کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
موجودہ حالات اور سیرت طیبہ
کالم: حافظ محمد ادریس11 اگست 2015
آج اسرائیل کی صہیونی ریاست جس طرح مسلمانوں کا بے دریغ خون بہا رہی ہے، تاریخ میں اس کی کم ہی مثال ملتی ہے۔ بالغ آبادی ہی نہیں، پھول جیسے معصوم بچوں کو بھی درندگی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، افسوس یہ ہے کہ اس پر پوری دنیا میں خاموشی ہے، متعصب یہودی قبلۂ اول کو منہدم کرنے کی بھی سازشیں کر رہے ہیں۔ وہ خود اور ان کے پروردہ قلم کار نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور گستاخی کو آزادئ رائے کا نام دیتے ہیں۔ قرآن پاک کی بے حرمتی عالمِ کفر کے نزدیک مشغلہ بن کر رہ گیا ہے۔ ہمارے ہادی اور راہبر محمد مصطفیؐ نے تو ہر مذہب کے عبادت خانوں اور ان کی مذہبی کتب کو تحفظ دیا۔ آپؐ نے جنگوں کے دوران بھی اس اعلیٰ اخلاق و کردار کا دامن کبھی ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیا۔ یہودانِ مدینہ کی مسلسل غداریوں، بد عہدیوں اور شرارتوں کے بعد ان کو مدینہ سے بے دخل کیا گیا۔ پھر یہودی خیبر میں اکٹھے ہو کر اسلامی ریاست کے خلاف سرگرمِ عمل ہو گئے۔ خیبر کے درجنوں قلعوں میں انہوں نے اسلحے کے ڈھیر اکٹھے کر لئے جو مدینہ کی اسلامی ریاست کے لئے بڑا چیلنج تھا۔ خیبر کی جنگوں میں یہودی شکست سے دوچار ہوئے اور اللہ نے اسلام کو غالب کر دیا۔ کفارِ مکہ بھی اس موقع پر بھڑک اٹھے، مگر اللہ کے نبیؐ نے ہر مشکل گھڑی اور ہر آسان مرحلے میں ہمیشہ بڑے پن کا ثبوت دیا۔ خیبر کے قلعوں میں سے ایک مشہور اور مشکل ترین معرکہ قلعہ نزار پر ہوا جس میں یہود شکست کھا گئے۔ اس کا تذکرہ تاریخ و حدیث میں ملتا ہے۔
نبی اکرمؐ نے قلعہ نزار کی فتح سے قبل ایک یہودی کو اس بنیاد پر امان دی تھی کہ اس نے آپؐ کو قلعے کے اندرونی حالات کے بارے میں معلومات دی تھیں۔ اس یہودی کا نام سماک بیان کیا گیا ہے۔ آپؐ نے اس شخص کو قبولِ اسلام کی دعوت دی تو اس نے کہا کہ مجھے کچھ ایام کی مہلت دیں کہ میں ذرا غور و خوض کرلوں۔ آپ نے بخوشی اسے سوچنے سمجھنے کے لئے مہلت دے دی۔ آنحضورؐ نے قلعہ نزار کی فتح کے بعد اس شخص کو حسبِ وعدہ امان بھی عطا فرمائی اور آپؐ اس کو مزید کچھ انعام بھی دینا چاہتے تھے اور ساتھ ہی آپؐ کی خواہش تھی کہ یہ شخص ہدایت سے بہرہ ور ہوجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ راہِ ہدایت سے بڑا کوئی انعام کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔ نبی پاکؐ اس کے وعدے کے مطابق اس کے جواب کے منتظر تھے۔ آپؐ کے حسنِ خلق کو دیکھ کر اس شخص کا دل پہلے ہی اسلام کی طرف مائل ہوچکا تھا۔ غوروخوض کے بعد اس نے آپؐ کی دعوت کا مثبت جواب دیا۔ اب یہ خوش قسمت انسان اسلام کی دولت سے مالا مال ہوچکا تھا۔
اس کے بیوی بچے جو قلعے کے اندر مقیم تھے، قلعہ فتح ہوجانے کے بعد آنحضورؐ کی خدمت میں دیگر یہودیوں کے ساتھ پیش کئے گئے۔ آپؐ نے اس کے بیوی بچوں کو آزاد کر دیا۔ اس کی بیوی نُفَیْلہ ایک خوبصورت خاتون تھی۔ سماک اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑ کر خوشی خوشی اپنے گھر کو لوٹ گیا۔ مختلف قلعوں سے نبی اکرمؐ کو جومالِ غنیمت ملا اس میں بڑی تعداد میں توراۃ کے نسخے بھی تھے۔ ہر چند کہ توریت تحریف شدہ کتاب ہے اور اس زمانے میں بھی یہود کے پاس جو توریت تھی اس کا حقیقی توریت سے برائے نام ہی تعلق تھا۔ قرآنِ مجید میں بہت تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ یہودیوں نے اللہ کے کلام کو خواہشاتِ نفس کے تحت اس حد تک بدل دیا تھا کہ حقیقت مکمل طور پر خرافات میں کھو گئی۔ اس کے باوجود چونکہ یہودیوں کے نزدیک توریت ان کی مقدس کتاب ہے اس لئے توریت کی کسی مسلمان نے کوئی بے حرمتی نہیں کی۔ مسلمانوں کی پوری تاریخ میں کبھی بھی کسی مذہب کے مقدسات اور عبادت خانوں کو کوئی نقصان نہ پہنچایا گیا۔ اس کے مقابلے میں دیگر مذاہب کے پیروکاروں نے مقدسات اور عبادت خانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کی کتبِ مقدسہ کی ہمیشہ بے حرمتی کی ہے۔ قرآنِ مجید پر تو آج بھی دشمنانِ اسلام مسلسل حملہ آور ہیں۔ حضور ختمی مرتبتؐ نے ہر جنگ کے موقع پر صحابہؓ کو یہ تلقین فرمائی کہ مقدسات یعنی کسی بھی مذہب کی عبادت گاہوں، ان کی کتب اور ان کے تمام دینی شعائر کو جنگی دست برد سے محفوظ رکھنا۔ فی الحقیقت انسانیت کو تہذیب تو ملی ہی انبیائے کرامؑ سے ہے اور اس کی تکمیل نبوت کی تکمیل کی طرح محمد رسول اللہ ؐپر ہوئی ہے۔ اس موقع پر جب گوانتا ناموبے میں قرآن مجید کی بے حرمتی اور صلیبیوں و صہیونیوں کی دیدہ دلیری پوری دنیا نے دیکھ لی ہے اور ’’چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر‘‘ کی تصویر کے ساتھ بزعمِ خود مہذب، یہ درندے بالکل ننگے ہو گئے ہیں۔ نبی اکرمؐ سے یہودیوں نے درخواست کی کہ توریت کے تمام نسخے انہیں واپس دے دئیے جائیں تو آپؐ نے ان کے مطالبے پر بلا تأمّل تمام نسخے ان کے حوالے کر دئیے۔
خیبر کے معرکوں میں بھی ایران و روم کی جنگ عظیم کی طرح مکہ کے سردار وں میں سے دو سرداروں کے درمیان ایک شرط کا تذکرہ ملتا ہے۔ روم و ایران کے معرکے کا تذکرہ سورۃ الروم میں ملتا ہے، اس میں حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ سردارِ قریش ابی بن خلف نے شرط لگائی تھی کہ اگر قرآن کی پیش گوئی کے مطابق رومی جیت گئے تو وہ سو اونٹ دے گا اور ایرانی فتح پا گئے تو ابوبکرؓ سے اونٹ لے گا۔ قرآن کی پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی اور حضرت ابوبکرؓ جیت گئے۔ اس کی تفصیل تفسیر قرآن، حدیث اور تاریخ میں ملتی ہے۔ جنگ خیبر کے دوران پھر تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا۔ اسلام میں شرط لگانے کی بعد میں ممانعت آگئی اور اسے حرام قرار دیا گیا۔ اب بھی حالات ایسے ہیں کہ دشمنان دین، اسلام اور مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مایوسی کا شکار ہے مگر ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ آخری فتح اسلام کی ہوگی۔ حدیث میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے اور ہمارا اس پر مکمل ایمان ہے۔
حویطب بن عبد العزیٰ جو قریش کے بہت مالدار سرداروں میں سے تھا، اصرار کرتا تھا کہ یہودیوں کے مقابلے پر مسلمان فتح پائیں گے۔ دوسری جانب ابیّ بن خلف کا بھتیجا صفوان بن امیّہ بن خلف اس رائے پر مضبوطی سے قائم تھا کہ فتح یہودیوں کا مقدر ہو گی۔ ان دونوں کے درمیان شرط لگی جس میں روم و ایران کے تصادم کی طرح سو اونٹ طے پائے۔ یہ دونوں ہی نہیں بلکہ ان کے حامی بھی خیبر کی طرف سے آنے والے ہر شخص سے تجسس اور شوق سے جنگ کے نتائج کے بارے میں پوچھتے تھے۔ انہی دنوں میں ایک شخص عباس بن مرداس جو قبیلہ بنو سُلَیْم سے تھا مکہ آیا۔ اس سے ان لوگوں نے خیبر کے حالات پوچھے۔ جس مجلس میں یہ گفتگو ہو رہی تھی اس میں قریش کے دیگر سرداروں کے علاوہ ابوسفیان بن حرب بھی موجود تھا۔ عباس بن مرداس نے کہا کہ یہودی غالب آئیں گے جبکہ حویطب نے کہا ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا۔ میں نے حدیبیہ کے مقام پر محمدؐ کی جو شان دیکھی تھی اس سے مجھے یقین ہوگیا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
صفوان بن امیہ نے عباس بن مرداس کو اپنا حامی پایا تو اس کا حوصلہ اور بڑھ گیا۔ ایک اور سردار نوفل بن معاویہ نے بھی کہا کہ عباس کی بات سچی معلوم ہوتی ہے۔ دونوں جانب سے شرط لگائی گئی جس کا آغاز پانچ اونٹوں سے ہوا اور آخر سو اونٹوں پر شرط کا معاملہ طے پا گیا۔ ابو سفیان بن حرب بظاہر اس معاملے سے لاتعلق اور بے زار نظر آرہا تھا مگر بحث و تکرار اور شور سن کر اس نے کہا: ’’لات و عزّٰی کی قسم! مجھے تو عباس بن مرداس کی باتیں مشکوک نظرآتی ہیں‘‘۔ چونکہ یہ بات صفوان بن امیہ کے خلاف جاتی تھی اس لئے اس نے کہا کہ سردارِ قریش! تو نے ہمیشہ میری مخالفت کی ہے۔ آخر ابو سفیان نے اختلافی باتوں سے بچنے کے لئے سب کو خاموش کرایا اور مجلس برخاست کر دی۔ کچھ ہی دنوں کے بعد حقیقت کھل گئی اور صفوان بن امیہ اپنے چچا ابیّ بن خلف کی طرح بازی ہار گیا۔ اب بھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ حالات کتنے ہی حوصلہ شکن ہوں، اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ حالات کو بدل سکتا ہے مگر کب؟ کیسے؟ اس کی اپنی حکمت کے تابع ہے۔
ح