• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکہ اور مدینہ نزدیک تھا

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
مکہ اور مدینہ نزدیک تھا
کالم: جاوید چوھدری
جمعہ 11 ستمبر 2015

ملک شام اور شہر دمشق مسلمانوں کے پانچ مقدس ترین شہروں اور ملکوں میں شمار ہوتا ہے،

شام انبیاء، صحابہ، اولیاء اور مؤرخین کا ملک ہے،
آپ دمشق کی جس گلی میں نکل جائیں، آپ کو وہاں کسی نہ کسی نبی، صحابی، ولی یا مسلم اسکالر کا مزار ملے گا،
دمشق اور حلب دونوں شہر مذہبی سیاحت کے عظیم مراکز ہیں،
دمشق کی جامع امیہ میں ایک چبوترا ہے، اس کے بارے میں مشہور ہے، حضرت عیسیٰ ؑ کا ظہور اسی چبوترے پر ہو گا۔

اسی مسجد کے ساتھ حضرت یحییٰ علیہ السلام اور سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے مزارات بھی ہیں،
یہ ابن خلدون کا ملک بھی تھا،
یہ حضرت ہابیل اور حضرت ذوالکفل علیہ السلام کا ملک بھی تھا
اور حضرت بلال ؓ، حضرت خالد بن ولید ؓ ، عمار بن یاسر ؓ ، حضرت حجر بن عدیؓ ، حضرت ابودرداءؓ ، حضرت امیرمعاویہ ؓ ، حضرت بی بی زینب ؓ ، حضرت اویس قرنیؓ ، حضرت ام کلثوم بن علیؓ ، حضرت سکینہ بنت امام حسینؓ ، حضرت رقیہ بنت امام حسینؓ ، حضرت فضا کنیز حضرت فاطمہؓ ، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ، امام ابن تیمیہؒ اورامام نوائیؒ بھی اسی ملک میں مدفون ہیں،
شام کو تین اور اعزازات بھی حاصل ہیں، یہ ملک دنیا کی قدیم ترین آرگنائزڈ سولائزیشنز میں شمار ہوتا ہے۔

دنیا کا 80 فیصد حصہ جب پتھر اور غار کے دور سے گزر رہا تھا شام میں اس وقت باقاعدہ حکومت بھی تھی اور میونسپل کمیٹیوں کا نظام بھی۔ فرعون شام سے مصر گئے تھے اور انھوں نے وہاں ایسا نظام حکومت تشکیل دیا تھا جو آج کے جدید اذہان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے، دمشق اور حلب دنیا کے قدیم ترین شہروں میں بھی شمار ہوتے ہیں،

شام کا دوسرا اعزاز اس کا انسانی حسن ہے، شام میں پچھلے چھ ہزار سال سے دنیا کی خوبصورت ترین نسلیں آباد ہیں، مصر کے فرعون، روم کے قیصر، ایران کے شہنشاہ، عرب کے خلیفہ اور ترکی کے عثمانی اپنی بیگمات، اپنی خادماؤں، اپنی کنیزوں اور اپنی آیائیوں کا انتخاب شام سے کرتے تھے، آپ دنیا بھر کے میڈیا پر شامی مہاجرین دیکھ رہے ہیں۔

آپ کو یقینا ان لوگوں کا حسن و جمال مبہوت کر دیتا ہو گا، یہ شام کے غریب اور عام لوگ ہیں، آپ ان عام لوگوں کو سامنے رکھ کر شام کے خاص لوگوں کا تصور کیجیے، آپ کی آنکھیں دیکھنا بھول جائیں گی اور یہ وہ راز ہے جس کی وجہ سے آج تک جس بادشاہ، جس جرنیل اور جس سیاح نے شام میں قدم رکھا وہ وہاں سے واپس نہ جا سکا اور اگر گیا تو اس کا دل دمشق کی کسی گلی کے کسی موڑ پر ہی سسکتا رہ گیا

اور تیسرا اعزاز، یہ وہ ملک ہے جس نے عالم اسلام کو وہ لازوال ادارے دیے تھے جن پر ہم آج بھی فخر کرتے ہیں، حضرت عمر فاروقؓ کا پولیس کا محکمہ ہو، ریگولر آرمی کا تصور ہو، ویلفیئر اسٹیٹ کا فارمولہ ہو یا پھر ڈاک کا نظام ہو، یہ تصورات دمشق سے مدینہ پہنچے تھے۔

آپ نے گلیڈی ایٹر اور بین ہر جیسی فلموں میں ایسی گھوڑا گاڑیاں دیکھی ہوں گی جن کی دونوں سائیڈز پر درجنوں تلواریں اور درانتیاں لگی تھیں، یہ گاڑیاں راستے میں آنے والے تمام گھوڑوں اور فوجیوں کا قیمہ بنا دیتی تھیں، یہ گاڑیاں شام کی ایجاد تھیں اور شام وہ واحد ملک تھا جس کی فتح کے لیے نبی اکرم ؐ نے اپنی حیات میں لشکر تیار کیا تھا، یہ لشکر روانہ بھی ہوا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد راستے سے واپس آ گیا، حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے خلیفہ کا حلف اٹھایا تو آپ کی پہلی سرکاری مہم اس لشکر کی دوبارہ روانگی تھی، آپؓ نے لشکر کے سالار 17 سالہ غلام زادے اسامہ بن زیدؓ کو گھوڑے پر بٹھایا، اپنا ہاتھ غلام زادے کی رکاب پر رکھا اور مستقبل کے خلفاء راشدین کے ساتھ پیدل چل کر اس لشکر کو مدینہ سے رخصت کیا اور دمشق کو 41 ہجری سے 132 ہجری تک اسلامی دارالسلطنت کی حیثیت بھی حاصل رہی لہٰذا آپ جس زاویے سے بھی دیکھیں آپ شام کو مقدس پائیں گے۔

آپ اب شام کے اردگرد موجود ممالک کو بھی دیکھیے، شام 9 مقدس ترین مسلمان ملکوں کے ہمسائے میں واقع ہے، شام کی سرحدیں ترکی، عراق، اردن، لبنان، مصر، سعودی عرب، یمن، ایران اور عمان سے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ملتی ہیں، ان 9 ممالک میں شامی قبائل بھی موجود ہیں اور شامیوں کے ہم ملک اور ہم عقیدہ لوگ بھی۔ ان 9 ملکوں میں ہزاروں سال سے رابطے بھی استوار ہیں، نبی اکرم ؐ نے اپنی تجارتی زندگی کا آغاز شام کے تجارتی قافلوں سے کیا تھا، مسلمانوں کے مقدس شہر دمشق اور حلب مسلمانوں کے دوسرے مقدس ترین شہروں مدینہ، مکہ، نجف، قم، استنبول، قونیہ، قاہرہ، جارڈن سٹی، صنعاء، تبوک اور بیروت سے زیادہ دور نہیں ہیں، ان شہروں کے درمیان کوئی سمندر اور بلند و بالا پہاڑ بھی موجود نہیں ہیں۔

آپ اگر دمشق اور حلب سے پیدل نکلیں تو آپ چند دن بعد کسی نہ کسی مقدس شہر میں داخل ہو جائیں گے، ان نو مقدس ممالک میں شام کے ہم مذہب اور ہم مسلک لوگ آباد ہیں، دمشق سے لے کر ازمیر، قم، صنعاء اور قاہرہ تک پانچ وقت اذان ہوتی ہے، پانچ وقت جماعت کھڑی ہوتی ہے، صدقہ اور خیرات بھی دی جاتی ہے، نقاب، حجاب اور اسکارف لیا جاتا ہے، قرآن مجید پڑھا جاتا ہے، حلال گوشت کھایا جاتا ہے اور ایک اللہ اور ایک رسولؐ کو مانا جاتا ہے لیکن جب 2011ء میں شام میں خانہ جنگی شروع ہوتی ہے اور شامی خاندان ہجرت پر مجبور ہوتے ہیں تو یہ لوگ برادر اسلامی ممالک کے بجائے، یہ لوگ مقدس ترین مکہ، مدینہ، قم، نجف، جارڈن اور بیروت کے بجائے اس یورپ کی طرف دوڑ پڑتے ہیں جہاں حلال گوشت نہیں ملتا، جہاں مسجدیں نہیں ہیں، جہاں چرچ کی گھنٹیاں بجتی ہیں، جہاں اسکارف، نقاب اور حجاب کی اجازت نہیں، جہاں تبلیغ جرم ہے۔

جہاں داڑھی، نماز اور تلاوت کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے، جہاں اسکولوں میں سیکولر تعلیم دی جاتی ہے، جہاں بچیاں مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا یہودی ہوں آپ انھیں بوائے فرینڈ رکھنے سے نہیں روک سکتے اور جہاں رہنے کے لیے آپ کو انگریزی، فرنچ، جرمن، یونانی اور آسٹرین زبان سیکھنا پڑتی ہے اور جہاں آپ کو ان عیسائی، یہودیوں اور لادین لوگوں کے ساتھ رہنا پڑے گا جو پچھلے 14 سو سال سے عالم اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

آپ یہاں یہ بھی ذہن میں رکھئے گا، شام اور یورپ کے درمیان کوئی زمینی راستہ موجود نہیں،
شامیوں کو یورپ پہنچنے کے لیے سیکڑوں میل لمبے سمندر پار کرنا پڑ رہے ہیں،
یہ لوگ شام سے ترکی پہنچتے ہیں، استنبول یا ازمیر سے کشتیوں میں بیٹھ کر یونان پہنچتے ہیں
یا ہزاروں میل کا سفر طے کر کے مصر سے تیونس اور لیبیا پہنچتے ہیں اور وہاں سے سمندر کا خوفناک سفر طے کر کے اٹلی پہنچتے ہیں
یا پھر تیونس سے الجزائر اور مراکش جاتے ہیں اور وہاں سے سمندر میں اتر کر اسپین پہنچتے ہیں، یہ سفر انتہائی خطرناک ہے اور خاندان کے خاندان سمندر میں ڈوب کر مر رہے ہیں۔

یہ درست ہے مہاجرین ترکی، لبنان، اردن، عراق اور مصر میں بھی پناہ گزین ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے ان پانچوں ممالک سے روزانہ سیکڑوں ہزاروں لوگ بھاگ کر یورپ پہنچ رہے ہیں، یورپ پچھلے ماہ سے شامی مہاجرین کا خوفناک ہدف ہے، یونان کے ساحلوں پر ہزاروں کشتیاں اتر چکی ہیں، یہ لوگ یونان اتر کر سنٹرل یورپ کی طرف چل پڑتے ہیں، یونان، بلغاریہ اور رومانیہ مہاجرین کو روکنے میں ناکام ہو چکے ہیں، ٹرین سروس، یورپ کو ملانے والی بس سروس اور بڑی شاہراہیں بند کر دی گئی ہیں لیکن شامی مہاجرین ریلوے ٹریک اور سڑکوں پر پیدل چل پڑتے ہیں، یہ پیدل ہنگری پہنچتے ہیں، یہ وہاں سے آسٹریا، جرمنی، فرانس اور برطانیہ پہنچتے ہیں، جرمنی ایک لاکھ سے زائد مہاجرین کو پناہ دے چکا ہے۔

اس فرانس میں بھی اس وقت 24 ہزار شامی مہاجرین پہنچ چکے ہیں جہاں چند ماہ قبل مسلمانوں نے تعلیمی اداروں میں اسکارف کی اجازت نہ دینے پر شدید احتجاج کیا تھا، برطانیہ بھی شامی مہاجرین کو پناہ دینے پر مجبور ہو چکا ہے جب کہ اسپین اور اٹلی میں موجود پناہ گزین بھی کیمپوں کے دروازے توڑ کر جرمنی اور فرانس کی طرف دوڑ رہے ہیں، یہ لوگ یورپ پہنچنے کے لیے اس قدر بے تاب ہیں کہ یہ ایلان جیسے بچوں تک کی قربانی دے رہے ہیں، کیوں؟ آخر کیوں؟۔

عالم اسلام کو کبھی نہ کبھی مذہبی، سماجی اور نسلی عصبیت کو سائیڈ پر رکھ کر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اس کیوں کا جواب تلاش کرنا پڑے گا، ہمیں حقائق کو بہرحال ماننا ہو گا اور وہ حقائق یہ ہیں، ملک میں اگر جبر، بدامنی، بے انصافی اور غربت ہو تو لوگ انبیاء، صحابہ، اولیاء اور اسکالرز کے دمشق سے بھی نقل مکانی کر جاتے ہیں، یہ اس مسجد کو بھی چھوڑ جاتے ہیں جہاں حضرت عیسیٰ ؑ اتریں گے یا جہاں دن میں سیکڑوں بار اللہ کی رحمت برستی ہے۔

حقائق یہ ہیں، انسان جب گھر چھوڑتا ہے تو یہ امن اور آزادی کے لیے مقدس ترین شہروں کے قریب سے گزر کر ان ملکوں، ان شہروں کی طرف دوڑ پڑتا ہے جہاں ان کے ایمان، ان کی نسلوں کے ایمان اور ان کی تہذیب کے ایمان تک کی گارنٹی نہیں ہوتی اور حقائق تو یہ ہیں امن، انصاف، عزت، جمہوریت، انسانی حقوق اور ترقی کے برابر مواقعے انسان کو اگر یہ سہولتیں ان ملکوں میں بھی نظر آئیں جن کو یہ صدیوں تک اپنے ایمان، اپنی تہذیب کا دشمن سمجھتا رہا ہو تو یہ سیکڑوں میل پیدل چل کر، کشتیوں میں بیٹھ کر، تیر کر اور اپنے ایلان کی قربانی دے کر بھی دشمن ملکوں میں پہنچ جاتا ہے اور حقائق تو یہ ہیں انسان پرامن زندگی کے لیے اذانوں، مسجدوں، تلاوتوں، حلال گوشت اور حجاب والے ملک چھوڑ کر چرچوں، گھنٹیوں، فحاشی، نیوڈ بیچز، کلبوں، شراب خانوں اور بوائے اینڈ گرلز فرینڈز کے معاشروں میں چلا جاتا ہے اور حقائق تو یہ ہیں انسان کو جب چوائس مل جائے تو یہ مقدس شہروں کے بجائے میونخ، بڈاپسٹ، پیرس اور لندن کا رخ کرتا ہے اور آپ کو اگر اب بھی یقین نہ آئے تو آپ انٹرنیٹ سے جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل کا یہ بیان نکال کر فریم کرا لیں اور یہ فریم اپنی میز پر رکھ لیں۔

اینجلا مرکل نے حیرت سے کہا
’’میں حیران ہوں، جرمنی آنے والے شامی مسلمانوں کو مکہ اور مدینہ نزدیک پڑتا تھا‘‘
آپ اینجلا مرکل کا یہ فقرہ اپنی میز پر رکھ لیں، مجھے یقین ہے، آپ زندگی میں جب بھی کنفیوژ ہوں گے، یہ ایک فقرہ آپ کو دو سکینڈ میں کنفیوژن سے نکال لے گا، آپ کو حقائق جاننے میں دیر نہیں لگے گی۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مکہ اور مدینہ نزدیک تھا
کالم: جاوید چوھدری
جمعہ 11 ستمبر 2015

ملک شام اور شہر دمشق مسلمانوں کے پانچ مقدس ترین شہروں اور ملکوں میں شمار ہوتا ہے،

شام انبیاء، صحابہ، اولیاء اور مؤرخین کا ملک ہے،
آپ دمشق کی جس گلی میں نکل جائیں، آپ کو وہاں کسی نہ کسی نبی، صحابی، ولی یا مسلم اسکالر کا مزار ملے گا،
دمشق اور حلب دونوں شہر مذہبی سیاحت کے عظیم مراکز ہیں،
دمشق کی جامع امیہ میں ایک چبوترا ہے، اس کے بارے میں مشہور ہے، حضرت عیسیٰ ؑ کا ظہور اسی چبوترے پر ہو گا۔

اسی مسجد کے ساتھ حضرت یحییٰ علیہ السلام اور سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے مزارات بھی ہیں،
یہ ابن خلدون کا ملک بھی تھا،
یہ حضرت ہابیل اور حضرت ذوالکفل علیہ السلام کا ملک بھی تھا
اور حضرت بلال ؓ، حضرت خالد بن ولید ؓ ، عمار بن یاسر ؓ ، حضرت حجر بن عدیؓ ، حضرت ابودرداءؓ ، حضرت امیرمعاویہ ؓ ، حضرت بی بی زینب ؓ ، حضرت اویس قرنیؓ ، حضرت ام کلثوم بن علیؓ ، حضرت سکینہ بنت امام حسینؓ ، حضرت رقیہ بنت امام حسینؓ ، حضرت فضا کنیز حضرت فاطمہؓ ، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ، امام ابن تیمیہؒ اورامام نوائیؒ بھی اسی ملک میں مدفون ہیں،
شام کو تین اور اعزازات بھی حاصل ہیں، یہ ملک دنیا کی قدیم ترین آرگنائزڈ سولائزیشنز میں شمار ہوتا ہے۔

دنیا کا 80 فیصد حصہ جب پتھر اور غار کے دور سے گزر رہا تھا شام میں اس وقت باقاعدہ حکومت بھی تھی اور میونسپل کمیٹیوں کا نظام بھی۔ فرعون شام سے مصر گئے تھے اور انھوں نے وہاں ایسا نظام حکومت تشکیل دیا تھا جو آج کے جدید اذہان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے، دمشق اور حلب دنیا کے قدیم ترین شہروں میں بھی شمار ہوتے ہیں،

شام کا دوسرا اعزاز اس کا انسانی حسن ہے، شام میں پچھلے چھ ہزار سال سے دنیا کی خوبصورت ترین نسلیں آباد ہیں، مصر کے فرعون، روم کے قیصر، ایران کے شہنشاہ، عرب کے خلیفہ اور ترکی کے عثمانی اپنی بیگمات، اپنی خادماؤں، اپنی کنیزوں اور اپنی آیائیوں کا انتخاب شام سے کرتے تھے، آپ دنیا بھر کے میڈیا پر شامی مہاجرین دیکھ رہے ہیں۔

آپ کو یقینا ان لوگوں کا حسن و جمال مبہوت کر دیتا ہو گا، یہ شام کے غریب اور عام لوگ ہیں، آپ ان عام لوگوں کو سامنے رکھ کر شام کے خاص لوگوں کا تصور کیجیے، آپ کی آنکھیں دیکھنا بھول جائیں گی اور یہ وہ راز ہے جس کی وجہ سے آج تک جس بادشاہ، جس جرنیل اور جس سیاح نے شام میں قدم رکھا وہ وہاں سے واپس نہ جا سکا اور اگر گیا تو اس کا دل دمشق کی کسی گلی کے کسی موڑ پر ہی سسکتا رہ گیا

اور تیسرا اعزاز، یہ وہ ملک ہے جس نے عالم اسلام کو وہ لازوال ادارے دیے تھے جن پر ہم آج بھی فخر کرتے ہیں، حضرت عمر فاروقؓ کا پولیس کا محکمہ ہو، ریگولر آرمی کا تصور ہو، ویلفیئر اسٹیٹ کا فارمولہ ہو یا پھر ڈاک کا نظام ہو، یہ تصورات دمشق سے مدینہ پہنچے تھے۔

آپ نے گلیڈی ایٹر اور بین ہر جیسی فلموں میں ایسی گھوڑا گاڑیاں دیکھی ہوں گی جن کی دونوں سائیڈز پر درجنوں تلواریں اور درانتیاں لگی تھیں، یہ گاڑیاں راستے میں آنے والے تمام گھوڑوں اور فوجیوں کا قیمہ بنا دیتی تھیں، یہ گاڑیاں شام کی ایجاد تھیں اور شام وہ واحد ملک تھا جس کی فتح کے لیے نبی اکرم ؐ نے اپنی حیات میں لشکر تیار کیا تھا، یہ لشکر روانہ بھی ہوا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد راستے سے واپس آ گیا، حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے خلیفہ کا حلف اٹھایا تو آپ کی پہلی سرکاری مہم اس لشکر کی دوبارہ روانگی تھی، آپؓ نے لشکر کے سالار 17 سالہ غلام زادے اسامہ بن زیدؓ کو گھوڑے پر بٹھایا، اپنا ہاتھ غلام زادے کی رکاب پر رکھا اور مستقبل کے خلفاء راشدین کے ساتھ پیدل چل کر اس لشکر کو مدینہ سے رخصت کیا اور دمشق کو 41 ہجری سے 132 ہجری تک اسلامی دارالسلطنت کی حیثیت بھی حاصل رہی لہٰذا آپ جس زاویے سے بھی دیکھیں آپ شام کو مقدس پائیں گے۔

آپ اب شام کے اردگرد موجود ممالک کو بھی دیکھیے، شام 9 مقدس ترین مسلمان ملکوں کے ہمسائے میں واقع ہے، شام کی سرحدیں ترکی، عراق، اردن، لبنان، مصر، سعودی عرب، یمن، ایران اور عمان سے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ملتی ہیں، ان 9 ممالک میں شامی قبائل بھی موجود ہیں اور شامیوں کے ہم ملک اور ہم عقیدہ لوگ بھی۔ ان 9 ملکوں میں ہزاروں سال سے رابطے بھی استوار ہیں، نبی اکرم ؐ نے اپنی تجارتی زندگی کا آغاز شام کے تجارتی قافلوں سے کیا تھا، مسلمانوں کے مقدس شہر دمشق اور حلب مسلمانوں کے دوسرے مقدس ترین شہروں مدینہ، مکہ، نجف، قم، استنبول، قونیہ، قاہرہ، جارڈن سٹی، صنعاء، تبوک اور بیروت سے زیادہ دور نہیں ہیں، ان شہروں کے درمیان کوئی سمندر اور بلند و بالا پہاڑ بھی موجود نہیں ہیں۔

آپ اگر دمشق اور حلب سے پیدل نکلیں تو آپ چند دن بعد کسی نہ کسی مقدس شہر میں داخل ہو جائیں گے، ان نو مقدس ممالک میں شام کے ہم مذہب اور ہم مسلک لوگ آباد ہیں، دمشق سے لے کر ازمیر، قم، صنعاء اور قاہرہ تک پانچ وقت اذان ہوتی ہے، پانچ وقت جماعت کھڑی ہوتی ہے، صدقہ اور خیرات بھی دی جاتی ہے، نقاب، حجاب اور اسکارف لیا جاتا ہے، قرآن مجید پڑھا جاتا ہے، حلال گوشت کھایا جاتا ہے اور ایک اللہ اور ایک رسولؐ کو مانا جاتا ہے لیکن جب 2011ء میں شام میں خانہ جنگی شروع ہوتی ہے اور شامی خاندان ہجرت پر مجبور ہوتے ہیں تو یہ لوگ برادر اسلامی ممالک کے بجائے، یہ لوگ مقدس ترین مکہ، مدینہ، قم، نجف، جارڈن اور بیروت کے بجائے اس یورپ کی طرف دوڑ پڑتے ہیں جہاں حلال گوشت نہیں ملتا، جہاں مسجدیں نہیں ہیں، جہاں چرچ کی گھنٹیاں بجتی ہیں، جہاں اسکارف، نقاب اور حجاب کی اجازت نہیں، جہاں تبلیغ جرم ہے۔

جہاں داڑھی، نماز اور تلاوت کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے، جہاں اسکولوں میں سیکولر تعلیم دی جاتی ہے، جہاں بچیاں مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا یہودی ہوں آپ انھیں بوائے فرینڈ رکھنے سے نہیں روک سکتے اور جہاں رہنے کے لیے آپ کو انگریزی، فرنچ، جرمن، یونانی اور آسٹرین زبان سیکھنا پڑتی ہے اور جہاں آپ کو ان عیسائی، یہودیوں اور لادین لوگوں کے ساتھ رہنا پڑے گا جو پچھلے 14 سو سال سے عالم اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

آپ یہاں یہ بھی ذہن میں رکھئے گا، شام اور یورپ کے درمیان کوئی زمینی راستہ موجود نہیں،
شامیوں کو یورپ پہنچنے کے لیے سیکڑوں میل لمبے سمندر پار کرنا پڑ رہے ہیں،
یہ لوگ شام سے ترکی پہنچتے ہیں، استنبول یا ازمیر سے کشتیوں میں بیٹھ کر یونان پہنچتے ہیں
یا ہزاروں میل کا سفر طے کر کے مصر سے تیونس اور لیبیا پہنچتے ہیں اور وہاں سے سمندر کا خوفناک سفر طے کر کے اٹلی پہنچتے ہیں
یا پھر تیونس سے الجزائر اور مراکش جاتے ہیں اور وہاں سے سمندر میں اتر کر اسپین پہنچتے ہیں، یہ سفر انتہائی خطرناک ہے اور خاندان کے خاندان سمندر میں ڈوب کر مر رہے ہیں۔

یہ درست ہے مہاجرین ترکی، لبنان، اردن، عراق اور مصر میں بھی پناہ گزین ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے ان پانچوں ممالک سے روزانہ سیکڑوں ہزاروں لوگ بھاگ کر یورپ پہنچ رہے ہیں، یورپ پچھلے ماہ سے شامی مہاجرین کا خوفناک ہدف ہے، یونان کے ساحلوں پر ہزاروں کشتیاں اتر چکی ہیں، یہ لوگ یونان اتر کر سنٹرل یورپ کی طرف چل پڑتے ہیں، یونان، بلغاریہ اور رومانیہ مہاجرین کو روکنے میں ناکام ہو چکے ہیں، ٹرین سروس، یورپ کو ملانے والی بس سروس اور بڑی شاہراہیں بند کر دی گئی ہیں لیکن شامی مہاجرین ریلوے ٹریک اور سڑکوں پر پیدل چل پڑتے ہیں، یہ پیدل ہنگری پہنچتے ہیں، یہ وہاں سے آسٹریا، جرمنی، فرانس اور برطانیہ پہنچتے ہیں، جرمنی ایک لاکھ سے زائد مہاجرین کو پناہ دے چکا ہے۔

اس فرانس میں بھی اس وقت 24 ہزار شامی مہاجرین پہنچ چکے ہیں جہاں چند ماہ قبل مسلمانوں نے تعلیمی اداروں میں اسکارف کی اجازت نہ دینے پر شدید احتجاج کیا تھا، برطانیہ بھی شامی مہاجرین کو پناہ دینے پر مجبور ہو چکا ہے جب کہ اسپین اور اٹلی میں موجود پناہ گزین بھی کیمپوں کے دروازے توڑ کر جرمنی اور فرانس کی طرف دوڑ رہے ہیں، یہ لوگ یورپ پہنچنے کے لیے اس قدر بے تاب ہیں کہ یہ ایلان جیسے بچوں تک کی قربانی دے رہے ہیں، کیوں؟ آخر کیوں؟۔

عالم اسلام کو کبھی نہ کبھی مذہبی، سماجی اور نسلی عصبیت کو سائیڈ پر رکھ کر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اس کیوں کا جواب تلاش کرنا پڑے گا، ہمیں حقائق کو بہرحال ماننا ہو گا اور وہ حقائق یہ ہیں، ملک میں اگر جبر، بدامنی، بے انصافی اور غربت ہو تو لوگ انبیاء، صحابہ، اولیاء اور اسکالرز کے دمشق سے بھی نقل مکانی کر جاتے ہیں، یہ اس مسجد کو بھی چھوڑ جاتے ہیں جہاں حضرت عیسیٰ ؑ اتریں گے یا جہاں دن میں سیکڑوں بار اللہ کی رحمت برستی ہے۔

حقائق یہ ہیں، انسان جب گھر چھوڑتا ہے تو یہ امن اور آزادی کے لیے مقدس ترین شہروں کے قریب سے گزر کر ان ملکوں، ان شہروں کی طرف دوڑ پڑتا ہے جہاں ان کے ایمان، ان کی نسلوں کے ایمان اور ان کی تہذیب کے ایمان تک کی گارنٹی نہیں ہوتی اور حقائق تو یہ ہیں امن، انصاف، عزت، جمہوریت، انسانی حقوق اور ترقی کے برابر مواقعے انسان کو اگر یہ سہولتیں ان ملکوں میں بھی نظر آئیں جن کو یہ صدیوں تک اپنے ایمان، اپنی تہذیب کا دشمن سمجھتا رہا ہو تو یہ سیکڑوں میل پیدل چل کر، کشتیوں میں بیٹھ کر، تیر کر اور اپنے ایلان کی قربانی دے کر بھی دشمن ملکوں میں پہنچ جاتا ہے اور حقائق تو یہ ہیں انسان پرامن زندگی کے لیے اذانوں، مسجدوں، تلاوتوں، حلال گوشت اور حجاب والے ملک چھوڑ کر چرچوں، گھنٹیوں، فحاشی، نیوڈ بیچز، کلبوں، شراب خانوں اور بوائے اینڈ گرلز فرینڈز کے معاشروں میں چلا جاتا ہے اور حقائق تو یہ ہیں انسان کو جب چوائس مل جائے تو یہ مقدس شہروں کے بجائے میونخ، بڈاپسٹ، پیرس اور لندن کا رخ کرتا ہے اور آپ کو اگر اب بھی یقین نہ آئے تو آپ انٹرنیٹ سے جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل کا یہ بیان نکال کر فریم کرا لیں اور یہ فریم اپنی میز پر رکھ لیں۔

اینجلا مرکل نے حیرت سے کہا
’’میں حیران ہوں، جرمنی آنے والے شامی مسلمانوں کو مکہ اور مدینہ نزدیک پڑتا تھا‘‘
آپ اینجلا مرکل کا یہ فقرہ اپنی میز پر رکھ لیں، مجھے یقین ہے، آپ زندگی میں جب بھی کنفیوژ ہوں گے، یہ ایک فقرہ آپ کو دو سکینڈ میں کنفیوژن سے نکال لے گا، آپ کو حقائق جاننے میں دیر نہیں لگے گی۔
کنعان بھائی آپ کے پیش کردہ حقائق سے صرف جزوی طور پر انکار ہے اور یہ حقیقت بھی ہے جو کچھ آپ نے بتایا لیکن اینجلا مرکل کے بیانات پر پورے معاملے کا تجزیہ کرنا اور
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ میڈیا ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے یورپ کے ایک لاکھ کا ذکر ایک کروڑ کے برابر کیا جائے اور عرب ممالک کے پناہ گزینوں کا ذکر بالکل بھی نہ کیا جائے بالخصوص سعودی عرب جو شام کے تقریبا (اگر میرے اعداد و شمار غلط نہیں ہیں تو) کم و بیش پانچ لاکھ جس میں عمال اور طالب علم بھی شامل ہیں اسی طرح ترکی میں ایک بڑی تعداد
تو عرض یہ ہے کہ اگر شامی لوگ اپنی صوابدید پر یورپ کا رخ کر رہے ہیں تو جن لوگوں نے عرب ملکوں کا رخ کیا وہ بھی ان کا اپنا اختیار تھا لہذا یورپ کی داد و تحسین کرنا اور عرب و مسلم ممالک پر تنقید یہ ایک مخصوص رویہ ہے
اور جو کچھ جرمنی اور فرانس اور اس کے اتحادی مل کر شام میں خون کی ہولیاں کھیل رہے ہیں اس کے بعد ان کے لبوں سے انسانی ہمدردی اور یہ بیانات کچھ جچتے نہیں
اور مسلم ممالک اس میں کوئی شک نہیں کہ نیند میں ہیں اس اعتبار سے کہ ان کے مابین تعاون کی فضا ، اتحاد کی کیفیت نہیں لیکن یہ خوش آئند ضرور ہے کہ یمنی باغیوں کے خلاف عرب افواج کا اتحاد اور اس پر ترکی اور پاکستان اور افغانستان کے جہادی عناصر کا اخلاقی ساتھ
ہم دعاگو ہیں لیکن کنعان بھائی
مشرق وسطی کے معاملات اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ہر ایک کو اپنا اپنا حصہ ادا کرنا ہو گا اور بھگتنا بھی ہو گا سو دیکھیے
یہ تحریر آپ کی تحریر پر تنقید نہیں صرف کچھ توضیحی سطور ہیں اآپ کی پوسٹ پر میں تو آپ کو لقب دیتا ہوں کنعان دی گریٹ کیوں اس لفظ کی ایک تاریخ ہے
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
جب کوئی تحریر یہاں چسپاں یا لکھی جاتی ھے تو میرے مطابق یا تو وہ اس سے متفق ہوتا ھے یا پھر اسے تبصرہ جات اور بحث و نظر کی غرض ھوتی ھے۔اور وہ اسکی مذید تحقیق چاہتا ھے۔
میرے محترم کنعان صاحبکی کیا منشاء ھے ؟
دوسری بات جن لوگوں کی جہاں تک رسائی اور گرفت ہوتی ھے ۔وہ اس کو اپنی منشاء کے مطابق بھی استعمال کر سکتا ھے ۔یہ بھی ضروری نھیں کہ بیان کردہ تمام چیزیں من و عن درست ہوں۔سو یہی کا م جناب جاوید چوہدری نے اپنے قلم کی گلکاری سے لیا ھے۔
کیا میں پوچھ سکتا ھوں کہ برمی مسلمانوں کو یورپ میں کیوں آباد نھیں کیا گیا۔
یہ محض ایک سوال ھے؟
یہاں تک مکہ اور مدینہ نزدیک ہونے کی بات ھے تو اسکے لیئے جاوید چوھدری صاحب کو خود یہاں آنا ہوگا (بغیر سپانسرکے)یا پھر انکا کوئی ہمدم ان تک یہ معلومات پہنچائے کہ مکہ میں اس وقت برمی،افغانی،شامی اور وسط ایشائی ممالک کے باشندے مھاجرینکی شکل میں لاکھوں میں آباد ھیں۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

تجزیہ پیش کرنے پر شکریہ! مزید ۔۔۔۔ میری طرف سے،

اینجلا مرکل نے حیرت سے کہا
’’میں حیران ہوں، جرمنی آنے والے شامی مسلمانوں کو مکہ اور مدینہ نزدیک پڑتا تھا"

اس کا مطلب یہ نہیں کہ سعودی عرب انہیں کیوں جگہ نہیں دے رہا، بلکہ اس کا مطلب ھے کہ شامی پناہ گزیں عرب ممالک کا رخ کیوں نہیں کر رہے یورپ آنے کے لئے طویل، خطرناک اور جان لیوا راستوں کا انتخاب کیوں؟ قریبی ممالک کیوں نہیں؟

جب بھی کسی ملک میں داخلی انتشار پھیلتا ھے تو سرمایہ دار ہی اس ملک سے بھاگتے ہیں اور یورپئین ممالک کا رخ کرتے ہیں کیونکہ ایسے موقعوں پر رفیوجی سٹیٹس ملنے کے زیادہ چانسز ہوتے ہیں جس پر کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی۔ یہ ان کی اپنی چوئس ہوتی ھے، یہ سب انہیں معلوم ہوتا ھے اس لئے یہ خود ہی قریبی ممالک و عرب ممالک میں نہیں جانا چاہتے کیونکہ وہاں انہیں کام کرنا پڑے گا اور دوبارہ سے گراؤنڈ بنانی پڑے گی، اگر یورپئین والا چکر نہ ہو تو کوئی بھی اپنا ملک نہ چھوڑے۔

عبداللہ کردی کو لے لیں، اس نے پہلی سٹیٹمنٹ جو دی تھی اس میں کہا تھا کہ ایک طرف میں نے اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور دوسری طرف اپنے بچوں کو گود میں، جس سے بچے میرے ہاتھوں سے چھوٹ کے سمندر میں گر گئے، میں نے کوشش کی پھر میں نے سوچا کہ بعد میں مل جائیں گے۔
میری نظر میں ایسا ہوا کہ بچے سمندر میں گرے اور ان کی ماں نے انہیں بچانے کے لئے سمندر میں چھلانگ لگائی، جس پر تینوں لاشیں ایک ہی جگہ بالکل قریب سے ملیں، ماں نے بچوں ک پکڑ لیا تھا اور آخری سانس تک ایک ساتھ ۔۔۔۔۔ آپ ویڈیو کلپ میں دیکھیں جہاں بچہ کی لعش تھی وہیں دو لڑکے ایک لاش کھینچتے ہوئے دکھائی دیں گے جو ان بچوں کی ماں کی ھے۔ اسپائلر میں آپ تصویر دیکھ سکتے ہیں۔
اب عبداللہ کردی کہاں ھے اپنے ملک واپس چلا گیا اور باقی زندگی وہیں گزارے گا، داعش سے اب جان کا خطرہ نہیں۔ عبداللہ کردی کے پیچھے کون تھا؟ ان کی بہن جو کینیڈا میں رہتی تھی اور اسی نے اسے یورپ پر ایجنٹوں کو دینے کے لئے پیسے دئے تھے، اور یہ سب جانتے ہیں کہ یہاں آ کر کیا کرنا ھے۔

آپ یقین جانیں انہوں نے یورپ ممالک میں خود کو "یزیدی" غیر مسلم بتانا ھے مسلمان نہیں، تبھی انہیں رفیوجی سٹیٹس ملے گا، کیونکہ یہ داعش کے خوف سے بھاگ رہے ہیں اور داعش کا خوف مسلمانوں کے لئے نہیں ھے بلکہ ان کے لئے ھے جو وہاں غیر مسلم ہیں، تفصیل پھر کبھی!

والسلام
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

جب کوئی تحریر یہاں چسپاں یا لکھی جاتی ھے تو میرے مطابق یا تو وہ اس سے متفق ہوتا ھے یا پھر اسے تبصرہ جات اور بحث و نظر کی غرض ھوتی ھے۔اور وہ اسکی مذید تحقیق چاہتا ھے۔
میرے محترم کنعان صاحبکی کیا منشاء ھے ؟
دوسری بات جن لوگوں کی جہاں تک رسائی اور گرفت ہوتی ھے ۔وہ اس کو اپنی منشاء کے مطابق بھی استعمال کر سکتا ھے ۔یہ بھی ضروری نھیں کہ بیان کردہ تمام چیزیں من و عن درست ہوں۔سو یہی کا م جناب جاوید چوہدری نے اپنے قلم کی گلکاری سے لیا ھے۔
کیا میں پوچھ سکتا ھوں کہ برمی مسلمانوں کو یورپ میں کیوں آباد نھیں کیا گیا۔
یہ محض ایک سوال ھے؟
یہاں تک مکہ اور مدینہ نزدیک ہونے کی بات ھے تو اسکے لیئے جاوید چوھدری صاحب کو خود یہاں آنا ہوگا (بغیر سپانسرکے)یا پھر انکا کوئی ہمدم ان تک یہ معلومات پہنچائے کہ مکہ میں اس وقت برمی،افغانی،شامی اور وسط ایشائی ممالک کے باشندے مھاجرینکی شکل میں لاکھوں میں آباد ھیں۔
آپکی سب باتوں سے اتفاق ھے مگر برما کے مسلمانوں پر سوال کا جواب دے دیتا ہوں

کیا میں پوچھ سکتا ھوں کہ برمی مسلمانوں کو یورپ میں کیوں آباد نھیں کیا گیا۔
یہ محض ایک سوال ھے؟


یورپ کسی کو وہاں آباد نہیں کر رہا یا یورپ انہیں ویزے نہیں دے رہا کہ وہ یہاں آ کر آباد ہوں بلکہ یہ لوگ خود اپنا سرمایہ خرچ کر کے جان ہتھیلی پر رکھ کر غیر قانونی طریقہ سے یورپ جا رہے ہیں اور جو وہاں پہنچ گیا اسے وہاں رفیوجی سٹیٹس پر درخواست دینی پڑتی ھے۔

نیچے دئے گئے نقشہ سے برما سے یورپ کا فاصلہ اور بیچ کے کتنے ملک آتے ہیں وہ دیکھیں اور سیریا سے ۔۔۔۔۔

اگر کوئی اس وقت یورپ جانا چاہتا ھے تو روٹ اور طریقہ میں بتا دیتا ہوں کسی ایجنٹ کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ترقی میں انہی صفوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔


والسلام
 
Top