• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"موزوں پر مسح کے احکام،،،

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
10892009_790391857663708_2091947930307041600_n.png


فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ نے 11-ربیع الاول- 1436کا خطبہ جمعہ بعنوان

"موزوں پر مسح کے احکام،،،
اور عید میلاد النبی ﷺ"



ارشاد فرمایا ، جس میں انہوں نے موزوں اور جرابوں پر مسح کرنے کے مفصل مگر مختصر انداز میں احکامات ذکر کیے، اور دوسرے خطبہ میں عید میلاد کی شرعی حیثیت کے بارے میں آگاہ کیا کہ یہ بدعت ہے۔

پہلا خطبہ:

یقینا تمام تعریفیں اللہ عز وجل کیلئے ہیں، وہی باریک بین اور خبر رکھنے والا ہے،میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ برحق نہیں ، وہ یکتا ہے، اسکا کوئی شریک نہیں ،وہی بلند اور کبریائی کا مالک ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں محمد اللہ بندے اور اسکے رسول ہیں، آپ خوشخبری دینے والے، ڈرانے والے ، اور سراج منیر ہیں، یا اللہ! آپ پر، آپکی آل، اور صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرما، جن کے بدلے میں بہت سی بھلائیاں اور عظیم اجر حاصل ہو۔

مسلمانو!

میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی اور اطاعتِ الہی کی نصیحت کرتا ہوں، اس کی وجہ سے ہر ضرورت پوری گی، اور ہر مشکل سے نجات ملے گی۔

مسلمانو!

اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر رحمت ہے کہ اس نے انسانوں کی آسانی کیلئے احکامات صادر فرمائے، جن کی وجہ سے مشکل حالات آسانی و سہولت کے اصولوں کے مطابق استوار ہو جاتے ہیں، چنانچہ شرعی قاعدہ ہے کہ: "مشقت سہولت کی باعث ہے" لہذا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں آسانی کا ایک پہلو موزوں پر مسح کی اجازت ہے، جو کہ قرآن مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث سے ثابت ہے- اللہ تعالی آپ پر رحمتیں ، سلامتی، اور برکتیں نازل فرمائے-، چنانچہ دونوں موزے پہنے ہوئے ہوں ان پر مسح کرنا جائز ہے، اور وضو کرتے ہوئے موزوں کو اتار کر پاؤں دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔

اسلامی بھائیو!

چمڑے سے بنے ہوئے موزوں پر مسح کرنے کے حکم میں جرابوں پر مسح کرنا بھی شامل ہےیہ سوت یا اون سے وغیرہ سے بنائی جاتی ہیں ، آج کل لوگوں کی زندگی میں انکا استعمال عام ہے، چنانچہ اسی انداز سے وضو میں ان پر مسح کرنا بھی شرعی عمل ہے، بشرطیکہ مکمل وضو کرنے کے بعد انہیں پہنا ہو، مطلب یہ ہے کہ: مکمل وضو ، یا شرعی غسل کرنے کے بعد جرابیں پہنے، اور محتاط یہی ہے کہ موزہ یا جرابیں دونوں قدم دھونے کے بعد ہی پہنے، چنانچہ ایسی صورت میں بعد ازاں وضو کی ضرورت پڑنے پر دونوں پر مسح کر سکتا ہے،لیکن حدث اکبر یعنی جنابت کی صورت میں مسح کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ پورے بدن کو اور دونوں قدموں سے موزے اتار کر دھونا لازمی ہے۔

اسلامی بھائیو!

مسح کرنے کی مدت مقیم کیلئے ایک دن اور رات ہے، جبکہ مسافر کیلئے تین دن اور تین راتیں ہیں، مسح کرنے کی مدت -اہل علم کے ہاں مشہور-نواقضِ وضو کی وجہ سے بے وضو ہونے کے بعد پہلی بار مسح کرنے سے شروع ہوگی، مثال کے طور پر: ظہر کیلئے وضو کیا اور موزے پہن لیے ، پھر اسکا وضو ٹوٹ گیا اور اس کے بعد نماز عصر کیلئے وضو کرتے ہوئے مسح کیا تو اس وقت سے مسح کی مدت شروع ہوگی۔

اور جس شخص نے سفر کی حالت میں مسح کیا، پھر مقیم ہوگیا تو مقیم والی مدت یعنی: ایک دن اور رات پوری کریگا، بشرطیکہ مقیم کی مدت باقی ہو، اور اگر مقیم شخص نے مسح کیا پھر مدتِ مسح کےدوران سفر پر چلا گیا تو مسافر کی مدت تک یعنی: تین دن اور تین راتیں مسح کریگا یہی موقف اہل علم کی دو رائے میں سے راجح موقف ہے۔

مسح کا تعلق وضو میں پاؤں دھونے کے ساتھ ہے، اسکا مطلب ہے کہ: لازمی طور پر پانی کے ساتھ مکمل شرعی وضو کرے، چنانچہ اگر کسی نے تیمم کی ضرورت کے وقت تیمم کرنے کے بعد موزے پہنے تو ایسا شخص یہ دلیل دیتے ہوئے پانی ملنے کے بعد موزوں پر مسح نہیں کر سکتا کہ اس نے شرعی طہارت کے بعد ہی موزے پہنے ہیں، کیونکہ موزوں پر مسح کرنے کا تعلق دونوں پاؤں سمیت سارے اعضائے وضو کو پانی کیساتھ دھونے سے ہے، مثال کے طور پر : جس شخص کو پانی نہیں ملا، یا مرض کی وجہ سے وضو کیلئے پانی استعمال نہیں کر سکتا تھا، تو ایسے شخص کیلئے بغیر طہارت کے موزے پہننا منع نہیں ہے، وہ اس تیمم کیساتھ نماز پڑھ سکتا ہے، لیکن پانی کی دستیابی یا مرض سے شفا کے بعد پاؤں دھو کر مکمل وضو کرنا ضروری ہے۔

اور جس شخص کو مدتِ مسح کے بارے میں شک ہو تو یقینی بات کو بنیاد بنائے گا، اور وہ ہے مسح نہ کرنا،

مثلاً:

جس شخص کو یہ شک ہوا کہ ابتدائے مسح وقتِ ظہر سےتھی یا عصر سے تو اصول یہی ہے کہ وہ یقینی بات کو بنیاد بنائے گا، اور وہ ہے مسح نہ کرنا، اس لئے وہ مدتِ مسح کی ابتدا عصر سے کرے۔

مسح کیلئے -مسلمانوں!-واجب یہ ہے کہ جب موزوں پر مسح کرنے کا ارادہ ہو تو وہ موزوں کی اوپر والی سطح پر اپنے پاؤں کی انگلیوں سے پنڈلی کی طرف مسح کرے، پہلے دائیں پاؤں کا اور پھر بائیں پاؤں کا، اور اگر دونوں پاؤں کا ایک ہی بار اکٹھا مسح کر لیا یعنی: دائیں ہاتھ سے دائیں قدم کا اور بائیں ہاتھ سے بائیں قدم کا تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے الفاظ سے یہی ظاہر ہوتا ہے: حدیث کے الفاظ ہیں:(پھر ان دونوں پر مسح کرے)

موزے کی نچلی یا ایڑھی کی جانب مسح کرنا مسنون نہیں ہے-

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:

(اگر دین [عقلی]رائے کا نام ہوتا تو موزے کا نچلا حصہ اوپر والے حصے سے زیادہ مسح کا حقدار تھا، اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ : آپ موزے کے ظاہری[اوپر والے] حصے پر مسح کر رہے تھے)

ابو داود، ابن حجر نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔


اور اگر ایک جراب پہن کر اسکے اوپر ایک اور جراب پہن لی، اور اوپر والی جراب پر مسح کیا تو اہل علم کے دو اقوال میں سے راجح قول کے مطابق اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ مسح کی مدت باقی ہو، اور مسح کی مدت کا حساب پہلی جراب پر مسح سے ہوگا، اور اگر مسح کی مدت ختم ہوجائے، لیکن انسان کا وضو قائم ہو تو مدتِ مسح ختم ہونے سے وضو نہیں ٹوٹے گا، یہی راجح موقف ہے، اسی کو ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور دیگر محققین نے اختیار کیا ہے؛ کیونکہ شریعت نے مدتِ مسح مقرر کی ہے، اور جس وقت مدتِ مسح ختم ہوجائے، اور انسان کا وضو نہ ٹوٹا ہو تو اسکا وضو باقی ہے، لیکن دوبارہ اس وقت تک مسح نہیں کر سکتا جب تک مکمل وضو کرتے ہوئے قدموں کو پانی سے دھو نہ لے، اس طرح سے مسح کی نئی مدت شروع ہو جائے گی، مدت مسح ختم ہونے کی مثال یہ ہے کہ : مسح کی مدت عصر کی نماز سے شروع ہو، تو وہ آئندہ عصر تک اس پر مسح کر سکتا ہے، محض مدت مسح ختم ہونے سے اسکا وضو نہیں ٹوٹے گا، کیونکہ اس طرح وضو ٹوٹنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

اللہ تعالی مجھے اور آپکو دینِ الہی سمجھنے والا بنائے، اور شریعت ربانی اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے بارے میں بصیرت عطا فرمائے۔

اللہ تعالی میرے اور آپکے لئے قرآن مجید کو بابرکت بنائے، اور اس میں موجود رہنمائی اور ہدایت ہمارے لئے نفع بخش بنائے، اسی پر اکتفاء کرتا ہوں، اور اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کیلئے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو وہ بہت ہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

ابتدا ہو یا انتہا تعریفیں صرف اللہ کیلئے ہیں ظاہری اور باطنی حمد کا بھی وہی مستحق ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں، وہ دنیا و آخرت میں یکتا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اُسکے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی نے ان کے ذریعے نابینا آنکھوں ، پردوں میں پڑے دلوں ، اور بہرے کانوں کو کھول دیا، اللہ تعالی اُن پر ، اُنکی آل، اور نیکو کار ، متقی صحابہ کرام پر رحمتیں ، برکتیں، اور سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

مسلمانو!

علمائے اسلام کے ہاں یہ معروف ہے کہ :

صحیح عبادت کیلئے اساسی اصول:

سنتِ نبوی سے مطابقت، اور شرعی دلیل کا پایا جانا ہے، اور کچھ لوگوں کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا 12 ربیع الاول کو میلاد منانا بدعتی عمل ہے، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا، نہ آپکے خلفائے راشدین نے کیا، نہ ہی صحابہ کرام اور فضیلت والی صدیوں میں کسی نے کیا، حالانکہ وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ عظیم تر محبت کرتے تھے، چنانچہ ہر قسم کی خیر و بھلائی اتباعِ نبوی میں ہے-

اور ہر قسم کا شر بدعات میں ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود ہے) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجا د کی جو اس میں نہیں ہے، تو وہ مردود ہے)


اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اللہ تعالی پر ایمان کیلئے بنیادی اصول ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے بغیر کسی کا ایمان ہی درست نہیں ہوسکتا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ محبت، کا تقاضا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل ، آپکی شریعت کی اتباع کی جائے، آپکے دین میں بدعات ایجاد نہ کی جائیں، چاہے انسان کے گمان میں وہ عمل اچھا ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اچھا عمل وہی ہے جسے شریعت الہی اچھا کہے۔

ہمیں اللہ تعالی نے ایک بہت بڑے عمل کا حکم دیا ہے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام ہے:

یا اللہ! ہمارے پیارے نبی ، ہمارے قلب و نظر کی ٹھنڈک محمد پر رحمتیں ، برکتیں اور سلامتی نازل فرما ، یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین ابو بکر ، عمر، عثمان ، علی ، آپکی آل، تمام صحابہ کرام، آل و اہل بیت، تمام تابعین، اور قیامت تک انکے راستے پر چلنے والے افراد سے راضی ہو جا۔

یا اللہ! اسلام کو غلبہ عطا فرما، یااللہ! پوری دنیا میں غلبہ اور نصرت مسلمان کیلئے لکھ دے، یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! مسلمانوں کی رائے کو بالا دستی عطا فرما، اور دشمنوں کی رائے خاک میں ملا دے، یا اللہ! مسلمانوں کے صفوں میں اتحاد پیدا فرما، یا اللہ! مسلمانوں کی مشکل کشائی فرما دے، یا اللہ! انکی مصیبتیں رفع فرما دے، یا اللہ! انکے تمام امور آسان فرما دے، یا اللہ! غریب مسلمانوں کو غنی بنا دے، یا اللہ! مسلمان مریضوں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! انکے لئے ہر مشکل کو آسان بنا دے، اور ہمہ قسم کے خوف کو امن میں بدل دے، یا اللہ! ہمہ قسم کے خوف کو امن میں بدل دے، یا حیی! یا قیوم! یا ذالجلال والاکرام!

یا اللہ! ہم سب مسلمانوں کو بخش دے، یا اللہ! تمام کے تمام مسلمانوں کو بخش دے، یا اللہ! تمام کے تمام مسلمانوں کو بخش دے، زندہ یا فوت شدہ سب کو بخش دے، یا حیی! یا قیوم!

یا اللہ! ہمارے حکمران کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! اُنہیں اور ان کے دونوں نائب کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! انہیں صحت و تندرستی عطا فرما۔

یا اللہ! تمام مریضوں کو شفا یاب فرما، یا حیی! یا قیوم! یا اللہ! تمام مریضوں کو شفا یاب فرما، یا حیی! یا قیوم!

یا اللہ! تمام مریضوں کیلئے شفا، اور عافیت لکھ دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمیں خوشحال بنا دے، یا اللہ! دنیا و آخرت میں ہمیں نیک بخت بنا دے، یا اللہ! دنیا و آخرت میں ہمیں نیک بخت بنا دے،یا اللہ! ہمیں نیکی اور تقوی والے لوگوں میں شامل فرما لے، یااللہ! ہمیں اطاعت، و ایمان والے لوگوں میں شامل فرما لے یا حیی! یا قیوم! یا ذالجلال والاکرام!

یا اللہ! تو ہی غنی ہے، یا اللہ! تو ہی غنی ہے، یا اللہ! تو ہی غنی ہے،یا اللہ! تو ہی ہے جس کے ہاتھ میں دنیا و آخرت کے خزانے ہیں، یا اللہ! ہم پر بارش نازل فرما، یا اللہ! ہمیں بارش نصیب فرما، یا اللہ! ہمیں بارش نصیب فرما، یا اللہ! ہمارے اور مسلم علاقوں میں بارشیں نازل فرما، یا اللہ! ہمارے اور مسلم علاقوں کو پانی مہیا فرما، یا اللہ! ہمارے اور مسلم علاقوں کو پانی مہیا فرما، یا اللہ! ہمارے اور مسلم علاقوں کو پانی مہیا فرما، یا اللہ! ہم بارش کے پیاسے ہیں ہم اسکا مداوا تیرے علاوہ کسی سے نہیں مانگتے ، تو یا اللہ! ہم پر بارش نازل فرما۔

یا اللہ ہم پر اپنی رحمت فرما، یا اللہ ہم پر اپنی رحمت فرما، یا اللہ ! ہم پر ہمارے جانوروں کی وجہ سے رحم فرما دے، یا اللہ ! ہم پر ہمارے جانوروں کی وجہ سے رحم فرما دے، یا اللہ ! ہم پر ہمارے جانوروں کی وجہ سے رحم فرما دے،یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا غنی ! یا حمید، ! یا غنی ! یا حمید، ! یا غنی ! یا حمید!

یا اللہ! ہم سب تیری طرف سے نازل شدہ خیرکے سوالی ہیں، تیری رحمت کے بغیر ہمارا کوئی چارہ نہیں ہے، تیری رحمت کے بغیر ہمارا کوئی چارہ نہیں ہے، یا اللہ! ہمیں اتنی رحمت عطا فرما دے کہ کسی مخلوق کے محتاج نہ رہیں، یا اللہ! اتنی بارش نازل فرما دے کہ مسلمانوں کو کسی مخلوق کی ضرورت نہ رہے، یا حیی! یا قیوم! یا ذا الجلال و الاکرام!

اللہ کے بندو!

اللہ کا ذکر کثرت کے ساتھ کیا کرو اور صبح و شام اسی کی تسبیحات پڑھا کرو!

https://www.facebook.com/kmnurdu/photos/a.520124531357110.1073741827.476230782413152/790391857663708/?type=1&theater
 
Last edited:
Top