فیاض ثاقب
مبتدی
- شمولیت
- ستمبر 30، 2016
- پیغامات
- 80
- ری ایکشن اسکور
- 10
- پوائنٹ
- 29
شروع اللہ سے جو رحمٰن رحیم ہے۔۔
۔۔
اللہ کی سلامتی ہو آپ سب پے۔۔۔۔
.
موضوع :- " توبہ "۔
۔
٭ مسلمانوں کے ہاں یہ عقیدہ آبائی متوارث چلا آرہا ہے کہ ۔۔
"موت کے وقت جس نے توبہ کہہ کر کلمہ پڑھا اور مر گیا ، اسکی نجات ہوگئی اور اس کے سارے گناہ معاف ہوگئے"
۔۔
چلیں ہم سب دیکھتے ہیں کہ قرآن کے مطابق فرقہ واریت کا یہ عقیدہ غلط ہے یا صحیح۔۔؟؟؟
۔۔
سورۃ یونس میں "فرعون" کے متعلق آیا ہے کہ ۔۔۔۔
۔۔
وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴿٩٠﴾
[10:90]
اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کردیا پھر ان کے پیچھے پیچھے فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ﻇلم اور زیادتی کے اراده سے چلا یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا تو کہنے لگا کہ میں ایمان ﻻتا ہوں کہ جس پر بنی اسرائیل ایمان ﻻئے ہیں، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں
(ترجمہ محمد جوناگڑھی صاحب)
۔۔
مگر فرعون کے اس ایمان لانے پر ، اللہ نے موسی سلام علیہ کے زریعہ جواب دیا:-
۔۔
آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ
[10:91]
اب ایمان لاتا ہے ، حالانکہ اس سے پہلے تو نے سرکشی کی اور فسادیوں میں سے تھا۔۔
۔۔
غور فرمائیں۔۔۔
اس آئیتوں کو بار بار پڑھیں۔۔ غور اور فکر کریں۔۔۔
۔۔
٭فرعون موت کے وقت توبہ کر کے ایمان تو لایا مگر وہ اسلئے قبول نہ ہوا کہ توبہ اور ایمان کا تعلق صرف زبان کیساتھہ نہیں ، بلکہ غلط راہ کو چھوڑ کر صحیح راہ پر گامزن ہونے کیساتھہ ہے۔۔
۔۔
فرعون نے ایمان لانے یعنی توبہ کرنے کے بعد اسی غلط فہمی کا شکارہو کر کہا تھا :-
۔۔
قَالَ آمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ
۔۔
"الْمُسْلِمِينَ" مسلم اسے کہتے ہیں جو ایمان لائے یعنی توبہ کرنے کے بعد اپنے ایمان اور توبہ کا ثبوت اپنے "عمل" کیساتھہ پیش کرے۔۔۔
اسلئے جب فرعون دریا میں غرق ہونے لگا تو اسکا ایمان لانا اور توبہ کرنا ، اس کے کام نہیں آیا۔۔۔
۔۔
لہذا اللہ نے قرآن کی اس آیت میں "توبہ" کے "حکم" کو واضح کردیا ہے۔۔۔
مگر پھر بھی آپ مزید غور فرمائیں ،
دیکھیں اللہ نے قرآن میں ایک اور آیت سے اس پورے معملے کی تفسیر بیان کردی ہے۔۔
فرمایا۔۔۔
وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّىٰ إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ ۚ أُولَـٰئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿١٨﴾
[4:18]
اور ان لوگوں کی توبہ قابل قبول نہیں جو (زندگی بھر) برے عمل کرتے رہیں ، حتی کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگے تو کہے کے میں توبہ کرتا ہوں (انکی توبہ قبول نہیں)۔۔۔۔
ان آئیتوں کو بار بار پڑھیں۔۔۔
غور کریں۔۔
٭ ان لوگوں کے لئے توبہ نہیں ہے ، جنھوں نے پوری زندگی بورے کام کئے اور جب موت آنے لگی تو توبہ کرنے لگے ان لوگوں کے لئے توبہ نہیں ہے۔۔۔
....................
مزید غور کریں لفظ "توبہ" پر۔۔
لفظ "توبہ" کا سہ حرفی مادہ (ت ، و ، ب) "توب" ہے۔۔
"توب" کے بنیادی معنی ہے رجوع کرنا ، لوٹ آنا،
توبہ کی مثال یہ ہے کہ۔۔
اگر کسی چوراہے سے ہم نے بھٹک کر غلط راستہ اختیار کرلیا ہے ، یعنی ہم نے غلط راستہ کو بھول کر صحیح راستہ سمجھہ کر چلنا شروع کردیا ، چنانچہ کچھہ دور جا کر ہمیں معلوم ہوا کہ جس راستہ پر ہم چل رہے ہیں وہ غلط ہے ۔۔۔۔ (تو اس غلط راستہ پر توبہ توبہ بولنے سے کھبی ہم کو صحیح راستہ نہیں ملے گا)۔۔
لیکن اگر ہم اس غلط راستہ کو چھوڑ کر واپس ہوجائیں اور پھر صحیح راستے پر گامزن ہوجائیں ، تو یہی مثال "توبہ" کی ہے۔۔
غلط راستہ (برے عمل) سے لوٹ کر (چھوڑ کر) صحیح راستہ (صحیح عمل) پر چلیں تو یہ "توبہ" ہے۔۔
مگر جس نے پوری زندگی برے عمل کئے اور جب موت آنے لگی ، تو ایمان لانے کا کیا فائدہ۔۔؟؟؟ یہ تو فرعون والی حرکت ہو جائے گی کہ جب موت آنے لگی تو ایمان لے آیا۔۔ مگر اس وقت اسکا ایمان لانا اسکے کچھہ کام نہ آیا۔۔۔
کیوں کہ اس شخص کے پاس لوٹ آنے کا وقت ختم ہو چکا ہوتا ہے ۔ عمل کی زندگی ختم ہو چکی ہوتی ہے ، اس شخص کو اپنی غلطی سودارنے کا وقت نہیں ملتا ۔ تو پھر اس کا "توبہ" کرنا بھی کچھہ کام نہیں آئے گا۔۔۔
وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّىٰ إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ ۚ أُولَـٰئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿١٨﴾
[4:18]
اور ان لوگوں کی توبہ قابل قبول نہیں جو (زندگی بھر) برے عمل کرتے رہیں ، حتی کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگے تو کہے کے میں توبہ کرتا ہوں (انکی توبہ قبول نہیں)۔۔۔۔
آپ نے غور کیا کہ اللہ نے قرآن میں اپنے احکام کے تفسیر کس طرح پھیر پھیر کر قرآن میں بیان کی ہے۔؟؟
اسی طرح اللہ نے قرآن میں اپنے احکام کی تفسیر خود قرآن میں پھیر پھیر کر بیان کردی ہے تاکہ سمجھنے والے سمجھا کریں۔۔۔
قرآن کا مفسر صرف اللہ ہے۔۔ جس نے قرآن میں قرآن کی تفسیر بھی بیان کی ہے۔۔
ہم تو قرآن کے طالب علم ہیں۔۔۔
اللہ سے دعا کرتا ہوں۔۔۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دیں۔۔۔
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾
دیکھائیں سیدھا راستہ ، راستہ ان لوگوں کا جن پرانعام کیا آپنے ، اور نہ کیا غضب آپ نے اور نہ کیا گمراہ۔۔۔ انشاءاللہ۔۔
۔۔
اللہ کی سلامتی ہو آپ سب پے۔۔۔۔
.
موضوع :- " توبہ "۔
۔
٭ مسلمانوں کے ہاں یہ عقیدہ آبائی متوارث چلا آرہا ہے کہ ۔۔
"موت کے وقت جس نے توبہ کہہ کر کلمہ پڑھا اور مر گیا ، اسکی نجات ہوگئی اور اس کے سارے گناہ معاف ہوگئے"
۔۔
چلیں ہم سب دیکھتے ہیں کہ قرآن کے مطابق فرقہ واریت کا یہ عقیدہ غلط ہے یا صحیح۔۔؟؟؟
۔۔
سورۃ یونس میں "فرعون" کے متعلق آیا ہے کہ ۔۔۔۔
۔۔
وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴿٩٠﴾
[10:90]
اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کردیا پھر ان کے پیچھے پیچھے فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ﻇلم اور زیادتی کے اراده سے چلا یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا تو کہنے لگا کہ میں ایمان ﻻتا ہوں کہ جس پر بنی اسرائیل ایمان ﻻئے ہیں، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں
(ترجمہ محمد جوناگڑھی صاحب)
۔۔
مگر فرعون کے اس ایمان لانے پر ، اللہ نے موسی سلام علیہ کے زریعہ جواب دیا:-
۔۔
آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ
[10:91]
اب ایمان لاتا ہے ، حالانکہ اس سے پہلے تو نے سرکشی کی اور فسادیوں میں سے تھا۔۔
۔۔
غور فرمائیں۔۔۔
اس آئیتوں کو بار بار پڑھیں۔۔ غور اور فکر کریں۔۔۔
۔۔
٭فرعون موت کے وقت توبہ کر کے ایمان تو لایا مگر وہ اسلئے قبول نہ ہوا کہ توبہ اور ایمان کا تعلق صرف زبان کیساتھہ نہیں ، بلکہ غلط راہ کو چھوڑ کر صحیح راہ پر گامزن ہونے کیساتھہ ہے۔۔
۔۔
فرعون نے ایمان لانے یعنی توبہ کرنے کے بعد اسی غلط فہمی کا شکارہو کر کہا تھا :-
۔۔
قَالَ آمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ
۔۔
"الْمُسْلِمِينَ" مسلم اسے کہتے ہیں جو ایمان لائے یعنی توبہ کرنے کے بعد اپنے ایمان اور توبہ کا ثبوت اپنے "عمل" کیساتھہ پیش کرے۔۔۔
اسلئے جب فرعون دریا میں غرق ہونے لگا تو اسکا ایمان لانا اور توبہ کرنا ، اس کے کام نہیں آیا۔۔۔
۔۔
لہذا اللہ نے قرآن کی اس آیت میں "توبہ" کے "حکم" کو واضح کردیا ہے۔۔۔
مگر پھر بھی آپ مزید غور فرمائیں ،
دیکھیں اللہ نے قرآن میں ایک اور آیت سے اس پورے معملے کی تفسیر بیان کردی ہے۔۔
فرمایا۔۔۔
وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّىٰ إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ ۚ أُولَـٰئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿١٨﴾
[4:18]
اور ان لوگوں کی توبہ قابل قبول نہیں جو (زندگی بھر) برے عمل کرتے رہیں ، حتی کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگے تو کہے کے میں توبہ کرتا ہوں (انکی توبہ قبول نہیں)۔۔۔۔
ان آئیتوں کو بار بار پڑھیں۔۔۔
غور کریں۔۔
٭ ان لوگوں کے لئے توبہ نہیں ہے ، جنھوں نے پوری زندگی بورے کام کئے اور جب موت آنے لگی تو توبہ کرنے لگے ان لوگوں کے لئے توبہ نہیں ہے۔۔۔
....................
مزید غور کریں لفظ "توبہ" پر۔۔
لفظ "توبہ" کا سہ حرفی مادہ (ت ، و ، ب) "توب" ہے۔۔
"توب" کے بنیادی معنی ہے رجوع کرنا ، لوٹ آنا،
توبہ کی مثال یہ ہے کہ۔۔
اگر کسی چوراہے سے ہم نے بھٹک کر غلط راستہ اختیار کرلیا ہے ، یعنی ہم نے غلط راستہ کو بھول کر صحیح راستہ سمجھہ کر چلنا شروع کردیا ، چنانچہ کچھہ دور جا کر ہمیں معلوم ہوا کہ جس راستہ پر ہم چل رہے ہیں وہ غلط ہے ۔۔۔۔ (تو اس غلط راستہ پر توبہ توبہ بولنے سے کھبی ہم کو صحیح راستہ نہیں ملے گا)۔۔
لیکن اگر ہم اس غلط راستہ کو چھوڑ کر واپس ہوجائیں اور پھر صحیح راستے پر گامزن ہوجائیں ، تو یہی مثال "توبہ" کی ہے۔۔
غلط راستہ (برے عمل) سے لوٹ کر (چھوڑ کر) صحیح راستہ (صحیح عمل) پر چلیں تو یہ "توبہ" ہے۔۔
مگر جس نے پوری زندگی برے عمل کئے اور جب موت آنے لگی ، تو ایمان لانے کا کیا فائدہ۔۔؟؟؟ یہ تو فرعون والی حرکت ہو جائے گی کہ جب موت آنے لگی تو ایمان لے آیا۔۔ مگر اس وقت اسکا ایمان لانا اسکے کچھہ کام نہ آیا۔۔۔
کیوں کہ اس شخص کے پاس لوٹ آنے کا وقت ختم ہو چکا ہوتا ہے ۔ عمل کی زندگی ختم ہو چکی ہوتی ہے ، اس شخص کو اپنی غلطی سودارنے کا وقت نہیں ملتا ۔ تو پھر اس کا "توبہ" کرنا بھی کچھہ کام نہیں آئے گا۔۔۔
وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّىٰ إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ ۚ أُولَـٰئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿١٨﴾
[4:18]
اور ان لوگوں کی توبہ قابل قبول نہیں جو (زندگی بھر) برے عمل کرتے رہیں ، حتی کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگے تو کہے کے میں توبہ کرتا ہوں (انکی توبہ قبول نہیں)۔۔۔۔
آپ نے غور کیا کہ اللہ نے قرآن میں اپنے احکام کے تفسیر کس طرح پھیر پھیر کر قرآن میں بیان کی ہے۔؟؟
اسی طرح اللہ نے قرآن میں اپنے احکام کی تفسیر خود قرآن میں پھیر پھیر کر بیان کردی ہے تاکہ سمجھنے والے سمجھا کریں۔۔۔
قرآن کا مفسر صرف اللہ ہے۔۔ جس نے قرآن میں قرآن کی تفسیر بھی بیان کی ہے۔۔
ہم تو قرآن کے طالب علم ہیں۔۔۔
اللہ سے دعا کرتا ہوں۔۔۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دیں۔۔۔
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾
دیکھائیں سیدھا راستہ ، راستہ ان لوگوں کا جن پرانعام کیا آپنے ، اور نہ کیا غضب آپ نے اور نہ کیا گمراہ۔۔۔ انشاءاللہ۔۔