- شمولیت
- مارچ 03، 2011
- پیغامات
- 4,178
- ری ایکشن اسکور
- 15,351
- پوائنٹ
- 800
صحيح البخاري: كِتَابُ الصَّلاَةِ (بَابُ عِظَةِ الإِمَامِ النَّاسَ فِي إِتْمَامِ الصَّلاَةِ، وَذِكْرِ القِبْلَةِ)
418. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «هَلْ تَرَوْنَ قِبْلَتِي هَا هُنَا، فَوَاللَّهِ مَا يَخْفَى عَلَيَّ خُشُوعُكُمْ وَلاَ رُكُوعُكُمْ، إِنِّي لَأَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي»
صحیح بخاری: کتاب: نماز کے احکام و مسائل، باب: امام لوگوں کو یہ نصیحت کرے کہ نماز پوری طرح پڑھیں اور قبلہ کا بیان۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"تم میرا منہ اس طرف سمجھتے ہو؟ اللہ کی قسم! مجھ پر نہ تمہارا خشوع پوشیدہ ہے اور نہ تمہارا رکوع۔ اور میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔"
وضاحت
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:"میں پچھلی سمت سے بھی سامنے کی طرح دیکھتا ہوں۔" اس روایت کے متعلق شارحین کے کئی اقوال ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
1۔ اس سے مراد آپ کا معلوم کرلینا ہے خواہ بذریعہ وحی ہو یا بطریق الہام ان کے ذریعے سے آپ کو مقتدی حضرات کی حرکات و سکنات بتادی جاتی تھیں مگر یہ درست نہیں کیونکہ اس سے پیٹھ پیچھے کی قید بے فائدہ ہو جاتی ہے۔
2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں بائیں کے لوگوں کو کسی قدر التفات نظر سے دیکھ لیتے ہوں گے مگر یہ رائے بھی بے وزن ہے کیونکہ اس میں آپ کی کیا خصوصیت رہی۔
3۔ دیوار قبلہ میں آئینے کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نمازیوں کی تصاویر آجاتی تھیں جس سے آپ صورت حال سے مطلع ہو جاتے تھے۔عام مشائخ نے اسی قول کو اختیار کیا ہے لیکن اس پر قرآن و سنت سے کوئی دلیل نہیں ملتی۔
4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پشت مبارک میں قوت باصرہ عطا فرمائی گئی تھی پھر آگے وضاحت ہے کہ قوت باصرہ مہرنبوت میں تھی یا دونوں کندھوں کے درمیان سوئی کی نوک کی طرح آنکھیں عطا کی گئی تھیں۔ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍاس موقف کو بھی محققین نے مسترد کردیا ہے کہ اگر کسی بات ہوتی تو سیرت ہوتی تو سیرت نگار آپ کے احوال میں اس کا تذکرہ کرتے۔
5۔ سب سے بہتر اور راجح موقف یہ ہے جسے جمہور نے اختیار کیا ہے کہ سامنے کی طرح پیچھے بھی دیکھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص سے تھا اور وہی علم وادراک حقیقی کا سبب تھا جو بطور خرق عادت (معجزہ)آپ کو حاصل تھا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا پسندیدہ موقف بھی یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ انھوں نے اسی روایت کو علامات نبوت میں بھی ذکر فرمایا ہے۔ اہل سنت و الجماعت کا بھی رجحان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوعام انسانوں کی مقررہ عادت کے خلاف انھی آنکھوں سے ہرسمت دیکھنے کی طاقت عطا فرما دی تھی۔ اس لیے بعید نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نماز میں یہ خصوصیت ہو کہ آپ مقتدیوں کو بلا جہت دیکھتاہوں لیکن یہ حالت کلی طور پر نہیں رہتی تھی کہ اس سے مسئلہ علم غیب کشیدکیا جا سکے کیونکہ ابو بکرہ کی روایت میں ہے کہ وہ مسجد میں آئے جبکہ جماعت ہو رہی تھی۔انھوں نے دور ہی سے رکوع کر لیا۔ نماز کے بعد دریافت کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے انھیں تنبیہ فرمائی ۔ اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے ہانپتے کانپتے ہوئے رکوع سے اٹھتے وقت بلند آواز سے(حَمْداً كَثِيراً طَيِّباً مُبَارَكاً فِيهِ) کے الفاظ کہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد دریافت فرمایا کہ بآواز بلندیہ کلمات کہنے والا کون تھا؟ بتانے پر معلوم ہوا کہ وہ فلاں شخص تھا اگر آپ کو ہمیشہ بحالت نماز پیچھے سے نظر آتا رہتا تو دریافت کرنے کی ضرورت نہ تھی۔
http://mohaddis.com/View/Sahi-Bukhari/T2/418
418. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «هَلْ تَرَوْنَ قِبْلَتِي هَا هُنَا، فَوَاللَّهِ مَا يَخْفَى عَلَيَّ خُشُوعُكُمْ وَلاَ رُكُوعُكُمْ، إِنِّي لَأَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي»
صحیح بخاری: کتاب: نماز کے احکام و مسائل، باب: امام لوگوں کو یہ نصیحت کرے کہ نماز پوری طرح پڑھیں اور قبلہ کا بیان۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"تم میرا منہ اس طرف سمجھتے ہو؟ اللہ کی قسم! مجھ پر نہ تمہارا خشوع پوشیدہ ہے اور نہ تمہارا رکوع۔ اور میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔"
وضاحت
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:"میں پچھلی سمت سے بھی سامنے کی طرح دیکھتا ہوں۔" اس روایت کے متعلق شارحین کے کئی اقوال ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
1۔ اس سے مراد آپ کا معلوم کرلینا ہے خواہ بذریعہ وحی ہو یا بطریق الہام ان کے ذریعے سے آپ کو مقتدی حضرات کی حرکات و سکنات بتادی جاتی تھیں مگر یہ درست نہیں کیونکہ اس سے پیٹھ پیچھے کی قید بے فائدہ ہو جاتی ہے۔
2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں بائیں کے لوگوں کو کسی قدر التفات نظر سے دیکھ لیتے ہوں گے مگر یہ رائے بھی بے وزن ہے کیونکہ اس میں آپ کی کیا خصوصیت رہی۔
3۔ دیوار قبلہ میں آئینے کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نمازیوں کی تصاویر آجاتی تھیں جس سے آپ صورت حال سے مطلع ہو جاتے تھے۔عام مشائخ نے اسی قول کو اختیار کیا ہے لیکن اس پر قرآن و سنت سے کوئی دلیل نہیں ملتی۔
4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پشت مبارک میں قوت باصرہ عطا فرمائی گئی تھی پھر آگے وضاحت ہے کہ قوت باصرہ مہرنبوت میں تھی یا دونوں کندھوں کے درمیان سوئی کی نوک کی طرح آنکھیں عطا کی گئی تھیں۔ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍاس موقف کو بھی محققین نے مسترد کردیا ہے کہ اگر کسی بات ہوتی تو سیرت ہوتی تو سیرت نگار آپ کے احوال میں اس کا تذکرہ کرتے۔
5۔ سب سے بہتر اور راجح موقف یہ ہے جسے جمہور نے اختیار کیا ہے کہ سامنے کی طرح پیچھے بھی دیکھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص سے تھا اور وہی علم وادراک حقیقی کا سبب تھا جو بطور خرق عادت (معجزہ)آپ کو حاصل تھا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا پسندیدہ موقف بھی یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ انھوں نے اسی روایت کو علامات نبوت میں بھی ذکر فرمایا ہے۔ اہل سنت و الجماعت کا بھی رجحان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوعام انسانوں کی مقررہ عادت کے خلاف انھی آنکھوں سے ہرسمت دیکھنے کی طاقت عطا فرما دی تھی۔ اس لیے بعید نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نماز میں یہ خصوصیت ہو کہ آپ مقتدیوں کو بلا جہت دیکھتاہوں لیکن یہ حالت کلی طور پر نہیں رہتی تھی کہ اس سے مسئلہ علم غیب کشیدکیا جا سکے کیونکہ ابو بکرہ کی روایت میں ہے کہ وہ مسجد میں آئے جبکہ جماعت ہو رہی تھی۔انھوں نے دور ہی سے رکوع کر لیا۔ نماز کے بعد دریافت کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے انھیں تنبیہ فرمائی ۔ اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے ہانپتے کانپتے ہوئے رکوع سے اٹھتے وقت بلند آواز سے(حَمْداً كَثِيراً طَيِّباً مُبَارَكاً فِيهِ) کے الفاظ کہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد دریافت فرمایا کہ بآواز بلندیہ کلمات کہنے والا کون تھا؟ بتانے پر معلوم ہوا کہ وہ فلاں شخص تھا اگر آپ کو ہمیشہ بحالت نماز پیچھے سے نظر آتا رہتا تو دریافت کرنے کی ضرورت نہ تھی۔
http://mohaddis.com/View/Sahi-Bukhari/T2/418