کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
مینار پاکستان پر نان اسٹیٹ ایکٹرز کا اجتماع
کالم نگار ۔ اسد اللہ غالب: اتوار 14 صفر 1436هـ - 7 دسمبر 2014مجماعتہ الدعوہ نے دو روز تک مینار پاکستان کے پارک میں ایک عظیم الشان اجتماع کیا، اس سے پہلے یہاں جماعت اسلامی والے بھی اکٹھے ہوئے اور یہ بھاشن دے کر چلے گئے کہ قتال ہر مسئلے کا حل ہے۔ یہ بھی بھاشن سننے کو ملا کہ فوج شمالی وزیرستان میں آپریشن کا ڈرامہ ختم کرے تاکہ وزیری مہاجرین اپنے گھروں کو جا سکیں۔ میں نے انہیں یاد دلایا تھا کہ جماعت اسلامی کے ایک جہاد کی وجہ سے تیس برس سے تیس لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں پڑے ہیں، پہلے جماعت اسلامی ان کی واپسی کی سبیل سوچے کہ یہ اس کا کیا دھرا ہے۔ رہا قتال کا مسئلہ تو اس کاجواب آرمی چیف کے بیان میں موجود ہے کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز پر قابو پانا ضروری ہے، ورنہ یہ بڑا فتنہ ثابت ہوں گے۔
جماعتہ الدعوہ بھی ایک نان اسٹیٹ ایکٹر ہے، کم از کم بھارت، یورپی یونین، نیٹو اور امریکہ یہی سمجھتا ہے۔ درا صل نان اسٹیٹ ایکٹرز کی کوئی متفقہ تعریف نہیں کی جا سکتی ، اس لئے کہ ایک ملک کسی کو نان اسٹیٹ ایکٹر سمجھتا ہے اور دوسرا ملک کسی دوسرے کو۔ آرمی چیف نے جب اس حوالے سے بات کی تھی تو انہیں ایک لسٹ ضرور سامنے لانا چاہئے تھی تاکہ یہ پتہ چل سکتا کہ فوج کے نزدیک کون نان اسٹیٹ ایکٹر ہے، فوج کی ایک عرصے سے طالبان سے لڑائی چل رہی ہے، مگر ن لیگ، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جے یو آئی اور دیگر تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں جو وزیر اعظم نواز شریف کی پچھلے برس کی اے پی سی میں شریک ہوئی تھیں، وہ انہیں بھائی بند ہی خیال کرتی تھیں اور ان سے قیام امن کے لئے انہوں نے مذاکرات کے حق میں ووٹ دیا تھا۔کوئی ان کو اپنا بچہ کہتا ہے۔ عرفان صدیقی ایک مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مقرر ہوئے، انہوں نے طالبان کے حق میں قصیدوں پر قصیدے لکھ رکھے ہیں اور یہ شائع بھی ہو چکے ہیں۔ ایک طویل قصیدہ مولانا سمیع الحق کی یادداشتوں پر مشمل نو جلدوں کا حصہ بنایا گیا ہے۔ مولانا نے مجھے یہ پورا سیٹ عطیہ کیا تھا۔ اب اگر طالبان حکومت اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے نزدیک نان اسٹیٹ ایکٹرز نہیں ہیں تو لامحالہ فوج کو ان سے نبٹنے میں مشکلات پیش آئیں گی اور انہی مشکلات کے اظہار کے لئے آرمی چیف نے کراچی کی تقریر کو ذریعہ بنایا۔
امریکہ کے نزدیک نان اسٹیٹ ایکٹرز کوئی اور ہیں، وہ حقانی گروپ کو صف اول میں شمار کرتے ہیں ، کون جانے کہ حقانی گروپ نے امریکہ کا کیا نقصان کیا، یہ تو افغان جہاد میں پیش پیش تھا جب سوویت روس کو امریکی ڈالروں اور اسٹنگروں کی مدد سے مار بھگایا گیا اور پھر اس کے ٹکڑے ہو گئے۔ کیا یہ گناہ ہے حقانی گروپ کا۔ امریکہ نے پاکستان کے لئے آئندہ جو امداد منظور کی ہے، اسے بعض شرائط سے منسلک کر دیا ہے۔ اور شرطیں یہ ہیں کہ پاکستان حقانی گروپ کا قلع قمع کرے، القاعدہ گروپ پاکستان، تحریک طالبان پاکستان، کوئٹہ شوریٰ کے خلاف بھی ٹھوس اور موثر کاروائی کی صورت ہی میں امریکی امداداد مل سکے گی۔
کیا یہ کارروائی پاکستان کی حکمران لیگ کرے گی، یا خیبر پی کے میں برسراقتدار تحریک انصاف، یا سندھ کی حکمران پی پی پی یا بلوچستان میں قوم پرست وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ۔ اس کی صراحت امریکی قانون میں نہیں کی گئی۔ میرے خیال میں پاک فوج کو اس جھمیلے میں نہیں پڑنا چاہئے اور عوام ا ور ان کے منتخب کردہ جمہوری حکمرانوں کو یہ بھاری پتھر اٹھانے دینا چا ہئے۔ مجھے تو اس امداد کے صلے میں ملنے والی رقم سے یوں لگتا ہے جب ہم کوئی خدائی خدمتگار ہوں، یا بیگار میں پکڑے گئے ہوں، ایوب خان کو بھی یہ کہنا پڑا تھا کہ اس رزق سے موت اچھی۔ مگر امریکہ سے ملنے والے رزق کے صلے میں ہمیں موت مل رہی ہے، زندگی کا تو کہیں دور دورت تک نام و نشاں نہیں ملتا۔ ہر طرف چلتے پھرتے لاشے ہیں۔ جن پر ہمیں زندگی کا گمان گزرتا ہے، چہل پہل نظر آتی ہے، یہ سب فریب نظر ہے۔
جماعتہ الدعوہ کہتی ہے، وہی کرتی ہے۔ آزادی کشمیر کے لئے حکومت پاکستان مکلف ہے مگر اس کی کوتاہی اور سستی کے پیش نظر یہ فریضہ اس جماعت نے اپنے ذمے لے رکھا ہے، ہم ہزار کہیں کہ لشکر طیبہ کوئی اور چیز ہے اور جماعتہ الدعوہ کچھ اور، فلاح انسانیت کچھ اور۔ منافق ہر گز نہیں، اس لئے منافقت کیسی، کشمیر کو آزاد کرانا ہے، ڈنکے کی چوٹ پر آزاد کرانا ہے، انڈیا نے ڈنکے کی چوٹ پر اور آٹھ لاکھ فوج کے بل بوتے پر اسے چنگل میں دبا رکھا ہے ، ہم اپنی فوج کو آزادی کشمیر کے لئے اذان جنگ نہیں دیتے، آپریشن جبرالٹر پر ہم اسے کوستے ہیں ، کارگل پر تو باقاعدہ تماشہ لگا اور فوج اور حکومت میں ایسی ٹھنی کہ حکومت کو جانا پڑا۔
ہم بھارت کی مذمت نہیں کرتے حالانکہ اس نے فوجی جارحیت کر کے منادر، جونا گڑھ اور حیدرآباد کے بعد کشمیر پر قبضہ کیا اور پھر اکہتر میں پاکستان کو دولخت کیا۔ ہمیں اپنی فوج سے بیر ہے اور بھارتی فوج کی ہر جارحیت پر ہم خاموش ہیں ، گویا خاموشی نیم رضا مندی ۔
کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ کلنٹن پاکستان آیا، ابھی نائن الیون نہیں ہوا تھا، اس نے بھارت میں پانچ دن گزارے اور ہمارے پاس پانچ گھنٹے۔ اس نے براہ راست نشری خطاب میں دھمکایا کہ آج کے دور میں طاقت سے سرحدیں تبدیل نہیں ہو سکتیں گویا بھارت نے جب طاقت کے زور پر سرحدیں تبدیل کیں تو اسے اس کی اجازت تھی۔ پاکستان پر ان دنوں ایک فوجی حکمران تھا، وہ کلنٹن کی دھمکی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کر سکتا تھا، اس نے بھی جوابی نشری تقریر کی اور صاف کہا کہ کشمیر کے دونوں طرف اور پورے پاکستان میں کشمیری لوگ بکھرے ہوئے ہیں، بھارتی فوج ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے گی تو وہ خاموش نہیں رہ سکتے اور پاکستان کے بس میں نہیں کہ انہیں کنٹرول لائن پار کرنے سے روک سکے۔ اور ایک میرے نظریاتی قائد مجید نظامی تھے جنہوں نے کہا تھا کہ انہیں ایٹمی میزائل کے ساتھ باندھ کر جموں چھاﺅنی پر داغ دیا جائے۔ آج کوئی حکمران ہے جو صدر مشرف کی طرح امریکہ کو ترکی بہ ترکی جواب دے سکے یا مجید نظامی کی طرح اپنا سینہ تان سکے۔
مجھے یہ خوف لاحق نہیں کہ مجھے جنگی جنونی کہا جا سکتا ہے کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ جنگ کا جنون تو اصل میں امریکہ اور نیٹو کے سر پر سوار ہے۔ ایک دنیا ان کی فوجوں نے روند ڈالی ہے۔ وہ جنگی جنون میں مبتلا نہیں تو میں آزادی کشمیر کی خواہش رکھنے والا اس گالی کا سزا وار کیسے ہو سکتا ہوں۔ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے، اس میں کسی کو شک ہے تو بابائے قوم کے اقوال پر نظر ڈال کر دیکھ لے یا پھر ملک کے گلی کو چوں میں گھوم پھر کر دیکھ لے کہ بھارت نے ہمارے دریاﺅں پر جو بند باندھ لئے ہیں، ان کی وجہ سے ہمارے گھروں میں کس قدر اندھیرا چھا گیا ہے اور ہمارے کھیت کس تیزی سے بنجر ہو رہے ہیں۔
ریاست پاکستان کی کئی مجبوریاں ہوں گی، اسے امریکی ڈالروں کی تھیلیاں درکار ہیں، مگر حافظ محمد سعید پر لوگ زیور نچھاور کرتے ہیں، گھر بار بیچ کر دولت ان کے قدموں میں ڈھیر کر دیتے ہیں، وہ انسانیت کی فلاح میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور مظلوم کشمیریوں کی دستگیری کریں، کوئی طاقت ان کے راستے میں حائل نہیں ہو سکتی۔
ح