• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میت کیلئے تلاوت اور نفلی نماز کا ایصال ثواب

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
ذاتی پیغام (ان باکس ) میں محترم بھائی @محمد عامر یونس نے سوال کیا ہے کہ :
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
شیخ محترم کسی بھائی نے سوال پوچھا ہے
اسلام وعلیکم بھای صاحب ، " سوال - شوہر مرنے کے بعد کیا بیوی اپنے شوہر کے لیے ثواب کی نیت سے نفل یا کوئی اور صدقہ و خیرات کرسکتی ہے کہ میری شوہر کو ثواب ملے یا شوہر بیوی کے لیے کرسکتا ہے ؟ جواب قرآن حدیث سے دینا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میت کو ایصال ثواب
مومن میت کیلئے دعاء تو قرآن و حدیث سے ثابت ہے ،
اور دعاء کے علاوہ دیگر وہ اعمال جو مردوں کیلئے مفید اور فائدہ مند ہیں درج ذیل احادیث میں دیکھ لیجئے :

عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة: إلا من صدقة جارية، أو علم ينتفع به، أو ولد صالح يدعو له "(صحیح مسلم ،کتاب الوصیۃ )
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب انسان مر جاتا ہے ، تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے۔ ایک صدقہ جاریہ کا۔ دوسرے علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔ تیسرے نیک بخت اولاد جو دعا کرے اس کے لیے۔“ (صحیح مسلم)
اس حدیث میں وہ جاریہ نیکیاں بیان کی گئی ہیں ، جو مرنے والا خود اپنی زندگی میں کرتا ہے ،اور ان کا ثواب و اجر اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے ۔

عن ابي هريرة ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ "إن مما يلحق المؤمن من عمله، ‏‏‏‏‏‏وحسناته بعد موته، ‏‏‏‏‏‏علما علمه ونشره، ‏‏‏‏‏‏وولدا صالحا تركه، ‏‏‏‏‏‏ومصحفا ورثه، ‏‏‏‏‏‏او مسجدا بناه، ‏‏‏‏‏‏او بيتا لابن السبيل بناه، ‏‏‏‏‏‏او نهرا اجراه، ‏‏‏‏‏‏او صدقة اخرجها من ماله في صحته وحياته يلحقه من بعد موته".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کو اس کے اعمال اور نیکیوں میں سے اس کے مرنے کے بعد جن چیزوں کا ثواب پہنچتا رہتا ہے وہ یہ ہیں: علم جو اس نے سکھایا اور پھیلایا، نیک اور صالح اولاد جو چھوڑ گیا، وراثت میں قرآن مجید چھوڑ گیا، کوئی مسجد بنا گیا، یا مسافروں کے لیے کوئی مسافر خانہ بنوا دیا ہو، یا کوئی نہر جاری کر گیا، یا زندگی اور صحت و تندرستی کی حالت میں اپنے مال سے کوئی صدقہ نکالا ہو، تو اس کا ثواب اس کے مرنے کے بعد بھی اسے ملتا رہے گا“۔
سنن ابن ماجہ 242، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الوصایا ۱۴ (۲۸۸۰)، مسند احمد (۲/۳۷۲)، سنن الدارمی/المقدمة ۴۶ (۵۷۸) ()
[تعليق محمد فؤاد عبد الباقي]نقل عن ابن المنذر انه قال إسناده حسن ، وقال الالباني :حسن

اور علامہ سیوطیؒ شرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں کہ :
وَقد تحصل من هَذِه الْأَحَادِيث أحد عشر أمرا وَقد نظمتها وَقلت إِذا مَاتَ بن آدم لَيْسَ يجْرِي عَلَيْهِ من فعال غير عشر عُلُوم بثها وَدُعَاء نجل وغرس النّخل وَالصَّدقَات تجْرِي وراثة مصحف ورباط ثغر وحفر الْبِئْر أَو إِجْرَاء نهر وَبَيت للغريب بناه يأوي إِلَيْهِ أَو بِنَاء مَحل ذكر وَتَعْلِيم لقرآن كريم فَخذهَا من أَحَادِيث بحصر
(شرح السیوطی علی مسلم4/228)
یعنی احادیث نبویہ سے ثابت ہوتا ہے کہ درج ذیل گیارہ چیزوں کا اجر و ثواب میت کو ملتا ہے ؛
1:مرنے والا خود اپنی زندگی میں ایسا علم پھیلا جائے جس سے دوسروں کو فائدہ پہنچے
2:نیک اورصالح اولاد کی دعاء
3:کھجور کا درخت لگاجائےجس سے دوسرے مستفید ہوتے رہیں
4:یا صدقہ جاریہ کرجائے ،
5: مصحف قرآن پاک چھوڑ جائےجو وراثتاًمنتقل ہوتارہے
6:سرحد کی نگرانی
7:کنواں کھدوا جائےجس سے ضرورت مندوں کوپانی ملتارہے
8:نہرجاری کروائے
8:سرائے تعمیر کروا جائےجس سے مسافروں کو فائدہ ہو
9ذکرکیلئے کوئی عمارت تعمیر کرجائے
10:قرآن پاک کی تعلیم کیلئے مدرسہ بنادینا
11:مسجد بنادینا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو دعاء کے علاوہ یہ سارے اعمال خود میت کے اپنے ہیں جو اس نے اپنی زندگی میں کئے اور بعد از وفات بھی اس کیلئے ذریعہ اجر و ثواب بنتے ہیں ؛
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اور مردے کیلئے زندوں کی طرف مفید اعمال جیسے کہ حدیث شریف :
عن أبي هريرة رضي الله عنه ، قال : قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْه ِ وَ سَلَّمَ : إِنَّ الرَّجُلَ لَتُرْفَعُ دَرَجَتُهُ فِي الْجَنَّةِ فَيَقُولُ : أَنَّى هَذَا ؟ فَيُقَالُ :باسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ »
(سنن ابن ماجه 3600 بسند صحیح)
[تعليق محمد فؤاد عبد الباقي] في الزوائد إسناده صحيح. رجاله ثقات
کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
کسی شخص کا مرنے کے بعد درجہ بلند کردیاجاتاہے وہ پوچھتاہے کہ اے اللہ میرادرجہ اوررتبہ بلند کردیاگیا ،اس کی کیاوجہ ہے توجواب ملتاہے کہ تمہاری اولاد نے تمہارے لئے دعاء اوراستغفار کا ہدیہ بھیجاہے اوریہ اسی کا ثمرہ ہے۔ ))
٭٭٭
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور تلاوت اور نماز کا اجر و ثواب میت کو پہنچانا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ؛

مولانا عبد الرحمن صاحب محدث مبارکپوری رحمہ اللہ نے کتاب الجنائز، ص: 107 – 108 میں تحریر فرمایا ہے کہ :
تلاوت قرآن اور نماز ، روزہ وغیرہ کا ثواب میت کو پہنچنا کسی حدیث صحیح سے ثابت نہیں اور جو روایتیں عبادات بدنیہ کا ثواب پہنچنے کے بارے میں نقل کی جاتی ہے وہ ضعیف ہیں۔ نیز فرمایا کہ اکثر احناف میں ثواب رسانی کی یہ صورت بہت جاری ہے کہ کسی حافظ کونوکر رکھ کر یا کچھ اجرت دے کر میت کے واسطے قرآن پڑھاتے ہیں سو اس صورت سے میت کو ثواب نہیں پہنچتا ہے ۔ فقہائے حنفیہ لکھتے ہیں کہ: اس صورت میں نہ میت کو ثواب پہنچتا ہے اور نہ قرآن پڑھنے والے اور پڑھانے والے کو ثواب ملتا ہے بلکہ یہ پڑھنے والے اور پڑھانے والے دونوں گنہگار ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ صاحب مبارکپوری رحمہ اللہ مرعاۃ 5 / 453 میں لکھتے ہیں کہ:
"وإليه يميل قلبي، فإنه لم يقم على إهداء ثواب القراءة دليل شرعي لا من قرآن ولا من سنة صريحة صحيحة ولا من إجماع، ولا يكفي في مثل هذه المسألة حديث ضعيف أو أثر صحابي فضلاً عن القياس أو أثر التابعي ومن دونه. وقد صرح ابن القيم الذي هو قائل بوصول ثواب القراءة إلى الميت بأنه لم يصح عن السلف شيء في ذلك"
یعنی قرآن پڑھ کر میت کو ثواب پہنچانے کے بارے میں کوئی دلیل شرعی موجود نہیں ہے اس کا ثبوت نہ قرآن سے ہے اور نہ کسی صریح حدیث سے اور نہ اجماع سے اور اس جیسے مسئلہ میں ضعیف حدیث یا اثر صحابی یا قیاس کفایت نہیں کر سکتا، حافظ ابن القیم جو میت کو ثواب رسانی کے قائل ہیں وہ فرماتے ہیں کہ:’’ سلف سے اس سلسلہ میں کچھ بھی صحیح منقول نہیں ہے‘‘۔

٭٭٭شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں :
" فلم يكن من عادة السلف إذا صلوا تطوعا وصاموا وحجوا أو قرءوا القرآن يهدون ثواب ذلك لموتاهم المسلمين ولا لخصوصهم بل كان عادتهم كما تقدم فلا ينبغي للناس أن يعدلوا عن طريق السلف فإنه أفضل وأكمل والله أعلم.
‘‘( مجموع الفتاویٰ 24 / 323، مرعاۃ 5 / 354)
(الاختيارات الفقهية ،جلد 1 ص448 )
یعنی سلف کی یہ طریقہ نہ تھا کہ وہ جب نفل نماز ادا کر تے اور روزہ رکھتے اور حج کر تے اور قرآن کی تلاوت کر تے تو وہ اس کے ثواب کو اپنے مردے مسلمان کیلئے ہدیہ بھی کرتے ہوں اس لئے لوگوں کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ سلف کی اس روش سے روگردانی کریں کیونکہ ان کا طریقہ ہی افضل اور کامل ترین ہے۔"

مشہور مفسر علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس بارے میں سورہ نجم کی آیت : {وأن لیس للإنسان إلا ما سعی} کی تفسیر میں بہت اہم رہنمائی فرمائی ہے لکھتے ہیں :
{وأن ليس للإنسان إلا ما سعى} أي: كما لا يحمل عليه وزر غيره، كذلك لا يحصل من الأجر إلا ما كسب هو لنفسه. ومن وهذه الآية الكريمة استنبط الشافعي، رحمه الله، ومن اتبعه أن القراءة لا يصل إهداء ثوابها إلى الموتى؛ لأنه ليس من عملهم ولا كسبهم؛ ولهذا لم يندب إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم أمته ولا حثهم عليه، ولا أرشدهم إليه بنص ولا إيماء، ولم ينقل ذلك عن أحد من الصحابة، رضي الله عنهم، ولو كان خيرا لسبقونا إليه، وباب القربات يقتصر فيه على النصوص، ولا يتصرف فيه بأنواع الأقيسة والآراء، فأما الدعاء والصدقة فذاك مجمع على وصولهما، ومنصوص من الشارع عليهما. ‘‘ (تفسیر ابن کثیر 4 / 328)
یعنی جس طرح کوئی کسی دوسرے کے گناہ کا ذمہ دار نہ ہوگا اسی طرح اسے آخرت میں اجر بھی انہی چیزوں کا ملے گا جن میں ان کی اپنی محنت ہوگی۔
اس آیت کریمہ سے امام شافعیؒ اور ان کے متبعین نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ قرآن خوانی کا ثواب مردوں کو پہنچایا جائے تو پہنچتا ہی نہیں اس لئے کہ یہ تو نہ ان کا عمل ہے نہ کسب ومحنت، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو مردوں کے لئے قرآن خوانی کی ترغیب دی نہ کسی نص یا اشارۃ النص سے اس کی طرح رہنمائی فرمائی۔ اس طرح صحابہ کرام سے بھی یہ منقول نہیں۔ اگر یہ عمل خیر ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ضرور اختیار کرتے اور عبادات وقربات کے لئے نص کا ہونا ضروری ہے اس میں رائے وقیاس نہیں چل سکتا، البتہ دعاء صدقہ اور خیرات کا ثواب مردوں کو پہنچتا ہے اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے کیونکہ یہ شارع کی طرف سے منصوص ہے۔
ــــــــــــــــــــــ
اور سعودی عرب کے انتہائی جید علماء کی کمیٹی (اللجنۃ الدائمۃ ) نے اس مسئلہ پر فتویٰ دیا ہے کہ:
فتاوی لجنۃ دائمۃ 9 / 42 میں ایک سوال و جواب یوں درج ہے:
السؤال: هل يصل ثواب قراءة القرآن وأنواع القربات إلى الميت؟ سواء من أولاده أو من غيرهم؟
الجواب: لم يثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم فيما نعلم - أنه قرأ القرآن ووهب ثوابه للأموات من أقربائه أو من غيرهم، ولو كان ثوابه يصل إليهم لحرص عليه، وبينه لأمته لينفعوا به موتاهم، فإنه عليه الصلاة والسلام بالمؤمنين رؤوف رحيم، وقد سار الخلفاء الراشدون من بعده وسائر أصحابه على هديه في ذلك، رضي الله عنهم، ولا نعلم أن أحدا منهم أهدى ثواب القرآن لغيره، والخير كل الخير في اتباع هديه صلى الله عليه وسلم وهدي خلفائه الراشدين وسائر الصحابة رضي الله عنهم، والشر في اتباع البدع ومحدثات الأمور؛ لتحذير النبي صلى الله عليه وسلم من ذلك بقوله: «إياكم ومحدثات الأمور فإن كل محدثة بدعة، وكل بدعة ضلالة ( سنن أبو داود السنة (4607) ، سنن الدارمي المقدمة (95)) » ، وقوله: «من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد (صحيح البخاري الصلح (2697) ، صحيح مسلم الأقضية (1718) ، سنن أبو داود السنة (4606) ، سنن ابن ماجه المقدمة (14) ، مسند أحمد بن حنبل (6/256) .) » وعلى هذا لا تجوز قراءة القرآن للميت، ولا يصل إليه ثواب هذه القراءة بل ذلك بدعة.
أما أنواع القربات الأخرى فما دل دليل صحيح على وصول ثوابه إلى الميت وجب قبوله، كالصدقة عنه والدعاء له والحج عنه وما لم يثبت فيه دليل فهو غير مشروع حتى يقوم عليه الدليل. وعلى هذا لا تجوز قراءة القرآن للميت ولا يصل إليه ثواب هذه القراءة في أصح قولي العلماء، بل ذلك بدعة.
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء

اس سوال و جواب کا ترجمہ :
سوال: یعنی کیا میت کی اولاد یا ان کے علاوہ دوسروں کی طرف سے قرأت قرآن کریم اور دوسری انواع قربات (نیکیوں ) کا ثواب میت کو پہنچتا ہے ۔
جواب:
ہمارے مبلغ علم کے مطابق نبی کریم ﷺ سے یہ ثابت ہی نہیں کہ انہوں نے قرآن کریم کی تلاوت کر کے اس کا ثواب اپنے اعزاء واقرباء یا ان کے علاوہ دوسرے مردوں کو ہبہ کیا ہواگر اس کا ثواب ان تک پہونچتا تو ضرور کر تے اور اپنی امت کو بتاتے تاکہ وہ بھی اس کے ذریعہ اپنے مردوں کو فائدہ پہنچاتے، اس لئے کہ نبی کریم ﷺ تمام مومنوں پر نہایت شفیق اور مہربان ہیں، آپ ﷺ کے بعد خلفائے راشدین اور جمیع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کی اس روش اور طریقہ پر گامزن رہے ۔ ہم نہیں جانتے کہ ان میں سے کسی نے قرآن کریم کا ثواب دوسرے کو ہبہ کیا ہو اور ہر نوع کی خیر وبھلائی نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین اور تمام صحابہ کرام کے طریقے کی اتباع وپیروی میں ہے اور ہر طرح کی برائی بدعات وخرافات اور نئی چیزوں کی پیروی میں ہے۔ اس لئے کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے منع کیا ہے :
فرمایا کہ تم نئی ایجادات سے بچو کیونکہ ہرنئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اورآپ نے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا کہ
’’جس نے ہماری اس شریعت میں ایسی چیز پیدا کی جو اس میں نہیں وہ قابل رد ہے ان نصوص کی بنیاد پر میت کے لئے قرآن خوانی جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس کی قرأت کا ثبوت میت کو پہنچے گا بلکہ یہ تو بدعت ہے۔
اور جہاں تک دوسری قربات وعبادات کی بات ہے تو ان کے ثواب میت کو پہنچنے کے سلسلے میں اگر کوئی دلیل صحیح وارد ہو تو اس کو قبول کرنا ضروری ہے جیسے میت کی طرف سے صدقہ کر نا ۔ اس کے لئے دعاء کرنا ، اس کی طرف سے حج کر نا اور جس کے بارے میں کوئی دلیل صحیح وارد نہ ہو وہ غیر مشروع رہے گی یہاں تک کہ اس پر کوئی دلیل وحجت قائم ہوجائے، اسی وجہ سے مردہ کے لئے قرآن خوانی اور اس کیلئے ثواب رسانی علماء کرام سے صحیح ترین قول کے مطابق صحیح نہیں ہے بلکہ یہ بدعت ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازؒ کا فتوی ہے کہ :

حكم إهداء ثواب الصلاة للميت
السؤال: رسالة من السودان الخرطوم باعثها أخونا كمال علي محمد الكروق فيما يبدو أخونا يقول: منذ أن توفيت والدته وهو يصلي لها ركعتين؛ كأنه يريد أنه يصلي عنها نيابة سماحة الشيخ، ويسأل: هل عمله هذا صحيح أم لا؟

سوال : ایک آدمی اپنی والدہ کیلئے جب سے وہ فوت ہوئی ہیں دو رکعت نماز پڑھتا ہے ،کیا اس کا یہ عمل شرعاً صحیح ہے یا نہیں؟


الجواب:
لا، ليس بصحيح، المشروع الدعاء لها، والترحم عليها، والصدقة عنها، أو الحج عنها، أو العمرة لا بأس، أما الصلاة لها لا، لم يشرع لنا أن نصلي عن الأموات، ولكن الحج لا بأس، العمرة لا بأس، الصدقة كل هذا مشروع، والدعاء والترحم عليهم
كما قال النبي ﷺ: إذا مات ابن آدم انقطع عمله إلا من ثلاث: صدقة جارية، أو علم ينتفع به، أو ولد صالح يدعو له ما قال: يصلي له، قال: يدعو له، فتدعو لوالدتك، تستغفر لها، وتسأل الله لها الرحمة والمنزلة العالية في الجنة، وغفران الذنوب، تتصدق عنها مما تيسر من الطعام من النقود من الملابس على الفقراء والمحاويج كل هذا طيب.

https://binbaz.org.sa/fatwas/6318/
ترجمہ :
فوت شدہ والدہ کیلئے نفل نماز پڑھنا درست نہیں، شریعت نے میت کیلئے میت کیلئے دعاء اور صدقہ دینے کی صورت رکھی ہے ،اور اس کی طرف سے حج و عمرہ کرنے کی اجازت دی ہے ،جہاں تک نماز کا سوال ہے تو شریعت اسلامیہ میں فوت شدہ لوگوں کیلئے نماز پڑھنے کا ثبوت نہیں ،ہاں اس کی طرف سے حج اور عمرہ کرنے صحیح ہے ،اور صدقہ و دعاء کی صورت مشروع ہے ،اور جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مر جاتا ہے آدمی تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے۔ ایک صدقہ جاریہ کا۔ دوسرے علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔ تیسرے نیک بخت بچے کا جو دعا کرے اس کے لیے۔“(صحیح مسلم )
یعنی اس کیلئے نماز پڑھنے کا نہیں فرمایا ،بلکہ دعاء کا بتایا ہے ،توآپ اپنی والدہ کیلئے دعاء و استغفار کیا کیجئے ، ان کیلئے رحمت اور جنت میں اعلی مقام کی دعاء کیا کریں ،اور ان کیلئے محتاجوں کو کھانا کھلا ئیں غریبوں میں کپڑے تقسیم کریں اور نقدی کی صورت صدقہ دیا کریں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
Top