”اتحاد بین المسلمین“ کے ”بدترین موضوع“ پر ایک ”بہترین تحریر“ ہے، جو مسلمان ہونے کے دعویدار تمام مسالک بالخصوص شیعہ اور سنی عوام کو ”ایک“ ہوجانے کی دعوت دیتا ہے۔ اور یہی جاوید چوہدری کا اصل کنفیوزن ہے کہ وہ اسلام کو ”سنی“ اور ”شیعہ“ دونوں مسالک میں ”تلاش“ کرتا ہے، اگر تلاش کرتا ہے تو۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نہ تو شیعہ تھے، نہ ہی سنی۔ وہ صرف اور صرف ”مسلم“ تھے۔
اتحاد بین المسلمین کی تحریک کو میں ”اتحاد بین المختلفین“ کہتا ہوں۔ اب آپ ہی بتلائیے کہ ”مختلفین“ کے درمیان ”اتحاد“ کیسے ہوسکتا ہے۔ اگر ہوسکتا ہے، تو صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ یہ سب کہ سب علی لاعلان پہلے ایک دوسے سے ”مختلف“ ہونے کا اعلان کریں۔ اپنے اپنے الگ تھلگ دین و مذہب کا اقرار کریں پھر یہ آپس میں اس بات پر کوئی ”عمرانی معاہدہ“ کریں کہ ہم ایک دوسرے سے الگ ہونے کے باوجود اسی دھرتی کے باسی ہیں۔ ہمیں اسی دھرتی پر ایک دوسرے کے ساتھ جینا مرنا ہے، لہٰذا ہم ایک دوسرے کے الگ الگ ”دین و مذہب“ میں عدم مداخلت پر کاربند رہتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا نہ ہونے کا معاہدہ کرلیں۔
لیکن عملاً ایسا ممکن نہیں۔ کیونکہ ان میں سے ہر فرقہ اور گروہ صرف اور صرف اپنے ”ہم مسلک“ کو مسلمان سمجھتا ہے اور اسلام پر اپنی ”اجارہ داری“ قائم کرنا چاہتا ہے۔ جب مختلف العقائد اور مختلف الاعمال کے حامل
یہ فرقے اسلام کو صرف ”ہمارا“ قرار دینے پر تلے ہوں تو یہ عقیدہ و عمل کا یہ وسیع اختلاف انہیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے سے کیسے روک سکتا ہے۔ یہ قیامت تلک ایک دوسرے سے لڑتے اور ”جہاد“ کرتے رہیں گے۔ اور جاوید چوہدری جیسے کنفیوزڈ لوگ اتحاد بین المسلمین یا اتحاد بین المختلفین کے لئے کام کرتے کرتے مرجائیں گے۔ اس کا کوئی ”نتیجہ“ برآمد نہیں ہوگا۔
کاش کہ ”ہم“ ان پڑھے لکھے اور معاشرے میں اپنا اثر و رسوخ رکھنے والے لکھاریوں کو یہ بتلانے اور سمجھانے میں کبھی کامیاب ہوسکیں (ابھی تک تو کسی سنجیدہ حلقہ نے اس جانب کوئی عملی کوشش کا آغاز ہی نہیں کیا، کامیاب کیا خاک ہوں گے، خاکم بدہن) کہ دین اسلام نہ تو سنی فرقہ میں ہے اور نہ شیعہ فرقہ میں اور نہ ہی کسی اور فرقہ میں کہ اللہ تو صاف صاف فرقہ بندی سے ہی منع کرتا ہے۔ اسلام صرف اور صرف وہی ہے جو (تیس پاروں، 114 سورتوں اور حفاظ کے سینوں میں محفوظ رہنے والے) قرآن مجید اور (اجماع امت کے مطابق) صحیح احادیث میں موجود ہے۔ اسلام صرف وہی دین و مذہب ہے جس کا عملی نمونہ دور رسالت و صحابہ میں نظر آتا ہے۔ اس سے ہٹ کر آج مختلف فرقوں میں دین و مذہب کا جو کلر نظر آتا ہے، وہ اصل دین نہیں ہے۔ آج قرآن بھی محفوظ ہے، صحیح احادیث بھی اور ادوار رسالت و صحابہ کے عملی نمونے بھی۔ دین کو انہی ”باؤنڈریز“ میں تلاش کیا جائے تبھی حقیقی دین سے آشنائی ہوگی۔ محرم اور ربیع الاول کے جلوسوں یا فرقہ وارانہ مجالس میں نہیں۔
لیکن یہ بات جاوید چوہدری جیسے ”عظیم لکھاریوں“ کو کون سمجھائے؟ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ یہی تو ہے ٹین ملین ڈالرز کا سوال۔ جس کے جواب کا وقت انتظار کر رہا ہے۔