ابو عکاشہ
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 30، 2011
- پیغامات
- 412
- ری ایکشن اسکور
- 1,491
- پوائنٹ
- 150
((استحييت مِن ربِّي))
مجھے اپنے رب سے حیاء آتی ہے
’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (شبِ معراج) اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں تو میں ان (نمازوں) کے ساتھ واپس آیا یہاں تک کہ میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر آپ کی امت کے لئے کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا : اﷲ تعالیٰ نے پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنے رب کی طرف واپس جائیے کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی پس انہوں نے مجھے واپس لوٹا دیا (میری درخواست پر) اﷲ تعالیٰ نے ان کا ایک حصہ کم کر دیا۔ میں موسیٰ علیہ السلام کی طرف واپس گیا اور کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک حصہ کم کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا : اپنے رب کی طرف پھر جائیے کیونکہ آپ کی امت میں ان کی طاقت نہیں ہے پس میں واپس گیا تو اﷲ تعالیٰ نے ان کا ایک حصہ کم کر دیا۔ میں ان کی طرف آیا تو انہوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کی طرف جائیے کیونکہ آپ کی امت میں ان کی طاقت بھی نہیں ہے میں واپس لوٹا تو (اﷲ تعالیٰ نے) فرمایا : یہ ظاہراً پانچ (نمازیں) ہیں اور (ثواب کے اعتبار سے) پچاس (کے برابر) ہیں میرے نزدیک بات تبدیل نہیں ہوا کرتی۔ میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے کہا اپنے رب کی طرف جائیے (اور مزید کمی کے لئے درخواست کریں) میں نے کہا : مجھے اب اپنے رب سے حیا آتی ہے۔ پھر (جبرائیل علیہ السلام) مجھے لے کر چلے یہاں تک کہ سدرۃ المنتہی پر پہنچے جسے مختلف رنگوں نے ڈھانپ رکھا تھا، نہیں معلوم کہ وہ کیا ہیں؟ پھر مجھے جنت میں داخل کیا گیا جس میں موتیوں کے ہار ہیں اور اس کی مٹی مشک ہے۔
بخاری شریف ،کتاب الصلاة، 1 / 136، الرقم : 342،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردہ والی کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ باحیا تھے،
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردہ والی کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ باحیا تھے، جب کوئی بات ایسی دیکھتے جو آپ کو ناگوار ہوتی تو ہم لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے معلوم ہوجاتا۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1055
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاء کی ایک مثال
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک عورت (اسماء بنت شکل رضی اللہ عنھا )نے نبیﷺ سے حیض کے غسل کے بارے میں پوچھا، تو آپﷺنے اس کو بتلایا کہ کس طرح وہ غسل کرے ،(پھر) آپﷺنے (غسل کا طریقہ بتانے کے بعد) فرمایا: کستوری لگا ہوا ایک کپڑا لے اور اس سے طہارت کرلے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اس نے کہا میں (اسے) کیسے پاکیزگی حاصل کروں ، آپﷺنے فرمایا: اس سے پاکیزگی حاصل کرلے، وہ کہنے لگی کیسے پاکیزگی حاصل کروں،
آپﷺ نے( تعجب سے) فر مایا: سبحا ن اللہ! پاکیزگی حاصل کر، سیدہ عا ئشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اس عورت کہ اپنی طرف کھینچ لیا اور اس کو سمجھا دیا کہ خون کے مقام( یعنی شر مگاہ) پر اس کو لگا دیں۔
صحیح بخاری کتاب الحیض
لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ؟
عن عائشة رضي الله عنها قالت كان النَّبيُّ صلى الله عليه وسلم ((إذا بلغه عن الرَّجل الشَّيء لم يقلْ: ما بال فلانٍ يقول؟ ولكن يقول: ما بال أقوامٍ يقولون كذا وكذا؟))
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کسی کے متعلق کوئی (نامناسب) خبر ملتی تو یوں نہ کہتے : فلاں کو کیا ہوا ہے کہ یوں کہتا ہے یا کرتا ہے ؟
بلکہ یوں فرماتے ؛؛ لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ ایسے ایسے کہتے ہیں یا کرتے ہیں ۔ ابو داؤد حدیث نمبر 4788
اللہ سے حیاء اس طرح کرو جس طرح حیاء کرنے کا حق ہے
عن عبدالله بن مسعود قال: قال رسول الله صلي الله عليه و سلم: استحيوا من الله حق الحياء، قال: قلنا يا رسول الله! انا نستحيي والحمد لله، قال: ليس ذالك، ولكن الاستحياء من الله حق الحياء ان تحفظ الرأس وما دعی، والبطن وما حوی ولتذکر الموت والبلی، و من اراد الآخرة ترك زينة الدنيا، فمن فعل ذالك فقد استحيا من الله حق الحياء۔
الراوي : عبدالله بن مسعود المحدث : الألباني
المصدر : صحيح الترمذي الصفحة أو الرقم: 2458 خلاصة حكم المحدث : حسن
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے اس طرح شرم کرو جس طرح اس سے شرم کرنے کا حق ہے۔ لوگوں نے عرض کی، یا رسول اللہ! ہم شرماتے تو ہیں، اللہ کا شکر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ چیز نہیں ہے۔ جو اللہ سے اس طرح شرمائے جس طرح اس سے شرمانے کا حق ہے اس کو چاہیے کہ وہ اپنے دماغ کا اور جو کچھ وہ اس میں جمع کرتا ہے اس کا خیال رکھے، اپنے پیٹ کا اور جو کچھ اس میں بھرتا ہے اس پر نگاہ رکھے، اپنی موت کو اور اس کے بعد سڑنے اور گلنے کو یاد رکھےاور جو آخرت کا طالب ہوتا ہے وہ دنیا کی زینتوں کو خیر باد کہتا ہے۔ تو جس نے یہ کام کیے درحقیقت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے اس طرح شرماتا ہے، جس طرح اس سے شرمانے کا حق ہے۔
حیاء ایمان کا ایک شعبہ ہے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ایمان کے ستر یا ساٹھ سے کچھ زائد شعبے ہیں، افضل ترین شعبہ لا الہ الااللہ کہنا ہے، اور سب سے کم ترین درجہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا ہے، اور حیا بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے)
بخاری (9) ، اورمسلم (35) نے اسے سیدنا ابو ہريرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
حیاء ایمان کا جزو ہے
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گذرے اور وہ حیاء کے متعلق عتاب کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ تو اس قدر حیاء کرتا ہے، تجھے اس سے نقصان پہنچے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو چھوڑ دو (ایسا نہ کہو) اس لئے کہ حیاء ایمان کا جزو ہے۔\
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1071
جب حیاء ہی نہ رہے
اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
إن مما أدرك الناس من كلام النبوة الأولى: إذا لم تستحِ فاصنع ما شئت (صحیح بخاری 6120)
“.پہلی نبوتوں کے احکام سے جو چیز لوگوں نے پائی ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب تو حیا کا دامن چھوڑ دے تو جو جی میں آئے کرتا رہ”۔
حیاء اور ایمان دونوں ساتھی ہیں
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کافرمان ہے :
''حیا اور ایمان دونوں ایسے ساتھی ہیں کہ جب ان میں سے ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے''
(مستدرک حاکم ۔ عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما )
اور یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ حیاء ایک مسلمان کو نرمی اور حکمت کے ساتھ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر سے باز نہیں رکھتی میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم حلیم طبیعت کے مالک تھے اور کنواری لڑکیوں سے زیادہ حیاء دار تھے
لیکن آپ کی یہ حیاء نیکی کے حکم اور برائی سے روکنے میں کبھی آڑے نہیں آئی ، جب اللہ کی حدوں کو پامال کیا جاتا پھر رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہوجاتے اور بدلہ لیتے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو چیزوں میں سے ایک کے اختیار کرنے کا حکم دیا گیا تو آپ نے ان میں سے آسان ہی کو پسند کیا ، بشرطیکہ اس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہو ، اگر اس میں گناہ کا کوئی پہلو ہوتا تو آپ اس سے سب سے زیادہ دور ہوتے ۔ اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنے ذاتی معاملہ میں کسی سے بدلہ نہیں لیا ، البتہ جب اللہ کی حرمتوں کو توڑا جاتا تو آپ اللہ کے لیے بدلہ لیتے تھے ۔
صحیح بخاری کتاب الحدود
مجھے اپنے رب سے حیاء آتی ہے
’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (شبِ معراج) اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں تو میں ان (نمازوں) کے ساتھ واپس آیا یہاں تک کہ میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر آپ کی امت کے لئے کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا : اﷲ تعالیٰ نے پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنے رب کی طرف واپس جائیے کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی پس انہوں نے مجھے واپس لوٹا دیا (میری درخواست پر) اﷲ تعالیٰ نے ان کا ایک حصہ کم کر دیا۔ میں موسیٰ علیہ السلام کی طرف واپس گیا اور کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک حصہ کم کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا : اپنے رب کی طرف پھر جائیے کیونکہ آپ کی امت میں ان کی طاقت نہیں ہے پس میں واپس گیا تو اﷲ تعالیٰ نے ان کا ایک حصہ کم کر دیا۔ میں ان کی طرف آیا تو انہوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کی طرف جائیے کیونکہ آپ کی امت میں ان کی طاقت بھی نہیں ہے میں واپس لوٹا تو (اﷲ تعالیٰ نے) فرمایا : یہ ظاہراً پانچ (نمازیں) ہیں اور (ثواب کے اعتبار سے) پچاس (کے برابر) ہیں میرے نزدیک بات تبدیل نہیں ہوا کرتی۔ میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے کہا اپنے رب کی طرف جائیے (اور مزید کمی کے لئے درخواست کریں) میں نے کہا : مجھے اب اپنے رب سے حیا آتی ہے۔ پھر (جبرائیل علیہ السلام) مجھے لے کر چلے یہاں تک کہ سدرۃ المنتہی پر پہنچے جسے مختلف رنگوں نے ڈھانپ رکھا تھا، نہیں معلوم کہ وہ کیا ہیں؟ پھر مجھے جنت میں داخل کیا گیا جس میں موتیوں کے ہار ہیں اور اس کی مٹی مشک ہے۔
بخاری شریف ،کتاب الصلاة، 1 / 136، الرقم : 342،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردہ والی کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ باحیا تھے،
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردہ والی کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ باحیا تھے، جب کوئی بات ایسی دیکھتے جو آپ کو ناگوار ہوتی تو ہم لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے معلوم ہوجاتا۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1055
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاء کی ایک مثال
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک عورت (اسماء بنت شکل رضی اللہ عنھا )نے نبیﷺ سے حیض کے غسل کے بارے میں پوچھا، تو آپﷺنے اس کو بتلایا کہ کس طرح وہ غسل کرے ،(پھر) آپﷺنے (غسل کا طریقہ بتانے کے بعد) فرمایا: کستوری لگا ہوا ایک کپڑا لے اور اس سے طہارت کرلے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اس نے کہا میں (اسے) کیسے پاکیزگی حاصل کروں ، آپﷺنے فرمایا: اس سے پاکیزگی حاصل کرلے، وہ کہنے لگی کیسے پاکیزگی حاصل کروں،
آپﷺ نے( تعجب سے) فر مایا: سبحا ن اللہ! پاکیزگی حاصل کر، سیدہ عا ئشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اس عورت کہ اپنی طرف کھینچ لیا اور اس کو سمجھا دیا کہ خون کے مقام( یعنی شر مگاہ) پر اس کو لگا دیں۔
صحیح بخاری کتاب الحیض
لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ؟
عن عائشة رضي الله عنها قالت كان النَّبيُّ صلى الله عليه وسلم ((إذا بلغه عن الرَّجل الشَّيء لم يقلْ: ما بال فلانٍ يقول؟ ولكن يقول: ما بال أقوامٍ يقولون كذا وكذا؟))
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کسی کے متعلق کوئی (نامناسب) خبر ملتی تو یوں نہ کہتے : فلاں کو کیا ہوا ہے کہ یوں کہتا ہے یا کرتا ہے ؟
بلکہ یوں فرماتے ؛؛ لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ ایسے ایسے کہتے ہیں یا کرتے ہیں ۔ ابو داؤد حدیث نمبر 4788
اللہ سے حیاء اس طرح کرو جس طرح حیاء کرنے کا حق ہے
عن عبدالله بن مسعود قال: قال رسول الله صلي الله عليه و سلم: استحيوا من الله حق الحياء، قال: قلنا يا رسول الله! انا نستحيي والحمد لله، قال: ليس ذالك، ولكن الاستحياء من الله حق الحياء ان تحفظ الرأس وما دعی، والبطن وما حوی ولتذکر الموت والبلی، و من اراد الآخرة ترك زينة الدنيا، فمن فعل ذالك فقد استحيا من الله حق الحياء۔
الراوي : عبدالله بن مسعود المحدث : الألباني
المصدر : صحيح الترمذي الصفحة أو الرقم: 2458 خلاصة حكم المحدث : حسن
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے اس طرح شرم کرو جس طرح اس سے شرم کرنے کا حق ہے۔ لوگوں نے عرض کی، یا رسول اللہ! ہم شرماتے تو ہیں، اللہ کا شکر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ چیز نہیں ہے۔ جو اللہ سے اس طرح شرمائے جس طرح اس سے شرمانے کا حق ہے اس کو چاہیے کہ وہ اپنے دماغ کا اور جو کچھ وہ اس میں جمع کرتا ہے اس کا خیال رکھے، اپنے پیٹ کا اور جو کچھ اس میں بھرتا ہے اس پر نگاہ رکھے، اپنی موت کو اور اس کے بعد سڑنے اور گلنے کو یاد رکھےاور جو آخرت کا طالب ہوتا ہے وہ دنیا کی زینتوں کو خیر باد کہتا ہے۔ تو جس نے یہ کام کیے درحقیقت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے اس طرح شرماتا ہے، جس طرح اس سے شرمانے کا حق ہے۔
حیاء ایمان کا ایک شعبہ ہے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ایمان کے ستر یا ساٹھ سے کچھ زائد شعبے ہیں، افضل ترین شعبہ لا الہ الااللہ کہنا ہے، اور سب سے کم ترین درجہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا ہے، اور حیا بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے)
بخاری (9) ، اورمسلم (35) نے اسے سیدنا ابو ہريرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
حیاء ایمان کا جزو ہے
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گذرے اور وہ حیاء کے متعلق عتاب کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ تو اس قدر حیاء کرتا ہے، تجھے اس سے نقصان پہنچے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو چھوڑ دو (ایسا نہ کہو) اس لئے کہ حیاء ایمان کا جزو ہے۔\
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1071
جب حیاء ہی نہ رہے
اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
إن مما أدرك الناس من كلام النبوة الأولى: إذا لم تستحِ فاصنع ما شئت (صحیح بخاری 6120)
“.پہلی نبوتوں کے احکام سے جو چیز لوگوں نے پائی ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب تو حیا کا دامن چھوڑ دے تو جو جی میں آئے کرتا رہ”۔
حیاء اور ایمان دونوں ساتھی ہیں
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کافرمان ہے :
''حیا اور ایمان دونوں ایسے ساتھی ہیں کہ جب ان میں سے ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے''
(مستدرک حاکم ۔ عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما )
اور یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ حیاء ایک مسلمان کو نرمی اور حکمت کے ساتھ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر سے باز نہیں رکھتی میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم حلیم طبیعت کے مالک تھے اور کنواری لڑکیوں سے زیادہ حیاء دار تھے
لیکن آپ کی یہ حیاء نیکی کے حکم اور برائی سے روکنے میں کبھی آڑے نہیں آئی ، جب اللہ کی حدوں کو پامال کیا جاتا پھر رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہوجاتے اور بدلہ لیتے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو چیزوں میں سے ایک کے اختیار کرنے کا حکم دیا گیا تو آپ نے ان میں سے آسان ہی کو پسند کیا ، بشرطیکہ اس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہو ، اگر اس میں گناہ کا کوئی پہلو ہوتا تو آپ اس سے سب سے زیادہ دور ہوتے ۔ اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنے ذاتی معاملہ میں کسی سے بدلہ نہیں لیا ، البتہ جب اللہ کی حرمتوں کو توڑا جاتا تو آپ اللہ کے لیے بدلہ لیتے تھے ۔
صحیح بخاری کتاب الحدود