• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولود کعبہ کون؟؟ حنیف قریشی کا سر اور اس کے اپنے علماء کا جوتا

ناصر نواز

مبتدی
شمولیت
جون 08، 2018
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
11
حنیف قریشی کی منافقت کا پردہ چاک :
مولود کعبہ کون ہیں ؟


ہم اہلسنت والجماعت اھلحدیث، اللہ والوں کی ہر خوبی و شان کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں پھر چاہے اس خوبی و شان کا تعلق فضائل سے ہو یا خصائص سے۔ لیکن تسلیم کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی ہستی کے متعلق شہرت پا جانے والی غلط فہمی کو اس کی فضیلت یا خصوصیت مان لیا جائے اور اس کے انکار پر لعن طعن کیا جائے (العیاذباللہ)
جہاں علیؓ کی طرف اور بہت سی باتیں غلط منسوب ہیں وہاں پر یہ بات بھی بڑے زور و شور سے کی جاتی ہے کہ علیؓ کی ولادت کعبہ میں ہوئی ہے اور نہ صرف یہ کہا جاتا ہے بلکہ اس کو بنیاد بنا کر علیؓ کی شان میں غلو (حد سے تجاوز) کی حد کردی جاتی ہے اور کعبہ میں ولادت کو علیؓ کی خصوصیت بھی قرار دیا جاتا ہے حالانکہ حقیقت اس سے کوسوں دور ہے,

بہر کیف

علی رضیﷲ عنہ کے مولود کعبہ ہونے پر جو پہلی دلیل پیش کی جاتی ہے وہ امام حاکم نیشاپوری کا قول ہے

٦٠٤٤ - أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَالَوَيْهِ، ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ الْحَرْبِيُّ، ثَنَا مُصْعَبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَذَكَرَ نَسَبَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ وَزَادَ فِيهِ، «وَأُمُّهُ فَاخِتَةُ بِنْتُ زُهَيْرِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى، وَكَانَتْ وَلَدَتْ حَكِيمًا فِي الْكَعْبَةِ وَهِيَ حَامِلٌ، فَضَرَبَهَا الْمَخَاضُ، وَهِيَ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ، فَوَلَدَتْ فِيهَا فَحُمِلَتْ فِي نِطَعٍ، وَغُسِلَ مَا كَانَ تَحْتَهَا مِنَ الثِّيَابِ عِنْدَ حَوْضِ زَمْزَمَ، وَلَمْ يُولَدْ قَبْلَهُ، وَلَا بَعْدَهُ فِي الْكَعْبَةِ أَحَدٌ» قَالَ الْحَاكِمُ: «وَهَمُّ مُصْعَبٍ فِي الْحَرْفِ الْأَخِيرِ، فَقَدْ تَوَاتَرَتِ الْأَخْبَارِ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَسَدٍ وَلَدَتْ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ
[المستدرك على الصحيحين للحاكم: 6044]-

معصب بن عبد الله کہتے ھیں۔ حکیم بن حزام رضی الله عنه کی والدہ فاختہ بنت زھیر بن اسد بن عبد العزی، نے حکیم بن حزام رضی الله عنه کو کعبہ میں جنا جبکہ وہ حاملہ تھیں۔ نہ ان سے پہلے کوئی کعبہ میں پیدا ہوا ، نہ ان کے بعد کوئی کعبہ میں پیدا ہوا۔

اسکے بعد امام حاکم نے کہا : کہ معصب بن عبد اللہ کو وھم ھوا آخری جملے پر۔ کیونکہ یہ بات تواتر خبروں سے ثابت ھے کہ فاطمہ بنت اسد نے علی رضی الله عنه کو کعبہ میں جنا ھے۔
۔
تبصرہ: یہ وھم معصب بن عبد الله کو نہیں ھوا ۔ بلکہ یہاں امام حاکم کو خود ایسا زبردست وھم ھوا ھے کہ جسکی کوئی مثال ہی نہیں۔ حالانکہ امام حاکم کو اور بھی بڑے بڑے وھم ھوئے وے ھیں۔
امام حاکم نے متواتر خبروں سے علی رضی الله عنه کا مولود کعبہ ھونا بیان کیا۔ جبکہ حقیقت یہ ھے کہ اہل السنت والجماعت کی کسی بھی حدیث یا تاریخ کی کتاب میں۔ یہ ایسی کوئی جھوٹی روایت بھی موجود نہیں۔ سوائے ایک اکیلی روایت کے۔ اور وہ بھی ضعیف ھے۔
تو پھر تواتر کہنا سراسر ظلم کی بات ھے۔ یا پھر زبردست وھم ھے۔ اور پھر امام حاکم میں شیعت بھی تھی۔ جسکا انکار ممکن نہیں۔
۔۔
اس قول کو بطور دلیل پیش کرنا کم فہمی ہے کیونکہ حاکم یہاں تو تواتر کا دعویٰ کر رہے ہیں اور فضائل علیؓ کے باب میں ایک بھی صحیح بلکہ صحیح تو دور ایک ضعیف روایت بھی پیش کرنے کی جرأت نہ کرسکے جس میں حاکم کے دعوے کی دلیل ہو تو فقط حاکم کے کہنے پر متواتر کون مانے؟

جب کہ حاکم کی تاریخ وفات ٤٠٥ ھجری ہے اب ایک واقعہ جو کہ حاکم کی پیدائش سے بھی کئی سو سال پہلے کا ہے اس واقعہ کو حاکم کے کہنے پر تسلیم کرنا اور نہ صرف تسلیم بلکہ متواتر کہنا نا انصافی ہوگا

دوسری بات یہ کہ اس کے تواتر کے دعوے میں حاکم منفرد ہیں ان کے سوا محدثین میں سے کسی نے اس واقعہ کے تواتر کا دعویٰ نہیں کیا۔

تیسری اور اہم بات یہ کہ اہل علم جانتے ہیں کہ حاکم نیم شیعہ تھے اور ان کا تواتر کا دعویٰ اسی سلسلے کی ایک کڑی بھی ہوسکتا ہے۔


علیؓ کو مولود کعبہ ماننے والوں کی دوسری دلیل اور اس پر نقد

علیؓ کع مولود کعبہ ثابت کرنے کیلئے "نزہتہ المجالس" سے ایک واقعہ پیش کیا جاتا ہے
نزہتہ المجالس کے مصنف امام عبد الرحمان بن عبدالسلام صفوری شافعی علیہ الرحمتہ ہیں ۔ آپ کی تاریخ وفات ٩٠٠ ھجری ہے

آپ نے علیؓ کے مولود کعبہ والا واقعہ "الفصول المہمہ" نامی کتاب سے بغیر سند کے نقل کیا لہذا امام صفوری کا اس واقعہ کو بغیر سند کے نقل کرنا دلیل نہیں بن سکتا

دوسری بات یہ کہ اس بے سند واقعہ میں کعبہ میں پیدا ہونے کو علیؓ کی خصوصیت بتایا جا رہا ہے اور صاف الفاظ ہیں کہ یہ فضیلت کسی اور کو نہیں ملی حالانکہ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ صحابی حکیم بن حزام رضیﷲعنہ کعبہ میں پیدا ہوئے

تو صحیح روایات کی موجودگی میں ایسے بے سند واقعات سے کعبہ میں ولادت کو علیؓ کے ساتھ خاص کرنا ایسے ہی ہے جیسے دن کے وقت آنکھیں بند کرکے سورج کی نفی کرنا اور رات ہونے پر ضد کرنا (فافھم)


علیؓ کو مولود کعبہ ماننے والوں کی تیسری دلیل اور اس پر نقد

علیؓ کو مولود کعبہ ثابت کرنے کیلئے شیعہ اور نیم شیعہ سنی ایک "الفصول المہمہ" نامی غیر معروف کتاب کا سہارا بھی لیتے ہیں باوجود اس کے کہ قائلین امام حاکم کے کہنے پر مولائے کائنات کی کعبہ میں ولادت کو اخبار متواترہ سے ثابت مانتے ہیں,

مگر افسوس اس بات پر کہ جب دلائل کی باری آتی ہے تو "الفصول المہمہ" جیسی غیر معروف کتاب اٹھا کر سامنے کردی جاتی ہے

اس کتاب کا مصنف "علی بن محمد بن احمد المالکی المکی" ہیں جو "ابن الصباغ" کے نام سے مشہور ھے۔ اور موصوف کی تاریخ وفات "٨٥٥ھ" ہے.

دعوٰی تواتر کا اور دلائل ؟

حاکم کا قول

نزہتہ المجالس کا قصہ
اور الفصول المہمہ جیسی کتاب جس کو اکثر و بیشتر علماء شاید جانتے ہی نہ ہوں بہر کیف


الفصول المہمہ میں بھی نرا دعوٰی ہی دعوٰی ہے دلیل کا نام و نشان نہیں اور اگر کوئی روایت پیش کی گئی ہے تو اس کی سند مفقود ہے اور بغیر سند کے کوئی روایت حجت نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی قدر و اہمیت ہے,

الفصول المہمہ کے مصنف ٨٥٥ھ میں فوت ہوئے جبکہ علیؓ کی ولادت کا واقعہ ہجرت سے کئی برس پہلے کا ہے لہذا ایسا واقعہ جو صاحب فصول المہمہ کی پیدائش سے بھی کئی سو سال پہلے کا ہے فقط ان کے کہنے پر کیسے مان لیا حائے؟


علیؓ کو مولود کعبہ ماننے والوں کی چوتھی دلیل اور اس پر نقد

علیؓ کو مولود کعبہ ثابت کرنے کیلئے شیعہ اور نیم شیعہ سنی حضرات " ڈوبتے کو تنکے کا سہارا" پر عمل کرتے ہوئے "سبط ابن جوزی" کی کتاب "تذکرہ الخواص" پیش کرکے بگلیں بجاتے ہیں,

حالانکہ یہاں بھی سند کے اعتبار سے وہی معاملہ ہے جو "المستدرک" "الفصول" اور "نزھتہ المجالس" میں رہا ہے کہ ایک تو دعویٰ بلا دلیل اور اگر کوئی روایت نقل کر ہی دی تو شاید اس کی سند شیعوں کے بارہواں امام، غار وغیرہ میں چھپا کر بیٹھا ہے

"تذکرہ الخواص" میں بھی فقط دعویٰ ہی دعویٰ ہے نہ کوئی دلیل اور نہ ہی کوئی سند

تو ہم بغیر سند کے کسی واقعہ کا اعتبار کیونکر کریں؟

اور واقعہ بھی ایسا جس سے مذہب شیعہ کو تقویت ملتی ہو (فافھم)

دوسری اور اہم بات کہ سبط ابن جوزی اور "امام ابن جوزیؒ " دو الگ شخصیات ہیں لہذا دھوکہ کھانے کی ضرورت نہیں اور یہ بھی واضح رہے کہ "سبط ابن جوزی" تقیہ باز رافضی تھا تقریباً ٦٥٤ ھجری میں وفات پائی

اب ایک واقعہ جو سبط ابن جوزی سے کئی سو سال پہلے کا ہے صرف اس کے بیان کرنے سے کیوں تسلیم کیا جائے؟

اور بالخصوص اس وقت کہ جب سبط ابن جوزی کی اپنی پوزیشن یہ ہو کہ اس کے اپنے قلم سے رافضیت ٹپک رہی ہو تو اس وقت سبط ابن جوزی کی اطاعت میں علیؓ کو مولود کعبہ ماننا نری حماقت نہیں تو کیا ہے؟


حنیف قریشی نے بول ٹی وی کے پروگرام "عالم کے بول"میں دعوی کیا۔ کہ 117 کتابوں سے علی رضی عنه کا مولود کعبہ ھونا ثابت کرونگا۔
۔
میں کہتا ھوں اہل السنت کی کسی ایک کتاب سے بسند صحیح اپنا دعویٰ ثابت کردو۔ میں تمہیں 117 کروڑ بطور انعام دونگا۔ اور ساتھ ساتھ تمہارے عقائد بھی تسلیم کرلونگا۔

بصورت دیگر اپنی ڈگڈگی اٹھا کر چلتے بنو یہاں سے۔ عوام الناس کے دین کا بیڑہ مت غرق مت کرو ٹی وی پر بیٹھ کر۔
۔۔۔-----

آئیئے دیکھتے ھیں کہ اہلسنت والجماعت کے اسلاف اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

اجلہ محمدثین فقہاء مفسرین اور مورخین نے لکھا: کہ سیدنا خدیجة الکبری رضی الله عنہما کے بھتیجے، "حکیم بن حزام رضی الله عنه کی ولادت کعبة الله میں ہوئی۔

(1) امام حافظ ابو الحسین مسلم بن الحجاج القشیری رحمه الله المتوفی 261ھ فرماتے ھیں:
«ولد حكيم بن حزام في جوف الكعبة، وعاش مائة وعشرين سنة»
حکیم بن حزام رضی الله عنه کعبةالله میں پیدا ھوئے۔ اور آپ ایک سو بیس سال زندہ رھے۔
[صحیح مسلم ، کتاب البیوع، باب الصدق فی البیع البیان، رقم : 1532]

(2) امام ابو جعفر محمد بن حبیب البغدادی رحمه الله فرماتے ھیں:
حكيم بن حزام ابن خويلد بن أسد. / وحكيم هذا ولد في الكعبة
[كتاب المحبر : ص176، والمنمق في اخبار قريش الندماء من قريش : ص366]

(3) امام ابو الولید محمد بن عبد الله بن احمد المکي المتوفی 250ھ فرماتے ھیں:
فولدت حکیماً فی الکعبة".
[أخبار مكه وما جاء فيها من الآثار، باب ما جآء في الفتح الكعبة، ج1، ص174]

(4) قاضی مکہ امام حافظ زبیر بن بکار حمه الله (المتوفي 256ھ) نے فرمایا:
فولدت حکیما فی الکعبة".
[جمھرة نسب قریشواخبارھا: ج1، ص366]

(5) امام احمد بن یحیی بن جابر بن داؤد البلاذری، (المتوفی 279ھ) لکھتے ھیں:
"حکیم بن حزام وامه ابنت زهير بن الحارث بن أسد بن عبد العزى، وإسمها فاختة، وولدته في جوف الكعبة".
[جمل من أنساب الأشراف، حكيم بن حزام، ج9، ص435]

(6) امام حافظ ابو حاتم محمد بن حبان رحمه الله (المتوفی 354ھ) فرماتے ھیں:
فولدت حکیم بن حزام في جوف الکعبة".
[تاریخ الصحابة: ص68، رقم234، ومشاھیر علماء الامصارواعلام الفقھاء الاقطار، ج1، ص31، رقم30]

(7) امام ابو سلیمان احمد بن محمد بن ابراھیم (الخطابي) المتوفی 388ھ لکھتے ھیں:
فولدت حکیماً فی الکعبة".
[غریب الحدیث: حدیث حکیم بن حزام، ج2، ص557]

(8) حافظ ابوبکر احمد بن علي الأصبھاني (ابن منجوية) المتوفئ 428ھ لکھتے ھیں:
(حکیم بن حزام) ولد في الکعبة".
[رجال صحیح مسلم: ذکر من اسمه حكيم، ج1، ص142، رقم278]

(9) علامہ ابو منصور، عبد الملك بن محمد بن اسماعیل الثعالبی المتوفی 429ھ فرماتے ھیں:
حکیم بن حزام وکان ولد في الكعبة".
[ثمار القلوب في المضاف والمنسوب، الاستشهاد، ص518]

۔(10) امام حافظ ابو نعیم احمد بن عبد الله بن احمد الاصبھانی المتوفی المتوفی 430ھ لکھتے ھیں:
حکیم بن حزام ولد في الكعبة".
[معرفة الصحابة: ج2، ص701/7012]

(11) امام ابو عمر یوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر القرطبي المتوفی 463ھ لکھتے ھیں:
حکیم بن حزام بن خولید ولد في الكعبة".
[الاستیعاب فی معرفة الاصحاب: باب الحاء، ج1، ص417، رقم553]

(12) امام عبد الکریم بن محمد بن منصور التمیمی السمعانی المروزی، المتوفی 562ھ لکھتے ھیں:
فولدت حکیم بن حزام في جوف الكعبة".
[الانساب، باب الف والسین،، ج1، ص214]

(13) امام حافظ ابوالقاسم علی بن حسن (ابن عساکر) المتوفی 571ھ لکھتے ہیں:
حکیم بن حزام بن خویلد بن اسد بن عبد العزی، ابو خالد ولد في جوف الكعبة".
[تاریخ دمشق الکبیر، ذکر من اسمه حکیم، ج17، ص71/72، رقم162]

(14) امام حافظ جمال الدین ابو الفرج عبد الرحمن بن علی بن محمد الجوزی، المتوفی 579ھ لکھتے ھیں:
فولدت حکیم بن حزام فی جوف الکعبة".
[المنتظم فی تاریخ الامم والملوك لابن الجوزی: ج5، ص269، رقم37]

(15) امام ابو السعادات المبارك بن محمد ابن الاثیرالجزری، المتوفی 606ھ لکھتے ھیں:
حکیم بن حزام ھو ابن اخی خديجة بنت خويلد ام المؤمنین، ولد فی الکعبة".
[تتمه جامع الاصول في احاديث الرسول: حرف الحاء، الفصل اول، ج14، ص296]

(16) امام عزالدین ابو الحسن علي بن محمد الجزری (ابن اثیر) المتوفی 630ھ لکھتے ھیں:
حکیم بن حزام ولد في الكعبة".
[آسد الغابة في معرفة الصحابة: ج2، ص44، رقم1234]

(17) امام حافظ تقی الدین ابو عمرو عثمان بن صلاح الدین عبد الرحمن الشافعی (ابن الصلاح) المتوفی 623ھ فرماتے ھیں:
حکیم بن حزام وکان مولدہ فی جوف الکعبة".
[معرفة الانواع علم الحديث: ص487]

(18) علامہ ابو الفضل جمال الدین محمد بن مکرم بن علی الانصاری الافریقی (ابن منظور) المتوفی 711ھ لکھتے ھیں:
وفی حدیث حکیم بن حزام، انه امه ولدته في الكعبة".
[لسان العرب: ج1، ص463، ومختصر تاریخ دمشق ج7، ص234]

(19) حافظ جمال الدین ابو الحجاج یوسف المزی المتوفی 742ھ لکھتے ہیں:
فولدت حکیم بن حزام فی الکعبة".
[تھذیب الکمال فی أسماء الرجال:ج2، ص258، رقم1438]

(20) امام حافظ شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان الذھبی المتوفی 748ھ فرماتے ہیں:
حکیم بن حزام ولد فی جوف الکعبة".
[تاریخ الاسلام ووفیات المشاھیر والاعلام، ج4، ص198، سیر اعلام النبلاء: ج4، ص211، رقم234]

(21) علامہ صلاح الدین خلیل بن ایبك الصفدی المتوفی 764ھ لکھتے ھیں:
حکیم بن حزام بن خویلد القرشی االاسدی، ولد فی جوف الکعبة".
[الوافی بالوفیات: ج9، ص154، رقم829]

(22) حافظ عماد الدین اسماعیل بن عمر البصری (ابن کثیر) المتوفی 774ھ فرماتے ھیں:
حکیم بن حزام ولدته امه فی جوف الکعبة".
[البداية والنهاية: ج8، ص74]

(23) علامہ سراج الدین ابو حفص عمر بن علی المصری (ابن الملقن) المتوفی 804ھ فرماتے ھیں:
حکیم بن حزام ولد فی جوف الکعبة".
[المقنع فی علوم الحدیث: معرفة التواریخ والوفیات: ج2، ص647]

(24) حافظ ابو الفضل زین الدین عبد الرحیم بن حسین العراقی ، المتوفی 806ھ لکھتے ھیں:
حکیم بن حزام وکان مولدہ فی جوف الکعبة".
[شرح (التبصرہ والتذکرة) الفیه العراقی تواریخ الرواة والوفيات: ج2، ص311]

(25) علامہ ابو العباس احمد بن حسین بن خطیب (ابن قنفذ) المتوفی 810ھ لکھتے ھیں:
حکیم بن حزام الذی ولد فی جوف الکعبة".
[الوفیات لابن قنفذ: ص67]

(26) امام ابن حجر العسقلانی رحمه الله المتوفی 852ھ فرماتے ھیں:
وحکی الزبیر بن بکار ان حکیما ولد فی جوف الکعبة".
[الاصابة في تمييز الصحابة: ج2، ص98، رقم1805، تھذیب التھذیب: ج1، ص586، رقم1737]

(27) علامہ العینی الحنفی المتوفی 855ھ لکھتے ھیں:
حکیم بن حزام ولد فی بطن الکعبة".
[عمدة القاری شرح صحیح البخاری: ج13، ص142]

(28) علامہ ابو المحاسن البردی الحنفی المتوفی 874ھ نے کہا:
حکیم بن حزام ولد فی جوف الکعبة".
[النجوم الزاھرة في ملوك مصر القاهره: ج1، ص146]

(29) علامہ جلال الدین السیوطی المتوفی 911ھ نے کہا:
حکیم بن حزام بن خویلد بن اسد وکان مولدہ فی جوف الکعبة".
[تدریب الراوی: ص355]

(30) حافظ صفی الدین احمد بن عبد الله الخزرجی المتوفی 923ھ نے لکھا:
حکیم بن حزام ولد فی جوف الکعبة".
[خلاصہ تذھیب تھذیب الکمال فی اسماء الرجال: ج1، ص272، رقم1572]

یہی بات بالترتیب اسی طرح ہر دور کے علماؤں نے بھی کی ھے۔

ملاحظہ فرمائیں:

(31) علامہ حسین بن محمد بن حسن الدیاربکری المتوفی 966ھ
[دیکھیئے، تاریخ الخمیس فی احوال انفس النفیس: ج2، ص295]

(32) علامہ زین الدین المناوی المتوفی 1031ھ
[دیکھیئے، فیض القدیر: ج2، ص37]

(33) علامہ ابو الفیض محمد بن محمد الحسینی (مرتضی زبیدی) المتوفی 1205ھ
[دیکھیے، تاج العروس من جواھر القاموس: ج10، ص310]


اور صرف یہی حکیم بن حزام رضی الله عنه کی مولود کعبة ہیں۔ آپ کے علاوہ کعبہ میں کسی کی ولادت نہیں ہوئی۔
جیساکہ
(34) امام ابو زکریا محی الدین یحیی بن شرف النووی رحمه الله المتوفی 676ھ نے فرمایا:
ولد حکیم في جوف الکعبة ولا یعرف أحد ولد فیھا غیرہ".
صرف حکیم بن حزام رضی الله عنه کی ولادت کعبہ میں ہوئی۔ ان کے علاوہ کوئی بھی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا".
[تھذیب أسماء واللغات: ج1، ص409]

(35) شارح بخاری علامہ شمس الدین محمد بن عمر بن احمد السفیری المتوفی 956ھ لکھتے ھیں:

وما نقله في الفصول المهمة لبعض المالكية من أن سيدنا علي بن أبي طالب ولدته أمة في جوف الكعبة، فهو ضعيف عند العلماء كما نقله النووي ولم يولد في جوف الكعبة سوى حكيم بن حزام".

ترجمعہ: کتاب "الفصول المهمة" میں بعض مالکیوں نے نقل کیا ھے کہ سیدنا علی رضی الله عنه کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی۔ جبکہ یہ بات (تمام) علماء کے مطابق ضعیف ھے۔ جیسا کہ امام النووی رحمه الله نے نقل کیا ھے۔ جبکہ حکیم بن حزام رضی الله عنه کے سواء کوئی بھی کعبہ میں پیدا نہیں ھوا"۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
[شرح البخاری للسفیری: ج2، ص161]

(36) علامہ محمد بن علی بن محمد البکری الصدیقی المتوفی 1057ھ نے لکھا:
وابن خويلد بن أسد بن عبد العزى بن قصي، القرشي الأسدي رضي الله عنه ولد في الكعبة ولم يتفق ذلك لغيره".
حضرت سیدنا حکیم بن حزام رضی الله عنه کے علاوہ کوئی بھی کعبہ میں پیدا نہیں ھوا".
[دلیل الفالحین لطرق ریاض الصالحین: ج1، ص216]

بلکل یہی بات دیگر علماء نے بھی بیان کی ھے۔ جن میں

(37) علامہ شہاب الدین احمد بن عمر بن محمد الخفاجی المتوفی 1069ھ
[دیکھیے، نسیم ریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض: ج1، ص509]

(38) مؤرخ الحاج عباس کرارہ نے بھی بلکل یہی بات کی ھے".
[دیکھیئے، الدین والتاریخ الحرمین الشریفین: ص75]

(39) اسی طرح ڈاکٹر ابو شهبة المتوفی 1403ھ نے بھی یہی کہا".
[دیکھیئے، الوسیط فی علوم المصطلح الحدیث: ص660]

(40) علامہ حسین بن محمد الدیار البکری المتوفی 966ھ نے کہا:

ويقال كانت ولادته فى داخل الكعبة ولم يثبت".
یہ جو کہا جاتا ھے کہ علی رضی الله عنه کی ولادت کعبہ میں ہوئی۔ یہ بات بلکل ثابت نہیں".
[تاریخ الخمیس فی احوال انفس النفیس: ج2، ص275]

♣♣♣♣♣♣♣♣♣♣♣♣♣♣♣♣

سب سے اہم بات:

بریلویوں کے عالم قاری لقمان صاحب نے ایک کتاب لکھی۔ جس کا نام ھے "مولود کعبہ کون؟"

اور قاری لقمان صاحب کی اس کتاب پر بے شمار بریلوی الشیخ الحدیث کی تقاریظ موجود ھیں۔
جو یہ ھیں۔
(1) علامہ مولانا الشیخ الحدیث مفتی محمد حنیف خاں رضوی ، صدر المدرسین ، جامعہ نوریہ بریلی شریف۔ ھند

(2) علامہ مولانا الشیخ الحدیث مفتی غلام رسول قاسمی۔ بشیر کالونی سرگودھا۔

(3) علامہ مولانا الشیخ الحدیث محمد صدیق ھزاروی۔
استاذ الحدیث جامعہ ہجویریہ دربارظ عالیہ داتا گنج بخش لاہور۔ ممبر اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان۔

(4) علامہ مولانا مفتی حافظ محمد انصر قادری۔

(5) علامہ مولانا مفتی ابو الحسنین محمد وسیم اختر مدنی۔
استاذ فی الفقہ دارالعلوم نعیمیہ کراچی

(6) مناظر اسلام مولانا کاشف اقبال مدنی رضوی۔
خادم دارالافتاء جامعہ غوثیہ رضویہ مظہر اسلام سمندری۔ فیصل آباد

(7) مولانا قاری ابو عبدللہ محمد سلیم نقشبندی مجددی جلالی۔
امام و خطیب جامع مسجد غوثیہ۔ شادیوال

(8) مولانا صاحبزادہ ڈاکٹر محمد احمد رضا قادری۔
حضرت مولانا مفتی ۔ محمد حسان رضا مدنی۔
مفتی دارلافتاء کنز الایمان دعوت اسلامی گرومندر کراچی۔

(9) مولانا مفتی حافظ محمد اسماعیل قادری نورانی۔
جامعہ انوار القرآن مدنی مسجد گلشن اقبال کراچی۔

(10) دارالتحقیق جامعہ محمدیہ فاروقیہ رضویہ۔ شادیوال۔ ڈسٹرک گجرات۔
0300-6235167
Qariluqman786@gmail.com

اور جن کی اجازت سے بریلوی عالم قاری لقمان صاحب نے یہ کتاب لکھی۔ ان کا نام نامی اسم گرامی قاری صاحب نے یہ بیان کیا ھے۔

استاذ عالی مرتبت، حامی سنت، ماحی بدعت، غیظ المنافقین، فوز الموافقین، عمدة المحققین، دافع اھل رفض وخروج، حضرت مولانا بالفضل اولیٰنا، ابو الرضا، مقبول احمد رضوی۔
 
Last edited:
Top