سیّد لبید غزنوی
رکن
- شمولیت
- مئی 16، 2013
- پیغامات
- 258
- ری ایکشن اسکور
- 7
- پوائنٹ
- 75
ناشکری کی سزا
اللہ کی شکر گذاری کرنے والے اللہ کی بعض نعمتوں کی شکر گذاری کرتے ہیں اور بعض کی نا شکری۔ شکرگزاری کرتے بھی ہیں تو خاص خاص حالات میں، انہیں کے بارے میں اللہ نے اپنی متعدد نعمتوں کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا :
ترجمہ : ”کہہ دیجئے کہ وہی اللہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے کان، آنکھیں اور دل بنائے ۔ تم بہت ہی کم شکر گزاری کرتے ہو“۔(الملک 23)
منعم حقیقی کی شکر گذاری بندوں پر واجب ہے اور جو اس کے حق میں کوتاہی کرے گا، وہ کئی وجوہات سے سزا کامستحق ہوگا۔ ان میںسے بعض درج ذیل ہیں۔
1۔ نقص ایمان:
شکران نعمت نصف ایمان ہے، ناشکری کی وجہ سے خود بخود ایمان میں کمی آتی ہے اور کمال ایمان کے درجہ سے محرومی بھی لازم آتی ہے۔ اس لیے کہ شکرِ نعمت اور کفرانِ نعمت دو متضاد چیزیں ہیں، جوایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جب سلیمان عليه السلام کوبہت ساری نعمتوں سے نوازا تو حضرت سلیمان عليه السلام ان کا اعتراف کرتے ہوئے علی الاعلان شکر بجا لائے۔
ترجمہ : ”یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں یا ناشکری“۔( نمل 40)
2۔ زوالِ نعمت اور عذابِ الٰہی کا نزول
کبھی نا شکری کا انجام دنیا میں ہی دکھا یا جاتا ہے اور کبھی آخرت میں ، ناشکری کی سزا بہر حال ملتی ہے۔ کتنی بستیاں آباد تھیں اور مختلف نعمتوں میں پل رہی تھیں لیکن وہاں کے باشندوں نے جب نا شکری کی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے نعمتوں کو چھین لیا اور وہ برباد ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی طرح کی ایک بستی کی مثال بیان فرمائی ہے:
”اللہ تعالیٰ اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن و اطمینان سے تھی۔ اس کی روزی اس کے پاس با فراغت ہر جگہ سے چلی آرہی تھی پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفر کیا (ناشکری کی) تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور ڈر کا مزہ چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا“۔ (النحل 112(
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا:”بے شک اللہ تعالیٰ کی جب ناشکری کی جاتی ہے تو نعمت کو عذاب سے بدل دیا جاتا ہے“ (الدر المنشور 1/279(
اللہ کی بے شمار نعمتیں ایسی ہیں جیسے امن و سکون ، راحت، خوش حالی ، صحت و سلامتی، آل و اولاد ، اعضاءو جوارح کی سلامتی اور فرصت کے اوقات وغیرہ‘ جب ان نعمتوں کا حق ادا نہ کیا جائے ، زبان سے ، دل سے اور اعضاءو جوارح سے تو ان نعمتوں کا زوال لازم آتا ہے (العیاذ باللہ – اللہ کی پناہ) اور شکر گذاری سے ہی نعمتیں ہمیشہ باقی رہتی ہیں نہ کہ ناشکری سے۔
3۔ نعمتوں کی بقاءاورزوال برکت
نعمتوں کے ساتھ بے برکتی بھی ایک طرح کا عذاب ہے یا سزا ہے، جیسا کہ ہم روز مرہ کی زندگی میں اس کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے کہ قاعدہ ہے الجزاءمن جنس العمل۔” جیسی کرنی ویسی بھرنی“۔ لہذا ہمیشہ یہ دعا زبان پر ہونی چاہیے:
ترجمہ :” اے پروردگار ! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاوں جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں اور میرے ماں باپ پر اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے ،مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں شامل کرلے“۔( النمل-19 )
نعمتِ خداوندی پر شکر الٰہی کے اسباب
ذیل میں بعض اسباب و ذرائع بیان کیے جا رہے ہیں جو شکر الٰہی کے مظہر ہیں،یہ چند مثالیں ہیں، بالکلیہ ان کا شمار ناممکن ہے ۔ لہٰذا بعض اہم ذرائع کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:
1۔ نعمتوں پر شکر الٰہی کی تجدید:
حضرت داود علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ علیہ السلام نے رب العالمین سے مخاطب ہو کر فرمایا : میں تیرا شکر کیسے بجا لاوں ؟ تیری شکر گذاری خود بھی ایک مستقل نعمت ہے جو تیرے فضل و کرم سے ہے تو اللہ نے فرمایا اَلآنَ شَکَر تَنِی یَا دَاوُدُ ترجمہ: ”ا ب تم نے میرا شکر ادا کر دیا ، اے داود“۔ (تفسیر قرطبی ، سورہ ابراہیم کی آیت34(
2۔ اس بات پر ایمان و یقین کہ اللہ تعالیٰ ہی انعام و اکرام کرنے والا ہے:
اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ اللہ ہی عبادت کا مستحق ہے اور وہی قابل شکر اور قابل تعریف ہے۔ لہٰذا اس کی بندگی کے ساتھ تعریف و توصیف اور شکر بھی اُسی کے لیے سزاوار ہے ۔
3۔ الحمد للہ کہنا :
حضرت انس رضي الله عنه سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :
” بےشک اللہ تعالیٰ بندہ سے اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ بندہ لقمہ کھائے، پھر اس کی اس نعمت پر شکر بجا لائے اور پانی پئے، پھر اس پر اس کی تعریف بیان کرے“۔ (مسلم)
حضرت سلمان فارسی رضي الله عنه سے منقول ہے کہ حضرت نوح عليه السلام جب لباس پہنتے یا کھانا کھاتے یا کوئی مشروب پیتے تو فوراً الحمد للہ کہتے ۔ اسی وجہ سے ان کا لقب عبد شکور رکھا گیا، یعنی شکر گذار بندہ ۔(الدر المنشور 5/236 -237)
4۔ علم شرعی سے آراستہ ہونا:
شکر الہی کے لیے شرعی علوم سے آراستہ ہونا بھی ضروری ہے ۔ اس لیے کہ جہالت سے کفران نعمت پیدا ہوتی ہے لیکن علم شرعی ایک نور ہے جو بصیرت عطاکرنے کے ساتھ ساتھ نعمتوں کی قدر شناسی پیدا کرتی ہے۔
5۔ مخلوق کے ساتھ حسن سلوک:
جس طرح اللہ نے بندہ پر نعمتوں کے ذریعہ احسان کیاہے اسی طرح شکر گذار کو چاہیے کہ وہ بھی اپنے سے کم تر لوگوں کے ساتھ احسان کا برتاو کرے اور ان کے ساتھ غم خواری کرے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نعمتوں کی بارش برستی رہے گی اور بندہ اللہ کا محبوب ہوجائے گا۔
6۔ اظہارِ نعمت:
اللہ تعالیٰ جب بندہ پر انعام و اکرام کرتا ہے تو وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کی نعمتوں کے اثرات بندہ پر نظر آئیں ، اس لیے نعمتوں کو چھپانا ناشکری ہے اور اس کا اظہار شکر خداوندی کا طریقہ ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ پوری نعمتوں کو ظاہر کرنے کی بجائے بعض کا اظہار اور بعض کو چھپانا بھی لازم ہے، اس لیے کہ نظر برحق ہے اور حاسدوں کے حسد سے بچنے کے لیے بھی نعمتوں کو چھپانا ضروری ہے۔ عقل مند آدمی وہ ہے جو حالات کا صحیح اندازہ کر لے اور مواقع کی نزاکتوں کا پورا لحاظ رکھے
7۔ بھلائی کا حکم دینا ، برائی سے روکنا :
اللہ کی خاطر بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا بھی لازم ہے بشرطیکہ حکمت کا طریقہ اپنایا جائے اور اپنے سے کم تر لوگوں کی تحقیر کا جذبہ کارفرما نہ ہو۔
8۔ نیکی اور تقویٰ کے کام میں آپس میں تعاون کرنا:
ارشاد باری ہے : ترجمہ :” نیکی اور پرہیز گاری میںایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ اور ظلم و زیادتی میں مدد نہ کرو“۔( مائدہ 2 )
9۔ عمل صالح کی کثرت اور حرام سے اجتناب
ارشاد ِ ربّانی ہے۔ ترجمہ:” کسی قوم کی حالت اللہ تعالیٰ نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اُسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے“۔ ( الرعد 11 )
تحریر :سید لبید غزنوی
اللہ کی شکر گذاری کرنے والے اللہ کی بعض نعمتوں کی شکر گذاری کرتے ہیں اور بعض کی نا شکری۔ شکرگزاری کرتے بھی ہیں تو خاص خاص حالات میں، انہیں کے بارے میں اللہ نے اپنی متعدد نعمتوں کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا :
ترجمہ : ”کہہ دیجئے کہ وہی اللہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے کان، آنکھیں اور دل بنائے ۔ تم بہت ہی کم شکر گزاری کرتے ہو“۔(الملک 23)
منعم حقیقی کی شکر گذاری بندوں پر واجب ہے اور جو اس کے حق میں کوتاہی کرے گا، وہ کئی وجوہات سے سزا کامستحق ہوگا۔ ان میںسے بعض درج ذیل ہیں۔
1۔ نقص ایمان:
شکران نعمت نصف ایمان ہے، ناشکری کی وجہ سے خود بخود ایمان میں کمی آتی ہے اور کمال ایمان کے درجہ سے محرومی بھی لازم آتی ہے۔ اس لیے کہ شکرِ نعمت اور کفرانِ نعمت دو متضاد چیزیں ہیں، جوایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جب سلیمان عليه السلام کوبہت ساری نعمتوں سے نوازا تو حضرت سلیمان عليه السلام ان کا اعتراف کرتے ہوئے علی الاعلان شکر بجا لائے۔
ترجمہ : ”یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں یا ناشکری“۔( نمل 40)
2۔ زوالِ نعمت اور عذابِ الٰہی کا نزول
کبھی نا شکری کا انجام دنیا میں ہی دکھا یا جاتا ہے اور کبھی آخرت میں ، ناشکری کی سزا بہر حال ملتی ہے۔ کتنی بستیاں آباد تھیں اور مختلف نعمتوں میں پل رہی تھیں لیکن وہاں کے باشندوں نے جب نا شکری کی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے نعمتوں کو چھین لیا اور وہ برباد ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی طرح کی ایک بستی کی مثال بیان فرمائی ہے:
”اللہ تعالیٰ اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن و اطمینان سے تھی۔ اس کی روزی اس کے پاس با فراغت ہر جگہ سے چلی آرہی تھی پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفر کیا (ناشکری کی) تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور ڈر کا مزہ چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا“۔ (النحل 112(
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا:”بے شک اللہ تعالیٰ کی جب ناشکری کی جاتی ہے تو نعمت کو عذاب سے بدل دیا جاتا ہے“ (الدر المنشور 1/279(
اللہ کی بے شمار نعمتیں ایسی ہیں جیسے امن و سکون ، راحت، خوش حالی ، صحت و سلامتی، آل و اولاد ، اعضاءو جوارح کی سلامتی اور فرصت کے اوقات وغیرہ‘ جب ان نعمتوں کا حق ادا نہ کیا جائے ، زبان سے ، دل سے اور اعضاءو جوارح سے تو ان نعمتوں کا زوال لازم آتا ہے (العیاذ باللہ – اللہ کی پناہ) اور شکر گذاری سے ہی نعمتیں ہمیشہ باقی رہتی ہیں نہ کہ ناشکری سے۔
3۔ نعمتوں کی بقاءاورزوال برکت
نعمتوں کے ساتھ بے برکتی بھی ایک طرح کا عذاب ہے یا سزا ہے، جیسا کہ ہم روز مرہ کی زندگی میں اس کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے کہ قاعدہ ہے الجزاءمن جنس العمل۔” جیسی کرنی ویسی بھرنی“۔ لہذا ہمیشہ یہ دعا زبان پر ہونی چاہیے:
ترجمہ :” اے پروردگار ! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاوں جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں اور میرے ماں باپ پر اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے ،مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں شامل کرلے“۔( النمل-19 )
نعمتِ خداوندی پر شکر الٰہی کے اسباب
ذیل میں بعض اسباب و ذرائع بیان کیے جا رہے ہیں جو شکر الٰہی کے مظہر ہیں،یہ چند مثالیں ہیں، بالکلیہ ان کا شمار ناممکن ہے ۔ لہٰذا بعض اہم ذرائع کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:
1۔ نعمتوں پر شکر الٰہی کی تجدید:
حضرت داود علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ علیہ السلام نے رب العالمین سے مخاطب ہو کر فرمایا : میں تیرا شکر کیسے بجا لاوں ؟ تیری شکر گذاری خود بھی ایک مستقل نعمت ہے جو تیرے فضل و کرم سے ہے تو اللہ نے فرمایا اَلآنَ شَکَر تَنِی یَا دَاوُدُ ترجمہ: ”ا ب تم نے میرا شکر ادا کر دیا ، اے داود“۔ (تفسیر قرطبی ، سورہ ابراہیم کی آیت34(
2۔ اس بات پر ایمان و یقین کہ اللہ تعالیٰ ہی انعام و اکرام کرنے والا ہے:
اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ اللہ ہی عبادت کا مستحق ہے اور وہی قابل شکر اور قابل تعریف ہے۔ لہٰذا اس کی بندگی کے ساتھ تعریف و توصیف اور شکر بھی اُسی کے لیے سزاوار ہے ۔
3۔ الحمد للہ کہنا :
حضرت انس رضي الله عنه سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :
” بےشک اللہ تعالیٰ بندہ سے اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ بندہ لقمہ کھائے، پھر اس کی اس نعمت پر شکر بجا لائے اور پانی پئے، پھر اس پر اس کی تعریف بیان کرے“۔ (مسلم)
حضرت سلمان فارسی رضي الله عنه سے منقول ہے کہ حضرت نوح عليه السلام جب لباس پہنتے یا کھانا کھاتے یا کوئی مشروب پیتے تو فوراً الحمد للہ کہتے ۔ اسی وجہ سے ان کا لقب عبد شکور رکھا گیا، یعنی شکر گذار بندہ ۔(الدر المنشور 5/236 -237)
4۔ علم شرعی سے آراستہ ہونا:
شکر الہی کے لیے شرعی علوم سے آراستہ ہونا بھی ضروری ہے ۔ اس لیے کہ جہالت سے کفران نعمت پیدا ہوتی ہے لیکن علم شرعی ایک نور ہے جو بصیرت عطاکرنے کے ساتھ ساتھ نعمتوں کی قدر شناسی پیدا کرتی ہے۔
5۔ مخلوق کے ساتھ حسن سلوک:
جس طرح اللہ نے بندہ پر نعمتوں کے ذریعہ احسان کیاہے اسی طرح شکر گذار کو چاہیے کہ وہ بھی اپنے سے کم تر لوگوں کے ساتھ احسان کا برتاو کرے اور ان کے ساتھ غم خواری کرے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نعمتوں کی بارش برستی رہے گی اور بندہ اللہ کا محبوب ہوجائے گا۔
6۔ اظہارِ نعمت:
اللہ تعالیٰ جب بندہ پر انعام و اکرام کرتا ہے تو وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کی نعمتوں کے اثرات بندہ پر نظر آئیں ، اس لیے نعمتوں کو چھپانا ناشکری ہے اور اس کا اظہار شکر خداوندی کا طریقہ ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ پوری نعمتوں کو ظاہر کرنے کی بجائے بعض کا اظہار اور بعض کو چھپانا بھی لازم ہے، اس لیے کہ نظر برحق ہے اور حاسدوں کے حسد سے بچنے کے لیے بھی نعمتوں کو چھپانا ضروری ہے۔ عقل مند آدمی وہ ہے جو حالات کا صحیح اندازہ کر لے اور مواقع کی نزاکتوں کا پورا لحاظ رکھے
7۔ بھلائی کا حکم دینا ، برائی سے روکنا :
اللہ کی خاطر بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا بھی لازم ہے بشرطیکہ حکمت کا طریقہ اپنایا جائے اور اپنے سے کم تر لوگوں کی تحقیر کا جذبہ کارفرما نہ ہو۔
8۔ نیکی اور تقویٰ کے کام میں آپس میں تعاون کرنا:
ارشاد باری ہے : ترجمہ :” نیکی اور پرہیز گاری میںایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ اور ظلم و زیادتی میں مدد نہ کرو“۔( مائدہ 2 )
9۔ عمل صالح کی کثرت اور حرام سے اجتناب
ارشاد ِ ربّانی ہے۔ ترجمہ:” کسی قوم کی حالت اللہ تعالیٰ نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اُسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے“۔ ( الرعد 11 )
تحریر :سید لبید غزنوی