• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکہ کی زمین کو کرایہ پر دینا ممنوع ہے؟

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
تمام بھائیوں سے التماس ہے کہ اس بارے میں اپنی آرا سے مستفید فرمائیں، اور ان دلائل پر غور و فکر کریں ، کیا یہ دلائل پایہ ثبوت کوپہنچتے ہیں؟
عبد اللہ بن عمر کی روایت ہے:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مکۃ مناخٌ لا تُبَاع ربا عھا و لا تؤ اجر بیوتھا، ”مکّہ مسافروں کے اُترنے کی جگہ ہے، نہ اس کی زمینیں بیچی جائیں اور نہ اس کے مکان کرائے پر چڑھائے جائیں“۔
ابراہیم نَخعی کی مُرسَل روایت ہے:
حضور ؐ نے فرمایا: مکۃ حرمھا اللہ لا یحل بیع رباعھا ولا اجارۃ بیوتھا،
”مکّہ کو اللہ نے حرم قرار دیا ہے ، اس کی زمین کو بیچنا اور اس کے مکانوں کا کرایہ وصول کرنا حلال نہیں ہے“۔
(واضح رہے کہ ابراہیم نخعی کی مُرسَلات حدیث مرفوع کے حکم میں ہیں، کیونکہ اُن کا یہ قاعدہ مشہور و معروف ہے کہ جب وہ مرسَل روایت کرتے ہیں تو دراصل عبد اللہ بن مسعُود ؓ کے واسطے سے روایت کرتے ہیں)۔ مجاہد نے بھی تقریبًا انہی الفاظ میں ایک روایت نقل کی ہے۔
عَلْقَمہ بن نَضْلَہ کی روایت کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں مکّے کی زمینیں سوائب (افتادہ زمینیں یا شاملات) سمجھی جاتی تھیں، جس کو ضرورت ہوتی وہ رہتا تھا اور جب ضرورت نہ رہتی دوسرے کو ٹھیرا دیتا تھا“۔
عبداللہ بن عمر کی روایت کہ حضرت عمر نے حکم دے دیا تھا کہ حج کے زمانے میں مکّے کا کوئی شخص اپنا دروازہ بند نہ کرے۔ بلکہ مجاہد کی روایت تو یہ ہے کہ حضرت عمر نے اہلِ مکّہ کو اپنے مکانات کے صحن کھلے چھوڑ دینے کا حکم دے رکھا تھا اور وہ ان پر دروازے لگانے سے منعے کرتے تھے تاکہ آنے والا جہاں چاہے ٹھیرے۔ یہی روایت عطا کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ صرف سُہیل بن عَمْرو کو فاروق اعظم نے صحن پر دروازے لگانے کی اجازت دی تھی کیونکہ ان کو تجارتی کاروبار کے سلسلے میں اپنے اونٹ وہاں بند کرنے ہوتے تھے۔
عبداللہ بن عمر ؓ کا قول کہ جو شخص مکّہ کے مکانات کا کرایہ وصول کرتا ہے وہ اپنا پیٹ آگ سے بھرتا ہے۔
عبداللہ بن عباس ؓ کا قول کہ اللہ نے پورے حرم مکّہ کو مسجد بنا دیا ہے جہاں سب کے حقوق برابر ہیں۔ مکّہ والوں کو باہر والوں سے کرایہ وصول کرنے کا حق نہیں ہے۔
عمر بن عبد العزیز کا فرمان امیر مکّہ کے نام کہ مکّے کے مکانات پر کرایہ نہ لیا جائے کیونکہ یہ حرام ہے۔
 

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
154
پوائنٹ
116
تمام بھائیوں سے التماس ہے کہ اس بارے میں اپنی آرا سے مستفید فرمائیں، اور ان دلائل پر غور و فکر کریں ، کیا یہ دلائل پایہ ثبوت کوپہنچتے ہیں؟
عبد اللہ بن عمر کی روایت ہے:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مکۃ مناخٌ لا تُبَاع ربا عھا و لا تؤ اجر بیوتھا، ”مکّہ مسافروں کے اُترنے کی جگہ ہے، نہ اس کی زمینیں بیچی جائیں اور نہ اس کے مکان کرائے پر چڑھائے جائیں“۔
ابراہیم نَخعی کی مُرسَل روایت ہے:
حضور ؐ نے فرمایا: مکۃ حرمھا اللہ لا یحل بیع رباعھا ولا اجارۃ بیوتھا،
”مکّہ کو اللہ نے حرم قرار دیا ہے ، اس کی زمین کو بیچنا اور اس کے مکانوں کا کرایہ وصول کرنا حلال نہیں ہے“۔
(واضح رہے کہ ابراہیم نخعی کی مُرسَلات حدیث مرفوع کے حکم میں ہیں، کیونکہ اُن کا یہ قاعدہ مشہور و معروف ہے کہ جب وہ مرسَل روایت کرتے ہیں تو دراصل عبد اللہ بن مسعُود ؓ کے واسطے سے روایت کرتے ہیں)۔ مجاہد نے بھی تقریبًا انہی الفاظ میں ایک روایت نقل کی ہے۔
عَلْقَمہ بن نَضْلَہ کی روایت کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں مکّے کی زمینیں سوائب (افتادہ زمینیں یا شاملات) سمجھی جاتی تھیں، جس کو ضرورت ہوتی وہ رہتا تھا اور جب ضرورت نہ رہتی دوسرے کو ٹھیرا دیتا تھا“۔
عبداللہ بن عمر کی روایت کہ حضرت عمر نے حکم دے دیا تھا کہ حج کے زمانے میں مکّے کا کوئی شخص اپنا دروازہ بند نہ کرے۔ بلکہ مجاہد کی روایت تو یہ ہے کہ حضرت عمر نے اہلِ مکّہ کو اپنے مکانات کے صحن کھلے چھوڑ دینے کا حکم دے رکھا تھا اور وہ ان پر دروازے لگانے سے منعے کرتے تھے تاکہ آنے والا جہاں چاہے ٹھیرے۔ یہی روایت عطا کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ صرف سُہیل بن عَمْرو کو فاروق اعظم نے صحن پر دروازے لگانے کی اجازت دی تھی کیونکہ ان کو تجارتی کاروبار کے سلسلے میں اپنے اونٹ وہاں بند کرنے ہوتے تھے۔
عبداللہ بن عمر ؓ کا قول کہ جو شخص مکّہ کے مکانات کا کرایہ وصول کرتا ہے وہ اپنا پیٹ آگ سے بھرتا ہے۔
عبداللہ بن عباس ؓ کا قول کہ اللہ نے پورے حرم مکّہ کو مسجد بنا دیا ہے جہاں سب کے حقوق برابر ہیں۔ مکّہ والوں کو باہر والوں سے کرایہ وصول کرنے کا حق نہیں ہے۔
عمر بن عبد العزیز کا فرمان امیر مکّہ کے نام کہ مکّے کے مکانات پر کرایہ نہ لیا جائے کیونکہ یہ حرام ہے۔
میری گزارش ہے بھائی آپ سے آپ نے جو اقوال پیش کیے ہے ان کی عربی عبارت بھی دیے دے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
تحريم تأجير بيوت مكة


حدثنا أبو بكر قال حدثنا أبومعاوية عن الأعمش عن مجاهد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" مكة حرم حرمها الله لا يحل بيع رباعها ولا إجارة بيوتها". صدق رسول الله صلى الله عليه وسلم

شيخ الإسلام أبن تيمية _رحمه الله تعالى _ وابن القيم والشيخ عبد العزيز بن باز والشيخ محمد العثيمين وغيرهم من أهل العلم يستدلون على أنه لا يجوز تأجير الأراضي التي جعلها الله تعالى أماكن للمناسك بأدلة كثيرة منها مثلاً قول الله سبحانه وتعالى (إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ) العاكف فيه يعني المقيم بمكة. والباد يعني القادم إليه. فهذا المسجد الحرام للناس سواء وإذا كان للناس سواء فإنه ليس لأحد أن يستقل بشيء منه ثم يبيعه على الناس أو يؤجره أو نحو ذلك وأهل العلم متفقون على إنه إنما يؤجِر من ملك وأن الذي لا يملِك لا يؤجر. فليس لك أن تؤجر أرض جارك أو بيته أو دكانه. الأجرة ثمرة للملك والله سبحانه وتعالى يقول (وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ)ومما يدل على تحريم تأجير أراضي المشاعر والمناسك ما روى أبو داود والترمذي وأبن ماجه وغيرهم بسند صححهُ الترمذي وجود إسناده الإمام النووي _رحمة الله تعالى على الجميع_وفيه أن عائشة_رضي الله تعالى عنها قالت للنبي_صلى الله عليه وسلم_ في حجة الوداع ألا نبني لك بيتاً يظللك غداً بمنى فقال النبي_صلى الله عليه وسلم_ لا هو مناخ من سبق إليه . وفي بعض الروايات لا منى مناخُ من سبق . إذاً من سبق إليها فهي مناخهُ فإذا قضى حاجتهُ تركها. وليس لأحد أن يضع يده عليها أو يملكها و الشيخ عبد العزيز بن باز_رحمه الله تعالى _ يقول : تأجير المخيمات بمنى سحت. والشيخ محمد بن عثيمين _رحمه الله _ يقول : أراضي المشاعر كالمساجد لا يجوز لأحد أن يبني عليها أو أن يؤجرها. هذا هو كلام أهل العلم في مسألة تأجير أراضي المشاعر في منى أو في عرفات أو مزدلفة أو نحوها.



من كتب ومؤلفات فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين رحمه الله:
توجد مشكلة في الوقت الحاضر، يقول بعض الناس أنا لا أجد أرضاً بمنى إلا بأجرة، فهل يجوز أن يستأجر أرضاً في منى؟
الجواب: نعم يجوز، والإثم على المؤجر الذي أخذ المال بغير حق، أما المستأجر فلا إثم عليه، ولهذا قال فقهاء الحنابلة - رحمهم الله -: لا يجوز تأجير بيوت مكة، ولكن إذا لم يجد بيتاً إلا بأجرة دفع الأجرة، والإثم على المؤجر، وبيوت منى وأرضها من باب أولى؛ لأن منى مشعر محدود محصور، فأين يذهب الناس إذا استولى عليها من يقول: أنا لا أنزل فيها الناس إلا بأجرة؟!
http://www.asunnah.net/hajj1427/haj_sefah.html
الشيخ عبد العزيز بن باز_رحمه الله تعالى _ يقول : تأجير المخيمات بمنى سحت (الصفحة 63,64)
www.saaid.net/book/9/2002.doc


http://sirah.al-islam.com/display.asp?f=zad3085.htm



تأجير بيوت مكة

المفتى : فضيلة الشيخ عطية صقر
مايو 1997 المبدأ : القرآن والسنة
سئل : قرأنا فى بعض الكتب أن بيوت مكة لا يجوز بيعها ولا تأجيرها فهل هذا صحيح ؟

أجاب :منع أبو حنيفة بيعها وأجاز إجارتها فى غير أيام الحج ، ومنع البيع والاجارة فى أيام الحج ، محتجا بما رواه الأعمش عن مجاهد أن النبى صلى الله عليه وسلم قال " مكة حرم حرمها الله ، لا يحل بيع رباعها ولا أجور بيوتها."


وقد لخص فضيلة الشيخ/ صالح الفوزان:
أرض الحرم ( رباع مكة): الرباع ] المساكن والمنازل]. وأراضي المناسك لا كلام فيها فلا يجوز تملكها ولا بيعها ولا شراؤها. والكلام في غير المشاعر من أراضي الحرم
لا يجوز بيع رباع مكة ولا شراؤها ولا تملكها والناس فيها سواء ومن سبق إلى شيء منها فهو أحق به، وهذا قول مالك وأبي حنيفة ورواية عن أحمد. أدلتهم: 1ـ قوله تعالى: إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ }الحج:25{ ، فقوله ( سواء ) أي : مستوين لا يستبد فيه أحد. والعاكف: المقيم، والباد: القادم، فهم سواء. والمسجد الحرام، هو الحرم كله بدليل قوله تعالى: سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى {الإسراء: 1}. وقد أسري به من بيت أم هانئ أو خديجة. 2ـ قوله تعالى: إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ هَذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِي حَرَّمَهَا وَلَهُ كُلُّ شَيْءٍ {النمل: 91}. والبلدة هي مكة. والذي حرمها: دليل على أنها محرمة لا يجوز بيعها وشراؤها، فالتحريم عام يشمل تحريم بيعها وشرائها واستباحتها وغير ذلك. 3ـ قول الرسول صلى الله عليه وسلم: منى مناخ من سبق، وهي من الحرم، فالحرم كله مناخ لمن سبق. 4ـ كون عمر رضي الله عنه يمنع تأجير بيوت مكة وكانوا يسمونها أراضي السوائب ومنعوا تركيب الأبواب على الدور فيها. 5 ـ أن أراضي مكة موقوفة لأنها فتحت عنوة ولم تقسم فلا يجوز بيع الوقف

ولهذا ذهب جمهور الأئمة من السلف والخلف إلى أنه لا يجوز بيع أراضي مكة ، ولا إجارة بيوتها ، هذا مذهب مجاهد وعطاء في أهل مكة ، ومالك في أهل المدينة ، وأبي حنيفة في أهل العراق ، وسفيان الثوري ، والإمام أحمد بن حنبل ، وإسحاق بن راهويه .

وروى الإمام أحمد رحمه الله عن علقمة بن نضلة ، قال كانت رباع مكة تدعى السوائب على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر من احتاج سكن ومن استغنى أسكن .

وروي أيضا عن عبد الله بن عمر : من أكل أجور بيوت مكة ، فإنما يأكل في بطنه نار جهنم رواه الدارقطني مرفوعا إلى النبي صلى الله عليه وسلم وفيه إن الله حرم مكة ، فحرام بيع رباعها وأكل ثمنها . <383>


وقال الإمام أحمد حدثنا معمر عن ليث عن عطاء وطاووس ومجاهد ، أنهم قالوا : يكره أن تباع رباع مكة أو تكرى بيوتها .

وذكر الإمام أحمد عن القاسم بن عبد الرحمن ، قال من أكل من كراء بيوت مكة ، فإنما يأكل في بطنه نارا .

وقال أحمد حدثنا هشيم ، حدثنا حجاج عن مجاهد ، عن عبد الله بن عمر ، قال نهي عن إجارة بيوت مكة وعن بيع رباعها .


وذكر عن عطاء قال نهي عن إجارة بيوت مكة . وقال أحمد حدثنا إسحاق بن يوسف قال حدثنا عبد الملك قال كتب عمر بن عبد العزيز إلى أمير أهل مكة ينهاهم عن إجارة بيوت مكة ، وقال إنه حرام .


وحكى أحمد عن عمر أنه نهى أن يتخذ أهل مكة للدور أبوابا ، لينزل البادي حيث شاء وحكى عن عبد الله بن عمر ، عن أبيه أنه نهى أن تغلق أبواب دور مكة ، فنهى من لا باب لداره أن يتخذ لها بابا ، ومن لداره باب أن يغلقه وهذا في أيام الموسم .
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رأى المجوزون للبيع والإيجار :
أن الدور تملك وتوهب وتورث وتباع ويكون نقل الملك في البناء لا في الأرض والعرصة فلو زال بناؤه لم يكن له أن يبيع الأرض وله أن يبنيها ويعيدها كما كانت وهو أحق بها يسكنها ويسكن فيها من شاء وليس له أن يعاوض على منفعة السكنى بعقد الإجارة فإن هذه المنفعة إنما يستحق أن يقدم فيها على غيره ويختص بها لسبقه وحاجته فإذا استغنى عنها ، لم يكن له أن يعاوض عليها ، كالجلوس في الرحاب والطرق الواسعة والإقامة على المعادن وغيرها من المنافع والأعيان المشتركة التي من سبق إليها ، فهو أحق بها ما دام ينتفع فإذا استغنى ، لم يكن له أن يعاوض وقد صرح أرباب هذا القول بأن البيع ونقل الملك في رباعها إنما يقع على البناء لا على الأرض ذكره أصحاب أبي حنيفة .

وطبعا لم يبقى بيت على حاله منذ عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ؛ أى لم يعد أحد يملك بيتا أو أرضا فى مكة وصارت كما أراد رسول الله صلى الله عليه وسلم وقفا إسلامى لعامة المسلمين.

للحرم المكي حدود معروفة ذكرها أهل العلم بالتفصيل ففي المجموع للنووي وهو شافعي:
ومعرفة حدود الحرم من أهم ما يعتني به لكثرة ما يتعلق به من الأحكام، وقد اجتهدت في إيضاحه وتتبع كلام الأئمة في إتقانه على أكمل وجوهه بحمد الله - تعالى -, فحد الحرم من جهة المدينة: دون التنعيم عند بيوت بني نفار, على ثلاثة أميال من مكة، ومن طريق اليمن: طرف أضاة لبن على سبعة أميال من مكة، ومن طريق الطائف: على عرفات من بطن نمرة على سبعة أميال، ومن طريق العراق: على ثنية جبل بالمقطع على سبعة أميال، ومن طريق الجعرانة: في شعب آل عبد الله بن خالد على تسعة أميال، ومن طريق جدة، منقطع الأعشاش على عشرة أميال من مكة.


إلى أن قال:
( واعلم ) أن الحرم عليه علامات منصوبة في جميع جوانبه ذكر الأزرقي وغيره بأسانيدهم أن إبراهيم الخليل عليه السلام علمها، ونصب العلامات فيها وكان جبريل عليه السلام يريه مواضعها، ثم أمر نبينا صلى الله عليه وسلم بتحديدها ثم عمر ثم عثمان ثم معاوية رضي الله عنهم. وهي إلى الآن بينة ولله الحمد. انتهى.

وفى شرح الخرشى لمختصر خليل المالكي مبينا حدود الحرم بالعلامة المميزة لها قائلا: يعني أن الحرم يعرف أيضا بأن سيل الحل إذا جرى إليه لا يدخله، وسيله إذا جرى يخرج إلى الحل ويجري فيه، وهذا تحديد للحرم بالأمارة والعلامة، والأول تحديد له بالمساحة. انتهى.

وتوجد الآن هذه العلامات المميزة لحدود الحرم المكي فينبغي الانتباه لها.

والله أعلم.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولا يجوز بيع رباع مكة ولا إجارتها لما روى سعيد بن منصور عن مجاهد مرفوعا: رباع مكة حرام بيعها حرام إجارتها، وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده مرفوعا: مكة لا تباع رباعها ولا تخلى بيوتها رواه الأثرم .

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لا ندري كيف نشرح هذا؛ فإن الواقع يخالفها. الآن تباع بأغلى الأثمان وتؤجر بأغلى الأثمان، وارتفعت قيم الإيجار ارتفاعا زائدا، ولم يعمل بهذه الجملة ولم يعمل بهذا الكلام. هي المسألة فيها خلاف، فيرى الإمام أحمد أنها لا تملك، لا تملك البيوت ولا تملك الدكاكين ولا تملك الأراضي، ولا يجوز تأجيرها، ويرى أنك إذا سكنت في بيت مثلا ولو سنة ولم تدفع أجرته، فلا شيء عليك. هكذا يذهب الإمام أحمد ودليله أن النبي صلى الله عليه وسلم فتح مكة عنوة يعني بالقوة وبالغلبة، ولم يقسمها بل تركها وقفا، وحيث إنها أصبحت وقفا فلا يملكها من بنى فيها، الذين بنوا يعتبرون متبرعين يسكنون ماداموا ساكنين، فإذا استغنوا فليس لهم البيع وليس لهم الإيجار إما أن يسكنوا فيها من أرادوا بدون إيجار، وإما أن يمسكوها من اشترى منهم فلا يدفع ثمن، ومن استأجر منهم فلا يدفع أجرة هكذا يرى الإمام أحمد
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
عبد اللہ بن عمر کی روایت ہے:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مکۃ مناخٌ لا تُبَاع ربا عھا و لا تؤ اجر بیوتھا،
”مکّہ مسافروں کے اُترنے کی جگہ ہے، نہ اس کی زمینیں بیچی جائیں اور نہ اس کے مکان کرائے پر چڑھائے جائیں“۔
والحديث في السلسلة الضعيفة والموضوعة بلفظ:
( مكة مناخ ، لا تباع رباعها ، ولا تؤجر بيوتها ) .
قال الشيخ الألباني -رحمه الله -تحت الحديث رقم :4512:
أخرجه الطحاوي في "شرح المعاني" (2/ 223) ، وأبو عبدالله القطان في "حديثه" (ق 181/ 2) ، والدارقطني في "السنن" (313) ، وعنه الديلمي (4/ 69) ، والحاكم (2/ 53) ، والبيهقي (6/ 35) من طريق إسماعيل بن إبراهيم بن مهاجر عن أبيه عن عبدالله بن باباه عن عبدالله بن عمرو مرفوعاً .
وقال الدارقطني :
"إسماعيل بن إبراهيم بن مهاجر ضعيف ، ولم يروه غيره" . وقال البيهقي :
"إسماعيل ضعيف ، وأبوه غير قوي ، واختلف عليه : فروي عنه هكذا .وروي عنه عن أبيه عن مجاهد عن عبدالله بن عمرو مرفوعاً ببعض معناه" .
قلت : وشذ الحاكم فقال :
"صحيح الإسناد" !
فرده الذهبي بقوله :
"قلت : إسماعيل ضعفوه" .
ومن طريقه : أخرجه العقيلي في "الضعفاء" (ص 25) ، ونقل تضعيفه عن ابن معيد . وعن البخاري أنه قال :
"في حديثه نظر" . وقال مرة :
"منكر الحديث" .
فهو عند البخاري شديد الضعف .
وقد روي من طريق أخرى ؛ فقال أبو حنيفة : عن عبيدالله بن أبي زياد (وفي رواية عنه : ابن أبي يزيد) عن أبي نجيح عن عبدالله بن عمرو مرفوعاً به .
أخرجه الدارقطني ، والحاكم ، والبيهقي . وقال الدارقطني :
"كذا رواه أبو حنيفة مرفوعاً . ووهم أيضاً في قوله : عبيدالله بن أبي يزيد ! وإنما هو ابن أبي زياد القداح ، والصحيح أنه موقوف" .
ثم أخرجه هو ، والبيهقي : من طريقين آخرين عن ابن أبي زياد به موقوفاً .
قلت : وهو ضعيف مرفوعاً وموقوفاً :
أما الرفع ؛ لتفرد أبي حنيفة به .
وأما الوقف ؛ فلأن ابن أبي زياد ليس بالقوي كما في "التقريب" . وقال الذهبي في "التلخيص" :
"قلت : عبيدالله لين" .
(تنبيه) : لفظ الحديث عند الطحاوي :
"لا يحل بيع بيوت مكة ، ولا إجارتها" .
واختار الطحاوي خلافه ، وهو مذهب أبي يوسف : أنه لا بأس ببيع أرض مكة وإجارتها ، وأنها في ذلك كسائر البلاد .

قال الشيخ العثيمين-رحمه الله-:دليلهم حديث «رباع مكة حرام بيعها، حرام إجارتها»* ، ولكنه حديث ضعيف لا تقوم به حجة ، وهذا لو عمل الناس به لكان فيه إشكال كبير، لكن فرج الفقهاء الذين يقولون بالتحريم للناس فقالوا: فإن لم يجد ما يسكنه إلا بأجرة لم يأثم بدفعها، والإثم على المؤجر؛ لأنه لا يستحق ذلك...
إلى أن قال رحمه الله:
وقيل: يجوز بيعها وإجارتها وهذا مذهب الشافعي، وحجتهم أن النبي صلى الله عليه وسلم قيل له عام الفتح: أتنزل غدا في دارك؟ فقال: وهل ترك لنا عقيل من دار أو رباع ؟! (أخرجه البخاري ) وعقيل هو الذي ورث أبا طالب، وظاهر هذا الحديث أن بيوت مكة تملك، وإذا ملكت جاز بيعها، وجازت إجارتها، وما ذهب إليه الشافعي وغيره هو الذي نصره الموفق في المغني، وأيده بأدلة كثيرة وقال: إن الصحيح جواز البيع والإجارة في بيوت مكة، والعمل على هذا القول، وأما القول بأنه لا يجوز بيعها ولا إجارتها فهو قول ضعيف...))كتاب البيع من الشرح الممتع على زاد المستقنع للشيخ العثيمين
ـــــــــــــــــــــــــــــ
*:أخرجه الدارقطني (3/57)؛ والحاكم (2/53)؛ والبيهقي (6/35) عن عبد الله بن عمرو ـ رضي الله عنهما ـ وضعفه البيهقي، والذهبي، وصوب الدارقطني وقفه، وروي بلفظ: «مكة لا تباع ولا تكرى بيوتها»، أخرجه الدارقطني (3/58)؛ والحاكم (2/53)؛ والبيهقي (6/35) عن عبد الله بن عمرو ـ رضي الله عنهما ـ وضعفه الدارقطني والبيهقي.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
Room-rent-for-ksa.jpg

خانہ کعبہ کا نظارہ کرنے کیلئے ہوٹل کے مخصوص کمرے کا کرایہ جانتے ہیں کتنا ہے؟
جولائ 1, 2016
مکہ:(آن لائن نیوز):مکہ میں رمضان المبارک کے آخری دس روز میں ( آخری عشرے) میں خانہ کعبہ کا نظارہ کرنے کے لیئے مخصوص کمروں کا کرایہ 70,000 سعودی ریال سے لیکر 20,000سعودی ریال تک لیا جا رہا ہے۔
اس کرائے میں کھانا اور دوسری سہولتیں خاص کر خا نہ کعبہ کی طرف کھلنے والی کھڑکی ہوتی ہے ،جس سے زائرین کو خانہ کعبہ کا نظارہ کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ لیکن وہ کمرے جن سے خانہ کعبہ کا نظارہ نہیں ہو سکتا ان کی قیمتیں بھی37,000ریال سے لیکر 45,000ریال تک وصول کی جارہی ہیں۔
ہوٹل بکنگ ایجنٹ عبداللہ الامیری کے مطابق ہوٹلوں کے ان مخصوص کمروں کی بکنگ رمضان المبارک سے پہلے ہو گئی تھی ۔ ان میں زیادہ تر مغربی اور جنوبی سمت والے کمرے شامل ہیں جہاں سے خانہ کعبہ کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔
ہوٹلوں میںم ان مخصوص کمروں میں بہترین کھانا، اعلیٰ میعار کا فرینچر، اور دوسری سہولیات بھی شامل ہوتی ہیں۔ عبداللہ کے مطابق وہ تمام ہوٹل جن کے کمروں سے خانہ کعبہ کانظارہ کیا جاسکتا ہے ۔ ان کو کرائے بڑھانے پر کسی بھی طرح کا جرمانہ نہیں کیا جاسکتا۔ چاہے وہ جتنا بھی کرایہ وصول کر لیں۔
اگر دو افراد والے کمرے میں ایک اور فرد کا اضافہ ہو تو اس کے بیڈ کا دس دن کا کرایہ 5,000ریال الگ دینا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ افراد نے اب سے ہی ان کمروں کو ایک اگلے سال رمضان المبارک کے دس دن کے لیئے بک کروایا ہوا ہے
خبر کا لنک
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
ابراہیم نَخعی کی مُرسَل روایت ہے:
حضور ؐ نے فرمایا: مکۃ حرمھا اللہ لا یحل بیع رباعھا ولا اجارۃ بیوتھا،
”مکّہ کو اللہ نے حرم قرار دیا ہے ، اس کی زمین کو بیچنا اور اس کے مکانوں کا کرایہ وصول کرنا حلال نہیں ہے“۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں یہ روایت جناب مجاہدؒ سے مرسلاً مروی ہے
أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«مَكَّةُ حَرَمٌ حَرَّمَهَا اللَّهُ، لَا يَحِلُّ بَيْعُ رِبَاعِهَا، وَلَا إِجَارَةُ بُيُوتِهَا»
هذا الحديث مرسل رجاله رجال الشيخين
سنده على شرط الشيخين إلى مجاهد الذي رفعه

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
حضور ؐ نے فرمایا: مکۃ حرمھا اللہ لا یحل بیع رباعھا ولا اجارۃ بیوتھا،
”مکّہ کو اللہ نے حرم قرار دیا ہے ، اس کی زمین کو بیچنا اور اس کے مکانوں کا کرایہ وصول کرنا حلال نہیں ہے“۔
سنن البیہقی اور سنن الدار قطنی میں یہی الفاظ مرفوعاًبھی موجود ہیں لیکن اس کی سند کمزور ہے
رواه البيهقي والدارقطني والحاكم من طريق إسماعيل بن إبراهيم بن مهاجر عن أبيه عن عبد الله بن باباه عن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : مكة مناخ لا تباع رباعها ولا تؤاجر بيوتها

في إسناده إسماعيل بن إبراهيم بن مهاجر ضعيف
أبوه صدوق من رجال مسلم
 
Top