Adnani Salafi
رکن
- شمولیت
- دسمبر 18، 2015
- پیغامات
- 47
- ری ایکشن اسکور
- 16
- پوائنٹ
- 32
نبی اور رسول میں فرق
رسول اور نبی میں لغت کے لحاظ سے یہ فرق ہے کہ رسالت کا معنی پیغام پہنچانا اور نبوت "نبا" سے ماخوذ ہے خبر دینا یا نبوت"نبوۃ"سے ماخوذ ہے۔ اس کا معنی ہے:
رفعت شان۔
شرعی طور پر ہر رسول نبی ہوتا ہے اور ہر نبی رسول ہوتا ہے، صرف اعتباری فرق ہے کہ اللہ کی طرف نسبت ہو تو رسول، یعنی اللہ کا پیغام لانے والا اور بندوں کی طرف نسبت ہوتو نبی،یعنی بندوں کو خبر دینے والا۔اس لیے سورہ مریم میں موسٰی اور عیسی علیہ السلام کے لیے رسول اور نبی دونوں صفات بیان کی گئی ہیں اور ہمارے نبی، خاتم النبیینﷺ کی صفت میں بھی رسول اور نبی دونوں صفات جمع کی گئی ہیں۔
رسول کے شرعی معنی میں خصوصیت یہ ہے کہ رسالت کی دو قسمیں ہیں:
1۔قولی رسالت:
یعنی اقوال،کلمات اور الفاظ کا پیغام دینا اور پہنچانا۔
2۔فعلی اور عملی رسالت:
یعنی افعال اور کیفیات اعمال کا عملی پیغام دینا۔
ایمان بالرسالت میں یہ دونوں(قولی اور فعلی و عملی رسالت کے) کے معانی شامل ہیں۔
قولی رسالت:
قولی رسالت کے لیے قرآنی دلیل یہ ہے کہ اللہ سبحان و تعالی نے قرآن کریم میں 3299 مرتبہ لفظ"قل"، سے آپ کو مخاطب فرمایا ہے، جس کے معنی ہے:فرما دیجئے، یعنی یہ پیغام قولی طریقے سے پہنچا دیں۔اس پیغام میں رسالت کی امانت داری اصل صفت ہے۔
لہذا وہ اس بات کی نسبت اپنی طرف نہیں کرسکتے،یعنی ایسے نہیں کہہ سکتے کہ میں یہ بات اپنی طرف سے کرتا ہوں،لہذا رسول کا سارا کلام وحی پر مبنی ہوتا ہے اور رسول اور وکیل میں یہی فرق ہے۔رسول صرف مرسل،(بھیجنے والے)کا پیغام پہنچاتا ہے،اس پیغام کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتا جبکہ وکیل بات کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے،لہذا عقود(معاہدوں)وغیرہ میں جو وکیل ہوتا ہے حقوق کی ذمہ داری اسی پر عائد ہوتی ہے،
جبکہ رسول پر حقوق کی ذمہ داری نہیں عائد ہوتی،اس لیے اللہ تعالی نے اپنے رسول سے فرمایا:
وَمَآ اَنْتَ عَلَيْـهِـمْ بِوَكِيْلٍ
"اور آپ ان کے ذمے دار نہیں"۔(الانعام:107)
نیز فرمایا:
وَّلَا تُسْاَلُ عَنْ اَصْحَابِ الْجَحِيْـمِ
"آپ سے جہنمیوں کے بارے میں کوئی باز پرس نہیں ہوگی"۔(البقرہ:119)
اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ کی قولی احادیث اللہ تعالی کی طرف سے وحی پر مبنی ہیں جس کا نام وحیِ خفی یا وحیِ غیر متلو ہے۔اگر احادیث رسول کو وحی سے مستثنٰی کیا جائے جیسا کہ پرویزی نظریہ ہے تو اس سے رسول کو خیانت کی طرف منسوب کرنا لازم آئے گا،(العیاذ باللہ) یا یہ لازم آئے گا کہ جس وقت نبی کریم احادیث بیان کررہے تھے اس وقت ان سے صفت رسالت منقطع ہوگئی تھی،العیاذ باللہ۔
فعلی اور عملی رسالت:
اس کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے رسولوں کو اور خصوصا آخری رسول کو بہت سے اعمال کے متعلق وحی بھی کی کہ فلاں فلاں عمل کرتے رہو،لہذا انہوں نے اس کی لازمی پابندی کی۔ان اعمال کا تذکرہ اور انکے کرنے کا طریقہ قرآن کریم میں بالتفیل موجود نہیں،اس کی تفصیل احادیث رسول سے ملتی ہے۔اگر اسے وحی نہ کہا جائے تو پھر جب رسول اللہﷺ ان پر عمل کررہے تھے تو کیا اس وقت آپ سے صفت رسالت ختم ہوگئی تھی؟اس کے متعلق چند آیات ملاحظہ فرمائیں،فرمان الٰہی ہے:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِىْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّـٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ
"ہم نے ہر قوم میں ایک رسول بھیجا کہ(وہ دعوت دیں کہ اے لوگو)اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو"۔(سورہ النحل:36)
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُـوْحِىٓ اِلَيْهِ اَنَّهٝ لَآ اِلٰـهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ
"اور ہم نے تم سے پہلے ایسا کوئی رسول نہیں بھیجا جس کی طرف یہ وحی نہ کی ہو کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں سو میری ہی عبادت کرو"۔(سورہ الانبیآ:25)
نیز فرمایا:
يَآ اَيُّـهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ۖ
"اے رسولو!پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو"۔(المؤمنون:51)
نیز فرمایا:
اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْـدَةِ
"مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ اس شہر کے رب کی بندگی کروں"۔(النمل:91)
نیز فرمایا:
وَاَنْ اَتْلُوَ الْقُرْاٰنَ ۖ
اور یہ کہ میں قرآن کی تلاوت کروں"۔(النمل:92)
نیز فرمایا:
يَآ اَيُّـهَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۖ
"اے رسول! جو تجھ پر تیرے رب کی طرف سے اترا ہے اسے پہنچا دے"۔(المآئدہ:65)
نیز فرمایا:
يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ اتَّقِ اللّـٰهَ وَلَا تُطِـعِ الْكَافِـرِيْنَ وَالْمُنَافِقِيْنَ ۗ
"اے نبی اللہ سے ڈر اور کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانیں"(الاحزاب:1)
نیز فرمایا:
وَاتَّبِــعْ مَا يُوْحٰٓى اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ
"اور اس کی تابعداری کر جو تیرے رب کی طرف سے تیری طرف بھیجا گیا ہے"(الاحزاب:2)
نیز فرمایا:
اُتْلُ مَآ اُوْحِىَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَاَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ
"جو کتاب تیری طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھا کرو اور نماز کے پابند رہو"(العنکبوت:45)
نیز فرمایا:
يَآ اَيُّـهَا الْمُزَّمِّل(1)ُ قُمِ اللَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا(2)نِّصْفَهٝٓ اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيْلًا (3)اَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَـرْتِيْلًا (44)اِنَّا سَنُلْقِىْ عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيْلًا (5)اِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِىَ اَشَدُّ وَطْئًا وَّاَقْوَمُ قِيْلًا (6)اِنَّ لَكَ فِى النَّـهَارِ سَبْحًا طَوِيْلًا (7)وَاذْكُرِ اسْـمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا (8)
اے چادر اوڑھنے والے۔رات کو قیام کر مگر تھوڑا سا حصہ۔آدھی رات یا اس میں سے تھوڑا سا حصہ کم کر دے۔یا اس پر زیادہ کردو اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔ہم عنقریب آپ پر ایک بھاری بات کا (بوجھ) ڈالنے والے ہیں۔بے شک رات کا اٹھنا نفس کو خوب زیر کرتا ہے اور بات بھی صحیح نکلتی ہے۔بے شک دن میں آپ کے لیے بڑا کام ہے۔
(سورہ المزمل)
نیز فرمایا:
يَآ اَيُّـهَا الْمُدَّثِّرُ (1)قُمْ فَاَنْذِرْ (2)وَرَبَّكَ فَكَـبِّـرْ (3)وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4)وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (5)
وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْـثِرُ (6)وَلِرَبِّكَ فَاصْبِـرْ (7)
اے کپڑے میں لپٹنے والے۔اٹھو پھر (کافروں کو) ڈراؤ۔اور اپنے رب کی بڑائی بیان کرو۔اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔اور میل کچیل دور کرو۔
اور بدلہ پانے کی غرض سے احسان نہ کرو۔
(سورہ المدثر)
ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں اعمال کا ذکر ہے۔ان ہی آیات کریمہ میں رسولوں کو اللہ تعالی کی بندگی کرنے کا حکم بھی ہے اور اس(بندگی ہی) میں قلبی،لسانی،بدنی اور مالی ہر قسم کی عبادت شامل ہے۔ان آیات میں پاکیز چیزیں کا کھانے،تلاوت کرنے،تبلیغ اور دعوت کا کام کرنے،توکل و تقوی اختیار کرنے،اقامت صلاہ،قیام اللیل،ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھنے،اللہ تعالی کا ذکر کرنے،سب سے تعلق توڑ کر اسی کا ہو رہنے،اللہ تعالی کی کبریائی بیان کرنے،کپڑے پاک رکھنے،ہر قسم کی نجاست سے اجتناب کرنے اور صبر کرنے کا حکم ہے۔یہ سارے اعمال ہیں۔
اگر رسول اللہﷺ یہ اعمال بجالائے ہیں اور یقینا بجالائے ہیں تو ان کی کیفیت،ہئیت،اوقات اور مقدار وغیرہ وغیرہ ضرور آپ سے منقول ہیں لیکن وہ قرآن کریم میں مذکور نہیں بلکہ ان احادیث میں ہے۔ان احادیث اعمال کو ماننا انکی رسالت کو ماننا ہے اور ان سے انکار انکی رسالت سے انکار ہے۔پرویزی مکتب فکر کی اندھا دھند تقلید کرنے والے تو رسول اللہﷺ کو صرف ایک ڈاکیے کی حیثیت سے دیکھتے ہیں کہ ڈاک پہنچائی اور پھر اپنے کام میں لگ گئے۔ڈاک پہنچانے کے سوا دوسرے اوقاف میں اسے ڈاکیا نہیں کہا جاسکتا۔معلوم ہوا ان کی عقل و دانش پر جہل اور تعصب کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔وہ اپنے آپ کو اہل قرآن کہتے ہیں جبکہ وہ سرے سے قرآن کو سمجھتے ہی نہیں۔
انکار حدیث سے انکار قرآن
رفعت شان۔
شرعی طور پر ہر رسول نبی ہوتا ہے اور ہر نبی رسول ہوتا ہے، صرف اعتباری فرق ہے کہ اللہ کی طرف نسبت ہو تو رسول، یعنی اللہ کا پیغام لانے والا اور بندوں کی طرف نسبت ہوتو نبی،یعنی بندوں کو خبر دینے والا۔اس لیے سورہ مریم میں موسٰی اور عیسی علیہ السلام کے لیے رسول اور نبی دونوں صفات بیان کی گئی ہیں اور ہمارے نبی، خاتم النبیینﷺ کی صفت میں بھی رسول اور نبی دونوں صفات جمع کی گئی ہیں۔
رسول کے شرعی معنی میں خصوصیت یہ ہے کہ رسالت کی دو قسمیں ہیں:
1۔قولی رسالت:
یعنی اقوال،کلمات اور الفاظ کا پیغام دینا اور پہنچانا۔
2۔فعلی اور عملی رسالت:
یعنی افعال اور کیفیات اعمال کا عملی پیغام دینا۔
ایمان بالرسالت میں یہ دونوں(قولی اور فعلی و عملی رسالت کے) کے معانی شامل ہیں۔
قولی رسالت:
قولی رسالت کے لیے قرآنی دلیل یہ ہے کہ اللہ سبحان و تعالی نے قرآن کریم میں 3299 مرتبہ لفظ"قل"، سے آپ کو مخاطب فرمایا ہے، جس کے معنی ہے:فرما دیجئے، یعنی یہ پیغام قولی طریقے سے پہنچا دیں۔اس پیغام میں رسالت کی امانت داری اصل صفت ہے۔
لہذا وہ اس بات کی نسبت اپنی طرف نہیں کرسکتے،یعنی ایسے نہیں کہہ سکتے کہ میں یہ بات اپنی طرف سے کرتا ہوں،لہذا رسول کا سارا کلام وحی پر مبنی ہوتا ہے اور رسول اور وکیل میں یہی فرق ہے۔رسول صرف مرسل،(بھیجنے والے)کا پیغام پہنچاتا ہے،اس پیغام کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتا جبکہ وکیل بات کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے،لہذا عقود(معاہدوں)وغیرہ میں جو وکیل ہوتا ہے حقوق کی ذمہ داری اسی پر عائد ہوتی ہے،
جبکہ رسول پر حقوق کی ذمہ داری نہیں عائد ہوتی،اس لیے اللہ تعالی نے اپنے رسول سے فرمایا:
وَمَآ اَنْتَ عَلَيْـهِـمْ بِوَكِيْلٍ
"اور آپ ان کے ذمے دار نہیں"۔(الانعام:107)
نیز فرمایا:
وَّلَا تُسْاَلُ عَنْ اَصْحَابِ الْجَحِيْـمِ
"آپ سے جہنمیوں کے بارے میں کوئی باز پرس نہیں ہوگی"۔(البقرہ:119)
اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ کی قولی احادیث اللہ تعالی کی طرف سے وحی پر مبنی ہیں جس کا نام وحیِ خفی یا وحیِ غیر متلو ہے۔اگر احادیث رسول کو وحی سے مستثنٰی کیا جائے جیسا کہ پرویزی نظریہ ہے تو اس سے رسول کو خیانت کی طرف منسوب کرنا لازم آئے گا،(العیاذ باللہ) یا یہ لازم آئے گا کہ جس وقت نبی کریم احادیث بیان کررہے تھے اس وقت ان سے صفت رسالت منقطع ہوگئی تھی،العیاذ باللہ۔
فعلی اور عملی رسالت:
اس کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے رسولوں کو اور خصوصا آخری رسول کو بہت سے اعمال کے متعلق وحی بھی کی کہ فلاں فلاں عمل کرتے رہو،لہذا انہوں نے اس کی لازمی پابندی کی۔ان اعمال کا تذکرہ اور انکے کرنے کا طریقہ قرآن کریم میں بالتفیل موجود نہیں،اس کی تفصیل احادیث رسول سے ملتی ہے۔اگر اسے وحی نہ کہا جائے تو پھر جب رسول اللہﷺ ان پر عمل کررہے تھے تو کیا اس وقت آپ سے صفت رسالت ختم ہوگئی تھی؟اس کے متعلق چند آیات ملاحظہ فرمائیں،فرمان الٰہی ہے:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِىْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّـٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ
"ہم نے ہر قوم میں ایک رسول بھیجا کہ(وہ دعوت دیں کہ اے لوگو)اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو"۔(سورہ النحل:36)
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُـوْحِىٓ اِلَيْهِ اَنَّهٝ لَآ اِلٰـهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ
"اور ہم نے تم سے پہلے ایسا کوئی رسول نہیں بھیجا جس کی طرف یہ وحی نہ کی ہو کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں سو میری ہی عبادت کرو"۔(سورہ الانبیآ:25)
نیز فرمایا:
يَآ اَيُّـهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ۖ
"اے رسولو!پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو"۔(المؤمنون:51)
نیز فرمایا:
اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْـدَةِ
"مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ اس شہر کے رب کی بندگی کروں"۔(النمل:91)
نیز فرمایا:
وَاَنْ اَتْلُوَ الْقُرْاٰنَ ۖ
اور یہ کہ میں قرآن کی تلاوت کروں"۔(النمل:92)
نیز فرمایا:
يَآ اَيُّـهَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۖ
"اے رسول! جو تجھ پر تیرے رب کی طرف سے اترا ہے اسے پہنچا دے"۔(المآئدہ:65)
نیز فرمایا:
يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ اتَّقِ اللّـٰهَ وَلَا تُطِـعِ الْكَافِـرِيْنَ وَالْمُنَافِقِيْنَ ۗ
"اے نبی اللہ سے ڈر اور کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانیں"(الاحزاب:1)
نیز فرمایا:
وَاتَّبِــعْ مَا يُوْحٰٓى اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ
"اور اس کی تابعداری کر جو تیرے رب کی طرف سے تیری طرف بھیجا گیا ہے"(الاحزاب:2)
نیز فرمایا:
اُتْلُ مَآ اُوْحِىَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَاَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ
"جو کتاب تیری طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھا کرو اور نماز کے پابند رہو"(العنکبوت:45)
نیز فرمایا:
يَآ اَيُّـهَا الْمُزَّمِّل(1)ُ قُمِ اللَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا(2)نِّصْفَهٝٓ اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيْلًا (3)اَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَـرْتِيْلًا (44)اِنَّا سَنُلْقِىْ عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيْلًا (5)اِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِىَ اَشَدُّ وَطْئًا وَّاَقْوَمُ قِيْلًا (6)اِنَّ لَكَ فِى النَّـهَارِ سَبْحًا طَوِيْلًا (7)وَاذْكُرِ اسْـمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا (8)
اے چادر اوڑھنے والے۔رات کو قیام کر مگر تھوڑا سا حصہ۔آدھی رات یا اس میں سے تھوڑا سا حصہ کم کر دے۔یا اس پر زیادہ کردو اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔ہم عنقریب آپ پر ایک بھاری بات کا (بوجھ) ڈالنے والے ہیں۔بے شک رات کا اٹھنا نفس کو خوب زیر کرتا ہے اور بات بھی صحیح نکلتی ہے۔بے شک دن میں آپ کے لیے بڑا کام ہے۔
(سورہ المزمل)
نیز فرمایا:
يَآ اَيُّـهَا الْمُدَّثِّرُ (1)قُمْ فَاَنْذِرْ (2)وَرَبَّكَ فَكَـبِّـرْ (3)وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4)وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (5)
وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْـثِرُ (6)وَلِرَبِّكَ فَاصْبِـرْ (7)
اے کپڑے میں لپٹنے والے۔اٹھو پھر (کافروں کو) ڈراؤ۔اور اپنے رب کی بڑائی بیان کرو۔اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔اور میل کچیل دور کرو۔
اور بدلہ پانے کی غرض سے احسان نہ کرو۔
(سورہ المدثر)
ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں اعمال کا ذکر ہے۔ان ہی آیات کریمہ میں رسولوں کو اللہ تعالی کی بندگی کرنے کا حکم بھی ہے اور اس(بندگی ہی) میں قلبی،لسانی،بدنی اور مالی ہر قسم کی عبادت شامل ہے۔ان آیات میں پاکیز چیزیں کا کھانے،تلاوت کرنے،تبلیغ اور دعوت کا کام کرنے،توکل و تقوی اختیار کرنے،اقامت صلاہ،قیام اللیل،ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھنے،اللہ تعالی کا ذکر کرنے،سب سے تعلق توڑ کر اسی کا ہو رہنے،اللہ تعالی کی کبریائی بیان کرنے،کپڑے پاک رکھنے،ہر قسم کی نجاست سے اجتناب کرنے اور صبر کرنے کا حکم ہے۔یہ سارے اعمال ہیں۔
اگر رسول اللہﷺ یہ اعمال بجالائے ہیں اور یقینا بجالائے ہیں تو ان کی کیفیت،ہئیت،اوقات اور مقدار وغیرہ وغیرہ ضرور آپ سے منقول ہیں لیکن وہ قرآن کریم میں مذکور نہیں بلکہ ان احادیث میں ہے۔ان احادیث اعمال کو ماننا انکی رسالت کو ماننا ہے اور ان سے انکار انکی رسالت سے انکار ہے۔پرویزی مکتب فکر کی اندھا دھند تقلید کرنے والے تو رسول اللہﷺ کو صرف ایک ڈاکیے کی حیثیت سے دیکھتے ہیں کہ ڈاک پہنچائی اور پھر اپنے کام میں لگ گئے۔ڈاک پہنچانے کے سوا دوسرے اوقاف میں اسے ڈاکیا نہیں کہا جاسکتا۔معلوم ہوا ان کی عقل و دانش پر جہل اور تعصب کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔وہ اپنے آپ کو اہل قرآن کہتے ہیں جبکہ وہ سرے سے قرآن کو سمجھتے ہی نہیں۔
انکار حدیث سے انکار قرآن
Last edited by a moderator: