- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 1,118
- ری ایکشن اسکور
- 4,480
- پوائنٹ
- 376
سلف صالحین ، محدثین کی شاگردوں کو نصیحتیں:
سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں: کان العلماءیکتب بعضھم اِلی بعض ھذہ الکلمات: من أصلح سریر تہ أصلح اللہ علانیتہ ، ومن أصلح مابینہ و بین اللہ أصلح اللہ مابینہ وما بین الناس ، ومن عمل لآخرتہ کفاہ اللہ أمر دنیاہ۔ (اخر جہ محمد بن أبی الدنیا فی کتاب الا خلاص کتاب الایمان لا بن تیمیہ: ١١)
علماء ایک دوسرے کی طرف یہ لکھا کرتے تھے کہ:'' جس نے اپنے باطن کو صحیح کرلیا اللہ تعالیٰ اس کے ظاہر کو صحیح کر دیں گے، اور جس نے اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حالا ت کو درست کردیا اللہ تعالیٰ اس اور لوگوں کے درمیان معاملات کو درست کردے گا۔ جس نے آخرت کے لئے عمل کیا اللہ تعالیٰ اس کی دنیا کے معاملات سے کانی ہو جائے گا۔''
امام سفیان ثوری ؒ؛
امام سفیان توری ؒ فرماتے ہیں : زینو الحدیث بانفسکم ، ولا تزینو أ نفسکم بالحدیث۔'' ( جامع بیان العلم و فضلہ : ١ / ١٢٦) ( الفوائد : ١ / ٢١١)
تم حدیث کو اپنے نفسوں کے ساتھ مزین کرو نہ کہ اپنے نفسوں کو حدیث کے ساتھ مزےّن کرو۔''
عالم وہ ہے جو خےر کی اتباع اور برائی سے اجتناب کرتا ہے:
امام سفیان بن عینیہ ؒ:
لیس العالم الذی ےعرف الخیر من الشر، ولٰکن العالم الذی یعرف الخیر فیتبحہہ و یعرف الشر فیتنبہ۔ ( الفوائد : ١ / ٢٤٠)
''جو خیر کو شر سے پہنچانتا ہےلیکن حقیقی عالم وہ ہے جو خیر کو پہنچانتا ہے اور اس کی پیرو ی کرتا ہے اور شر کو پہنچانتا تو اس سے پرہیز کرتا ہے۔'' ( الفوائد : ٢٤٠)
یحییٰ بن ابی کثیر فرماتے ہیں:"العالم من خشی اللہ ، و یحسب امریٰ من الحمل أن یعجب العلمہ ۔"
''آدمی کو ایسا علم کانی ہے جس کے ذریعے وہ اللہ سے ڈرے، اور آدمی کو جاہل ہونے کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنے علم کی وجہ سے خوش ہو۔''
امام سفیان بن عیینہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :''اذا کان نماری نھار سفیہ ، ولیلی لیل جاھل فما أ صنع بالعلم الذی کتب۔'' ( الفوائد : ١ / ٢١٦)
جب میرا دن بے وقوف کے دن کی طرح ہو اور میری رات جاہل کی طرح ہو تو میں اپنے لکھے ہوئے علم کو کیا کروں ۔
زیاد بن جزیمہ الأسلمی ؒفرماتے ہیں '' ما فقہہ قوم لم یبلغو التیقی ۔''
(اعلینہ: ٤ / ١٩٧، الفوائد : ١ /٢٠٨)
وہ قوم کبھی بھی علم حاصل نہیں کرسکتی جو متقی نہ ہو۔
مالک بن دینار ؒ: کہتے ہیں : '' لا خیر لک فی أ ن تعلم مالم تعمل قال: ومثل ذلک مثل رجل اخنطب حطبا مخزم حزمتہ ثم ذھب بحملھا فعجز عنھا ، ففھم ألیھا أخری ۔'' ( الفوائد : ١ / ٢٠٦)
تیرے لئے اس علم میں خیر نہیں جس پر عمل نہیں انھوں نے کہا کہ اس کی مثال لکڑیوں کو اکٹھا کرنے والے آدمی کی طرح ہے جس نے ایک گٹھا بنا یا پھر اس کو اٹھا نے کی کوشش کی لیکن اٹھانے سے عاجز رہا ، پھر اس گٹھے میں اور لکڑیاں ڈالنے لگا۔
امام ابو حاتم ؒفرماتے ہےں :''لا یکو نو اعما لم عالماً حتیٰ تکون فیہہ ثلاث خصال : لا یحقر من دو نہ، ولا یحسد من فوقہ ، ولا یأ خذ علیٰ علمہہ دنیا۔'' ( دوا ء القلوب : ١٩٣، الفوائد: ١ / ٢٠٤)
''کوئی عالم اس وقت تک عالم نہیں بن سکتا جب تک اس میں تین خصلتیں نہ ہوں :'' اپنے سے کم علم والے کو حقیر نہ سمجھے اور جو اپنے سے زیادہ علم والے سے حسد نہ کرے اور اپنے علم کے بدلے دنیا ھاصل نہ کرے۔''
امام احمد ؒ فرماتے ہیں :''ہم ایک شیخ الحدیث کے پاس تحصیل ِ علم کے لئے حاضر ہوئے اور اس کے آنے تک بیٹھ کر علمی باتیں کرنے لگتے تو اپنی جگہ پر کھڑے ہو کر نماز میں مصروف ہوجاتے۔'' ( تذکرہ الحفاظ : ٢ / ٣٥١)
امام ذھبی ؒ فرماتے ہیں لالکائی اپنی سند سے کتاب السنہ ، میں شعیب بن حرب سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے امام سفیان سے کہا سنت رسول اللہ ؐ کے متعلق مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جس سے مجھے نفع ہو اور جب میں خدا کے پاس جاؤں تو کہہ سکوں خدایا! یہ بات مجھے سفیان نے بتائی تھی۔ میری نجات ہوجائے اور اس کی ذمہ داری آپ پر عائد ہو فرمانے لگے لکھئے۔
بسم اللہ الرحمٰن الر حیم ، قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے ۔ اسی کی طرف سے شروع ہوا اور اسی کی طرف لوٹے گا جو شخص اس کے خلاف اقتاد رکھے وہ کافر ہے۔ ایمان قول، عمل اور نےیت کا نام ہے اور کم و بیش ہوتا ہے ، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ علی الا طلاق تمام صحابہ سے افضل ہیں ۔ پھر فرمایا اے شعیب ! جو کچھ تم نے لکھا ہے اس کا تمہیں کچھ فائدہ نہ ہوگا جب تک یہ اعتقاد نہ رکھو کہ موزوں پر مسّح کرنا جائز ہے ، نماز میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنا افضل ہے۔ تقدیر پر ایمان لانا ضروری ہے ہر بادشاہ عادل یا ظالم کے جھنڈی تلے جمع ہو کر کفّار سے جہاد کرنا قیامت تک جاری رہے گا ۔ ہر نیک و بد کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے ۔ میں نے پوچھا اے عبد اللہ !تمام نماز میں ہر نیک اور نیک و بد کے پیچھے کےسے پڑھ سکتے ہیں ؟ بولے نہیں ، صرف نماز جمعہ اور نماز عید کا یہ حکم ہے باقی نمازوں میں تمہیں اختیار ہے وہ اسی شخص کے پیچھے پڑھو جس کے سنّت پر کار بند ہونے کا تمہیں یقین ہے ۔ (تذکرہ الحفاظ : ١ / ١٧٥ )
امام اوزاعی ؒنے فرمایا کہ :'' جب تم کو کوئی حدیث نبوی صحیح طریقے سے مل جائے تو پھر اس میں چون چراں کی گنجائش نہیں ۔ اس لئے کہ رسول اللہ ؐ جو کچھ کہتے تھے وہ اللہ کے مبلغ کی حثیت سے کہتے تھے ۔
اور فرمایا کرتے تھے :'' العلم ما جا رعن اصحاب محمد و لم یجی عنھم فیس یعلم ۔''
حقیقی علم وہ ہے جو صحابہ کرام رضی تعالیٰ عنھم سے ثابت اور منقول ہو اور جو ان سے ثابت نہ ہو وہ علم نہےں ہے۔
ولید کا بیان ہے کہ میں نے امام اوزاعی سے خود سنا ہے وہ کہتے تھے کہ :''دنےا مےں انسان عمر کی جتنی گھڑ ےاں گزار رہا ہے ، وہ سب اس کے سامنے ترتیب سے پیش کی جائیں گی ، تو زندگی کی جو ساعت اللہ کی یاد سے غفلت میں گزری ہیں ۔ اسی پر نفس کو سخت افسوس ہوگا ۔
امام اوزاعی ؒ فرمایا کرتے تھے :'' سلامتی اور عافیت کے دس اجزاء ہیں ،جن میں ٩ کے برابر جو خاموشی ہے ، اور اسی کا ایک جز لوگو ں سے بے نیازی ہے ۔
آسانی کیسے میسر آ سکتی ہے؟
ایک بار ایک شاگرد سے فرما یا کہ :'' جو شخص موت کو زیادہ یاد کرتا ہے ، اس کو ہر معاملہ میں آسانی میسر آتی ہےاور جو شخص یہ جان لے کہ گفتگو کا ایک عمل ہے (جس کی باز پرس ہوگی ) تو وہ بات چیت کم کرے گا۔''
خطیب کو نصیحت :
فرماتے تھے کہ :''جو واعظ خدا کی رضا کے لئے وعظ نہیں کہتا ۔ اس کی باتیں دل سے اس طرح نکل جاتی ہیں ۔جس طرح پتھر کے اوپر سے پانی فرمایا مومن بات کم کرتا ہے اور عمل زیادہ کرتا ہے اور منافق عمل کم کرتا ہے اور بات زیادہ۔
سنّت پر جم جاؤ اہلِ سنّت (اہلِ حدےث ) کا مؤقف اپناؤ:
فرماتے تھے کہ سنّتِ نبوی پر جم جاؤ اور اہلِ سنّت کا جو مؤقف ہے وہی اختیار کرو ۔جس چیز سے وہ رکے تم بھی رکو۔ سلف صالحےن کے راستہ پرچلو ، ایمان بغیر زبان کی شہادت کے استوار اور درست نہیں ہوتا ۔ اور ایمان و قول بغیر عمل کے درست نہیں ہوتے ، اور یہ تینوں چیزیں حسب ِ سنّت نبوی ؐ نیت کے بغیر درست نہیں ہوتیں ۔
(حسن السانی : ١٣٨، بحوالہ سےر الصحابہ : ٨ / ١ / ٢٥٧۔ ٢٥٩)
علم لوگوں کے فائدہ کے لئے سیکھنا چاہئیے:
ایک دفعہ متعدد ائمہ کامجمع تھا ۔ امام اوزاعی بھی موجود تھے ، ولید بن حلم نے پوچھا کہ آپ حضرات نے علم کس لئے حاصل کےا ہے؟ ، سب نے کہا اپنی ذات کے لئے، مگر ابن ِ جریح ؒ بولے کہ میں نے علم لوگوں کے فائدے کے لئے حاصل کیا ہے۔'' (تہذیب التہذیب : ١٠ / ٤٠٤ بحوالہ سیر الصحابہ : ٧ /١/ ٢٧٨)
اساتذہ کی خدمت کرنا اللہ تعالیٰ علم سے نواز دے گا:
امام سفیان بن عینیہ کو باپ کی نصیحت:
باپ نے ایک دن کہا :'' پیارے بیٹے ! بچپن کا زمانہ ختم ہوا اور تم اب سن شعور کو پہنچے ۔ اب پورے طور سے خیر کی طلب یعنی حصول علم دین میں لگ جاؤ مگر اس راہ میں سب سے زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ اہلِ علم کی اطاعت و خدمت کی جائے ۔ اگر تم ان کی اطاعت و خدمت کروگے تو علم و فضل سے بہرہ مند ہوگے۔''
(تہذیب السماء : ١ / ٢٤٥، سےر الصحابہ : ٧ / ١ / ٢٩١)
افسوس کے آج کا با پ ایسی نصیحت اپنی اولاد کو نہیں کرتا شاید یہی وجہ ہے کہ آج کے طلباء وہ محدثےن کی صفات کے حامل پیدا نہیں ہورہے ۔
علم والاجاہلوں کی طرح نہیں ہوتا:
فرماتے ہیں :'' ضروریاتِ زندگی کی طلب دنیا کی محبت نہیں ہے۔فرمایا کہ اگر میرا دن کم عقلوں کی طرح اور میری رات جاہلوں کی طرح غفلت کی طرح گزرے تو پھر میں نے جو علم حاصل کیا ہے وہ بے فائدہے۔''
اپنے آپ کو بہترنہ سمجھو:
فرمایا :''جو شخص یہ سمجھے کہ میں فلاں سے بہتر ہوں تو اس نے غرور کیا اور ابلیس کو اس غرور ہی نے حضرت آدم کے سامنے سجدہ کرنے سے روکا تھا۔ جو شخص اپنی نفسانی خواہش کی بنیاد پر کوئی گناہ کرتا ہے تو اس سے تو بہ کی امید رکھو اور جو شخص جذبہ تکبر کے ساتھ کوئی معصیت کرتا ہے تو اسی پر لعنت ہے اس لئے ابلیس نے جذبہ تکبر سے نافرمانی کی تھی ، اس لئے ملعون و مردود ہوا۔
حصول ِ علم کا مقصد کہ لوگوں کو نفع پہنچے:
فرمایا :'' جو شخص علم اس لئے حاصل کرتا ہے کہ اس سے لوگوں کو نفع پہنچے اس کا درجہ خدا کے یہاں وہی ہے جو کسی ایسے غلام کا آقا کے یہاں ہوتا جو وہی کام کرتا ہے ، جس سے آقا خوش ہو۔''
عالم کالادری کہنا نصف علم ہے:
فرمایا :''جب کوئی عالم لا ادری (میں نہیں جانتا)کہنا چھوڑدیتا ہے تو وہ اپنی ہلاکت کا سامان کرتا ہے۔''
نماز کی عزت کس میں ہے؟
فرمایا کہ:''نماز کی توقیر یہ ہے کہ مسجد میں اقامت سے پہلے آؤ۔''
زندگی تین دن ہے؟
فرمایا:''ایام تین ہیں ، کل گذشتہ یہ ہمارا صاحب حکمت اور معلم ہے جو اپنی حکمت فوری چھوڑ جاتاہے آج یہ ایک بچھڑجانے والا دوست جس کی جدائی بڑ ی طویل ہے ۔یہ تمہارے پاس آتا رہتا ہے ۔ مگر تم اس کے پاس نہیں جا سکتے ، کل آئندہ اس کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا کہ تم اس کو پا سکو گے یا نہیں ۔''
اپنے باطن کو درست کرو ظاہر خود بخودصحیح ہو جائے گا:
سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں: کان العلماءیکتب بعضھم اِلی بعض ھذہ الکلمات: من أصلح سریر تہ أصلح اللہ علانیتہ ، ومن أصلح مابینہ و بین اللہ أصلح اللہ مابینہ وما بین الناس ، ومن عمل لآخرتہ کفاہ اللہ أمر دنیاہ۔ (اخر جہ محمد بن أبی الدنیا فی کتاب الا خلاص کتاب الایمان لا بن تیمیہ: ١١)
علماء ایک دوسرے کی طرف یہ لکھا کرتے تھے کہ:'' جس نے اپنے باطن کو صحیح کرلیا اللہ تعالیٰ اس کے ظاہر کو صحیح کر دیں گے، اور جس نے اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حالا ت کو درست کردیا اللہ تعالیٰ اس اور لوگوں کے درمیان معاملات کو درست کردے گا۔ جس نے آخرت کے لئے عمل کیا اللہ تعالیٰ اس کی دنیا کے معاملات سے کانی ہو جائے گا۔''
اپنے آپ کو حدیث سے مزین کرو نہ کہ حدیث کو اپنے آپ سے:
امام سفیان ثوری ؒ؛
امام سفیان توری ؒ فرماتے ہیں : زینو الحدیث بانفسکم ، ولا تزینو أ نفسکم بالحدیث۔'' ( جامع بیان العلم و فضلہ : ١ / ١٢٦) ( الفوائد : ١ / ٢١١)
تم حدیث کو اپنے نفسوں کے ساتھ مزین کرو نہ کہ اپنے نفسوں کو حدیث کے ساتھ مزےّن کرو۔''
عالم وہ ہے جو خےر کی اتباع اور برائی سے اجتناب کرتا ہے:
امام سفیان بن عینیہ ؒ:
لیس العالم الذی ےعرف الخیر من الشر، ولٰکن العالم الذی یعرف الخیر فیتبحہہ و یعرف الشر فیتنبہ۔ ( الفوائد : ١ / ٢٤٠)
''جو خیر کو شر سے پہنچانتا ہےلیکن حقیقی عالم وہ ہے جو خیر کو پہنچانتا ہے اور اس کی پیرو ی کرتا ہے اور شر کو پہنچانتا تو اس سے پرہیز کرتا ہے۔'' ( الفوائد : ٢٤٠)
عالم اللہ سے ڈرانے والا ہوتا ہے:
یحییٰ بن ابی کثیر فرماتے ہیں:"العالم من خشی اللہ ، و یحسب امریٰ من الحمل أن یعجب العلمہ ۔"
''آدمی کو ایسا علم کانی ہے جس کے ذریعے وہ اللہ سے ڈرے، اور آدمی کو جاہل ہونے کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنے علم کی وجہ سے خوش ہو۔''
طالب علم کے دن اور رات کیسے ہونے چاہئیں؟
امام سفیان بن عیینہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :''اذا کان نماری نھار سفیہ ، ولیلی لیل جاھل فما أ صنع بالعلم الذی کتب۔'' ( الفوائد : ١ / ٢١٦)
جب میرا دن بے وقوف کے دن کی طرح ہو اور میری رات جاہل کی طرح ہو تو میں اپنے لکھے ہوئے علم کو کیا کروں ۔
علم کے حصول کی شرط تقویٰ اور عمل ہے:
زیاد بن جزیمہ الأسلمی ؒفرماتے ہیں '' ما فقہہ قوم لم یبلغو التیقی ۔''
(اعلینہ: ٤ / ١٩٧، الفوائد : ١ /٢٠٨)
وہ قوم کبھی بھی علم حاصل نہیں کرسکتی جو متقی نہ ہو۔
مالک بن دینار ؒ: کہتے ہیں : '' لا خیر لک فی أ ن تعلم مالم تعمل قال: ومثل ذلک مثل رجل اخنطب حطبا مخزم حزمتہ ثم ذھب بحملھا فعجز عنھا ، ففھم ألیھا أخری ۔'' ( الفوائد : ١ / ٢٠٦)
تیرے لئے اس علم میں خیر نہیں جس پر عمل نہیں انھوں نے کہا کہ اس کی مثال لکڑیوں کو اکٹھا کرنے والے آدمی کی طرح ہے جس نے ایک گٹھا بنا یا پھر اس کو اٹھا نے کی کوشش کی لیکن اٹھانے سے عاجز رہا ، پھر اس گٹھے میں اور لکڑیاں ڈالنے لگا۔
حقیقی عالم کون ہے؟:
امام ابو حاتم ؒفرماتے ہےں :''لا یکو نو اعما لم عالماً حتیٰ تکون فیہہ ثلاث خصال : لا یحقر من دو نہ، ولا یحسد من فوقہ ، ولا یأ خذ علیٰ علمہہ دنیا۔'' ( دوا ء القلوب : ١٩٣، الفوائد: ١ / ٢٠٤)
''کوئی عالم اس وقت تک عالم نہیں بن سکتا جب تک اس میں تین خصلتیں نہ ہوں :'' اپنے سے کم علم والے کو حقیر نہ سمجھے اور جو اپنے سے زیادہ علم والے سے حسد نہ کرے اور اپنے علم کے بدلے دنیا ھاصل نہ کرے۔''
استاد کے آنے تک مذاکرے یا نماز میں مصروف رہنا :
امام احمد ؒ فرماتے ہیں :''ہم ایک شیخ الحدیث کے پاس تحصیل ِ علم کے لئے حاضر ہوئے اور اس کے آنے تک بیٹھ کر علمی باتیں کرنے لگتے تو اپنی جگہ پر کھڑے ہو کر نماز میں مصروف ہوجاتے۔'' ( تذکرہ الحفاظ : ٢ / ٣٥١)
سنّتِ رسول کے متعلق ایسی نصیحت جس کا نفع ہو:
امام ذھبی ؒ فرماتے ہیں لالکائی اپنی سند سے کتاب السنہ ، میں شعیب بن حرب سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے امام سفیان سے کہا سنت رسول اللہ ؐ کے متعلق مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جس سے مجھے نفع ہو اور جب میں خدا کے پاس جاؤں تو کہہ سکوں خدایا! یہ بات مجھے سفیان نے بتائی تھی۔ میری نجات ہوجائے اور اس کی ذمہ داری آپ پر عائد ہو فرمانے لگے لکھئے۔
بسم اللہ الرحمٰن الر حیم ، قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے ۔ اسی کی طرف سے شروع ہوا اور اسی کی طرف لوٹے گا جو شخص اس کے خلاف اقتاد رکھے وہ کافر ہے۔ ایمان قول، عمل اور نےیت کا نام ہے اور کم و بیش ہوتا ہے ، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ علی الا طلاق تمام صحابہ سے افضل ہیں ۔ پھر فرمایا اے شعیب ! جو کچھ تم نے لکھا ہے اس کا تمہیں کچھ فائدہ نہ ہوگا جب تک یہ اعتقاد نہ رکھو کہ موزوں پر مسّح کرنا جائز ہے ، نماز میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنا افضل ہے۔ تقدیر پر ایمان لانا ضروری ہے ہر بادشاہ عادل یا ظالم کے جھنڈی تلے جمع ہو کر کفّار سے جہاد کرنا قیامت تک جاری رہے گا ۔ ہر نیک و بد کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے ۔ میں نے پوچھا اے عبد اللہ !تمام نماز میں ہر نیک اور نیک و بد کے پیچھے کےسے پڑھ سکتے ہیں ؟ بولے نہیں ، صرف نماز جمعہ اور نماز عید کا یہ حکم ہے باقی نمازوں میں تمہیں اختیار ہے وہ اسی شخص کے پیچھے پڑھو جس کے سنّت پر کار بند ہونے کا تمہیں یقین ہے ۔ (تذکرہ الحفاظ : ١ / ١٧٥ )
صحیح حدیث میں شک نہ کرو:
امام اوزاعی ؒنے فرمایا کہ :'' جب تم کو کوئی حدیث نبوی صحیح طریقے سے مل جائے تو پھر اس میں چون چراں کی گنجائش نہیں ۔ اس لئے کہ رسول اللہ ؐ جو کچھ کہتے تھے وہ اللہ کے مبلغ کی حثیت سے کہتے تھے ۔
اور فرمایا کرتے تھے :'' العلم ما جا رعن اصحاب محمد و لم یجی عنھم فیس یعلم ۔''
حقیقی علم وہ ہے جو صحابہ کرام رضی تعالیٰ عنھم سے ثابت اور منقول ہو اور جو ان سے ثابت نہ ہو وہ علم نہےں ہے۔
ولید کا بیان ہے کہ میں نے امام اوزاعی سے خود سنا ہے وہ کہتے تھے کہ :''دنےا مےں انسان عمر کی جتنی گھڑ ےاں گزار رہا ہے ، وہ سب اس کے سامنے ترتیب سے پیش کی جائیں گی ، تو زندگی کی جو ساعت اللہ کی یاد سے غفلت میں گزری ہیں ۔ اسی پر نفس کو سخت افسوس ہوگا ۔
خاموشی نعمت ہے؛
امام اوزاعی ؒ فرمایا کرتے تھے :'' سلامتی اور عافیت کے دس اجزاء ہیں ،جن میں ٩ کے برابر جو خاموشی ہے ، اور اسی کا ایک جز لوگو ں سے بے نیازی ہے ۔
آسانی کیسے میسر آ سکتی ہے؟
ایک بار ایک شاگرد سے فرما یا کہ :'' جو شخص موت کو زیادہ یاد کرتا ہے ، اس کو ہر معاملہ میں آسانی میسر آتی ہےاور جو شخص یہ جان لے کہ گفتگو کا ایک عمل ہے (جس کی باز پرس ہوگی ) تو وہ بات چیت کم کرے گا۔''
خطیب کو نصیحت :
فرماتے تھے کہ :''جو واعظ خدا کی رضا کے لئے وعظ نہیں کہتا ۔ اس کی باتیں دل سے اس طرح نکل جاتی ہیں ۔جس طرح پتھر کے اوپر سے پانی فرمایا مومن بات کم کرتا ہے اور عمل زیادہ کرتا ہے اور منافق عمل کم کرتا ہے اور بات زیادہ۔
سنّت پر جم جاؤ اہلِ سنّت (اہلِ حدےث ) کا مؤقف اپناؤ:
فرماتے تھے کہ سنّتِ نبوی پر جم جاؤ اور اہلِ سنّت کا جو مؤقف ہے وہی اختیار کرو ۔جس چیز سے وہ رکے تم بھی رکو۔ سلف صالحےن کے راستہ پرچلو ، ایمان بغیر زبان کی شہادت کے استوار اور درست نہیں ہوتا ۔ اور ایمان و قول بغیر عمل کے درست نہیں ہوتے ، اور یہ تینوں چیزیں حسب ِ سنّت نبوی ؐ نیت کے بغیر درست نہیں ہوتیں ۔
(حسن السانی : ١٣٨، بحوالہ سےر الصحابہ : ٨ / ١ / ٢٥٧۔ ٢٥٩)
علم لوگوں کے فائدہ کے لئے سیکھنا چاہئیے:
ایک دفعہ متعدد ائمہ کامجمع تھا ۔ امام اوزاعی بھی موجود تھے ، ولید بن حلم نے پوچھا کہ آپ حضرات نے علم کس لئے حاصل کےا ہے؟ ، سب نے کہا اپنی ذات کے لئے، مگر ابن ِ جریح ؒ بولے کہ میں نے علم لوگوں کے فائدے کے لئے حاصل کیا ہے۔'' (تہذیب التہذیب : ١٠ / ٤٠٤ بحوالہ سیر الصحابہ : ٧ /١/ ٢٧٨)
اساتذہ کی خدمت کرنا اللہ تعالیٰ علم سے نواز دے گا:
امام سفیان بن عینیہ کو باپ کی نصیحت:
باپ نے ایک دن کہا :'' پیارے بیٹے ! بچپن کا زمانہ ختم ہوا اور تم اب سن شعور کو پہنچے ۔ اب پورے طور سے خیر کی طلب یعنی حصول علم دین میں لگ جاؤ مگر اس راہ میں سب سے زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ اہلِ علم کی اطاعت و خدمت کی جائے ۔ اگر تم ان کی اطاعت و خدمت کروگے تو علم و فضل سے بہرہ مند ہوگے۔''
(تہذیب السماء : ١ / ٢٤٥، سےر الصحابہ : ٧ / ١ / ٢٩١)
افسوس کے آج کا با پ ایسی نصیحت اپنی اولاد کو نہیں کرتا شاید یہی وجہ ہے کہ آج کے طلباء وہ محدثےن کی صفات کے حامل پیدا نہیں ہورہے ۔
علم والاجاہلوں کی طرح نہیں ہوتا:
فرماتے ہیں :'' ضروریاتِ زندگی کی طلب دنیا کی محبت نہیں ہے۔فرمایا کہ اگر میرا دن کم عقلوں کی طرح اور میری رات جاہلوں کی طرح غفلت کی طرح گزرے تو پھر میں نے جو علم حاصل کیا ہے وہ بے فائدہے۔''
اپنے آپ کو بہترنہ سمجھو:
فرمایا :''جو شخص یہ سمجھے کہ میں فلاں سے بہتر ہوں تو اس نے غرور کیا اور ابلیس کو اس غرور ہی نے حضرت آدم کے سامنے سجدہ کرنے سے روکا تھا۔ جو شخص اپنی نفسانی خواہش کی بنیاد پر کوئی گناہ کرتا ہے تو اس سے تو بہ کی امید رکھو اور جو شخص جذبہ تکبر کے ساتھ کوئی معصیت کرتا ہے تو اسی پر لعنت ہے اس لئے ابلیس نے جذبہ تکبر سے نافرمانی کی تھی ، اس لئے ملعون و مردود ہوا۔
حصول ِ علم کا مقصد کہ لوگوں کو نفع پہنچے:
فرمایا :'' جو شخص علم اس لئے حاصل کرتا ہے کہ اس سے لوگوں کو نفع پہنچے اس کا درجہ خدا کے یہاں وہی ہے جو کسی ایسے غلام کا آقا کے یہاں ہوتا جو وہی کام کرتا ہے ، جس سے آقا خوش ہو۔''
عالم کالادری کہنا نصف علم ہے:
فرمایا :''جب کوئی عالم لا ادری (میں نہیں جانتا)کہنا چھوڑدیتا ہے تو وہ اپنی ہلاکت کا سامان کرتا ہے۔''
نماز کی عزت کس میں ہے؟
فرمایا کہ:''نماز کی توقیر یہ ہے کہ مسجد میں اقامت سے پہلے آؤ۔''
زندگی تین دن ہے؟
فرمایا:''ایام تین ہیں ، کل گذشتہ یہ ہمارا صاحب حکمت اور معلم ہے جو اپنی حکمت فوری چھوڑ جاتاہے آج یہ ایک بچھڑجانے والا دوست جس کی جدائی بڑ ی طویل ہے ۔یہ تمہارے پاس آتا رہتا ہے ۔ مگر تم اس کے پاس نہیں جا سکتے ، کل آئندہ اس کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا کہ تم اس کو پا سکو گے یا نہیں ۔''