نسخ کا جائز اور واقع ہونا:
نسخ عقلاً جائزہے اور شریعت میں واقع بھی ہوا ہے۔ اس کی دلیل اللہ رب العالمین کا یہ فرمان گرامی ہے:
﴿ مَا نَنْسَخْ مِنْ آيةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ﴾ [البقرة:106] ہم جو بھی آیت منسوخ کرتے ہیں یا اسے بھلوا دیتے ہیں تو اسی جیسی یا اس سے بہتر آیت لے آتے ہیں۔
اور اللہ رب العزت کا یہ فرمان بھی اسی کی دلیل ہے:
﴿ يمْحُو اللَّهُ مَا يشَاءُ وَيثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ ﴾ [الرعد:39] اللہ تعالیٰ جس چیز کو چاہتے ہیں ثابت رکھتےہیں اور جسے چاہتے ہیں، مٹا دیتے ہیں، اور اسی کے پاس کتاب کی اصل ہے۔
اور یہ فرمان باری تعالیٰ بھی دلیل ہے : ﴿ وَإذَا بَدَّلْنَا آيةً مَّكَانَ آيةٍ ﴾ [النحل:101] اور جب ہم ایک آیت کودوسری آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں۔
اسی طرح نبی ﷺ کی صحیح حدیث میں ہے: «كنت نهيتكم عن زيارة القبور فزوروها فإنها تذكر الآخرة» میں تمہیں زیارت ِ قبور سے منع کیا کرتا تھا، تو اب تم ان کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ آخرت کو یاد دلاتی ہیں۔
تومذکورہ بالا آیات واحادیث نسخ کے عقلی اور شرعی طور پر واقع پر کے دلائل ہیں کیونکہ اگر یہ چیز ممنوع ہوتی تو قرآن وحدیث میں مندرجہ بالا قسم کے خطاب نہ ہوتے لیکن مذکورہ نصوص میں ایسا واقع ہوا ہے۔اس لیے نسخ جائز ہے۔
تحریر اور حکم کا منسوخ ہوجانا:
اس اعتبار سے نسخ تین اقسام میں منقسم ہوتا ہے:
1۔ آیت کی تحریر کا منسوخ ہوجانا لیکن حکم باقی رہنا: اس کی مثال رجم والی آیت ہے اور وہ یہ تھی: ” «الشيخ والشيخة إذا زنيا فارجموهما البتة نكالاً من الله والله عزيز حكيم» “جب کوئی مردوعورت زنا کریں تو انہیں لازمی طورپر رجم کرو، یہ اللہ کی طرف سے بطور سزا ہےاور اللہ رب العزت بہت غالب اور بہت حکمت والے ہیں۔
جیسا کہ اس آیت کی علامت صحیحین میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ان کے خطبے میں ثابت ہے۔
2۔ آیت کے حکم کا منسوخ ہوجانا اور تحریر باقی رہنا: اس کی مثال وہ آیت ہے جس میں بیوہ کی عدت کی مدت ایک سال تک بیان کی گئی ہے ۔ اس آیت کا حکم منسوخ ہے لیکن مصحف میں یہ آیت موجود ہے اور اس کی تلاوت بھی کی جاتی ہے۔
3۔ آیت کے حکم اور تحریر دونوں کا منسوخ ہوجانا: اس کی مثال یہ ہے کہ صحیح مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث آئی ہے کہ قرآن مجید میں پہلے دس معلوم رضعات نازل ہوئی تھیں جو حرمت پر دلالت کرتی تھیں، پھر انہیں منسوخ کرکے پانچ رضعات نازل کی گئیں، تو جب رسول اللہﷺ فوت ہوئے تویہ آیت ان آیات میں سے تھی جن کی تلاوت کی جاتی تھی ۔ تو جب آیت میں دس رضعات کا حکم ہے ، اس کا حکم اور تحریر دونوں منسوخ ہیں۔اور پانچ رضعات والی آیت کا حکم تو موجود ہے لیکن ان کی تحریر منسوخ ہے۔ تو گویا کہ اس حدیث میں دو مثالیں جمع ہوگئی ہیں:
۱۔ جن کا حکم اور تحریر دونوں منسوخ ہے۔
۲۔ جن کی تحریر تو منسوخ ہے لیکن حکم باقی ہے۔ جیسا کہ آپ حدیث میں ملاحظہ فرماچکے ہیں۔
بغیر کسی بدل کے نسخ:
جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ منسوخ حکم کے بدلے نئے حکم کا آنا ضرور ی نہیں ہے۔ ان کے دلائل میں سے ایک دلیل یہ ہے: پہلے پہل نبی کریم ﷺ سے سرگوشی کرنے سے قبل صدقہ کرنا ضروری تھا ، بعد میں اسے منسوخ کردیا گیا اور اس کے بدلے میں کوئی نئی چیز ضروری قرار نہیں دی گئی جیسا کہ سورۃ المجادلۃ کی آیات (۱۲۔۱۳)سے ثابت ہے۔
از :ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر
لنک