• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موت و حیات کا اختیار ( عقیدہ دیوبند )

شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
85
موت و حیات کا اختیار:
مقلد مناظر احسن گیلانی کی تالیف سوانح قاسمی کے حاشیہ میں مقلد قاری محمد طیب فرماتے ہیں۔ حضرت نانوتوی مباحثہ
شاہجہاں پور کے لئے روانہ ہوئے تو شاہجہاں پور کے قریب کسی گاوں کے چند غریب سنیوں نے حضرت کو لکھا کہ جاتے یا آتے حضرت والا اس گاوں کو اپنے قدوم سے عزت بخشین اور ہمیں کچھ پندو نصیحت فرمادیں تا کہ ہمارے لئے
صلاح و فلاح اور تقویہ کا باعث ہو حضرت والا نے بخوشدلی ان کی دعوت منظور فرمالی جیسا کہ غرباء کی دعوت و پیشکش بطور بطوع و رغبت قبول فرمانے کی عادت تھی اور جاتے یا آتے ہوئے اس گاوں میں اترے شیعوں میں اسے کھلبلی مچی فکر یہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ ان کے وعظ کا اثر شیعوں پر ہو جائے اور شیعہ دباو کی تنظیم ٹوٹ جائے تو
انہوں نے اس متوقعہ اثرات کی کاٹ کےلئے لکھنو سے چار شیعہ مجتہد تاریخ مقررہ پر بلائے اور پروگرام یہ طے پایا کہ
مجلس میں چاروں کونوں پر یہ چاروں مجتہد بیٹھ جائیں اور چالیس اعتراضات منتخب کر کے دس دس اعتراض چاروں پر
بانٹ دیئے گئے کہ اثنائے وعظ اس طرح کئے جائیں کہ اول فلاں سمت کا مجتہد دس اعتراض کرے اس طرح سے
حضرت نمٹیں تو دوسرے کونا کو پھر اسی طرح تیسرے اور چوتھے کا نا کا اور اس طرح وعظ نہ ہونے دیا جائے
ان ہی اعتراض و جواب میں مبتلا کر کے وقت ختم کر دیا جائے اب غیب مدد اور حضرت والا کی کرامت کا حال سنیئے
کہ حضرت والانے وعظ شروع فرمایا جس میں گاوں کے تمام شیعہ برادری بھی جمع تھی اور وعظ اسی ترتیب سے
اعتراضوں کے جواب پر مشتمل شروع ہوا جس ترتیب سے اعتراضات لے کر مجتہد ین بیٹھے تھے گویا ترتیب کے
مطابق جب کوئی مجتہد اعتراض کرنے کے لئے گردن اٹھاتا تو حضرت اسی اعتراض کو خود نقل کرکے جواب دینا شروع فرماتے یہاں تک کہ وعظ پورے سکون کے ساتھ پورا ہوگیا اور شیعوں کے ان مقررہ شبہات کےمکمل حل سے گاوں کے شیعہ اس قدر مطمن اور متشر ح ہوئے کہ اکثریت نے توبہ کر لی اور سنی ہو گئے۔
مجتہدین اور مقامی شیعہ چودھریوں کو اس میں اپنی اتنہائی سبکی اور خفت محسوس ہوئی تو انہوں نے حرت مذبوحی کے
طور پر اس شرمندگی کو مٹانے اور حضرت ولا کےاثرات کا ازالہ کے لئے یہ تدبیر کی کہ ایک نوجوان لڑکے کا فرضی جنازہ بنایا اور حضرت سے آکر عرض کیا کہ حضرت نماز جنازہ آپ پڑھا دیں پروگرام یہ تھا کہ جب حضرت دو تکبیریں کہہ لیں تو صاحب جنازہ ایک دم اٹھ کر کھڑا ہو اور اس پر حضرت کے ساتھ استہزا اور تمسخر کیا جائے
حضرت والا نے معذرت فرمائی کہ آپ لوگ شیعہ ہیں اور میں سنی اصول نماز الگ الگ ہیں۔ آپ کے جنازہ کےنماز
مجھ سے پڑھوانے میں جائز کب ہوگی؟ شیعوں نے کہا کہ حضرت بزرگ ہر قوم کابزرگ ہی ہوتا ہے آپ نماز پڑھا ہی دیں حضرت نے ان کے اصرار پر منظورفرمالیا ۔اور جنازہ پر پہنچ گئے مجمع تھا حضرت ایک طرف کھڑے ہوئے تھے
کہ چہرہ پر غصہ کےآثار دیکھے گئے آنکھیں سرخ تھیں اور انقباض چہرہ سے ظاہر تھا ۔ نماز کےلئے آگے بڑھے اور نماز شروع کی دو تکبیریں کہنے پر جب طے شدہ کے مطابق جنازہ میں حرکت نہ ہوئی تو پیچھے سے کسی نے ہونھ کے ساتھ صاب جنازہ کو اٹھ کھڑے ہونے کی سنسکار دی مگر وہ نہ اٹھا حضرت نے تکبیرات اربعہ پوری کر کے اسی غصہ
کےلہجے میں فرمایا کہ اب یہ قیامت کی صبح سے پہلے نہیں اٹھ سکتا دیکھا گیا تو مردہ تھا شیعوں میں رونا پیٹنا پڑگیا اور
بجائے حضرت والا کی سبکی کے خود ان کی سبکی اور سبکی ہی نہیں سب کی موت آگئی۔
(حاشیہ سوانح قاسمی ص 7170 ج 2)
حضرت حافظ احمد حسن صاحب شاہجہاں پوری جو باوجود شاہجہاں پور کے بڑے ریئس ہونے کے صاحب سلسلہ بزرگ
بھی تھے حضرت والا ( مولوی اشرف علی تھانوی ) سے بہت محبت فرماتے تھے ایک بار کسی کےلئے بد دعا کی تو وہ
شخص دفعتہ مر گیا بجائے اس کے اپنی کرامت سے خوش ہوتے ڈرے ارو بذریعہ تحریر حضرت والا سے مسلہ پوچھا کہ مجھے قتل کا گنا ہ تو نہیں ہوا حضرت والا نے نہایت مفصل جواب دیا جس سے ان کی پوری تشفی ہوگئی خلاصہ جواب
کا یہ تھا کہ اگر آپ میں قوت تصرف ہے اور بددعا کرنے کے وقت آپ نے اس قوت سے کام لیا تھا یعنی یہ خیال
قصد اور قوت کے ساتھ کیا تھا کہ یہ شخص مر جائے تب تو قتل کا گناہ ہوا اور چونکہ یہ قتل شبہ عمد ہے اس لئے دیت اور کفارہ واجب ہوگا۔ ( اشرف السوانح ص 128 ج 1 )
مقلد قاری فخرالدین صاحب گیاوی اپنے والد مقلد خیرالدین دیوبندی کے متعلق ایک روایت درج کرتے ہیں کہ
ابتدا میں ( والد کی ) کوئی اولاد نہیں رہتی تھی کئی اولاد ہوئی مگر اللہ کو پیاری ہو گئی خوبی قسمت سے ایک گہرے
ملاقاتی عالم پنجابی جو بہت بڑے عامل بھی تھے گیا تشریف لائے مولانا نے اولاد زندہ نہ رہنے کا حال ان سے کہا
انہوں نے کہا ایک عمل ہے اس کو کیجئے ان شاء اللہ اولاد نرینہ ہوگی اور زندہ رہے گی جب حمل کو چوتھا مہینہ ہو
تو حاملہ کے پیٹ پر اپنی انگلی سے بغیر روشنی کے محمد لکھ دیجئے اور پکار کر کہئے میں نے تیرا نام محمد رکھا اور جب
بچہ پیدا ہوا تو اس کا نام محمد رکھئے چنانچہ اس عمل کے بعد سب سے پہلے اولاد جو پیدا ہوکر زندہ رہی وہ میں ( قاری
فخرالدین مصنف کتاب ) ہوں ۔( درس حیات ص 196)

حوالہ۔ حدیث اور اہل تقلید بجواب حدیث اور اہل حدیث جلد 1 ۔
http://kitabosunnat.com/kutub-libra...eed-ba-jawab-hadith-aur-ahl-hadith-jild1.html
 
Top