• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی کریم ﷺ کی ابو طالب کے لئے سفارش اور مصنف کی ہیرا پھیری ۔

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97

اعتراض نمبر 7:۔

مصنف اپنی کتاب قرآن مقدس اور بخاری محدث ' کے صفحہ 25پر نبی کریم ﷺ کی احادیث کومشتبہ بنارہا ہے یعنی مصنف کی تحریر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ شاتم رسول ہے ایسے شخص کی سزا اسلام میں صرف ا ورصرف قتل ہے مصنف مزید اعتراض پیش کرتا ہے کہ:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا اپنے چچا ابو طالب کے بارے میں :''لعلہ تنفعہ شفاعتی یوم القیٰمۃ '' ''کہ امید ہے کہ قیامت کے دن میری شفاعت سے اس کو نفع ہو۔
اس حدیث کو رد کرنے کے لئے مصنف نے قرآن پاک کی آیت پیش کی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
''ماکان للنبی والذین آمنوا ۔۔۔۔ (التوبہ/9 113)
''نبی ﷺ اور ایمان والوں کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ مشرکوں کے لئے بخشش طلب کریں خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں جبکہ ان پر واضح ہوگیا کہ ۔۔۔مشرکین جہنمی ہوتے ہیں ''۔
جواب :۔
قارئین کرام یہاں پر مصنف نے جو جھانسہ دینے کی کوشش کی ہے ،وہ قابل غور ہے !
قیامت میں نبی کریم ﷺ سفارش کریں گے اورمصنف یہ ثابت کرنا چاہ رہا ہے کہ سفارش ناجائز ہے حالانکہ سورہ توبہ میں استغفار کرنے کی ممانعت ہے اور نبی کریم ﷺ سے کہیں یہ ثابت نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ممانعت کے حکم کے بعد آپ نے کبھی ان کے لئے استغفار کیا ہو ۔ استغفار کا تعلق دنیا کے ساتھ ہے آخرت میں نہیں ۔اور آخرت میں نبی ﷺ سفارش کرینگے اپنے چچا کی ،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نبی کریم ﷺ کی سفارش ابو طالب کو فائدہ دے گی تو اس بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
''فیجعل فی ضحضاح من النار یبلغ کعبیہ یغلی منہ دماغہ''۔
(صحیح بخاری کتاب مناقب الأنصار باب قصۃ ابی طالب رقم الحدیث 3885 )
''پس کردیا جائے گا وہ( ابو طالب )آگ کے پایاب چشمے میںاور آگ اس کے ٹخنوں تک پہنچے گی
جس کی وجہ سے اس کا دماغ کھولے گا ''۔

یعنی ابو طالب کواس کے ٹخنوں تک آگ پہنچے گی جس سے اسکا دماغ کھولے گا ۔استغفار تو یہ ہے کہ معاف کردیا جائے یہاں تو کسی قسم کی معافی کا کوئی سوال ہی نہیں انکو ٹخنوں تک عذاب کیوں دیا جائے گااس کا جواب یہ ہے کہ جرم جتنا بڑا ہوگا اس کی سزا اتنی ہی سخت ہوگی ابوطالب نے پوری زندگی نبی کریم ﷺکی مخالفت نہیں کی یعنی ابو جہل، ابو لہب کے مقابلے میں انکا جرم کم تھالہٰذا جتنا جرم اتنی سزا۔مصنف کا اعتراض اس وقت صحیح ہوتا کہ جب ابو طالب کو معاف کردیا جاتالیکن ایسا نہیںہے بلکہ وہ ہمیشہ آگ ہی میں رہے گا ۔اگر مصنف اس سزا کو معافی پر محمول کرتا ہے تو میرا مصنف سے سوال ہے کہ کیا وہ ان آگ کی جوتیوں کے لئے تیار ہے ؟(ویسے حرکتیں تو اسکی یہی ثابت کررہی ہیں )لہٰذا حدیث اعتراض سے پاک ہے ۔
 
Top