے باہمی سیاست کی نذر کیا ، اسے افسوسناک ہی کہنا چاہیے۔ اس واقعے کو غیر ضروری طور پر اقوام متحدہ میں اٹھایا گیا۔ میرا خیال ہے کہ اس سے گریز کیا جاتا تو بہتر تھا۔ اس حادثے میں جیسے سیاست اور فرقہ واریت کو گھولا گیا، وہ میرے لیے تو تشویش کی بات ہے۔ تاہم اس سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ فرقہ واریت اور سیاسی اختلافات کی جڑیں اس امت کی نفسیات میں کتنی گہری ہیں۔ انکے ہوتے ہوئے امت کو ایک سیاسی وحدت میں بدلنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ جو لوگ اس کے اسباب خارج میں تلاش کرتے ہیں انہیں سعودی عرب اور ایران کی اس چپقلش کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنا چاہیے۔

ایرانی حکومت نے اس حادثے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا دیرینہ مطالبہ دہرایا ہے کہ حج کے انتظامات عالم اسلام کی مشترکہ ذمہ داری قرار دی جائے۔ اس مطالبے کی تائید مشکل ہے۔ یہ معاملات کو مزید پیچیدہ بنانا ہے۔ سعودی عرب کی حکومت کی الجملہ ان معاملات کو خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہی ہے۔ کسی مسلمان ملک کو اگر کوئی شکایت ہے یا اس کے پاس انتظامات کی بہتری کی کوئی تجویز ہے تو اسے سعودی حکومت تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اسے او آئی سی کے فورم پر بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ اسے اقوام متحدہ کے فورم پر اٹھانا جگ ہنسائی کا باعث بنے گا۔ اگر مسلمان ممالک سیاست اور مذۃب کو الگ الگ رکھ سکیں تو اس میں ہی مسلمانوں کا بھلا ہے۔

سیاست اور مذہب کے اس ملاپ سے مسلمانوں کو بہت نقصان ہوا ہے۔ جب ان میں علیحدگی کی بات کی جاتی ہے تو میرے نزدیک اسکا مفہوم یہ نہیں ہوتا کہ سیاست و ریاست میں اسلام کی تعلیمات سے رہنمائی نہیں لینی چاہیے یہ انہیں فیصؒہ کن حیثیت نہیں دی جانی چاہیے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ سیاسی اور دنیاوی معاملات کو دنیاوی طریقے سے حل کرنا چاہیے اور مذہب کو اپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے بعض لوگ یہ کام ایک ریاست کے اندر گروہی طور پر کرتے ہیں اور بعض اسے ریاستی حکمت عملی کا حصہ بنا دیتے ہیں۔ جیسے اب حج کے نام پر سیاست ہونے لگی ہے۔ حرمین کی تولیت عثمانیوں کے ہاتھ میں ہو گی یا آل سعود کے، انہیں اسکا سیاسی فائدہ بھی ہوگا۔ انہیں اس سیاسی فائدے سے محروم کرنے کیلئے حج کو سیاست کو موضوع بنانا افسوسناک ہے۔


منیٰ کا حادثہ ہم سب کیلئے تکلیف دہ ہے۔ ہمارے سینکڑوں حاجی ابھی تک لاپتہ ہیں۔ ہم اسے تقدیر سمجھ کر کاموش ہو سکتے ہیں پھر ہر سال ہمیں ایسے حادثے کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ ہم اس سے سیاسی فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔ اسکے بعد ہمیں تیار رہنا چاہیئے کہ مذہب کے مسلمات بھی اختلاف کا موضوع بن جائیں۔ ہم ان باہمی اختلافات کی موجودگی میں امت مسلمہ کو ایک روحانی کے بجائے سیاسی وحدت سمجھنے پر اصرار کرسکتے ہیں۔ اسکا نتیجہ خوابوں میں رہنا ہے۔ فیصلہ اب ہمارے ہاتھ میں ہے۔
------------------------------
بہ شکریہ روزنامہ دنیا
العربیہ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں

ح
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
سانحہ منیٰ: سوالات ، گزارشات
کالم: نسیم شاہد
28 ستمبر 2015

پاکستان میں اس بار عیدالاضحی افسردگی اور دکھ کے جذبات میں منائی گئی ۔ منیٰ کے سانحہ میں مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر شہادت ایک عظیم المیہ ہے، مگر پاکستانیوں کے لئے یہ اذیت ناک اور نہ ختم ہونے والی کرب کی گھڑیوں کا ایک ایسا سلسلہ بن کر رہ گیا ہے، جو ابھی تک ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے اور حج مشن کی انتہائی شرمناک کارکردگی نے اس المیے کو ایک ایسا ڈراؤنا خواب بنا کر رکھ دیا ہے۔ جس کی چبھن نے ہزاروں گھرانوں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ جب یہ سانحہ پیش آیا تو الیکٹرانک میڈیا کے نمائندے چلا چلا کر میدان عرفات سے یہ رپورٹنگ کرتے رہے کہ یہاں سفارت خانے یا حج مشن کا کوئی نمائندہ موجود نہیں۔ جب ان لوگوں کو ہوش آیا تو سفیر محترم نے شرمناک ڈھٹائی سے یہ اعلان کر دیا کہ اس سانحے میں کسی پاکستانی کے شہید یا زخمی ہونے کی اطلاع نہیں۔ لگتا ہے موصوف نے بغیر کسی تحقیق اور بغیر اپنے دفتر سے نکلے یہ بیان جاری کر دیا تھا۔ دو گھنٹے بعد یہ تصدیق کی گئی کہ اس سانحہ میں ایک پاکستانی بھی شہید ہوا ہے اور پانچ زخمی ہیں۔ صاف لگ رہا ہے کہ سب کچھ انتہائی غیر ذمہ داری اور موقع پر جائے بغیر کہا گیا، حالانکہ اگر کوئی ذمہ دار شخص ہوتا اور جن 270 افراد کو خدام حجاج بنا کر سعودی عرب لے جایا گیا تھا، کے ہمراہ حادثے کی جگہ پہنچتا تو بہت کچھ سامنے آسکتا تھا اور پاکستانیوں کی لاشیں اس طرح مردہ بھیڑ بکریوں کی طرح لاشوں کے ڈھیر میں پڑی نہ ملتیں، جیسی کہ سوشل میڈیا پر تصاویر میں نظر آرہی ہیں۔


کتنی شرمناک بات ہے کہ حج مشن کے افسران اور سفارت خانے کے ذمہ داران حادثے کے بعد چار دن تک یہی کہتے رہے کہ انہیں سعودی حکام ہسپتالوں اور مردہ خانوں تک رسائی نہیں دے رہے۔ یہ سفارت کاری کی بدترین شکل ہے کہ آپ متعلقہ ملک میں بے بسی کا اظہار کر رہے ہوں۔ ایران، انڈونیشیا ، مصر حتیٰ کہ بھارت نے بھی اپنے شہریوں کی لاشیں اور شناخت بروقت مکمل کر لی، مگر ہم جو سعودی عرب کے ساتھ سب سے اچھے تعلقات کا دعویٰ کرتے ہیں اور ہمارے ملک کے وزیراعظم نوازشریف خادم حرمین شریفین سے ذاتی مراسم بھی رکھتے ہیں، اس ملک کے شہریوں کی گمشدگی پر ہمارے سفارتی حکام اس طرح اظہار بے بسی کرتے رہے جیسے وہ اسرائیل میں کسی حادثے کی تفصیلات اکٹھی کر رہے ہوں۔ حاجیوں کے ورثاء چیخ چیخ کر کہتے رہے کہ ان کا اپنے پیاروں سے رابطہ نہیں ہو رہا۔ سینکڑوں حاجیوں کی گمشدگی میڈیا کے ذریعے سامنے آ گئی، مگر وزارت خارجہ، حج مشن کے حکام اور خود وزیر مذہبی امور ٹس سے مس نہ ہوئے۔ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نیویارک میں بیٹھ کر یہ فرمان جاری کرتے رہے کہ حکام گمشدہ حاجیوں کی تلاش کو فوری اور یقینی بنائیں ، مگر ایک دور بیٹھے سربراہ حکومت کی بات کون سنتا ہے۔ ایک سانحہ تو منیٰ میں ہوا، لیکن اس سے بھی بڑا سانحہ ہمارے ذمہ دار محکموں کی بے حسی اور غفلت ہے۔ جنہوں نے اس حقیقت کو تسلیم ہی نہیں کیا کہ ہم ایک بڑے سانحہ سے دوچار ہو چکے ہیں۔


جس دن برطانوی اخبار ’’گارجین‘‘ نے یہ خبر شائع کی کہ پاکستان کے سب سے زیادہ حاجی سانحہ میں شہید ہوئے ہیں اور ان کی تعداد 216 ہے تو ان 216 حاجیوں کے ورثا میں تشویش کی لہر دوڑ گئی، جو لاپتہ چلے آ رہے تھے، اس موقع پر حج ڈائریکٹر، پاکستانی سفیر اور وزیر مذہبی امور کے فون بند ہو گئے، جس نے غمزدہ خاندانوں کو مزید اذیت سے دوچار کر دیا۔ اچانک وزیر مذہبی امور کا یہ بیان ٹی وی چینلوں پر چلنے لگا کہ لاپتہ حاجیوں کے بارے میں افواہیں نہ پھیلائی جائیں، یہ معمول کی بات ہے کہ حج کے موقع پر حاجی لاپتہ ہوجاتے ہیں، وزیر موصوف کو شاید یہ علم نہیں کہ اب موبائل فون کا زمانہ ہے اور ہر حاجی کے پاس موبائل فون ہے، جس پر ان سے ورثا کی بات بھی ہوتی رہی ہے، اگر وہ راستہ بھٹک کر کہیں لاپتہ بھی ہو گئے ہیں تو فون تو کرسکتے ہیں۔ ان کے فون کیوں بند ہو گئے ہیں، کیا ان کے لاپتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے فون بھی لاپتہ ہو گئے ہیں، کیا سعودی عرب میں اندھیر نگری چوپٹ راج کا نظام ہے کہ جو لاپتہ ہو جاتا ہے، وہ کسی لیاری گینگ کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔ ملتان کے سید اسد گیلانی کی مثال سب کے سامنے ہے۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بھانجے اور سابق وزیر ہونے کے ناطے ان کی ایک پہچان موجود تھی، وہ جب لاپتہ ہوئے تو سید یوسف رضا گیلانی نے وزارت خارجہ سے لے کر وزارت مذہبی امور تک سب سے رابطہ کیا، مگر کوئی سرگرمی دیکھنے میں نہ آئی۔ بالآخر سید اسد گیلانی کے دوستوں نے ہی ان کی لاش کو ایک پرائیویٹ ہسپتال میں تلاش کیا اور ان کے شہید ہونے کی تصدیق کی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب میں ہمارے سفارت خانے اور حج مشن کی گرفت انتہائی کمزور ہے اور وہ کسی سانحہ کے بعد عام آدمی جیسا کردار بھی ادا نہیں کرسکتے۔

اس بار حج کے موقع پر مکہ میں دو سانحات کا رونما ہونا بہت سے سوالات چھوڑ گیا ہے۔ ایران کی طرف سے ردعمل انتہائی شدید آیا ہے۔ ایران کے 131 حجاج شہید ہوئے ہیں۔ ایران کے صدر روحانی نے نیویارک میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے سعودی حکومت پر شدید تنقید کی ہے۔ یہ مطالبہ تک کر دیا ہے کہ حج کے انتظامات سعودی حکومت سے لے کر اسلامی ممالک کی تنظیم کو دیئے جائیں۔ سعودی عرب کے مفتی اعظم نے اگرچہ یہ فتویٰ دیا ہے کہ ایسے واقعات کو روکنا انسانی بس میں نہیں ہے، لیکن مہذب دنیا شاید اس مؤقف کی تائید نہ کرے۔ ممتاز مذہبی سکالر اور منشور قرآن کے مولف عبدالحکیم ملک نے مجھے وینکوور کینیڈا سے فون کیا ، پھر کچھ ای میلز بھی بھیجیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حج جیسے مذہبی فریضے کو کمرشل سرگرمی بنانے سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کعبے کی حرمت کا سوال بھی اٹھایا اور کہا کہ جس طرح حرم کے اردگرد بلند وبالا عمارتوں کا، جن میں زیادہ تر ہوٹل ہیں، جال بچھا دیا گیا ہے، اس سے کعبہ کی حرمت پر آنچ آنے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں ۔ خانہ کعبہ کو نیویارک جیسے ڈاؤن ٹاؤن علاقے میں تبدیل کرنے سے ہم کہیں اللہ تعالیٰ کے غضب کو آواز تو نہیں دے رہے اور حج کے موقع پر جو دو بڑے حادثے ہوئے ہیں، وہ کہیں رب کائنات کی ناراضگی کا اظہار تو نہیں؟


انہوں نے حرمت کعبہ کے حوالے سے قرآن وحدیث کے حوالے بھی دیئے، جنہیں مَیں کسی دوسرے کالم میں استعمال کروں گا، تاہم ان کی گفتگو کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ حرم کعبہ کے اردگرد پانچ کلو میٹر کے فاصلے تک کوئی کمرشل یا بلندوبالا عمارت تعمیر نہیں ہونی چاہئے تاکہ حرم کے اردگرد کشادہ اور پُرنورفضا برقرار رہے اور خانہ کعبہ کا تقدس بھی پامال نہ ہو۔ یہ سب کچھ کہتے ہوئے عبدالحکیم ملک کی آواز رقت آمیز ہو گئی اور انہوں نے فون بند کر دیا۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ سعودی فرماں روا شاہ سلیمان اور ان کے رفقا اس بار حج پر ہونے والے المناک واقعات کو معمول کے حادثات نہیں سمجھیں گے۔ شاہ سلیمان نے پہلے ہی تشویش ظاہر کر کے ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی بنا دی ہے، انہیں ایسا کرنا بھی چاہئے تھا، کیونکہ حج انتظامات کے سلسلے میں سعودی حکومت پر سنجیدہ سوالات اٹھے ہیں۔ اس سارے معاملے کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ کیا حاجیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے مطابق انتظامات کئے جا سکتے ہیں؟ اعدادوشمار اٹھا کر دیکھیں تو ہر سال چند لاکھ حاجیوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔

ہمیں یاد ہے کہ ہمارے بزرگوں کے زمانے میں حج پر جانا ایک بہت بڑا معجزہ سمجھا جاتا تھا، کیونکہ سعودی حکومت کی طرف سے زیادہ حاجیوں کی اجازت نہیں ملتی تھی۔ اب تو سب کچھ کمرشل ہو گیا ہے، اس موقع پر اربوں روپیہ اکٹھا ہوتا ہے ، یہ بہت بڑی تجارتی سرگرمی بن گئی ہے۔ کیا اب وقت نہیں آگیا کہ سعودی عرب اپنی حج پالیسی پر نظرثانی کرے۔ اسلامی ممالک کو اعتماد میں لے کر حاجیوں کی تعداد کو کم سے کم رکھا جائے، تاکہ اچھے انتظامات ممکن ہو سکیں اور سانحات سے بھی بچا جا سکے۔ مفتی اعظم نے اس بار یہ فتویٰ جاری کیا ہے کہ ایک حج کرنے والے دوسرا حج کرنے کی بجائے اس پیسے سے کسی غریب کی مدد کریں، اس کو ایک قانون بنا دینا چاہئے، اس سے ایک تو پہلی بار حج کرنے والوں کے لئے مواقع بڑھیں گے، دوسرا انتظامات بھی بہتر ہوسکیں گے۔ سعودی عرب حج کے موقع پر برادر اسلامی ممالک سے انتظامات کے لئے فوجی دستے بھی طلب کرسکتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سال ہونے والے دوسانحات کو پیش نظر رکھ کر ان تمام خامیوں کا جائزہ لیا جائے جو ان حادثات کا باعث بنیں تاکہ مستقبل میں ان سے بچا جا سکے۔

جہاں تک پاکستان کے حج مشن اور وزارت مذہبی امور کا تعلق ہے تو سانحہ منیٰ کے بعد ان کی کارکردگی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جو حج کے حوالے سے بھی کرپشن کا شکار رہا ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو اس سارے معاملے اور حج ڈائریکٹوریٹ نیز پاکستانی سفارت خانے کی بری کارکردگی کا نوٹس لیتے ہوئے حج انتظامات کے حوالے سے ایک کمیٹی بنانی چاہئے جو بدلتے ہوئے حالات اور ٹیکنالوجی میں آنے والی تبدیلیوں کے مطابق حج کے موقع پر پاکستانی حاجیوں کی سلامتی اور انہیں دی جانے والی سہولتوں کو یقینی بنانے کے لئے کوئی پالیسی وضع کرسکے۔ آخر میں دعا ہے کہ جو پاکستانی حجاج کرام لاپتہ ہیں، اللہ تعالی ٰان کے حوالے سے ہماری مدد فرمائے تاکہ جو ورثا اس وقت کرب میں مبتلا ہیں، انہیں سکون مل سکے۔


 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جبر و قدر مذہب اور فلسفے کے معرکتہ ال آرا مضامین میں شامل ہے۔ ایک کالم میں اسکی گتھیاں سلجھائی نہیں جا سکتیں اور میں اس کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اس فلسفے کو ہم رویہ نہیں بنا سکتے۔ جبر کی سرحد وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں انسانی اختیار کی سرحد ختم ہوتی ہے۔ یہ ہم نہیں جانتے کہ اختیار اور کوشش کی یہ حد کہاں تک ہے۔ یوں ہم تا دم مرگ کوشش کے پابند ہیں۔ مریض کی سانس جب تک آ جا رہی ہے، ڈاکٹر کا اختیار ختم نہیں ہوتا۔ وہ کوشش کا پابند ہے۔ وہ موت کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ موت کا فیصلہ عالم کا پروردگار کرت اہے اور یہاں سے جبر کا آغاز ہو جاتا ہے۔ منیٰ میں حادثہ کیوں ہوا؟ نائجیریا کی حکومت اس بات کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں کہ اسکے حجاج اسکے ذمہ دار ہیں۔ اس لیے لازم ہے کہ اس کو تقدیر کا معاملہ قرار دینے سے پہلے عالم اسباب میں اسکی وجوہ تلاش کی جائیں۔
کافروں کے تجزیوں کے سامنے آنکھیں بند کریں گے تو الزام مسلمانوں کو ہی دیں گے ، بلا شبہ یہ دونوں حادثات تقدیر کا حصہ تھے ، جو رونما ہوئے ، لیکن کیا مسلمان صرف تقدیر پر ایمان کا درس دے کر خاموش ہو جاتےہیں ؟
حرمین شریفین کی مثال لے لیں ، جتنے حادثے ہوئے ہیں ، ان کے اسباب ، نتائج ، تدارک کے حوالے سے مفصل رپورٹیں موجود ہیں، اور پھر ان پر عمل درآمد بھی ہوتاہے تاکہ آئندہ حادثات سے بچا جا سکے ، مثلا پہلے جمرات والی جگہ بہت تنگی تھی ، کنکریاں مارتے ہوئے حادثات ہوتے تھے ، ان حادثات پر غور و فکر کا یہ نتیجہ نکلا کہ اب منی میں جمرات کے لیے آنے جانے کے لیے وسیع عمارتیں ، رستے اور شاہرائیں تعمیر کر دی گئیں ،منی میں ایک دفعہ خیموں میں آگ لگی ، آئندہ سال سے تمام خیموں کو فائر پروف کردیا گیا ہے ، و علی ہذا القیاس ، میری معلومات کے مطابق ہر سال حج کے موسم میں بالخصوص باقاعدہ افراد متعین کیے جاتے ہیں ، جو دوران حج حالات و واقعات کا جائزہ لے کر پیش کی جانے والی سہولیات کی درجہ بندی کرتے ہیں ، اور کمیوں کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہیں تاکہ آئندہ سال ان کا تدارک کیا جائے ۔
لہذا خود کو مسلمان سمجھ کر شرمندہ ہونے والے دانشوروں کو ذرا فرصت نکال کر مسلمان کیا کرتے ہیں ، لکھتے ہیں ، وہ بھی پڑھ لینا چاہیے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
سانحہ منیٰ: سوالات ، گزارشات
بہترین کالم ہے ماشاءاللہ ۔
اس دفعہ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ حرمین شریفین میں پاکستانی حج مشن یا سفارت خانے کے لوگ پہلے کی نسبت زیادہ متحرک تھے ، لیکن دیگر ملکوں کےمقابلے میں ان کی یہ سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں ۔
ہمارے ساتھ دیگر ملکوں کے طالب علم پڑھتےہیں ، ان کی حج انتظامیہ کے لوگ ، سفارت خانے کے اہلکار ان سے رابطہ کرتے ہیں ، ان کی خدمات حاصل کرتے ہیں ، اور پھر معقول معاوضہ بھی دیتے ہیں ، اس طرح حجاج کے لیے سہولیات میں اضافہ ہوتا ہے ، جبکہ فریقین دینی و دنیاوی اعتبار سے مستفید ہوتے ہیں ، جبکہ پاکستانیوں نے اس دفعہ رضاکار بھرتی کرنا شروع کیے ، اور اس سلسلے میں جو اعلان کیا ، اس میں ایک تو کسی قسم کے معاوضے کی کوئی بات نہیں تھی ، دوسری بات فری میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ اس قسم کی کڑی شرائط تھیں ، جن پر کوئی آدمی شاید پیسے لے کر بھی کام کرنے کے لیے تیار نہ ہو ۔
یہاں ماحول پاکستان جیسانہیں ہے ، یہاں گھر اپنا نہیں ، کھانے پینے کے پیسے دینے پڑتے ہیں ، الغرض قدم قدم پر آپ کو رہائشی و غیر رہائشی سہولیات کے حصول کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے ، اب ایسی صورت حال میں کوئی بہت بڑا بزنس مین ہی ہوگا ، جو حاجیوں کی خدمت کے جذبے سے فری خدمات پیش کرے ، اور ساتھ منتظمین کی کڑوی کسیلی باتیں بھی سنے ۔
اس کے بالمقابل سعودی حکومت اور ان کے مذہبی ادارے اپنی طرف سے طالب علموں کو مختلف ذمہ داریاں دیتے ہیں ، اور ان کو ان کا معقول معاوضہ بھی دیتے ہیں ، اور پاکستانی اور بعض دیگر ممالک حجاج و زائرین کو جو دینی رہنمائی ، اور ضروریات زندگی کے متعلق معلومات ملتی ہیں وہ اسی قسم کے لوگوں سے ملتی ہیں ، ورنہ اگر بات صرف پاکستانی حج مشن وغیرہ پر ہو تو پھر اللہ اللہ خیر سلا ۔
دو گھنٹے بعد یہ تصدیق کی گئی کہ اس سانحہ میں ایک پاکستانی بھی شہید ہوا ہے اور پانچ زخمی ہیں۔ صاف لگ رہا ہے کہ سب کچھ انتہائی غیر ذمہ داری اور موقع پر جائے بغیر کہا گیا، حالانکہ اگر کوئی ذمہ دار شخص ہوتا اور جن 270 افراد کو خدام حجاج بنا کر سعودی عرب لے جایا گیا تھا، کے ہمراہ حادثے کی جگہ پہنچتا تو بہت کچھ سامنے آسکتا تھا اور پاکستانیوں کی لاشیں اس طرح مردہ بھیڑ بکریوں کی طرح لاشوں کے ڈھیر میں پڑی نہ ملتیں، جیسی کہ سوشل میڈیا پر تصاویر میں نظر آرہی ہیں۔
انا للہ و انا الیہ رجعون ۔
کتنی شرمناک بات ہے کہ حج مشن کے افسران اور سفارت خانے کے ذمہ داران حادثے کے بعد چار دن تک یہی کہتے رہے کہ انہیں سعودی حکام ہسپتالوں اور مردہ خانوں تک رسائی نہیں دے رہے۔ یہ سفارت کاری کی بدترین شکل ہے کہ آپ متعلقہ ملک میں بے بسی کا اظہار کر رہے ہوں۔
متفق ۔
، مگر ہم جو سعودی عرب کے ساتھ سب سے اچھے تعلقات کا دعویٰ کرتے ہیں اور ہمارے ملک کے وزیراعظم نوازشریف خادم حرمین شریفین سے ذاتی مراسم بھی رکھتے ہیں، اس ملک کے شہریوں کی گمشدگی پر ہمارے سفارتی حکام اس طرح اظہار بے بسی کرتے رہے جیسے وہ اسرائیل میں کسی حادثے کی تفصیلات اکٹھی کر رہے ہوں۔ حاجیوں کے ورثاء چیخ چیخ کر کہتے رہے کہ ان کا اپنے پیاروں سے رابطہ نہیں ہو رہا۔ سینکڑوں حاجیوں کی گمشدگی میڈیا کے ذریعے سامنے آ گئی، مگر وزارت خارجہ، حج مشن کے حکام اور خود وزیر مذہبی امور ٹس سے مس نہ ہوئے۔ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نیویارک میں بیٹھ کر یہ فرمان جاری کرتے رہے کہ حکام گمشدہ حاجیوں کی تلاش کو فوری اور یقینی بنائیں ، مگر ایک دور بیٹھے سربراہ حکومت کی بات کون سنتا ہے۔ ایک سانحہ تو منیٰ میں ہوا، لیکن اس سے بھی بڑا سانحہ ہمارے ذمہ دار محکموں کی بے حسی اور غفلت ہے۔ جنہوں نے اس حقیقت کو تسلیم ہی نہیں کیا کہ ہم ایک بڑے سانحہ سے دوچار ہو چکے ہیں۔
نواز شریف کے ذاتی مراسم سے پاکستانی عوام نے کوئی فائدہ اٹھایا ؟ واللہ اعلم ۔
جو چیخ رہے تھے وہ گم ہونے والے عام لوگوں کے ورثاء تھے ، اگر ان کا تعلق حکومت وقت یا ان کے کارندوں میں سے کسی کے ساتھ ہوتا تو یقینا نوبت چیخ پکار تک آتی ہی نہیں ۔
مدینہ منورہ میں ایک حادثہ ہوا تھا اس سے متاثر ہونے والے پاکستانی حکومتی ادارے کے ایک نمایاں عہدے دار تھے ، کہا جاتا ہے کہ اسی دن اس معاملے کو حل کر لیا گیا تھا ۔ کیونکہ فورا سفارتی سطح پر شکایت درج کروائی گئی ، اور سعودی اداروں نے ایمرجنسی نافذ کردی تھی ، ظاہر ہے جب متاثر ہونے والا ایک عام آدمی ہوگا ، اس کی شکایت کون درج کروائے گا ، اور اس پر رد عمل کا اظہار کون کرے گا ؟
جس دن برطانوی اخبار ’’گارجین‘‘ نے یہ خبر شائع کی کہ پاکستان کے سب سے زیادہ حاجی سانحہ میں شہید ہوئے ہیں اور ان کی تعداد 216 ہے تو ان 216 حاجیوں کے ورثا میں تشویش کی لہر دوڑ گئی، جو لاپتہ چلے آ رہے تھے، اس موقع پر حج ڈائریکٹر، پاکستانی سفیر اور وزیر مذہبی امور کے فون بند ہو گئے، جس نے غمزدہ خاندانوں کو مزید اذیت سے دوچار کر دیا۔ اچانک وزیر مذہبی امور کا یہ بیان ٹی وی چینلوں پر چلنے لگا کہ لاپتہ حاجیوں کے بارے میں افواہیں نہ پھیلائی جائیں، یہ معمول کی بات ہے کہ حج کے موقع پر حاجی لاپتہ ہوجاتے ہیں، وزیر موصوف کو شاید یہ علم نہیں کہ اب موبائل فون کا زمانہ ہے اور ہر حاجی کے پاس موبائل فون ہے، جس پر ان سے ورثا کی بات بھی ہوتی رہی ہے، اگر وہ راستہ بھٹک کر کہیں لاپتہ بھی ہو گئے ہیں تو فون تو کرسکتے ہیں۔ ان کے فون کیوں بند ہو گئے ہیں، کیا ان کے لاپتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے فون بھی لاپتہ ہو گئے ہیں، کیا سعودی عرب میں اندھیر نگری چوپٹ راج کا نظام ہے کہ جو لاپتہ ہو جاتا ہے، وہ کسی لیاری گینگ کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔ ملتان کے سید اسد گیلانی کی مثال سب کے سامنے ہے۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بھانجے اور سابق وزیر ہونے کے ناطے ان کی ایک پہچان موجود تھی، وہ جب لاپتہ ہوئے تو سید یوسف رضا گیلانی نے وزارت خارجہ سے لے کر وزارت مذہبی امور تک سب سے رابطہ کیا، مگر کوئی سرگرمی دیکھنے میں نہ آئی۔ بالآخر سید اسد گیلانی کے دوستوں نے ہی ان کی لاش کو ایک پرائیویٹ ہسپتال میں تلاش کیا اور ان کے شہید ہونے کی تصدیق کی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب میں ہمارے سفارت خانے اور حج مشن کی گرفت انتہائی کمزور ہے اور وہ کسی سانحہ کے بعد عام آدمی جیسا کردار بھی ادا نہیں کرسکتے۔
ایسے حادثے اس وقت شدید نوعیت اختیار کرلیتے ہیں ، جب دو مختلف زبانیں بولنے والے آپس میں ایک دوسرے کو بات سمجھانے قاصر رہ جاتے ہیں ، سعودی ادارے تو اپنے ہر ہر ملازم کو دنیا کی ساری زبانیں سکھانے سے رہے ، لیکن دنیا کی مختلف زبانیں بولنے والوں کے لیے عربی ، انگلش میں مہارت رکھنے والے افراد تیار رکھنا کوئی مشکل کام نہیں ۔ اگر افہام و تفہیم کا یہ نظام درست طریقے سے بحال کردیا جائے تو یقینا اس طرح کے واقعات میں بہت کمی واقع ہو گی ۔ ان شاءاللہ ۔
اس بار حج کے موقع پر مکہ میں دو سانحات کا رونما ہونا بہت سے سوالات چھوڑ گیا ہے۔ ایران کی طرف سے ردعمل انتہائی شدید آیا ہے۔ ایران کے 131 حجاج شہید ہوئے ہیں۔ ایران کے صدر روحانی نے نیویارک میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے سعودی حکومت پر شدید تنقید کی ہے۔ یہ مطالبہ تک کر دیا ہے کہ حج کے انتظامات سعودی حکومت سے لے کر اسلامی ممالک کی تنظیم کو دیئے جائیں۔ سعودی عرب کے مفتی اعظم نے اگرچہ یہ فتویٰ دیا ہے کہ ایسے واقعات کو روکنا انسانی بس میں نہیں ہے، لیکن مہذب دنیا شاید اس مؤقف کی تائید نہ کرے۔ ممتاز مذہبی سکالر اور منشور قرآن کے مولف عبدالحکیم ملک نے مجھے وینکوور کینیڈا سے فون کیا ، پھر کچھ ای میلز بھی بھیجیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حج جیسے مذہبی فریضے کو کمرشل سرگرمی بنانے سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کعبے کی حرمت کا سوال بھی اٹھایا اور کہا کہ جس طرح حرم کے اردگرد بلند وبالا عمارتوں کا، جن میں زیادہ تر ہوٹل ہیں، جال بچھا دیا گیا ہے، اس سے کعبہ کی حرمت پر آنچ آنے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں ۔ خانہ کعبہ کو نیویارک جیسے ڈاؤن ٹاؤن علاقے میں تبدیل کرنے سے ہم کہیں اللہ تعالیٰ کے غضب کو آواز تو نہیں دے رہے اور حج کے موقع پر جو دو بڑے حادثے ہوئے ہیں، وہ کہیں رب کائنات کی ناراضگی کا اظہار تو نہیں؟
ان سانحات کا رونما ہونا واقعتا بہت تشویشناک ہے ، لیکن سعودیہ کو الزام دینا کہ سعودیہ حج کو کاروباری نقطہ نظر سے دیکھ رہا ہے ، اس لیے مسائل پیدا ہورہے ہیں ، یہ درست نہیں ، اس پر باقاعدہ تحریریں منظر عام پر آچکی ہیں کہ سعودیہ کے پاس دیگر ذرائع آمدی اس قدر ہیں کہ انہیں حج جیسی عظیم عبادت کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی وہ ایسا کرتے ہیں ۔
حرم کے ارد گرد عمارتیں تعمیر کرنا اس میں کاروبار کو دخل ہے یا پھر حاجیوں کی سہولت کو پیش نظر رکھا گیا ہے ، میری نظر میں آخری بات زیادہ درست ہے ، خیر پھر اگر کوئی صاحب دل سمجھتے ہیں کہ یہ بڑی بڑی عمارتیں حاجیوں کے لیے سہولت کی بجائے دقت و مشقت کا باعث ہیں اور اس سے کعبہ کی بے حرمتی ہوتی تو علمی و تحقیقی بنیادوں پر علماء اور انجینئرز کی مدد سے رپورٹ تیار کرکے متعلقہ سعودی اداروں کو بھیجنی چاہیے ، وہ یقینا اس پر غور و فکر کریں گے ، اور اگر سعودی علماء نے اس رپورٹ کی تصدیق کی تو کوئی بعید نہیں کہ حرمین کے ارد گرد کا سارا علاقہ ویسے ہی بنادیا جائے جیساکہ کالم نگار کے ایک دوست نے خواہش کا اظہار کیا ہے ۔
اور یہ حادثات رب کی ناراضی کا باعث ہیں یا نہیں ؟ یہ کہنا بہت مشکل بات ہے ، لیکن ایک بات ذہن میں رہنی چاہیے اگر یہ عتاب الہی بھی ہے تو اس کے معتوب تو سعودیہ والے ہیں نہ کہ معصوم حجاج جو مختلف ملکوں سے حج کے لیے حاضر ہوئے ہیں ، لیکن ان دونوں حادثوں میں آپ دیکھیں تو متاثر حاجی ہوئے ہیں نہ کہ کسی سعودی بادشاہ ، شہزادے یا عہدیدار کا کوئی محل یا دفتر یا گھر وغیرہ ۔
جہاں تک پاکستان کے حج مشن اور وزارت مذہبی امور کا تعلق ہے تو سانحہ منیٰ کے بعد ان کی کارکردگی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جو حج کے حوالے سے بھی کرپشن کا شکار رہا ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو اس سارے معاملے اور حج ڈائریکٹوریٹ نیز پاکستانی سفارت خانے کی بری کارکردگی کا نوٹس لیتے ہوئے حج انتظامات کے حوالے سے ایک کمیٹی بنانی چاہئے جو بدلتے ہوئے حالات اور ٹیکنالوجی میں آنے والی تبدیلیوں کے مطابق حج کے موقع پر پاکستانی حاجیوں کی سلامتی اور انہیں دی جانے والی سہولتوں کو یقینی بنانے کے لئے کوئی پالیسی وضع کرسکے۔ آخر میں دعا ہے کہ جو پاکستانی حجاج کرام لاپتہ ہیں، اللہ تعالی ٰان کے حوالے سے ہماری مدد فرمائے تاکہ جو ورثا اس وقت کرب میں مبتلا ہیں، انہیں سکون مل سکے۔
حج و عمرہ کے معاملے میں جس قدر کرپشن پاکستانی ٹریول ایجنٹ کرتے ہیں ، شاید ہی کوئی ملک ایسے کرتا ہو ، حاجی کے گھر سے نکلنے سے لے کر گھر داخل ہونے تک لوٹنے کا کوئی موقعہ خالی نہیں جانے دیا جاتا ۔
اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے ۔
 
Top