ایک اداکارہ نے اپنے شوہر سے حق مہر میں صلاۃ فجر پڑھنے کا مطالبہ کیا ہے. اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟؟؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حق مہر کی تعریف یہ ہے :
المهر في اللغة: صداق المرأة؛ وهو: ما يدفعه الزوج إلى زوجته بعقد الزواج؛ والجمع مهور ومهورة.( الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ )جلد ۳۹ ‘‘
مہر صداق کو کہتے ہیں ، اور خاوند اپنی بیوی کو عقد کے سبب جو چیز دے اسے مہر کہا جاتا ہے ، جسکی جمع مہور اور مہورۃ ہے
قرآن مجید میں حکم ہے کہ :
وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَرِيئًا (سورۃ النساء ۔4)
ترجمہ : اور عوتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو، ہاں اگر وه خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھا لو۔ (4)
تو عقد نکاح کے عوض ، سبب جو عورت کو خاوند دے ، اسے مہر کہتے ہیں
اب یہ دینے کی چیز دنیاوی مال و متاع قسم سے ہو ، یا معنوی صورت یعنی علم و تعلیم ہو ، وہ مہر ہی ہوگا ،
مثلاً ایک صحابی کا نکاح نبی مکرم ﷺ نے قرآن پڑھانے کے عوض منعقد فرمایا
صحیح بخاری میں ہے :
عن سهل بن سعد الساعدي، قال: جاءت امرأة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم [ص:7]، فقالت: يا رسول الله، جئت أهب لك نفسي، قال: فنظر إليها رسول الله صلى الله عليه وسلم فصعد النظر فيها وصوبه، ثم طأطأ رسول الله صلى الله عليه وسلم رأسه، فلما رأت المرأة أنه لم يقض فيها شيئا جلست، فقام رجل من أصحابه، فقال: يا رسول الله، إن لم يكن لك بها حاجة فزوجنيها، فقال: «وهل عندك من شيء؟» قال: لا والله يا رسول الله، فقال: «اذهب إلى أهلك فانظر هل تجد شيئا» ، فذهب ثم رجع، فقال: لا والله ما وجدت شيئا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «انظر ولو خاتما من حديد» ، فذهب ثم رجع، فقال: لا والله يا رسول الله ولا خاتما من حديد، ولكن هذا إزاري - قال سهل: ما له رداء - فلها نصفه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما تصنع بإزارك إن لبسته لم يكن عليها منه شيء، وإن لبسته لم يكن عليك منه شيء» ، فجلس الرجل حتى إذا طال مجلسه قام، فرآه رسول الله صلى الله عليه وسلم موليا، فأمر به فدعي، فلما جاء قال: «ماذا معك من القرآن» . قال: معي سورة كذا وسورة كذا، عددها، فقال: «تقرؤهن عن ظهر قلبك» قال: نعم، قال: «اذهب فقد ملكتكها بما معك من القرآن»
جناب سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں آپ کی خدمت میں اپنے آپ کو آپ کے لیے وقف کرنے حاضر ہوئی ہوں۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ پھر آپ نے نظر کو نیچی کر لیا اور پھر اپنا سر جھکا لیا۔ جب اس عورت نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں فرمایا تو وہ بیٹھ گئی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر آپ کو ان سے نکاح کی ضرورت نہیں ہے تو ان سے میرا نکاح کر دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس (مہر کے لیے) کوئی چیز ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں، اللہ کی قسم، یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اپنے گھر جاؤ اور دیکھو ممکن ہے تمہیں کوئی چیز مل جائے۔ وہ گئے اور واپس آ گئے اور عرض کیا: اللہ کی قسم! میں نے کچھ نہیں پایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر لوہے کی ایک انگوٹھی بھی مل جائے تو لے آؤ۔ وہ گئے اور واپس آ گئے اور عرض کیا: اللہ کی قسم، یا رسول اللہ! میرے پاس لوہے کی ایک انگوٹھی بھی نہیں البتہ میرے پاس ایک تہمد ہے۔ انہیں (خاتون کو) اس میں سے آدھا دے دیجئیے۔ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان کے پاس چادر بھی نہیں تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تمہارے اس تہمد کا کیا کرے گی۔ اگر تم اسے پہنو گے تو ان کے لیے اس میں سے کچھ نہیں بچے گا اور اگر وہ پہن لے تو تمہارے لیے کچھ نہیں رہے گا۔ اس کے بعد وہ صحابی بیٹھ گئے۔ کافی دیر تک بیٹھے رہنے کے بعد جب وہ کھڑے ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا کہ وہ واپس جا رہے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلوایا جب وہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہیں قرآن مجید کتنا یاد ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ انہوں نے گن کر بتائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم انہیں بغیر دیکھے پڑھ سکتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر جاؤ۔ میں نے انہیں تمہارے نکاح میں دیا۔ ان سورتوں کے بدلے جو تمہیں یاد ہیں۔»
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلاصہ یہ کہ مہر میں عورت کو کچھ دینا پڑے گا ، خواہ وہ مال ہو
(آتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ)، خواہ علم ہو ،
(بما معك من القرآن )
اور نماز وغیرہ اعمال صالحہ ادا کرنے کی نکاح میں شرط تو رکھی جاسکتی ہے لیکن وہ حق مہر نہیں بن سکتے ،
کیونکہ وہ اپنے اعمال صالحہ عورت کو ’’ دے ‘‘ نہیں رہا ،
واللہ اعلم