• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موسیقی اور گانے بجانے کی حرمت

شمولیت
مارچ 02، 2023
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
77
قرآن و حدیث سے موسیقی ، شیطان کے باجوں اور گانے بجانے کی حرمت واضح طور پر ثابت ہے ۔

ارشاد باری تعالی ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِ‌ي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيل اللَّـهِ (لقمان: 6)

’’اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو غافل کرنے والی بات خریدتا ہے، تاکہ جانے بغیر اللہ کے راستے سے گمراہ کرے اور اسے مذاق بنائے۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔‘‘

"لَهْوَ الْحَدِيْثِ" ان باتوں کو کہتے ہیں جو دلوں کو غافل کر دینے والی اور عظیم مقصد سے روک دینے والی ہوتی ہیں۔ چنانچہ اس میں ہر حرام کلام، ہر باطل اور ایسے اقوال پر مشتمل ہر ہذیان داخل ہے جو کفر، فسق اور معصیت کی رغبت پیدا کرے، وہ اقوال حق کو رد کرنے والے لوگوں کے ہوں، جو باطل کے ساتھ بحث کر کے حق کو زیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، غیبت، چغلی، جھوٹ اور گالی گلوچ کی صورت میں ہوں یا گانے بجانے، شیطان کے باجوں اور غافل کر دینے والی داستانوں اور افسانوں کی صورت میں ہوں، جن کا نہ دنیا میں کوئی فائدہ ہو نہ آخرت میں۔ تو لوگوں کی یہ قسم وہ ہے جو ہدایت والی بات چھوڑ کر "لَهْوَ" والی بات خریدتی ہے۔‘‘

سيدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے جب اس آيت كے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:
الغناء، والذي لا إله إلا هو، يردّدها ثلاث مرّات (تفسير طبري: ج20، ص127)

’’اس سے مراد غنا (گانا) ہے، اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، تین مرتبہ انہوں نے اس بات کو دہرایا۔‘‘

یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اس کا مصداق ایسے گانے بجانے والے ہوں گے جو دین سے روکنے والے، اللہ تعالیٰ کی آیات کو مذاق بنانے والے اور انھیں سن کر تکبر سے منہ پھیرنے والے ہوں، کیونکہ ان اوصاف کی ان آیات میں صراحت ہے، اور یہ اوصاف کفار کے ہیں مسلمانوں کے نہیں اور انھی کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔ مسلمان کو ہونے والا عذاب تو اسے گناہوں سے پاک کرنے کے لیے ہو گا۔ البتہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مسلمان کہلانے والے لوگ جو حرام عشقیہ گانے بجانے کو اپنا پیشہ یا شغل بنا لیتے ہیں، اس کے نتیجے میں ان کے دلوں میں بدترین نفاق پیدا ہو جاتا ہے اور اللہ کی آیات کو سن کر ان کے ساتھ ان کا رویہ بھی بعینہٖ وہی ہوتا ہے جو ان آیات میں مذکور ہے۔ یہ لوگ اللہ کی آیات کا مذاق اڑانے کے لیے مولوی کا مذاق اڑاتے اور اسے گالی دیتے ہیں، جب کہ ظاہر ہے کہ مولوی بے چارے کا قصور یہ ہے کہ وہ اللہ کی آیات سناتا ہے۔ ایسی صورت میں صرف نام کے مسلمان ہونے کا اللہ تعالیٰ کے ہاں کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ اللہ کی آیات کے انکار، ان سے استکبار اور ان کو مذاق بنانے کے ساتھ مسلمانی کے دعوے پر اصرار قیامت کے دن ان کے کسی کام نہ آئے گا۔ افسوس! اس وقت یہ بیماری بری طرح امتِ مسلمہ میں پھیل چکی ہے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، موبائل فون، انٹرنیٹ، غرض ہر ذریعے سے کفار اور ان کے نام نہاد مسلم گماشتوں نے اسے اس قدر پھیلا دیا ہے کہ کم ہی کوئی خوش نصیب اس سے بچا ہو گا۔ حالانکہ دین کے کمال و زوال کے علاوہ دنیوی عروج و زوال میں بھی اس کا بہت بڑا حصہ ہے۔

کوئی شخص اگر حرام گانے بجانے کا عمل گناہ سمجھ کر کرے، اس پر نادم ہو تو پھر بھی معافی کی امید ہے، مگر جب کوئی قوم فنون لطیفہ یا روح کی غذا کا نام دے کر اسے حلال ہی کرلے، تو اس کے لیے اللہ کے عذاب کے کوڑے سے بچنا بہت ہی مشکل ہے۔

سیدنا ابو عامر یا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

يَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ، يَسْتَحِلُّونَ الحِرَ وَالحَرِيرَ، وَالخَمْرَ وَالمَعَازِفَ (صحيح البخاري: كِتَابُ الأَشْرِبَةِ: 5590)

’’یقیناً میری امت میں کچھ ایسے لوگ ضرور پیدا ہوں گے جو زنا کاری، ریشم کا پہننا، شراب نوشی اور گانے بجانے کو حلال سمجھیں گے۔‘‘

ایک دوسری حدیث میں سیدنا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

لَيَشْرَبَنَّ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي الْخَمْرَ، يُسَمُّونَهَا بِغَيْرِ اسْمِهَا، يُعْزَفُ عَلَى رُءُوسِهِمْ بِالْمَعَازِفِ، وَالْمُغَنِّيَاتِ، يَخْسِفُ اللَّهُ بِهِمُ الْأَرْضَ، وَيَجْعَلُ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِير ) سنن ابن ماجه، الْفِتَنِ: 4020) (صحيح)

’’میری امت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے۔ وہ اس کا کوئی اور نام رکھ لیں گے۔ ان کو گانے والیاں ساز بجاکر گانے سنائیں گی۔ اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے بعض کو بندر اور خنزیر بنا دے گا۔‘‘

جناب نافع بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بانسری کی آواز سنی تو انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں پر رکھ لیں اور راستے سے دور چلے گئے۔ اور پھر مجھ سے پوچھا: اے نافع! کیا بھلا کچھ سن رہے ہو؟ میں نے کہا: نہیں، تو انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں سے اٹھا لیں اور کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ سے ساتھ تھا تو آپ ﷺ نے اس طرح کی آواز سنی تو آپ ﷺ نے ایسے ہی کیا تھا (سنن أبي داؤد، الْأَدَبِ: 4924) (صحیح)



والله أعلم بالصواب.
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,023
ری ایکشن اسکور
6,265
پوائنٹ
437
ماشاءاللہ، ایک اہم نقطہ کی وضاحت کی ہے۔جزاک اللہ خیرا
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,023
ری ایکشن اسکور
6,265
پوائنٹ
437
جناب نافع بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بانسری کی آواز سنی تو انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں پر رکھ لیں اور راستے سے دور چلے گئے۔ اور پھر مجھ سے پوچھا: اے نافع! کیا بھلا کچھ سن رہے ہو؟ میں نے کہا: نہیں، تو انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں سے اٹھا لیں اور کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ سے ساتھ تھا تو آپ ﷺ نے اس طرح کی آواز سنی تو آپ ﷺ نے ایسے ہی کیا تھا (سنن أبي داؤد، الْأَدَبِ: 4924) (صحیح)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ اگر بانسری کی آواز سننا گناہ ہے تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور اسی طرح نافع نے کیوں سنی؟ گناہ ہونے کی وجہ سے ان کے لئے بھی جائز نہ تھا کہ وہ بانسری کی آواز سنتے بلکہ انہوں نے جب دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے بانسری کی آواز سن کر اپنی انگلیاں کانوں میں داخل فرمالی تھیں تو انھیں بھی اپنی انگلیاں کانوں میں ڈال لینی چاہیے تھیں۔ الفاظ حدیث سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ بانسری کی آواز سننا گناہ نہیں ہے بلکہ غیرافضل اور غیراولیٰ ہے۔وگرنہ اللہ کے رسول ﷺ عبداللہ بن عمر کو بھی بانسری کی آواز نہ سننے دیتے جبکہ نہ صرف اللہ کے رسول ﷺ نے عبداللہ بن عمر کو یہ آواز سننے سے نہیں روکا بلکہ ان سے پوچھا کہ کیا یہ آواز اب آرہی ہے اور بعد میں بھی نبی ﷺ نے نہیں بتایا کہ بانسری سننا گناہ ہے۔ اس طرح محسوس ہوتا ہے کہ علمائے کرام اس حدیث سے موسیقی کی حرمت کی جو دلیل پکڑتے ہیں وہ کمزورہے۔اگر آپ کے پاس میری اس الجھن کا جواب ہے تو عنایت فرمائیے۔
 
Top