• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میزوتھیزم (خدا سے نفرت کی بیماری) کیا ہے ؟

شمولیت
فروری 27، 2025
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
5
جب ہم جدید الحاد و دھریت کے پھیلائو کی وجوہات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم پڑتا ہے کہ کسی بھی ملحد یا دھرئیے کے اندر مذہب اور خدا کے لئے نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے اور یہ نفرت ہی الحاد و دھریت کے پھیلائو کے اہم اسباب میں سے ہے ۔ قدیم یونیانیوں میں 5 سو قبل مسیح میں اس نفرت کو میزوتھیزم Misotheism کہا جاتا تھا ۔ "میزوتھیزم" یعنی خدا سے نفرت کی بیماری کے پھیلانے کی چند وجوہات ہیں جس کا جاننا بہت ضروری ہے ۔
1: deontological ethics ، ایسی اخلاقیات کی تعلیم جس سے مذہب کو نکال باہر کیا گیا ہو۔ گناہ و ثواب کے نتائج کا تصور نہ ہو بلکہ کسی بھی اخلاقی عمل پر یہ بحث کی جائے کہ کیا وہ عمل درست /صحیح ہے یا غلط ۔ دوسرے معنی میں Objective Morality یعنی معروضی خلاقیات جن کے ضابطے معاشرتی روایات قائم کریں یا ریاستی قوانین ۔ کسی عمل کی اخلاقیات کو طے کرنے والا کوئی مذہبی رہنما نہ ہو ۔ "ڈیونٹولوجیکل ایتھکس " سب سے پہلی اصطلاح ہے جو انسانی نفسیات اور اس کے دل میں خدا کے وجود کے لئے نفرت پیدا کرتی ہے ۔ اس اصطلاح کو ہم اپنی سابقہ تحریرات میں بیان کر چکے ہیں ۔
اس اصطلاح کے مقابلے میں ایک اور اصطلاح پیش کی جاتی ہے جو اس کے مخالف ہے Divine command theory جس کے معنی ہیں کسی بھی اخلاقی عمل کو خدا کی عطا ، وحی الٰہی سمجھنا ۔ الحاد و دھریت کے خلاف یہ نظریہ" سینٹ آگسٹائن " نے پیش کیا تھا ۔ یہ ایک پادری تھا اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے ولادت کے تقریبا 350 سال بعد پیدا ہوا ۔ عین ممکن ہے کہ یہ عیسائی پادری مسیحی اخلاقیات یعنی (بائیبل کی اخلاقیات ) کی تبلیغ کرتا ہو اور عیسائی مورخین نے اس کو عموم میں الحاد کا مخالف قرار دیا ہو ۔ لیکن اس بات کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ قدیم فلسفیانہ دھریت کے خلاف قدیم مذاہب میں مقابلہ یا مخالفت پائی جاتی تھی اور اس وقت تک جدید سائنس کی کوئی بنیاد نہ پڑی تھی ۔ کہ جس کی تھیوریز پر آج کے مذاہب کا ماپ کیا جا سکتا ہو وزن کیا جا سکتا ہو۔۔۔۔۔
2: evil God challenge ، معاذ اللہ " برے خدا کا چیلنج " میزوتھیزم یعنی خدا سے نفرت کرنے کی ایک اور وجہ ملحدین میں" خدا کو برا ماننا " بھی ہے۔ بنیادی طور پر یہ اصطلاح 2015 میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر "اسٹیفن لاء " نے پیش کی ۔ اس نے اس تھیوری میں لوگوں میں یہ تبلیغ کی کہ خدا مکمل اچھا نہیں بلکہ برا ہوتا ہے اور معاذ اللہ اگر خدا برا ہے تو وہ خدا نہیں ہو سکتا ۔ جدید دور کے تمام ملحدین میں یہ نفسیاتی مرض پایا جاتا ہے ۔ ملحدین جب ایسے فلسفیوں کی اصطلاحات پڑھتے ہیں اور وحی الٰہی کو مسلسل نظر انداز کرتے ہیں تو ان کے دماغ میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ خدا برا ہے ۔ معاذ اللہ ۔ جب کہ اللہ نے نا فرمانوں کے لئے سختی اور فرمانبرداروں کے لئے بخشش اور رحمت کا ایک ساتھ وعدہ فرمایا ہے ۔ « نَبِّئْ عِبَادِيْۤ اَنِّيْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ وَ اَنَّ عَذَابِيْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِيْمُ »[ الحجر : 49،50 ]’’میرے بندوں کو خبر دے دے کہ بے شک میں ہی بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والاہوں۔ اور یہ بھی کہ بے شک میرا عذاب ہی دردناک عذاب ہے۔‘‘۔۔۔صرف یہی نہیں فرمایا بلکہ ایک مثبت سوچ کو ہر طرح کے حالات کے لئے اللہ نے اپنے ماننے والوں کے لئے پیش فرما دیا ۔ جس سے امید بندھی رہے اور اللہ سے محبت اور اس کا قرب حاصل ہوتا رہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :[ لَمَّا قَضَی اللّٰهُ الْخَلْقَ كَتَبَ فِيْ كِتَابِهِ، فَهُوَ عِنْدَهُ فَوْقَ الْعَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِيْ غَلَبَتْ غَضَبِيْ ][ بخاري، بدء الخلق، باب ما جاء في قول اللّٰہ تعالٰی : «وھو الذی یبدء الخلق…» : ۳۱۹۴ ]’’اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق پیدا فرمائی تو اپنی کتاب میں لکھ دیا، چنانچہ وہ کتاب عرش کے اوپر اس کے پاس ہے کہ بلاشبہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔
‘‘قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْيٌ، فَإِذَا امْرَأَةٌ مِنَ السَّبْيِ قَدْ تَحْلُبُ ثَدْيَهَا تَسْقِي، إِذَا وَجَدَتْ صَبِيًّا فِي السَّبْيِ أَخَذَتْهُ، فَأَلْصَقَتْهُ بِبَطْنِهَا وَأَرْضَعَتْهُ، فَقَالَ لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَتُرَوْنَ هَذِهِ طَارِحَةً وَلَدَهَا فِي النَّارِ» قُلْنَا: لاَ، وَهِيَ تَقْدِرُ عَلَى أَنْ لاَ تَطْرَحَهُ، فَقَالَ: «لَلَّهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهِ مِنْ هَذِهِ بِوَلَدِهَا» (بخاری ،كِتَابُ الأَدَبِ،بَابُ رَحْمَةِ الوَلَدِ وَتَقْبِيلِهِ وَمُعَانَقَتِهِ،5999 صحيح مسلم ( 2754 )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے قیدیوں میں ایک عورت تھی جس کا پستان دودھ سے بھرا ہو تھا اور وہ دوڑ رہی تھی ، اتنے میں ایک بچہ اس کو قیدیوں میں ملا اس نے جھٹ اپنے پیٹ سے لگا لیا اور اس کو دودھ پلانے لگی ۔ ہم سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم خیال کر سکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچہ کو آگ میں ڈال سکتی ہے ہم نے عرض کیا کہ نہیں جب تک اس کو قدرت ہوگی یہ اپنے بچہ کو آگ میں نہیں پھینک سکتی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے ۔ جتنا یہ عورت اپنے بچہ پر مہربان ہو سکتی ہے۔
" جب ایسی اصطلاحات سامنے آئیں کہ کوئی بھی عمل بے نتیجہ یا بے ثواب ہی ہو سکتا ہے اس کے لئے وحی الٰہی کی ضرورت نہیں اور یہ کہ خدا میں معاذ اللہ صرف برائی ہی ہے ۔ تو پھر مثبت پہلو اور عقیدہ کیسے قائم رہ سکے گا ؟ Positivity کیسے انسان کے دل میں قائم رہے گی ؟ الحاد و دھریت کے پھیلائو کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ملحدین صرف منفیات کا مطالعہ کرتے ہیں ، منفیات کو زیر بحث ، زیر قلم لاتے ہیں اور اپنے قارئین یا سامعین کی طرف مثبت سوچ ، مثبت معلومات ، مثبت تعلیمات تک رسائی دیتے ہی نہیں ۔ جس کا نتیجہ " خدا برا ہے " جیسی ذہنی بیماری کی شکل میں سامنے آتا ہے ۔ ۔۔۔
3: Free will , آزادی اظہار ، آزادی فکر ، آزادی عمل کی اصطلاح کا موجد Aristotle ارسطو کو کہا جاتا ہے . ارسطو کا ایک قول بہت مشہور ہے ۔
"For where we are free to act, we are also free to refrain from acting, and where we are able to say 'No,' we are also able to say 'Yes'""
جہاں ہم عمل کرنے کے لیے آزاد ہیں، وہاں ہم عمل نہ کرنے کے لیے بھی آزاد ہیں، اور جہاں ہم 'نہیں کہنے کے قابل ہیں، وہاں ہم 'ہاں کہنے کے قابل بھی ہیں۔ "
قدیم و جدید دھریت میں ارسطو کے اس قول کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔ میزوتھیزم یعنی خدا سے نفرت کی بیماری کی ایک سب سے بڑی وجہ انسان کا خود کو غیر متبع و غیر مطیع سمجھنا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ رب العزت نے انسان کو عمل کرنے کی آزادی دی ہے ۔ دوسری طرف اللہ نے نیکی کا راستہ اپنانے کا حکم بھی دیا ہے ۔ اپنے نفس کا غلام بننے سے بھی منع فرمایا ہے ۔
فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾ پھر سمجھ دی اسکو بدکاری کی اور بچ کر چلنے کی ۔ (سورہ الشمس )
فرمایا ۔ اِنَّا هَدَیْنٰهُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا(3) بیشک ہم نے اسے راہ بتائی یا حق مانتا یا ناشکری کرتا (الدھر )
اسی طرح فرمایا : الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡغَفُوۡرُ ۙ(2) جس نے موت اور حیات کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں اچھے کام کون کرتا ہے ، اور وہ غالب ( اور ) بخشنے والا ہے ۔ (الملک)
اچھے اور برے کی تمیز نہ کرنا ، کسی قانون یا اصول کو نہ ماننا ، گناہ و ثواب پر یقین رکھے بغیر اپنے نفس اپنی عقل اور اپنی سوچ پر عمل پیرا رہنے کی خواہش بھی " خدا سے نفرت" کی بیماری کا سبب ہے ۔ اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ ؕ اَفَاَنۡتَ تَکُوۡنُ عَلَیۡہِ وَکِیۡلًا (23)
کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے کیا آپ اس کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں؟ (الفرقان )۔۔
)4: Blasphemy(میزوتھیزم) یعنی (توھین مذہب یا توھین رسالت ) میزوتھیزم یعنی خدا سے نفرت کی بیماری پھیلنے کی ایک اور بڑی وجہ توھین آمیز لٹریچر کا مطالعہ ، یا توھین آمیز رویہ ہے ۔ جو انسان کو خدا کا انکار کرنے پر مجبور کرتا ہے ۔ جدید دھریت میں اس کی بنیاد Friedrich Nietzsche فرانسیسی (گستاخ) نطشے نے رکھی جس نے 1882 میں لواطت کے جواز پر اپنی لکھی جانے والی کیاب The Gay Science میں رکھی اور اللہ کی توھین پر ایک جملہ لکھا " The God is Dead" ۔ معاذ اللہ یعنی خدا مر گیا ۔
یہ انتہائی خطرناک جملے لکھنے کا مقصد اس گستاخ ملحد فلسفی کو پرموٹ کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ قارئین کو سمجھانا ہے کہ ایسے ہی گستاخ ملحدین کو ہمارے ادبی اور فلسفی لوگ لٹریچر کی ضرورت قرار دیتے ہیں ۔ اور عام مسلمان جب اپنے اسلاف آئمہ محدثین اور علمائے کرام سے روابط ترک کر کے ایسے فلاسفرز اور ایسا مواد پڑھتے ہیں جس میں اللہ کی توھین کی گئی ہو اور قوم لوط کے عمل کو جواز بخشا گیا ہو تو توھین رسالت اور خدا کے انکار جیسے مسائل از خود جنم لے لیتے ہیں ۔ اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ۔۔۔۔۔۔۔۔"اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ ہمیشہ زندہ اور ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے"للہ سبحانہ و تعالی کی حیات ازلی و ابدی ہے۔ یعنی اللہ سبحانہ و تعالی ہمیشہ سے ہے اور وہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اسے کبھی بھی موت نہیں آئے گی۔
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ(26) وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ وَالإِكْرَامِ (27)ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ اور تیرے رب کا چہرہ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے جو جلال اور اکرام والا ہے۔ 《(سورة الرحمن) نبی ﷺ اس طرح اللہ تعالیٰ کو مخاطب فرماتے۔
أنتَ الحيُّ الّذي لا يَموتُ ، والجِنُّ و الإنسُ يَموتُونَ "تو وہ زندہ ہستی ہے کہ جس کو کبھی موت نہیں آئے گی اور تمام انسان اور تمام جن مر جانے والے ہیں"《متفقٌ عَلَيهِ》إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَإِلَيْنَا الْمَصِيرُ 《ق 43》
بے شک ہم ہی زندہ کرتے ہیں اور ہم ہی موت دیتے ہیں اور ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہوگا۔
5: Problem of Hell : جدید دھریت میں یہ اصطلاح Joel Buenting نے 2010 میں پیش کی ۔" جوئیل بونٹنگ " یونیورسٹی آف البرٹا کے فلاسفی ڈیمپارٹمنٹ میں پروفیسر اور کتابوں کا مصنف ہے ۔ اس نے یہ اصطلاح اپنی کتاب
The Problem of Hell: A Philosophical Anthology میں پیش کی۔ وہ لکھتا ہے ۔
How can a perfectly good God justifiably damn anyone to hell? This is one version of the problem of hell. The problem of hell has become one of the most widely discussed topics in contemporary philosophy of religion. This anthology brings together contributions by contemporary philosophers whose work shapes the current debate.
کیا ایک مکمل طور پر نیک خدا کسی کو جہنم میں ڈالنے کے لیے جواز فراہم کر سکتا ہے؟ یہ جہنم کا ایک مسئلہ ہے۔ جہنم کا مسئلہ آج کل مذہبی فلسفے کے سب سے زیادہ زیر بحث موضوعات میں سے ایک بن گیا ہے۔ ۔۔
یعنی اس کے بقول خدا جب رحمٰن و رحیم ہے تو وہ انسانوں کو جہنم میں کیوں بھیجے گا ۔ وہ صرف خدا کے غیض و غضب پر بات کرتے ہیں ۔ اس کے جبار و قہار ہونے پر بحث کرتے ہیں ۔ وہ کبھی اللہ کے عدل و انصاف پر بحث نہیں کرتے ۔ وہ کبھی فلسفہ آزمائش پر بحث نہیں کرتے ، وہ کبھی بھی جنت اور اس کی خوبصورتی پر بات نہیں کرتے اور اگر کرتے ہیں تو اس کا مذاق بناتے ہیں ۔ وہ دین میں بیان کئے گئے دوسروں کے حقوق پر بات نہیں کرتے ۔۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَ لَوۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَوِ الۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ۚ اِنۡ یَّکُنۡ غَنِیًّا اَوۡ فَقِیۡرًا فَاللّٰہُ اَوۡلٰی بِہِمَا ۟ فَلَا تَتَّبِعُوا الۡہَوٰۤی اَنۡ تَعۡدِلُوۡا ۚ وَ اِنۡ تَلۡوٗۤا اَوۡ تُعۡرِضُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا ﴿۱۳۵﴾
اے ایمان والو! عدل و انصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور خوشنودی مولا کے لئے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ گو وہ خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے یا رشتہ داروں عزیزوں کے وہ شخص اگر امیر ہو تو اور فقیر ہو تو دونوں کے ساتھ اللہ کو زیادہ تعلق ہے اس لئے تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینا اور اگر تم نے کج بیانی یا پہلو تہی کی تو جان لو کہ جو کچھ تم کرو گے اللہ تعالٰی اس سے پوری طرح باخبر ہے ۔ (النساء)
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(47)
ترجمہ: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو ( الانبیاء)
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَاۙ-وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِؕ-اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا(58)
ترجمہ:بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں ان کے سپرد کرو اور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو بیشک اللہ تمہیں کیا ہی خوب نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ سننے والا ،دیکھنے والا ہے۔ ( النساء) اللہ نے نہ صرف انسانوں کو عدل کرنے کا حکم دیا ہے بلکہ خود روز قیامت عدل کا وعدہ کیا ہے ۔ حقیقت میں ملحدین جہنم کے مسئلہ پر سوال اٹھا کر اپنی گناہوں کی زندگی پر پردہ ڈال رہے ہوتے ہیں ، اس کی تکذیب کر کے اپنے نفس کی خواہشات پر پہرا دے رہے ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کے انکار کے لئے وہ انسانوں میں خدا کے لئے اس طرح نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ خدا تو ظالم ہوا جو کہتا ہے میں انسان کو جہنم میں بھیجوں گا ۔ جبکہ اہل ایمان نیکی کا حکم دیتے ہیں برائی سے روکتے ہیں ۔ اور نیک عمل کرنے پر جنت کی نوید سناتے ہیں اور برے اعمال پر جہنم کی وعید سناتے ہیں ۔۔۔ ﴿قُلْ ھَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا ٭ اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ ھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا ٭ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ وَ لِقَآئِہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا ﴾ الکہف18 : 103 ۔
105’’
آپ کہہ دیجئے کہ کیا ہم تمھیں ان لوگوں کے بارے میں خبر دیں جو اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ خسارہ اٹھائیں گے ؟ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کی دنیوی زندگی کی تمام تر کوششیں بیکار ہو گئیں اور وہ اسی گمان میںرہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں ۔ یہی وہ لوگ جنھوں نے اپنے رب کی آیتوں اور اس کی ملاقات سے انکار کیا ۔ اِس لئے ان کے اعمال غارت ہوگئے ۔ چنانچہ قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن قائم نہیں کریں گے ۔ ‘‘۔۔
﴿ وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ لِقَآئِ الْاٰخِرَۃِ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ ھَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ الأعراف7 :147’’
اور جن لوگوں نے ہماری آیات اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا ان کے اعمال ضائع ہوگئے ۔ انھیں ان کے اعمال ہی کی سزا دی جائے گی ۔‘‘۔۔﴿وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَیَمُتْ وَ ھُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ﴾ البقرۃ2 :217’’
اور تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے پلٹ جائیں اور کفر کی حالت میں مر جائیں تو ان کے اعمال دنیا میں بھی غارت ہوگئے اور آخرت میں بھی ۔ اور یہی لوگ جہنمی ہوں گے ، جو اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔ ‘‘۔۔۔
جبکہ نیک اعمال والوں کے لئے بطور انعام فرمایا گیا ۔۔
اِِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ o اٰخِذِیْنَ مَآ اٰتٰھُمْ رَبُّھُمْ ط اِِنَّھُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ o(الذٰریٰت۵۱ :۱۵-۱۶)
البتہ متقی لوگ اس روز باغوں اور چشموں میں ہوں گے، جو کچھ ان کا رب انھیں دے گا اسے خوشی خوشی لے رہے ہوں گے۔ وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکوکار تھے
۔۔۔۔اٰخِذِیْنَ مَآ اٰتٰھُمْ رَبُّھُمْ ط اِِنَّھُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ o (۵۱ :۱۶)
جوکچھ ان کا رب انھیں دے گا وہ خوشی خوشی لے رہے ہوں گے۔ وہ اس دن کے آنے سے قبل نیکوکار تھے۔۔۔۔
کَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ o وَبِالْاَسْحَارِ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ o وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ o (۵۱:۱۷-۱۹) وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکوکار تھے، راتوں کو کم ہی سوتے تھے، پھر وہی رات کے پچھلے پہروں میں معافی مانگتے تھے، اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے۔۔۔۔
وَفِی السَّمَآئِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ o فَوَرَبِّ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اِِنَّہٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَآ اَنَّکُمْ تَنْطِقُوْنَo (۵۱:۲۲-۲۳)
آسمان ہی میں ہے تمھارا رزق بھی اور وہ چیز بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے۔ پس قسم ہے آسمان اور زمین کے مالک کی، یہ بات حق ہے، ایسی ہی یقینی جیسے تم بول رہے ہو۔۔۔۔
یہ لوگ جنت کے مسئلہ پر زیادہ بات نہیں کرتے ۔ یہ اعتراض نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نیک عمل کی وجہ سے جنت کیوں دے گا ۔ کیونکہ اگر اس مسئلہ کو زیادہ زیر بحث لایا گیا تو سمجھنا پڑے گا کہ لوگ اللہ کی صفت رحمٰن و رحیم کی معرفت حاصل کریں گے ۔ وہ اس زندگی کے فلسفہ آزمائش کا ادراک کر سکیں گے ۔ وہ اس بیلنس اور اعتدال کو سمجھ سکیں گے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو نیکی اور بدی کا راستہ اختیار کرنے کے لئے سمجھایا یا بیان فرمایا ہے ۔ وہ اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے کی تشریح کر سکیں گے ۔ خوہشات نفس کا انکار کر کے اللہ کی اتباع و فرمانبرداری میں آئیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی دین کے اصولوں کے مطابق نیکی کا حکم دیتا ہے تو اس میں کیا برائی ہے ؟ اگر کوئی دین کے اصولوں کے مطابق لوگوں کو نیکی کے راستے پر لاتا ہے کہ ان کو نیکی سے جنت اور بدی اختیار کرنے سے جہنم ملے گی تو اس میں کیا برائی ہے ؟ کیا نیک اعمال اور نیکی سے معاشرے میں توازن قائم نہیں ہوتا ۔ کیا نیکی یا اعمال صالح سے معاشرے میں تعاون ، بھائی چارے ، اخلاص ، رواداری کی فضا قائم نہیں ہوتی ۔ کیا نیکی سے معاشرے میں امن قائم نہیں ہوتا ؟ اللہ رب العزت ہمیں اللہ سے محبت کی کیفیت میں مبتلا فرما دے آمین ۔ اللہ رب العزت ہمیں روز محشر اس کا قرب و دیدار عطا فرما دے آمین ۔اور اللہ ہم سب مسلمانوں کو اس شیطانی فتنے " خدا سے نفرت" کی بیماری میں کبھی مبتلا نہ کرے جس سے اللہ کی معرفت ، قرب ومحبت سے ہم محروم ہو جائیں ۔ آمین ۔
ازقلم : عبدالسلام فیصل
 
Top