• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میری دعا ہے تیری آرزو بدل جائے

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
میری دعا ہے تیری آرزو بدل جائے

محمد نوید شاہین ایڈووکیٹ​
25 ستمبر 2011ء کو ARY News کے پروگرام Q & A میں معروف قادیانی اینکر پی جے میر کو انٹرویو دیتے ہوئے علامہ طاہر القادری نے مجاہدِ تحفظ ناموسِ رسالت غازی ملک ممتاز حسین قادری کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا:
’’سلمان تاثیر… جس شخص نے اُس کو مارا What ever was the background? (یعنی سلمان تاثیر نے جو کچھ بھی کہا ہو) وہ شخص (ملک ممتاز حسین قادری) قاتل ہے۔ اُس کو قاتل ہونے کی حیثیت سے سزا ملنی چاہیے۔ گورنر سلمان تاثیر نے اگر کوئی جملہ ایسا بولا جس پر مَیں Comment (تبصرہ) نہیں کرسکتا۔ یہ چیزیں تحقیق طلب ہوتی ہیں۔ جو گستاخیٔ رسول پر جا کے منتج ہوتا ہے… Even Then کسی ایک Civilian اور Individual کو قتل کرنے کی اجازت نہیں، اسلام اجازت نہیں دیتا۔ اگر وہ Law اپنے ہاتھ میں لے کے قتل کرے گا، وہ قاتل تصور کیا جائے گا۔ اُس کی سزا موت ہے۔‘‘
اس کے بعد قانونِ توہین رسالت پر سلمان تاثیر کی تنقید اور تحقیر کے بارے میں اپنے مؤقف کا اظہار ان الفاظ میں کیا:
’’جہاں تک میں نے اُس کے Statment کو دیکھا تھا، جو کچھTV یا اخبارات کے ذریعے میرے Knowledge میں آیا وہ سارا Statement بہ حیثیت اسلام کے ایک طالب علم کے میں اگر پڑھوں تو وہ Technically Speaking جس کو گستاخیٔ رسول اور اہانت رسول کہتے ہیں جس پر سزا موت ہوتی ہے، اس کی Definition میں نہیں آتا وہ Statement، آپ اس کو غلط کہہ سکتے ہیں، وہ Statement غلط تھی، Uncalled for تھی، ایک Confused Mind کا ایک Outcome ہے اور گورنر کی حیثیت سے اُس کا مرتبہ اجازت نہیں دیتا تھا کہ وہ کہے، ناجائز بات کہی، غلط کہی، مگر Technically Speaking اہانت رسول کی Definition میں نہیں آتا۔ میں کہہ رہا ہوں: اگر وہ آتا بھی ہو، Even then یہ Court of Law کی ذمہ داری ہے کہ وہ Trail کرے اور سزا بنتی ہے تو شہادتوں کے ساتھ دے، Indivisual کا Right نہیں ہے۔‘‘
اس کے علاوہ انہوں نے غازی ملک ممتاز قادری کے حق میں احتجاج کرنے والوں اور اس کے اقدام کو درست سمجھنے والوں کو ’’انتہا پسندی کا مریض‘‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ مرض ’’ہماری پوری قوم کے اوپر بدقسمتی سے چھاتا چلا جارہا ہے۔‘‘ مزید انہوں نے مسلمانوں کے احتجاج کو اشتعالی اور جنونی کیفیت کا نتیجہ قرار دیا۔ عجیب اتفاق ہے کہ 1929ء میں جب غازی علم الدین شہیدؒ نے بدنامِ زمانہ گستاخِ رسول راجپال کو قتل کیا تھا تو قادیانی خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود نے بھی اسی سے ملتا جلتا بیان دیا تھا، ملاحظہ کریں:
’’اسی طرح اس قوم کا جس کے جوشیلے آدمی قتل کرتے ہیں، خواہ انبیاء کی توہین کی وجہ سے ہی وہ ایسا کریں، فرض ہے کہ پورے زور کے ساتھ ایسے لوگوں کو دبائے اور ان سے اظہار برأت کرے۔ انبیاء کی عزت کی حفاظت قانون شکنی کے ذریعہ نہیں ہوسکتی، وہ نبی بھی کیسا نبی ہے جس کی عزت کو بچانے کے لیے خون سے ہاتھ رنگنے پڑیں، جس کے بچانے کے لیے اپنا دین تباہ کرنا پڑے۔ یہ سمجھنا کہ محمد رسول اللہ کی عزت کے لیے قتل کرنا جائز ہے، سخت نادانی ہے… وہ لوگ (غازی علم الدین شہید) جو قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں، وہ بھی مجرم ہیں اور اپنی قوم کے دشمن ہیں اور جو ان کی پیٹھ ٹھونکتا ہے، وہ بھی قوم کا دشمن ہے۔ میرے نزدیک تو اگر یہی شخص (راج پال کا ) قاتل ہے جو گرفتار ہوا ہے تو اس کا سب سے بڑا خیر خواہ وہی ہوسکتا ہے جو اس کے پاس جاوے اور اسے سمجھائے کہ دنیاوی سزا تو تمہیں اب ملے گی ہی، لیکن قبل اس کے کہ وہ ملے، تمہیں چاہیے، خدا سے صلح کر لو۔ اس کی خیر خواہی اسی میں ہے کہ اسے (غازی علم الدین شہید کو) بتایا جائے کہ تم سے غلطی ہوئی ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ مرزا محمود خلیفہ قادیان مندرجہ روزنامہ الفضل قادیان جلد16 نمبر 82 صفحہ 8،9 مورخہ 19 اپریل 1929ئ)
علامہ طاہر القادری نے گذشتہ کئی برسوں سے ماڈریٹ، پروگریسیو اور سیکولر شخصیت کا گائون پہن رکھا ہے۔ وہ گاہے بگاہے خواب کہانیاں، بے وقت کی راگنیاں اور اوٹ پٹانگ باتوں سے قوم کو محظوظ کرتے رہتے ہیں۔ ان کی پریس کانفرنسیں رطب و یابس، لاحاصل اور مناقشات سے بھرپور ہوتی ہیں۔ بہترین درسگاہ ادارہ منہاج القرآن جن عظیم الشان مقاصد کے حصول کے لیے قائم کیا گیا تھا، بد قسمتی سے وہ پروفیسر طاہر القادری کی منفی سیاست کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ مہاتما بننے کی اندھی خواہش اور خود کو ’’عقل کل‘‘ سمجھنے کے نفسیاتی عارضے کا شکار ہو کر ان کی شخصیٹ ’’ایبسٹریکٹ آرٹ‘‘ (Abstract Art) کا شاہکار بن چکی ہے۔ یہاں سے فارغ ہونے والے نوجوان جنہوں نے منبر و محراب کی حفاظت کرنا تھی، اپنی اوچھی حرکات کی بدولت معاشرے میں ہدف تضحیک بن کر رہ گئے ہیں۔ ’’مصطفوی انقلاب‘‘ کے نعرہ سے دستبرداری کے بعد ’’وزیر اعظم طاہر القادری‘‘ ان کا نصب العین ٹھہرا۔ نجانے انہیں کس کی نظر کھا گئی کہ ان کا معیار ایک مسخرے کی سطح سے بھی نیچے گر گیا۔ احسن تقویم کی بلندیوں کی طرف گامزن اسفل السافلین کی تاریک اتھاہ گہرائیوں میں گر گئے۔ ’’قال اللّٰہ وقال الرسولؐ‘‘ کی ایمان افروز آوازوں سے مہکنے والے کلاس روموں میں اب ’’بن کے مست ملنگ رہیں گے، طاہر ترے سنگ رہیں گے‘‘ کے ترانے، بھنگڑے ڈالتے ہوئے، فلمی طرز پر گائے جاتے ہیں۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ شائد انہیں بتایا گیا ہو کہ اس ’’مجاہدہ‘‘ سے عرفان حاصل ہوتا ہے جبکہ وہ اس عاشقی میں عزت سادات بھی گنوا بیٹھے ہیں۔
امریکہ سمیت تمام اسلام دشمن طاقتوں کی بھرپور کوشش ہے کہ پاکستان میں ’’قانون توہین رسالت‘‘ کو فی الفور ختم کردیا جائے۔ اس سلسلہ میں وہ اپنے خود کاشتہ پودوں سے کام لے رہے ہیں۔ بدقسمتی سے علامہ طاہر القادری کا تعلق بھی اسی قبیل سے ہے۔ جناب طاہر القادری کو مذہبی خوابوں کا شہزادہ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا یہ جرم نہایت سنگین ہے کہ انہوں نے نے محض سستی شہرت، دولت اور سیاسی اقتدار کی خاطر ایسے خوابوں کا سہارا لیا جن میں حضور نبی کریم ﷺ کی صریحاً توہین پائی جاتی ہے۔
ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ کوئی ’’شیخ الاسلام‘‘ اس حد تک ذہنی قلاش ہوسکتا ہے۔ شروع میں جب وہ پوری طرح بے نقاب نہیں ہوئے تھے تو لوگوں نے انہیں ’’اسلام کا سفیر‘‘ سمجھ کر ان کے قدموں میں کیا کچھ نچھاور نہیں کیا۔ انہیں اپنی پلکوں پر بٹھایا، ان کے جوتوں کو ہاتھ لگانا اپنی سعادت سمجھا، عقیدت کا یہ عالم کہ اگر کوئی طاہر القادری کو ’’قبلہ‘‘ کہنا بھول گیا تو ’’فقہ طاہریہ‘‘ کی رو سے اس پر ’’سجدہ سہو‘‘ واجب ہوجاتا۔ میں نے ’’اعتکاف میلہ‘‘ میں ستائیسویں رات کو اسلام کے نام پر ان کی ایک اپیل پر لوگوں کو اپنا تن من دھن قربان کرتے دیکھا ہے۔ یہ ’’جاں نثار‘‘ بچارے جھوٹے نگینوں کی چمک پر فریفتہ ہوتے بلکہ ’’پوجا‘‘ کی حد تک ان سے عقیدت رکھتے تھے۔ اندھی عقیدت بھی فتنہ ہوتی ہے جس میں سادہ لوح عقیدت مند مبتلا پائے جاتے ہیں، لیکن ؎

مرید سادہ تو رو رو کے ہوگیا تائب
خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق
جناب طاہر القادری نے 1990ء میں اپنے گھر پر فائرنگ کا جو ڈراما رچایا، وہ انتہائی بودا، من گھڑت اور مضحکہ خیز تھا۔ اس وقوعہ کی انکوائری کے لیے پنجاب حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کے ایک معزز جج صاحب پر مشتمل یک رکنی انکوائری ٹربیونل قائم کیا جہاں اس واقعہ کی مکمل تحقیقات کی گئیں۔ علامہ طاہر القادری صاحب نے اس ٹربیونل کے روبرو اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے ان پر بڑی جارحانہ جرح کی جس پر وہ نہ صرف بوکھلا گئے بلکہ انکوائری کے آخری مراحل میں اپنے جھوٹ کا پول کھلنے پر عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ بہر حال معزز جسٹس صاحب نے اس کیس پر اپنا تفصیلی فیصلہ دیا۔ اس فیصلہ میں انہوں نے طاہر القادری صاحب کے متعلق جو ریمارکس دیے، انہیں پڑھ کر ہر ذی شعور کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا: ’’طاہر القادری ایک محسن کش، ناشکرے، خود غرض، جھوٹے، دولت کے پجاری، خود پرست اور شہرت کے بھوکے انسان ہیں۔‘‘ یہ ریمارکس آج بھی قانون کی کتابوں میں موجود بلکہ محفوظ ہیں اور طاہر القادری صاحب کا منہ چڑا رہے ہیں۔ پاکستان کے آئین کی دفعہ 62 اور 63 کے تحت، ان ریمارکس کی موجودگی میں جناب طاہر القادری صاحب وزیراعظم بننا تو کجا صوبائی اسمبلی کے معمولی ممبر بھی منتخب نہیں ہوسکتے۔ وہ خود قانون کے ’’استاد‘‘ ہیں اور بخوبی جانتے ہیں کہ عدالت عالیہ کا یہ فیصلہ ان کی 50 ہزار گز لمبی دستار فضیلت کو آگ لگا دینے کے لیے کافی ہے۔ فاعبتروا یا اولی الابصار۔
29 نومبر 2000ء کو منہاج القرآن میں ایک عیب واقعہ پیش آیا۔ پریس کانفرنس کے اختتام پر روزے کے دوران علامہ طاہر القادری نے صحافیوں کو چائے کی دعوت دی اور کہا کہ آپ کے لیے چائے کا انتظام کیا گیا ہے، صحافیوں نے روزے کی وجہ سے دعوت مسترد کردی۔ اس پر طاہر القادری نے کہا کہ اوہو میں بھول گیا کہ آج دوسرا روزہ ہے۔ (روزنامہ جنگ لاہور، 30 نومبر 2000ئ) اپریل 2000ء میں عیسائیوں کے ایسٹر کے موقع پر جناب طاہر القادری نے عیسائی اقلیت کے نام جو پیغام دیا، اسے پڑھ کر ہر مسلمان کو نہ صرف ذہنی کوفت اور شرمندگی اٹھانا پڑی بلکہ وہ جناب طاہر القادری کی شخصیت کے بارے میں بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوئے۔ اب اسلام دشمن قوتوں نے ان میں مرزا قادیانی ایسی ’’خصوصیات‘‘ دیکھ کر ان سے ’’اتحاد بین الادیان‘‘ کا پرکشش نعرہ لگوایا ہے۔ اتحاد ادیان ایک پرفریب، خطرناک اور ناپاک دعوت ہے کیونکہ حق و باطل میں اتحاد ممکن ہی نہیں۔ روئے زمین پر اسلام سے بڑھ کر کوئی سچا مذہب نہیں ہے۔ یہ تمام دوسرے مذاہب، شرائع اور ادیان کا خاتم ہے۔ اسی طرح قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری اور مکمل کتاب ہے جو اپنے سے قبل تمام کتاب سماویہ تورات، زبور، انجیل وغیرہ منسوخ کرنے والی ہے۔ انجیل جو تبدیل شدہ اور منسوخ کتاب ہے، قرآن کے مقابلہ میں اس کی تلاوت کروانا ’’مصطفوی انقلاب‘‘ کے داعیوں کا ہی حوصلہ ہوسکتا ہے۔
جناب طاہر القادری کو معلوم ہونا چاہیے کہ امت مسلمہ نے نامساعد حالات کے باوجود ہمیشہ اپنے خون جگر سے ناموس رسالت ﷺ کی حفاظت کی ہے اور کبھی ایسی چیز کو برداشت نہیں کیا جس سے آپ ﷺ کی عظمت پر ذرا سا بھی حرف آئے۔ اگر کوئی ’’نام نہاد شیخ الاسلام‘‘ یہ سمجھتا ہے کہ وہ چہرے پر تقدس کی علامات کا فائدہ اٹھا کر اسلام دشمن قوتوں کے پروگرام کو عملی جامہ پہنا دے گا تو یہ اس کی حماقت ہے۔ کوئی عقل اسے ممکن العمل قرار نہیں دے سکتی۔ جو کئی ایسا سوچا گا وہ درو حاضر کا سب سے بڑا ’’شیخ چلی‘‘ ہوگا۔ ہم جناب طاہر القادری کی خدمت میں عرض کریں گے کہ وہ اس بین الاقوامی سازش کا شکار نہ ہوں۔ امت مسلمہ پہلے ہی لاتعداد فتنوں کی زد میں ہے۔ بین الاقوامی میڈیا پر آنے کی جنونی خواہش اپنی جگہ مگر آپ کے ’’لارنس آف پاکستانیہ‘‘ بننے سے اسلام اور پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ مستقبل کا غیر جانبدار مورخ آپ کی ان مذمومہ سرگرمیوں کا تذکرہ کرے گا تو وہ آپ کی رہزن قیادت پر نہ صرف ششدر ہوگا بلکہ لکھنے پر مجبو رہو گا کہ ؎

اجڑا ہے یوں چمن کہ گزرا ہے یہ گمان
اس کام میں شریک کہیں باغباں نہ ہو

ض…ض…ض
 
Top