ابو عکاشہ
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 30، 2011
- پیغامات
- 412
- ری ایکشن اسکور
- 1,491
- پوائنٹ
- 150
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بتلائی ہوئی ایک بہت پیاری اور جامع دعا
عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم لفاطمة رضي الله عنها :
( ما يمنعك أن تسمعي ما أوصيك به ، أو تقولي إذا أصبحت وإذا أمسيت : يا حي يا قيوم برحمتك أستغيث ، أصلح لي شأني كله ، ولا تكلني إلى نفسي طرفة عين )
رواه النسائي في "السنن الكبرى" (6/147) وفي "عمل اليوم والليلة" (رق/46) ، والحاكم في "المستدرك" (1/730) ، والبيهقي في "الأسماء والصفات" (112) ، وغيرهم. ولفظه في بعض الروايات : ( أن تقولي إذا أصبحت وإذا أمسيت ) .
( ما يمنعك أن تسمعي ما أوصيك به ، أو تقولي إذا أصبحت وإذا أمسيت : يا حي يا قيوم برحمتك أستغيث ، أصلح لي شأني كله ، ولا تكلني إلى نفسي طرفة عين )
رواه النسائي في "السنن الكبرى" (6/147) وفي "عمل اليوم والليلة" (رق/46) ، والحاكم في "المستدرك" (1/730) ، والبيهقي في "الأسماء والصفات" (112) ، وغيرهم. ولفظه في بعض الروايات : ( أن تقولي إذا أصبحت وإذا أمسيت ) .
قال المنذري في "الترغيب والترهيب" (1/313) : إسناده صحيح . وقال الشيخ الألباني في "السلسلة الصحيحة" (رقم/227) : إسناده حسن .
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے فرمایا :
میں تمہیں جو وصیت کرتا ہوں اسے سننے سے تمہیں کیا امر مانع ہے ؟
صبح و شام یہ کہو :
میں تمہیں جو وصیت کرتا ہوں اسے سننے سے تمہیں کیا امر مانع ہے ؟
صبح و شام یہ کہو :
يا حي يا قيوم برحمتك أستغيث ، أصلح لي شأني كله ، ولا تكلني إلى نفسي طرفة عين
'' اے ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہنے والے !
زمین و آسمان اور تمام مخلوق کو قائم رکھنے والے !
تیری رحمت کی دہائی ہے تُو میرے کام درست فرما دے اور مجھے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی میرے نفس کے سپرد نہ کرنا ''
زمین و آسمان اور تمام مخلوق کو قائم رکھنے والے !
تیری رحمت کی دہائی ہے تُو میرے کام درست فرما دے اور مجھے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی میرے نفس کے سپرد نہ کرنا ''
(يا حي يا قيوم)
دعا کا آغاز ہی اللہ مالک الملک کے دو پیارے ناموں سے کیا گیا ہے
علامہ عبدالرحمن بن ناصر السعدی لکھتے ہیں :
(الحی القیوم) ” وہ زندہ اور سب کا تھامنے والا ہے۔“
ان دواسمائے حسنیٰ (الحی القیوم) میں دیگر تمام صفات کی طرف اشارہ موجود ہے۔
خواہ وہ دلالت مطابقت سے ہو، یا دلالت تضمن سے یا دلالت لزوم سے۔
علامہ عبدالرحمن بن ناصر السعدی لکھتے ہیں :
(الحی القیوم) ” وہ زندہ اور سب کا تھامنے والا ہے۔“
ان دواسمائے حسنیٰ (الحی القیوم) میں دیگر تمام صفات کی طرف اشارہ موجود ہے۔
خواہ وہ دلالت مطابقت سے ہو، یا دلالت تضمن سے یا دلالت لزوم سے۔
(الحی)
سے مراد وہ ہستی ہے جسے کامل حیات حاصل ہو، اور یہ مستلزم ہے تمام صفات ذاتیہ کو مثلاً سننا، دیکھنا، جاننا اور قدرت رکھنا وغیرہ
(القیوم)
سے مراد وہ ذات ہے جو خود قائم ہوا اور دوسروں کا قیام اس سے ہو، اس میں اللہ تعالیٰ کے وہ تمام افعال شامل ہوجاتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ متصف ہے یعنی وہ جو چاہے کرسکتا ہے، استواء، نزول، کلام، قول، پیدا کرنا، رزق دینا، موت دینا، زندہ کرنا اور دیگر انواع کی تدبیر سب اس کے قیوم ہونے میں شامل ہیں۔ اس لئے بعض محققین کا کہنا ہے کہ یہی وہ اسم اعظم ہے جس کے ذریعے کی ہوئی دعا رد نہیں ہوتی۔“
(برحمتك أستغيث)
اس کے بعد اللہ مالک الملک کی رحمت کا واسطہ دے کر اس سے مدد اور استغاثہ طلب کیا گیا ہے
علامہ عبدالرحمن بن ناصر السعدی مالک کائنات کی رحمت کے بارے میں لکھتے ہیں :
تیری بے پایاں رحمت مجھے ہر جانب سے گھیر لے، کیونکہ تیری رحمت تمام برائیوں کے مقابلے میں ایک مضبوط اور محفوظ قلعہ ہے اور ہر بھلائی اورمسرت کا سرچشمہ ہے ۔
تیری رحمت ہر چیز پرسایہ کناں ہے علوی اور سفلی تمام کائنات اللہ تعالیٰ کی رحمت سے لبریز اور اس کی رحمت تمام کائنات پر چھائی ہوئی ہے۔ اس کی تمام مخلوق اس رحمت سے بہرہ مند ہوتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت جو دنیا و آخرت کی سعادت کی باعث ہوتی ہے وہ ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی ۔
علامہ عبدالرحمن بن ناصر السعدی مالک کائنات کی رحمت کے بارے میں لکھتے ہیں :
تیری بے پایاں رحمت مجھے ہر جانب سے گھیر لے، کیونکہ تیری رحمت تمام برائیوں کے مقابلے میں ایک مضبوط اور محفوظ قلعہ ہے اور ہر بھلائی اورمسرت کا سرچشمہ ہے ۔
تیری رحمت ہر چیز پرسایہ کناں ہے علوی اور سفلی تمام کائنات اللہ تعالیٰ کی رحمت سے لبریز اور اس کی رحمت تمام کائنات پر چھائی ہوئی ہے۔ اس کی تمام مخلوق اس رحمت سے بہرہ مند ہوتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت جو دنیا و آخرت کی سعادت کی باعث ہوتی ہے وہ ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی ۔
(أصلح لي شأني كله)
اب اصل مدعا بیان کیا جا رہا ہے
یعنی میرے تمام امور مثلاً گھر ، اہل و عیال ، ہمسائے ، دوست ، کام کاج ، پڑھائی ، میری اپنی ذات ، دل ،صحت اور ہر وہ چیز جو میری دنیا اور آخرت کے متعلق ہے اسے صحیح اور درست فرما دے میرے مولا
اور یہ سب کچھ اللہ مالک الملک کی رحمت اور فضل و کرم سے ممکن ہے
انسان بڑے سے بڑے عہدے اور مقام پر پہنچ جائے وہ اللہ تعالٰی سے مستغنی اور بے نیاز نہیں ہوسکتا
اس لیے دعا کا اختتام ان الفاظ پر ہوا ہے کہ
اپنے بے بسی اور عاجزی کا اقرار اور اس کی بادشاہت کا اعتراف ہے
یعنی میرے تمام امور مثلاً گھر ، اہل و عیال ، ہمسائے ، دوست ، کام کاج ، پڑھائی ، میری اپنی ذات ، دل ،صحت اور ہر وہ چیز جو میری دنیا اور آخرت کے متعلق ہے اسے صحیح اور درست فرما دے میرے مولا
اور یہ سب کچھ اللہ مالک الملک کی رحمت اور فضل و کرم سے ممکن ہے
انسان بڑے سے بڑے عہدے اور مقام پر پہنچ جائے وہ اللہ تعالٰی سے مستغنی اور بے نیاز نہیں ہوسکتا
اس لیے دعا کا اختتام ان الفاظ پر ہوا ہے کہ
اپنے بے بسی اور عاجزی کا اقرار اور اس کی بادشاہت کا اعتراف ہے
(ولا تكلني إلى نفسي طرفة عين)
کہ مجھے ایک لمحے کے لیے بھی اور آنکھ جھپکنے کے برابر اور یہ کسی چیز کے کم ہونے پر مبالغے کے لیے بولا گیا ہے
میرے نفس کے سپرد نہ کرنا
بلکہ ہمیشہ اپنی رحمت میرے شامل حال رکھنا
کیونکہ جو اللہ مالک الملک پر توکل کرتا ہے اللہ تعالٰی اسے کافی ہو جاتا ہے
اور جو اللہ مالک الملک سے مدد طلب کرتا ہے اللہ تعالٰی اُس کی مدد فرماتا ہے
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ بندہ اپنی تمام ذہانتوں ،توانائیوں ، بیٹوں کی فوج اور برادری کے جتھے ، اور عہدے ،منصب سب چیزوں کے ہونے کے باوجود پلک جھپکنے کے برابر بھی مالک کائنات ،خالق ارض و سماء سے بے پرواہ نہیں ہوسکتا
اس دعا کو یاد کیجئے اور اسے صبح و شام اور مصیبت ،تکلیف ، تنگی و آسانی میں پڑھنا چاہیئے ۔
میرے نفس کے سپرد نہ کرنا
بلکہ ہمیشہ اپنی رحمت میرے شامل حال رکھنا
کیونکہ جو اللہ مالک الملک پر توکل کرتا ہے اللہ تعالٰی اسے کافی ہو جاتا ہے
اور جو اللہ مالک الملک سے مدد طلب کرتا ہے اللہ تعالٰی اُس کی مدد فرماتا ہے
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ بندہ اپنی تمام ذہانتوں ،توانائیوں ، بیٹوں کی فوج اور برادری کے جتھے ، اور عہدے ،منصب سب چیزوں کے ہونے کے باوجود پلک جھپکنے کے برابر بھی مالک کائنات ،خالق ارض و سماء سے بے پرواہ نہیں ہوسکتا
اس دعا کو یاد کیجئے اور اسے صبح و شام اور مصیبت ،تکلیف ، تنگی و آسانی میں پڑھنا چاہیئے ۔