محدث میڈیا
رکن
- شمولیت
- مارچ 02، 2023
- پیغامات
- 879
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 69
میت کو غسل دینا فرض کفایہ ہے ۔
سيدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص اپنے اونٹ سے گر گیا۔ اس کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ فوت ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْهِ، وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ، فَإِنَّ اللهَ يَبْعَثُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا
’’اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اسی کے دونوں کپڑوں (احرا م کی دو نوں چادروں) میں اسے کفن دو اس کا سر نہ ڈھانپو۔ بلا شبہ اللہ تعا لیٰ اسے قیامت کے دن اس حال میں اٹھا ئے گا کہ وہ تلبیہ پکار رہا ہو گا۔‘‘ (صحيح مسلم: 1206)
اگر عورت کا بچہ گر جائے اور حمل کو چار ماہ سے زیادہ مدت ہو چکی ہو تو اس کو غسل بھی دیا جائے گا اور اس کا جنازہ بھی پڑھا جائے گا، کیونکہ اس میں روح پھونکی جاچکی ہے۔ اگر چار ماہ سے کم مدت ہو تو نہ اسے غسل دیا جائے گا اور نہ ہی اس کا جنازہ پڑھا جائے گا، اسے کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیا جائے گا، کیونکہ اس میں روح نہیں پھونکی گئی وہ جمادات کی طرح ہے۔
میدان جنگ میں شہید ہونے والے کو غسل نہیں دیا جائے گا۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہدا احد کے متعلق فرمایا :
لَا تُغَسِّلُوهُمْ فَإِنَّ كُلَّ جُرْحٍ أَوْ كُلَّ دَمٍ يَفُوحُ مِسْكًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِمْ
انہیں غسل مت دو کیونکہ قیامت کے دن ان کے ہر زخم اور خون سے مشک آرہی ہوگی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھائی۔ (مسند احمد: 14189)
افضل اور بہتر یہ ہے کہ میت کا قریبی ترین رشتے دار اسے غسل دے اگر وہ تجربہ کار ہو ، غسل کے سنت طریقہ سے واقف ہو، نیک اور پارسا ہو جو میت پر پردہ ڈالے اور اس کے رازوں کو فاش نہ کرے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ او رآپ کے قریبی رشتے داروں نے غسل دیا تھا۔ (سنن ابن ماجہ: 1467)
سيدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص اپنے اونٹ سے گر گیا۔ اس کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ فوت ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْهِ، وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ، فَإِنَّ اللهَ يَبْعَثُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا
’’اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اسی کے دونوں کپڑوں (احرا م کی دو نوں چادروں) میں اسے کفن دو اس کا سر نہ ڈھانپو۔ بلا شبہ اللہ تعا لیٰ اسے قیامت کے دن اس حال میں اٹھا ئے گا کہ وہ تلبیہ پکار رہا ہو گا۔‘‘ (صحيح مسلم: 1206)
اگر عورت کا بچہ گر جائے اور حمل کو چار ماہ سے زیادہ مدت ہو چکی ہو تو اس کو غسل بھی دیا جائے گا اور اس کا جنازہ بھی پڑھا جائے گا، کیونکہ اس میں روح پھونکی جاچکی ہے۔ اگر چار ماہ سے کم مدت ہو تو نہ اسے غسل دیا جائے گا اور نہ ہی اس کا جنازہ پڑھا جائے گا، اسے کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیا جائے گا، کیونکہ اس میں روح نہیں پھونکی گئی وہ جمادات کی طرح ہے۔
میدان جنگ میں شہید ہونے والے کو غسل نہیں دیا جائے گا۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہدا احد کے متعلق فرمایا :
لَا تُغَسِّلُوهُمْ فَإِنَّ كُلَّ جُرْحٍ أَوْ كُلَّ دَمٍ يَفُوحُ مِسْكًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِمْ
انہیں غسل مت دو کیونکہ قیامت کے دن ان کے ہر زخم اور خون سے مشک آرہی ہوگی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھائی۔ (مسند احمد: 14189)
افضل اور بہتر یہ ہے کہ میت کا قریبی ترین رشتے دار اسے غسل دے اگر وہ تجربہ کار ہو ، غسل کے سنت طریقہ سے واقف ہو، نیک اور پارسا ہو جو میت پر پردہ ڈالے اور اس کے رازوں کو فاش نہ کرے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ او رآپ کے قریبی رشتے داروں نے غسل دیا تھا۔ (سنن ابن ماجہ: 1467)