• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میں بھولتا ہوں یا بھلایا جاتا ہوں تاکہ اپنی امت کے لئے ایک راہ پیدا کروں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
Screenshot_2015-12-09-18-19-10.png


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب!
انی لا انسی۔۔۔۔روایت کی تخریج درکار ہے۔
جزاک اللہ خیرا!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,567
پوائنٹ
791
15037 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب!
انی لا انسی۔۔۔۔روایت کی تخریج درکار ہے۔
جزاک اللہ خیرا!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
محترم بھائی ۔۔۔یہ حدیث موطا امام مالک میں اس طرح ہے :
« عَنْ مَالِكٍ أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنِّي لَأَنْسَى أَوْ أُنَسَّى لِأَسُنَّ»
ترجمہ :امام ؾ مالک کو یہ بات پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : میں بھولتا ہوں یا بھلایا جاتا ہوں تاکہ اپنی امت کے لئے ایک راہ پیدا کروں ‘‘
ــــــــــــــــــــــــــ
اور علامہ البانی (سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة ) میں حدیث نمبر (۱۰۱ ) میں لکھتے ہیں :
" أما إني لا أنسى، ولكن أنسى لأشرع ".
باطل لا أصل له.
وقد أورده بهذا اللفظ الغزالي في " الإحياء " (4 / 38) مجزوما بنسبته إليه صلى الله عليه وسلم فقال العراقي في " تخريجه ": ذكره مالك بلاغا بغير إسناد، وقال ابن عبد البر: لا يوجد في " الموطأ " إلا مرسلا لا إسناد له، وكذا قال حمزة الكناني: إنه لم يرد من غير طريق مالك، وقال أبو طاهر الأنماطي: وقد طال بحثي عنه وسؤالي عنه للأئمة والحفاظ فلم أظفر به ولا سمعت عن أحد أنه ظفر به، قال: وادعى بعض طلبة الحديث أنه وقع له مسندا.
قلت: فالعجب من ابن عبد البر كيف يورد الحديث في " التمهيد " جازما بنسبته إلى النبي صلى الله عليه وسلم في غير موضع منه، فانظر (1 / 100 و5 / 108 و10 / 184) ؟ ! .
قلت: الحديث في " الموطأ " (1 / 161) عن مالك أنه بلغه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إني لأنسى أو أنسى لأسن ".
فقول المعلق على " زاد المعاد " (1 / 286) ، وإسناده منقطع ليس بصحيح بداهة لأنه كما ترى بلاغ لا إسناد له، ولذلك قال الحافظ فيما نقل الزرقاني في " شرح الموطأ " (1 / 205) : لا أصل له.
وظاهر الحديث أنه صلى الله عليه وسلم لا ينسى بباعث البشرية وإنما ينسيه الله ليشرع، وعلى هذا فهو مخالف لما ثبت في " الصحيحين " وغيرهما من حديث ابن مسعود مرفوعا: " إنما أنا بشر أنسى كما تنسون، فإذا نسيت فذكروني "، ولا ينافي هذا أن يترتب على نسيانه صلى الله عليه وسلم حكم وفوائد من البيان والتعليم، والقصد أنه لا يجوز نفي النسيان الذي هو من طبيعة البشر عنه صلى الله عليه وسلم لهذا الحديث الباطل! لمعارضته لهذا الحديث الصحيح‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی امام مالک رحمہ اللہ نے یہ روایت بغیر سند (یہ کہہ کر نقل فرمائی کہ :انہیں یہ بات پہنچی ہے )
اور یہ روایت باطل اور بے بنیاد ہے ؛
لیکن غزالی نے احیاء العلوم میں یہ باطل روایت جزماً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی ہے اور علامہ عراقی رحمہ اللہ نے ’’ احیاء العلوم ‘‘ کی تخریج میں فرمایا ہے کہ :امام مالک نے اسے بغیر سند بلاغاً نقل کیا ہے ،اوریہی بات علامہ ابن عبد البر بھی کہتے ہیں
اور حمزہ الکنانی کا کہنا ہے کہ : امام مالک کے علاوہ اسے کسی نے نقل نہیں کیا ،اور ایک محدث ابو طاہر انماطی کا کہنا ہے کہ :
میں نے اس کی بڑی تحقیق و تلاش کی ، بہت سارے ائمہ اور حفاظ حدیث بھی سے اس کے متعلق پوچھا، لیکن کوئی اس کی حقیقت تک نہیں پہنچ پایا ،
لیکن علامہ ابن عبدالبرؒ پر تعجب ہے کہ انہوں نے "التمہید " میں کئی مقامات پر اس بے بنیا روایت کو
جزماً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے ۔
اور علامہ مزید لکھتے ہیں کہ :
اس حدیث کا ظاہر معنی تو یہ ہے کہ ’’ نبی کریم ﷺ اپنی بشریت کی وجہ سے نہیں بھولتے ،بلکہ اللہ انہیں بھلا دیتا ہے تاکہ شرعی حکم سامنے آئے ،
اور اس معنی سے یہ حدیث ’’ صحیحین ‘‘ یعنی بخاری و مسلم کی اس واضح حدیث کے خلاف ہے جس میں خود نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ :
" إنما أنا بشر أنسى كما تنسون، فإذا نسيت فذكروني " میں بھی بشر ہوں ،میں ویسے ہی کوئی چیز بھول جاتا ہوں جیسے تم بھول جاتے ہو ،تو جب میں کچھ بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا دیا کرو ‘‘
اور یہ بات اس کے منافی نہیں کہ پیغمبر کریم ﷺ کی بھول پر شرعی احکام ،و تعلیم حاصل ہوتی ہے ،
بلکہ مقصد و مطلب تو یہ ہے کہ : آپ ﷺ سے نسیان کی نفی جائز نہیں ، جو بشریت کا تقاضا ہے ،اس حدیث باطل کی بنیاد پر ۔۔جو صحیح حدیث کے خلاف بھی ہے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
Top