جب حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ خلیفہ کی مسند پر بیٹھے تو جہاں اور دوسرے بہت سے ارتاد کے فتنوں کا سامنا کرنا پڑا وہاں ایک اور عظیم فتنہ منکرین زکوۃ کا تھا -۔بنوعبس، بنوذیبان اور بنوبکر اس انکار میں سرفہرست تھے۔ منکرین زکوۃ ک اایک وفد خلیفہ وقت کے ساتھ مزاکرات کے لیے مدینہ طیبہ بھی آیا اور عرض کی کہ ہم نماز پڑھتے ہیں لیکن زکوۃ سے ہمیں رخصت دے دی جائے ،حالات اس حد تک بگڑ چکے تھےکہ شہر مدینہ صحرا میں بھیگی ہوئی تنہا بکری کی مانند ہوچکا تھا- چنانچہ صحابہ کی اکثریت نے اس وفد کے موقف کی تائید کی جن میں حضرت عمر رضی الله عنہ ؓجیسے جید صحابی کی رائے بھی منکرین کے حق میں تھی - حضرت عمر رضی الله عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ سے فرمایا "اے امیر المومنین آپ ان لوگوں سے لڑیں گے جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ الله ایک ہے اور محمّد صل الله علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں؟؟؟
اب حضرت ابوبکر صدیق راضی الله عنہ کا جواب سنیے آپ نے فرمایا: عمر تجھے کیا ہوا ہے -زمانہ جاہلیت میں تو تم بڑے جابر تھے اب منکرین کے لئے تمہارا دل اتنا نرم کیسے ہوگیا ؟؟؟ قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے مسلمانوں کا نگہبان بنایا ہے - اگر مجھے زکوۃ کی ایک رسی کے لیے بھی ان مرتدین زکوۃ سے جنگ لڑنی پڑی (تلوار اٹھانی پڑی) تو میں لڑوں گا۔ جب تک کہ میری تلوار پتھر پر مارنے کے قابل نا ہو جائے (یعنی گھس جائے )-
کیا حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ نبی کریم صل الله وسلم کی سنّت سے منحرف ہوگئے تھے ؟؟؟ جو ان لوگوں کے خلاف تلوار اٹھانے کھڑے ہو گئے تھے جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ الله ایک ہے اور محمّد صل الله علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں؟؟؟
آج کل کے حکمران اور ان کے حواری جو ان مرتدین زکوۃ سے فسق و کفر میں کہیں زیادہ آگے ہیں ان کے خلاف خروج یا ان کو قتل کرنا کیوں جائز نہیں؟؟؟
(فاسق وفاجر لوگوں کی تکفیر سے گریز کیا جائے۔ انتظامیہ!)