حسن شبیر
مشہور رکن
- شمولیت
- مئی 18، 2013
- پیغامات
- 802
- ری ایکشن اسکور
- 1,834
- پوائنٹ
- 196
میں نے ہر لحاظ سے مکمل زندگی گزاری۔ ۔ ہر رشتے میں مجھے پرفیکٹ مانا گیا۔ ۔ ۔ اور یہ سب اس ماں کی ایک نصیحت ۔ ۔ ۔ایک وعدے کی وجہ سے تھا۔ ۔ ۔مجھے پرفیکٹ بناننے میں جس ماں کا سب سے بڑا ہاتھ تھا۔
میں سب کو خوش رکھنے کے چکروں میں ایسا پھنسا کہ اسی کو وقت نہ دے پایا۔ ۔ ۔ ۔ مجھے اماں سے ملے چار سال گزر چکے تھے۔ ۔ ۔اگر درمیان میں کبھی گیا بھی تو کھڑے کھڑے۔ ۔ ۔ اماں سے حال احوال پوچھ کر ۔ ۔ "کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ۔ ۔" کا گھسا پٹا جملہ بول کر لوٹ آتا تھا۔
اماں ہر بار جیسے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولتیں۔ ۔ ۔ پھر میری جلدی دیکھ کر خاموش رہ جاتیں۔ ۔ ۔ ۔ اور "نہیں فادی بیٹا۔ ۔ ۔ کچھ نہیں چاہیئے" کہہ کر خاموش نگاہوں سے مجھے تکنے لگتیں۔ ۔ ۔ میں ان کی نظروں سے الجھن محسوس کرتا اور واپسی کے لئے قدم بڑھا دیتا۔ ۔
پھر ایک دن ایسا آیا کہ میں نے بہت فرصت سے اماں کے پاس جا کر ڈھیر سارے دن گزارے۔ ۔ ۔
"اماں۔ ۔۔ ہائے میری اماں۔ ۔ " میں اماں کے سرھانے کھڑا زارو قطار رو رہا تھا۔ ۔ ۔اماں کی منتظر آنکھیں ابھی بھی نیم وا تھیں۔ ۔ ۔ ان کے ڈھلکے ہوئے شانے مجھے پچھتاووں کے سمندر میں دھکیل رہے تھے۔ ۔ ۔ان کے ادھ کھلے ہونٹ کچھ کہنے کی سعی کرتے محسوس ہو رہے تھے۔ ۔ ۔اور میرے دل و دماغ میں اماں کی وہی ایک نصیحت ۔ ۔ ۔ ۔ جس نے مجھے پرفیکشن کا خطاب دلایا تھا۔ ۔ ۔ گونج رہی تھی۔ ۔ ۔"میرے بچے ۔ ۔۔ کبھی کسی کو اپنی ذات سے دکھ مت پہنچنے دینا۔ ۔ ۔ "
اب مجھے اپنے گالوں پر نمی کا احساس ہوا ۔ ۔۔ ۔ ۔آنکھیں کھول کر ایک بار پھر سے آسمان کی طرف دیکھا۔ ۔۔ آسمان اسی طرح شفاف تھا اور سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ ۔ ۔میں نے حیران ہو کر ادھر ادھر دیکھا۔ ۔ ۔ مگر مجھے اس نمی اور پانی کے قطروں کا ماخذ نہ پتہ چل سکا جو میرے چہرے کو بھگو رہے تھے۔
میں نے سامنے لگے درخت کو دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ وہ دن بدن کمزور ہوئے جا رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ حالانکہ میں اس کی مکمل دیکھ بھال کرواتا ہوں۔ ۔ ۔ روز اس کے ساتھ بیٹھ کر ماضی کا سفر کرتا ہوں۔ ۔ ۔ پھر بھی پتا نہیں کیوں، جب سے اماں گئی ہیں۔ ۔ ۔ یہ روز بروز کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ ۔ ۔ایسا لگتا ہے جیسے اسے کوئی روگ لگ گیا ہے۔ ۔ ۔ یہ کسی سوگ کی کیفیت میں نظر آتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ لگتا ہے جیسے اس کی جڑیں سمٹنا شروع ہو گئی ہیں۔
ایفائے عہد سے لحد تک از منہا ملک
قاضی حارث
میں سب کو خوش رکھنے کے چکروں میں ایسا پھنسا کہ اسی کو وقت نہ دے پایا۔ ۔ ۔ ۔ مجھے اماں سے ملے چار سال گزر چکے تھے۔ ۔ ۔اگر درمیان میں کبھی گیا بھی تو کھڑے کھڑے۔ ۔ ۔ اماں سے حال احوال پوچھ کر ۔ ۔ "کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ۔ ۔" کا گھسا پٹا جملہ بول کر لوٹ آتا تھا۔
اماں ہر بار جیسے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولتیں۔ ۔ ۔ پھر میری جلدی دیکھ کر خاموش رہ جاتیں۔ ۔ ۔ ۔ اور "نہیں فادی بیٹا۔ ۔ ۔ کچھ نہیں چاہیئے" کہہ کر خاموش نگاہوں سے مجھے تکنے لگتیں۔ ۔ ۔ میں ان کی نظروں سے الجھن محسوس کرتا اور واپسی کے لئے قدم بڑھا دیتا۔ ۔
پھر ایک دن ایسا آیا کہ میں نے بہت فرصت سے اماں کے پاس جا کر ڈھیر سارے دن گزارے۔ ۔ ۔
"اماں۔ ۔۔ ہائے میری اماں۔ ۔ " میں اماں کے سرھانے کھڑا زارو قطار رو رہا تھا۔ ۔ ۔اماں کی منتظر آنکھیں ابھی بھی نیم وا تھیں۔ ۔ ۔ ان کے ڈھلکے ہوئے شانے مجھے پچھتاووں کے سمندر میں دھکیل رہے تھے۔ ۔ ۔ان کے ادھ کھلے ہونٹ کچھ کہنے کی سعی کرتے محسوس ہو رہے تھے۔ ۔ ۔اور میرے دل و دماغ میں اماں کی وہی ایک نصیحت ۔ ۔ ۔ ۔ جس نے مجھے پرفیکشن کا خطاب دلایا تھا۔ ۔ ۔ گونج رہی تھی۔ ۔ ۔"میرے بچے ۔ ۔۔ کبھی کسی کو اپنی ذات سے دکھ مت پہنچنے دینا۔ ۔ ۔ "
اب مجھے اپنے گالوں پر نمی کا احساس ہوا ۔ ۔۔ ۔ ۔آنکھیں کھول کر ایک بار پھر سے آسمان کی طرف دیکھا۔ ۔۔ آسمان اسی طرح شفاف تھا اور سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ ۔ ۔میں نے حیران ہو کر ادھر ادھر دیکھا۔ ۔ ۔ مگر مجھے اس نمی اور پانی کے قطروں کا ماخذ نہ پتہ چل سکا جو میرے چہرے کو بھگو رہے تھے۔
میں نے سامنے لگے درخت کو دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ وہ دن بدن کمزور ہوئے جا رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ حالانکہ میں اس کی مکمل دیکھ بھال کرواتا ہوں۔ ۔ ۔ روز اس کے ساتھ بیٹھ کر ماضی کا سفر کرتا ہوں۔ ۔ ۔ پھر بھی پتا نہیں کیوں، جب سے اماں گئی ہیں۔ ۔ ۔ یہ روز بروز کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ ۔ ۔ایسا لگتا ہے جیسے اسے کوئی روگ لگ گیا ہے۔ ۔ ۔ یہ کسی سوگ کی کیفیت میں نظر آتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ لگتا ہے جیسے اس کی جڑیں سمٹنا شروع ہو گئی ہیں۔
ایفائے عہد سے لحد تک از منہا ملک
قاضی حارث