ابویوسف محمد حماد قریشی
مبتدی
- شمولیت
- دسمبر 11، 2020
- پیغامات
- 2
- ری ایکشن اسکور
- 1
- پوائنٹ
- 17
مجھے حیرت ہوئی یہ بورڈ پڑھ کر گویا میرا جسم میری مرضی کی وضاحت میں یہ مزید چار باتیں لکھی گئی ہیں جبکہ اس کو حقیقت کے تناظر میں دیکھیں تو ایسا ممکن ہو نہیں سکتا اور اگر ہو بھی تو اس کا نقصان اس کے فائدے سے کافی بڑھ کر ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر پہلی بات تو یہی لے لیں کہ "میرا جسم میری مرضی" کیا ایسا ممکن ہے؟
کیا جسم واقعی ہمارا ہے اور اگر ہے تو کیا اس پر ہماری اپنی مرضی چل سکتی ہے؟
اگر ایسا ہوتا تو کبھی کوئی شخص کسی جسمانی بیماری کا شکار نہیں ہوتا کبھی کوئی کام اس کی مرضی کے خلاف نہیں ہوتا، انسان چاہتا تو خود کو بوڑھا ہونے سے روک لیتا، خود کو کبھی حالات کے ہاتھوں مجبور نہیں پاتا، ہوا ہمیشہ اس کے موافق رہتی لیکن آج کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ انسان چاہ کر بھی اپنے وجود پر اپنی مرضی نہیں چلا سکتا۔ اس بے بس و کمزور مخلوق کو یہ غلط فہمی کہاں سے پیدا ہوگئ؟
اور اسی بات کے ساتھ "میرے اعضاء میری مرضی"
کیا انسان اپنے اعضاء کی درستی پر بھی قادر ہے؟
انسان کو تو جو بھی کچھ دیا گیا ہے وہ تو خالق کی عطا ہے اس ملی ہوئی چیز پر اتنا غرور اس کو کہاں سے پیدا ہوا؟
اس سے بھی مزید آگے کہ "میرا حمل میری مرضی"
کیا حمل واقعی تمہارا ہے اگر حمل پر انسان کی واقعی مرضی ہوتی تو دنیا میں کوئی بانجھ نہیں رہتا، کوئی اولاد جیسی عظیم نعمت سے محروم نہیں رہتا، یہ محرومیاں اس بات کا درس دیتی ہے کہ انسان اس پر قادر نہیں ہے جس کو اللہ تعالی اس طرح بیان فرماتا ہے:
تو کیا تم نے دیکھا کہ جو نطفہ تم ٹپکاتے ہو؟ کیا اس کا (انسان) تم بناتے ہو یا پیدا کرنے والے ہم ہی ہیں؟ (سورۃ الواقعہ 58/59)
یا پھرکہیں اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ "میرا حمل میری مرضی" چاہوں اسے رکھوں، چاہے ضائع کر دوں۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اب جہاں تک "میری شادی میری مرضی" کی بات ہے تو اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ شادی کرنے سے پہلے لڑکی کی مرضی پوچھ لی جائے اور زبردستی شادی نہ کی جائے۔ اگر اس نعرہ کا مطلب یہ ہے تو قابل قبول ہے مگر اس کا اصل مطلب یہ نہیں ہے بلکہ لڑکی شادی سے پہلے خود لڑکے کو پسند کرے اور پھر اپنے گھر والوں سے اس کے لئے ضد کرےاور اگر وہ نہ مانیں تو پھر لڑکے کے ساتھ گھر سے بھاگ جائے جائے، اور میں کوئی فرضی بات نہیں کر رہا بلکہ اگر آپ اپنے اردگرد ماحول کا مشاہدہ کریں تو آپ اس پہلو کو بخوبی دیکھ سکیں گے۔ میڈیا پر یا عدالتوں کے چکر لگا کر دیکھیں آپ کو گویا یوں محسوس ہوگا کہ ہر دس میں سے دو لڑکیاں اپنی پسند سے اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف بھاگ کر شادی کر رہی ہیں اور ایک اور بات یہاں آپ کی اطلاع کے لئے عرض کرتاچلوں کہ یہی شادی کچھ وقت بعد ہی ٹوٹ جاتی ہے جس کی صرف کراچی کی شرح ہر سال 12040 بارہ ہزار چالیس ہے۔ اس میں زیادہ تر پسند کی شادیاں ہیں اور کامیاب شادی کی شرح میں وہ شادیاں زیادہ ہیں جو گھر والوں کی پسند اور ان کی بھی رضا مندی سے ہوتی ہے۔
اور جہاں تک "میری عدت میری مرضی" کا تعلق ہے تو جب ایک خاتون نے کرنی ہی اپنی مرضی ہے تو وہ پھر وہ عدت بھی کیوں کرے؟ کیونکہ عدت تو ایک شرعی حکم ہے اس کے لیے اپنے قواعد و ضوابط ہیں۔ جب اپنے خالق کے بنائے ہوئے قوانین پسند نہیں تو اپنی مرضی کی عدت گزار کر کس کو بیوقوف بنانا چاہ رہی ہیں؟
اسلام نے جتنے اچھے طریقے سے عدت گزارنے کے احکامات بیان کئے ہیں اس کے بعد تو ان عورتوں کو شکرگزار ہونا چاہیے بلکہ شکرگزار ہونا تو درکنار یہ اسی مذہب پر تنقید کر رہی ہیں۔ ایسی عورتوں کے لئے دور جہالت کی حدود درست تھی کہ جب وہ ایک بیوہ کو ایک سال کے لئے شہر سے باہر جنگل میں چھوڑ دیتے جہاں وہ نہ نہاسکتی، نہ پاکی حاصل کر سکتی بلکہ اس عدت میں اس کی حالت ایسی ہو جاتی تھی کہ اگر وہ کسی جانور پر ہاتھ رکھ دے تو وہ جانور مر جائے، یا ایسی عورتوں کو وہاں بھیج دیا جائے جہاں آج بھی اگر شوہر مر جائے تو اس کی بیوی کو بھی اس کے ساتھ ہی دفن کر دیا جاتا ہے وہ بھی زندہ۔
افسوس صد افسوس! کہ جس اسلام نے انہیں زندگی بخشی آج اسی پر یہ برہم ہیں۔
ازقلم:
ابو یوسف محمد حماد بن جاوید قریشی