الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں
۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوراسلامی معاشرہ کی تعمیر !!!
632 میلادی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مستقرمدینہ میں کیسے اورکس حد تک معاشرہ کی اصلاح کرنےاوراس کی تعمیرمیں کامیاب ہوۓ ؟
الحمد للہ :
اس میں کوئ شک نہيں کہ مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسل نے جس معاشرہ کی بنیاد رکھی وہ امن واستقرارمیں ایک مثالی معاشرہ تھا ، جس کا ظہوراس دن سے ہوا جس دن مدینہ کی سرزمین نے عرب وعجم کے سردار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قدم بوسی کی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سرزمین پرایک اسلامی مملکت کی بنیاد رکھی ۔
اوراس معاشرہ میں امن واستقرار کے کئ ایک عوامل واسباب ہیں جن میں سے چند ایک ذکرکیا جاتا ہے :
اول :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی سرزمین پرقدم رکھتے ہی سب سے پہلے مسجد کی بنیاد رکھی جو کہ مصائب کے وقت مرجع بننے میں ممد معاون ثابت ہوئ ، اوراسی طرح مسلمانوں کے جمع ہونے اورایک دوسرے سوال اورایک دوسرے کے حالات سے متعارف ہونے کی جگہ بنی جس سے مریض کی عیادت اورمیت کے جنازہ میں جانا اورمسکین کے تعاون اورغیرشادی شدہ کی شادی وغیرہ میں ممد ثابت ہوئ ۔
اس کے بارہ میں یہ چند ایک احادیث ہیں :
انس بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لاۓ تومسجد بنانے کا حکم صادرفرماتے ہوۓ کہنے لگے اے بنو نجار کیا تم مجھے اپنی اس حویلی قیمت بتاتے ہو تووہ کہنےلگے نہیں اللہ کی قسم ہم تو اس کی قیمت اللہ تعالی سے ہی طلب کرتے ہیں ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2622 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 524 ) ۔
براء بن عازب رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کا فرمان { ولاتیمموا الخبیث منہ تنفقون } یہ آیت ہمارے انصارے کے بارہ میں نازل ہوئ ہم کھجوروں کے مالک تھے ، توہر شخص اپنی کھجوروں میں سے کمی اورزیادتی کے حساب سے لے کرآتا کوئ توایک اورکوئ دو خوشے ( کھجوروں والی ٹہنی ) لاکر مسجد میں لٹکا دیتا ۔
اوراصحاب صفہ ( ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ مھاجرین میں سے فقراء ) کے لیے کھانا نہیں ہوتا تھا توان میں سے جب کسی ایک کوبھوک لگتی تووہ آکر اس خوشے کومارتا تواس سے کچی اورپکی کھجوریں گرتیں اوروہ کھا لیتا ۔
تو کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو بھلائ اور خیر میں رغبت نہیں رکھتے تھے وہ ایسے خوشے لاتے جن میں خراب اورردی کھجوریں ہوتی اورخوشہ بھی ٹوٹ چکا ہوتا وہ لا کر لٹکا دیتے تواللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرما دی :
{ اے ایمان والو ! اپنی پاکیزہ کمائ میں سے اورزمین میں سے تمہارے لیے ہماری نکالی ہوئ چيزوں میں خرچ کرو ، اوران میں سے بری چيزوں کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرو جسے تم خود تولینے والے نہیں ہو ، ہاں اگر آنکھیں بند کرلو تو، اور جان لو کہ اللہ تعالی بے پرواہ اورخوبیوں والا ہے } البقرۃ ( 267 ) ۔
براء بن عازب رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ :
اگر تم میں سے کسی ایک کواس طرح کا ھدیہ دیا جاۓ جس طرح کی اشیاء وہ دے رہا ہے تواسے قبول نہیں کرے مگر ہوسکتا ہے کہ وہ اسے آنکھیں بند کرکے اوریا پھر حیاء کرتے ہوۓ لے لے ۔
وہ کہتے ہیں کہ تو اس کے بعد ہم میں سے ہرایک وہ چيز لاتا جو اس کے پاس سب سے اچھی ہوتی ۔
سنن ترمذي حدیث نمبر ( 2987 ) سنن ابن ماجۃ حدیث نمبر ( 1822 ) اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح ترمذی ( 2389 ) میں صحیح قرار دیا ہے ۔
القنو اسے کہتے ہیں جس میں رطب اورتازہ کھجوریں ہوں ۔
الشیص وہ کھجوریں ہیں جن کی پیوند کاری نہ کی گئ ہو ۔
الحشف خراب اورخشک شدہ کھجوروں کوکہا جاتا ہے ۔
دوم :
انصارو مھاجرین کے درمیان اسلامی مؤاخات کا قیام :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم انصارومھاجرین کےدرمیان اسلامی بھائ چارہ اورمؤاخات قائم کی تویہ فعل معاشرہ کے افراد میں ایسی قوت وطاقت پیدا کرتا ہے جوکسی اورچیز سے پیدا نہیں ہوتی اورنہ ہی ایسی قوت سننےمیں ہی آئ ہے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عربی وعجمی اور آزاد وغلام اور قریشی اورغیر قریشی اوردوسرے قبائل میں اخوت وبھائ چارہ قائم کیا توسارا معاشرہ فرد واحد اورجسد واحد کی شکل اختیارکرگيا ۔
تواس کے بعد اس میں کسی قسم کاکوئ تعجب اوراستغراب نہیں رہتا کہ ایک انصاری اپنے مھاجربھائ کوکہے کہ آپ میرے مال کوتقسیم کر کےآدھا لے لیں اوریہ انصاری اپنے مھاجر بھائ کویہ پیشکش کرتا ہے کہ میں اپنی ایک بیوی کوطلاق دیتا ہوں تم اس سے نکاح کرلو ۔
اور اسی طرح انصاری اس قوت علاقہ کی بنیاد پر مھاجر کا وراث بنایا جاتا تھا حتی کہ قرآن مجید نے آیت مواريث کے ساتھ اسے منسوخ کردیا اورانصار کو اس کی رغبت دلائ کہ وہ ان کے لیے کچھ نہ کچھ وصیت کریں ، تواس طرح کے معاشرہ کی کہیں مثال نہیں ملتی اوراس کی مثال بیان کی جاتی ہے ۔
اس سلسلہ میں بعض احادث ذکر کی جاتی ہیں :
1 - عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم جب مدینہ آۓ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اورسعد بن ربیع کے درمیان مؤاخات قائم کردی اوراسے میرا بھائ بنا دیا ، توسعد رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے میں انصارمیں سے سب سے زيادہ مال ودولت والاہوں تومیں آپ کے لیے اپنا نصف مال تقسیم کرتا ہوں ۔
اوردیکھو جوبھی میری بیوی آپ کواچھی لگتی ہے میں اسے طلاق دیتا ہوں جب وہ تیرے لیے حلال ہوجاۓ تواس سے نکاح کرلینا ۔
عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے اس کی کوئ ضرورت نہیں ، کیا یہاں کسی بازارمیں تجارت ہوتی ہے ؟ سعد رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے کہ سوق قینقاع میں ۔
راوی کہتا ہے کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے دوسرے دن بازار کا رخ کیا اورکچھ پنیراورگھی لاۓ ، راوی کہتا ہے کہ پھراس کے دوسرے دن بھی بازار گۓ اور کچھ ہی دن نہیں گذرے تھے کہ عبدالرحمن رضي اللہ تعالی عنہ آۓ اوران پرزردی کے نشانات تھے تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کیا تو نے شادی کرلی ؟
ان کا جواب تھا جی ہاں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کس سے ؟ عبدالرحمن رضي اللہ تعالی عنہ نے جواب دیاکہ ایک انصاری عورت سے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اسے مہرکتنا دیا ؟
عبدالرحمن رضي اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا ایک گٹھلی کے برابر سونا ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا : اچھا پھر ولیمہ کرو اگرچہ ایک ہی بکری ہو ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1943 ) ۔
2 – ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب مھاجرین مدینہ میں آۓ تواس اخوت کی بنا پرجونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کرائ تھی مھاجرانصاری کا وارث بنتا تھا اوراس میں خونی رشتے کا کوئ تعلق نہیں تھا ، اورجب اللہ تعالی نے { ولکل جعلنا موالی } نازل فرمادی تواسے منسوخ کردیا گیا پھر کہا { والذین عقدت ایمانکم } مگر مدد اورتعاون اورنصیحت ، تووراثت ختم ہوگئ اورصرف اسے کے لیے وصیت کی جاۓ گی ۔ صحیح بخاری حديث نمبر ( 2170 ) ۔
سوم :
دوھجری میں زکاۃ فرض ہوئ تو اغنیاء اورفقراء کے درمیان مواسات قائم ہوئ جس سے مدنی معاشرہ میں قرابت کی نسیج میں اضافہ ہوا ، اوراخوت فی اللہ کے عنصرپہلے سے بھی مزید قوی ہوگۓ ، بلکہ معاملہ اس سے آگے بڑھ کرنفلی صدقہ وخیرات تک جا پہنچا ۔
انس بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
ابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ انصار میں کھجوروں کے اعتبارسے سب سے زیادہ مالدار تھے اوران کواس میں سے سب سے زيادہ محبوب بئرحاء تھا جو کہ کہ مسجد کے آگے واقع تھا جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوتے اور پاکیزہ پانی نوش فرماتے ۔
انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں جب یہ آیت نازل ہوئ :
{ جب تک تم اپنی پسندیدہ چيزسے اللہ تعالی کے راہ میں خرچ نہیں کرو گے ہرگزبھلائ نہیں پاسکتے } آل عمران ( 92 )
ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکرکہنے لگے اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ : { جب تک تم اپنی پسندیدہ چيزسے اللہ تعالی کے راہ میں خرچ نہیں کرو گے ہرگزبھلائ نہیں پاسکتے } تومیرا سب سے محبوب اورپسندیدہ مال بئر حاء ہے ، یہ اللہ تعالی کے راستے میں صدقہ ہے میں اللہ تعالی سے اس کے اجر ثواب کی امید رکھتا ہوں ، توآّپ اسے جہاں چاہتے ہیں خرچ کردیں ۔
انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : رہنے دو یہ مال دوبہت زیادہ منافع بخش ہے بہت منافع بخش ہے جوکچھ تم کہہ رہے ہومیں نے سن لیا ہے ، میری راۓ یہ ہے کہ تم ایسا کرو اسے اپنے اقرباء میں تقسیم کردو توابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے میں ایسا ہی کرتا ہوں ، توابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ نے اسے اپنے اقرباء اورچچا زاد بھائیوں میں تقسیم کردیا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1392 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 998 ) ۔
تواس طرح مدینہ نبویہ شریف میں مسلمانوں کے درمیان محبت والفت کی علامات ظاہرہوئيں اور مھاجرین نے اپنے انصاری بھائيوں کے حق کوپہچانا اسی کے متعلق چند ایک احادیث کا ذکر کیا جاتا ہے :
انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ شریف تشریف لاۓ تومھاجرین آکر کہنے لگے اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے قوم انصار کودیکھا ہے کہ انہوں نے بہت ہی زیادہ خرچ کیا ہے اورجس قوم کے پاس ہم آکر ٹھرے ہیں ان سے بہتر اوراچھا احسان کرنے والے بہت ہی کم ہیں ۔
ہمیں ہرچيزسے کفایت کی اورہمیں اپنے مال ودولت اورپھلوں میں شریک کیا حتی کہ ہمیں یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں مکمل اجروثواب یہ ہی نہ لے جائيں ، تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے نہیں ، جب تک تم ان اللہ تعالی سے ان کے لیے دعا کرتے اوران کی تعریف کرتے رہو ۔ سنن ترمذي حدیث نمبر ( 2487 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ترمذی ( 2020 ) اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
اوراسی طرح اللہ تعالی نے مدنی معاشرہ میں ایک دوسرے کے درمیان محبت والفت ڈال کران کے دلوں کو یک جان دوقالب بنا دیا ، تواس قوم کا ماٹو ہی اللہ تعالی کے لیے محبت بن گيا جسے اللہ تعالی نے ان پرواجب قراردیااور اسے کمال ایمان کی علامت قراردے دیا ۔
انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تم میں سےاس وقت تک کوئ بھی مومن بن ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائ کے لیے بھی وہی چيز پسند کرے جواپنے لیے پسند کرتا ہے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 13 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 45 ) ۔
نعمان بن بشیر رضي اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
آپ مومنوں کو ایک دوسرے پررحم اورمحبت والفت اورنرمی کرتے ہوۓ دیکھے گے کووہ اس ایک جسم کی مانند ہیں کہ جس کا ایک عضو تکلیف محسوس کرے تومکمل جسم بخاراورتکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5665 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2586 ) ۔