• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نسلوں کی تباہی، امتحانات میں نقل

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
نسلوں کی تباہی، امتحانات میں نقل

ہر سال میٹرک کے امتحانات کے اعلانات ہوتے ہی ہر طرف امتحان اور نقل کا چرچا شروع ہو جاتا ہے۔ مگر اس مرتبہ تو حد ہی ہو گئی۔ امتحانات سے پہلے سندھ بھر میں واٹس ایپ گروپ تشکیل دے دیئے گئے اور پرچہ حاصل کرنے کےلیے لوگوں نے بڑی رقم واٹس ایپ گروپوں میں ایزی پیسہ کے ذریعے ادا کی۔

اس بار وڈے سائیں کی طرف سے نقل روکنے کے سخت احکامات ہیں، دفعہ 144 کے نفاذ کے ساتھ اسمارٹ فونز بھی امتحانی مراکز میں ساتھ لانے کی اجازت نہیں۔ مراکز میں داخل ہونے سے پہلے طلبا کی جامہ تلاشی کا بھی حکم ہے۔ اس کے باوجود بھی کچھ نہیں رک سکا اور کراچی کے زیادہ تر سرکاری اسکولز میں نقل عروج پر ہے کیونکہ اسکولز کے پرنسپل حضرات ہی تو نقل مافیا کے سرکردہ ہیں جب کہ امتحانی مراکز میں موبائل فون سمیت دیگر ذرائع کا کھلے عام استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ کھلے عام نہ صرف نقل کرائی جا رہی ہے بلکہ بعض مراکز میں انفرادی طور پر بھی امیدواروں سے رقم لے کر انہیں علیحدہ کمرے میں بٹھا کر نقل کرائی جارہی ہوتی ہے۔

حال یہ ہے کہ امتحانی مراکز کو خرید کر طلبا و طالبات کو نقل کرانے کا کاروبار مافیا کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ پرائیویٹ اسکولز بچوں کو سال بھر محنت کرانے کے بجائے امتحانی مراکز ہی خرید لیتے ہیں اور یہاں تک کہ پرچہ شروع ہونے سے پہلے پرچہ بھی باہر منگا لیتے ہیں۔ اساتذہ خود بچوں سے پیسے لے کر نقل کراتے نظر آتے ہیں۔ یہ کراچی کے ایک دو نہیں بلکہ کئی امتحانی مراکز کا حال ہے۔

گلی محلوں میں قائم چھوٹے تعلیمی ادارے اپنی دھاک بیٹھانے کےلیے جہاں ان کے بچوں کا سینٹر پڑتا ہے وہاں کے پرنسپل سے مل کر فی بچہ کے حساب سے سیٹنگ کرلیتے ہیں اور اس طرح ان کے اسکول کے بچوں کو الگ کمرہ اور نقل کی سہولیات دے دی جاتی ہیں۔ یوں ان اسکولوں کے طلبہ اے گریڈ اور اے ون گریڈ لے آتے ہیں۔ اس سال کراچی میں تین ہزار سے پانچ ہزار فی بچہ ریٹ چل رہا ہے اوربچے اپنے اسکولز کے پرنسپل کو نقل کےلیے رقم مہیا کر رہے ہیں۔

ہم نے سوشل میڈیا پر کچھ دن پہلے اسٹیٹس لگایا تھا کہ پرائیویٹ اسکولز والوں کی چاندی ہو گئی۔ وہ اسٹیٹس اسی بابت تھا کہ اگر ایک اسکول میں پچاس بچے ہیں اور ہر بچہ پانچ ہزار دیتا ہے اور پرنسپل آگے تین ہزار میں سیٹنگ کرلیتا ہے تو اسے فی بچہ دو ہزار روپے بچ جاتے ہیں جس سے اسکولز والے ایک اچھی رقم کما رہے ہیں اور علاقے میں اسکول کا بھی نام ہے کہ اس اسکول کے سارے بچوں کا اے گریڈ آتا ہے۔

والدین پورے سال بھاری فیسیں بھی جمع کراتے ہیں اور سال کے آخر میں اپنے بچوں کو نقل کرانے کے لیے خوشی خوشی رقم بھی فراہم کرتے ہیں۔ آفرین ان والدین پر جو اپنے بچوں کو نقل کرانے کے لیے پیسے دیتے ہیں! اگر یہ قوم کا مستقبل ہے تو پھر، خاکم بدہن، اس قوم کا کوئی مستقبل نہیں۔

جب تعلیمی بورڈز گورنر کے پاس تھے تو گورنر ہاﺅس کی جانب سے محکمہ تعلیم کے ساتھ ویجی لینس ٹیمیں تشکیل دی جاتی تھیں جو روزانہ کی بنیاد پر میٹرک اور انٹر کے امتحانی مراکز کا دورہ کرتیں اور نقل کرنے والے طلبہ اور انہیں مدد دینے والوں خلاف کارروائی کرتیں، جس کی وجہ سے نقل کے رجحان میں خاصی کمی ہوئی تھی۔ لیکن رواں سال تو صورتحال انتہائی سنگین ہے۔

اس سال امتحانات میں ساڑھے 3 لاکھ سے زائد طلبا و طالبات شریک ہوئے۔ نقل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شہر کے کئی اسکولوں کو گنجائش سے زیادہ طلبہ کا امتحانی مرکز بنا دیا گیا ہے اور چھوٹے چھوٹے اسکولز کو مراکز بنایا گیا ہے۔

نقل کے جن کو قابو کرنے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ امتحانات کا انعقاد مقابلے کے امتحانات کی طرح یونیورسٹیز اور بڑے کالجز میں لیا جائے اور اگر ضرورت بڑے تو اسٹیڈیم اور کھیلوں کے گراﺅنڈز بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ اگر بات گرمی اور پنکھوں کی ہے تو وہ مسئلہ اب بھی موجود ہے۔ اسکولز میں پنکھے نہیں ہوتے اور جہاں پنکھے ہوں تو وہاں بجلی نہیں ہوتی۔

اس لیے ہماری تجویز ہے کہ اسکولز کو امتحانی مراکز بنانے کے بجائے صرف تین سے چار بڑے امتحانی مراکز بنائے جائیں جس سے نقل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ابتدائی طور پر کراچی میں تجربہ کیا جا سکتا ہے۔

اس موقعے پر ہمیں اپنے استاد محترم کی بات شدت سے یاد آ رہی ہے کہ قوم کی بربادی کے لیے ایٹم بم یا میزائل کی ضرورت نہیں ہوتی؛ اس کے لیے صرف تعلیم کا خراب معیار اور امتحانات میں طلبا کو نقل کی چھوٹ دینا ہی کافی ہے۔

تحریر: مزمل فیروزی
اتوار 15 اپريل 2018
شکریہ ایکسپریس نیوز
 
Top