- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 1,118
- ری ایکشن اسکور
- 4,480
- پوائنٹ
- 376
کچھ راقم الحروف کی آرا:
جب ایک طالب علم بہت اچھے جذبات لے کر دینی مدرسہ میں آتا ہے تو بہت جلد وہ اپنے اچھے جذبات کھو بیٹھتا ہے (الا ما شاء اللہ ) اور سات آٹھ سال کا عرصہ بغیر کسی سوچ کے (کہ میں نے کیا حاصل کرنا ہے اور میری کونسی منزل ہے جس کو پانے کے لئے میں نے اتنی محنت کرنی ہے )گزار دیتا ہے ، شاید یہی وجہ ہے کہ ہر سال دینی مدارس سے سینکڑوں علماء فارغ ہوتے ہیں مگر ان میں مدرس ، مبلغ، مصنف اور ثقہ عالم دین صرف چند ایک ہوتے ہیں ۔اس کا تجزیہ ہر وہ آدمی کر سکتا ہے جس کا اس لائن سے تعلق ہے۔
راقم کی نظر میں اس کی کچھ بنیادی وجوہات ہیں جن کی ہم ضروری تفصیل پیش کئے دیتے ہیں ۔
معلم پر یہ اوّلین فریضہ ہے کہ وہ آنے والے نئے طالب علم کی تربیت کرے اور اس کا یہ ذہن بنا دے کہ قرآن و حدیث کا علم حاصل کرنا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک آپ متقی نہ بنیں گے کسی امام نے کہا :'' ما فقہ قوم لم یبلغوا لتقی '' وہ قوم کبھی علم حاصل نہیں کر سکتی جو متقی نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :''اتقو اللہ ویعلمکم اللہ '' تم اللہ سے ڈر جاؤ وہ تمہیں علم سکھلا دے گا۔پھر یہ بار بار یاد دہانی کرائی جائے ہفتے میں ایک دن ضررور طلباء سے تربیتی نشست کی جائے دل کی اصلاح پر زور دیا جائے کہ اگر آپ کے دل میں برے پروگرام ہوئے تو آپ علم سے محروم ہو جائیں گے ۔
حصول علم کے لئے دل کی صفائی شرط ہے ۔ معلم جب بھی شاگرد میں کوئی عملی کوتاہی محسوس کرے تو ایک باپ کی طرح خیر خواہی کا جذبہ لے کر اس بچے کو حکیمانہ انداز میں تنہائی میں سمجھائے اگر اس کے سامنے استاد کورونا بھی پڑے تاکہ وہ طالب علم سمجھے کہ میرا استاد میرا کتنا خیر خواہ ہے؟
تذکیہ نفس پر مشتمل کتب کا مطالعہ کرنے کا حکم دے مثلاََ فلاح کی راہیں ، آفات ِ نظر اور ان کا علاج از شیخنا ارشاد الحق الاثری حفظہ اللہ ، الفوائد از شیخنا امین اللہ پشاوری حفطہ اللہ ، ۔
الذہد لامام احمد ؒ وغیرہ۔)
ایک طالب علم کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ '' من جدّ و جد'' جس نے کوشش کی اس نے پا لیا ۔'' لا یستطاع العلم براحۃ الجسم ''جسم کو سکون پہنچا کر علم کا حصول ناممکن ہے۔
بد محنت طالب علم کو یہ نکتہ ذہن میں رکھناچاہئے کہ قرآن و حدیث کا علم تمام علوم سے افضل علم ہے یہ علم منزل من اللہ ہے ، اسی کے ذریعے لو گوں کی اصلاح ممکن ہے۔علماء انبیاء کے وارث ہیں ۔یہی وہ علم ہے جس کے ذریعے ایک عالم دین اپنے ایک ذہن کی فکر و کوشش کے ذریعے پوری کا ئنات کو روشن کر سکتا ہے ۔ شرک ، کفر عام ہورہا ہے اگر محنت سے علم کو حاصل نہیں کریں گے تو شرک و کفر کے خلاف کون اپنی آواز بلند کرے گا ۔
امام اسحاق بن یوسف بن مر داس واسطی بیس سال تک کتابوں پر اس طرح جھکے رہے کہ سر اٹھا کر آسمان کی طرف نہیں دیکھا ۔''
(تذکرہ الحفاظ: ١ / ٢٤٨)
بد محنت طالب علم کے لئے یہ بھی ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہر فرد پر کتنے اخراجات ہوتے ہیں اگر وہ ساری سہولتیں استعمال کرنے کے باوجود علم کو حاصل نہ کر سکا تو پھر والدین کے ساتھ ، انتظامیہ کے ساتھ ، تعاون کرنے والوں کے ساتھ ظلم کر رہا ہے کل قیامت کو کیا جواب دے گا۔
شاید یہ بات طالب علم جلد سمجھ لے کہ جتنا آپ کے پاس علم ہوگا اتنا ہی آپ دین کا کا م کر سکیں گے ۔ اگر بہت زیادہ محنت کر کے زیادہ علم حاصل کیا جائے تو اللہ تعالیٰ بھی آپ سے بہت زیادہ دین کا کام لے گا ۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
آج جو بو گے کل کو وہی کاٹو گے۔
یہ بھی ناکامی کی ایک وجہ ہے ہمارا یہ تجزیہ ہے کہ وہ طالب علم جو تعلیم میں محنت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اساتذہ کی خدمت کرتا رہتا ہے وہ کبھی ناکام نہیں ہوا اللہ تعالیٰ اسے ضرور عزت سے ہمکنار کرتے ہیں اور اسی سے دین کا کام لیتے ہیں ۔
اے طالب علم ! اسا تذہ کی خدمت کامیابی کا پہلا زینہ ہے جس کو تو بھول چکا ہے ۔
ہم آپ کے لئے محدثین کے چند واقعات پیش کرتے ہیں کہ وہ اپنے اساتذہ کی کتنی خدمت کیا کرتے تھے ، شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔
١۔ مولا نا عبد الرؤ ف جھنڈانگری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:'[ حضرت عبد اللہ بن عباس کے فضل و کمال اور وسعت علم کی کچھ انتہا نہیں مگر طلب علم اور مسائل اور فرائض کے حصول کے لئے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں جاتے اور جب زید بن ثابت کبھی سوار ہو کر باہر نکلتے تو آپ انکی سواری کا رکاب تھامتے ، جب حضرت زید ان کو اس ادا سے منع کرتے تو آپ فرماتے : '' ھکذا امر نا ان نفعل بعلماء نا '' کہ اسی طرح ہمیں علماء کی تعظیم کا حکم دیا گیا ہے ۔(مرأۃ الجنان جلد اول : ١٢٣)
٢۔ حضرت ابو العالیہ تابعین کرام میں تفسیر قرآن کے سب سے بڑے عالم حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ انکی بے حد تعظیم و تکریم فرماتے۔جب قریش کے عام لوگ زمین کے فرش پر ہوتے تو ان کو اپنے ساتھ تخت و مسند پر بٹھا تے اور فرماتے :'' ھکذا العلم یزید الشریف شرفاََ و یجلس الملوک علی الأ سرۃ۔''
یعنی علم شریف کی شرافت کو بڑھاتا ہے اور اہل علم بادشاہوں کی طرح تخت پر جلوہ گر ہوتے ہیں۔
( تذکرہ الحفاظ : ج ا : ٥٨)
٣۔ حضرت مجاہد تفسیر قرآن کے ممتاز اور مشہور عالم ہیں ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے جلیل القدر مجاہد انکی تفسیری بلند پر وازیوں پر بے حد مسرور ہوتے اور حضرت مجاہد کی سواری کا رکاب تھامتے اور اسی کو اپنے لئے وجہ شرف سمجھتے حضرت مجاہد کا خود اپنا بیان ہے۔'' ربما اخذ نی ابن عمر باالر کاب ۔''
( تذکرہ الحفاظ ، ج ا : ٨٦)
٤۔ امیر لیث بن سعد والی مصر امام زہری کے رکاب کو تھامتے تھے۔
( آداب ِ الشریعہ : ٢٥٦)
٥۔ امام زہری ؒ اپنے استاد عبید اللہ بن عمر کی خد مت کرتے ، کنویں سے پانی نکال کر انکے کھیتوں کو سینچا کرتے ۔
(تذکرہ الحفاظ : ٧٤)
٦۔ حضرت امام ابو حنیفہ اپنے استاد حماد بن ابی سلیمان کی مختلف خدمات انجام دیتے کبھی ان کے گدّے کی روئی دھنتے کبھی بازار سے سبزی ترکاری اور گوشت وغیرہ خرید لاتے ۔ اسی طرح کے اور بہت سے کام کرتے ۔
( مقدمہ نصب الرایہ : ٤٠٤)
٧۔ عارف باللہ محدث ابراھیم حزلی کی تعظیم و تکریم کا واقعہ یا قوت حموی نے معجم الا دباء میں نقل کیا ہے کہ اسماعیل بن اسحاق قاضی وقت محدث یگانہ ابرا ھیم ہمیشہ یہ کہ کر ٹال دیتے کہ وہ قاضی مملکت اور وہاں دربانوں کو ہٹا کر آپ کو بصد اشتیاق بلا لیا ۔ امام ابراھیم پہنچے ،جوتا اتار کر فرش پر چلنے لگے تو قاضی صاحب نے حسنِ عقیدت سے ان کے جوتوں کو اٹھا کر ایک ریشمی کپڑے میں رکھ لیا ۔
تھوڑی دیر کے بعد جب امام صاحب واپس ہونے لگے تو قاضی صاحب نے ریشمی کپڑے سے ان کا جوتا نکال کر پیش کیا ۔ امام ابرا ھیم نے ا نکی عقیدت کا یہ حال دیکھا تو فرمایا :''غفرانکٰ اللہ ما اکرمت العلم۔'' یعنی اللہ تعالیٰ تکریم ِ علم کے سبب آپ کی مغفرت فرمائے ۔۔۔۔آمین ثم آمین۔
( علمائے دین اور أمراء اسلام : ٩٩۔١٠١)
مولا نا ابرا ھیم میر سیالکوٹی ؒ لکھتے ہےں :'' ١٣١٦ھ میں جب یہ عاجز اپنے اور پنجاب کے استاد جناب حافظ عبد المنان صاحب مر حوم وزیر آبادی کی معیت میں پہلی بار حضرت میاں صاحب مر حوم ( سید نذیر حسین محدث دہلوی ؒ ۔ از ناقل) کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ تو آپ نے ان ایام میں ایک دن مسجد میں آکر فرمایا کہ آج رات اس کمبخت نے ہم کو سونے نہیں دیا ۔ کبھی اس طرف پاؤں آ دباتا اور کبھی اس طرف سے ۔ اس سے آپ کی مراد یہ تھی کہ جو جن آپ کا شاگرد تھا وہ رات کے وقت آپ کے پاؤں کو دبا یا کرتا تھا۔''
(تارےخ اہلحدیث : ٤٨٣)
جب ایک طالب علم بہت اچھے جذبات لے کر دینی مدرسہ میں آتا ہے تو بہت جلد وہ اپنے اچھے جذبات کھو بیٹھتا ہے (الا ما شاء اللہ ) اور سات آٹھ سال کا عرصہ بغیر کسی سوچ کے (کہ میں نے کیا حاصل کرنا ہے اور میری کونسی منزل ہے جس کو پانے کے لئے میں نے اتنی محنت کرنی ہے )گزار دیتا ہے ، شاید یہی وجہ ہے کہ ہر سال دینی مدارس سے سینکڑوں علماء فارغ ہوتے ہیں مگر ان میں مدرس ، مبلغ، مصنف اور ثقہ عالم دین صرف چند ایک ہوتے ہیں ۔اس کا تجزیہ ہر وہ آدمی کر سکتا ہے جس کا اس لائن سے تعلق ہے۔
راقم کی نظر میں اس کی کچھ بنیادی وجوہات ہیں جن کی ہم ضروری تفصیل پیش کئے دیتے ہیں ۔
تربیت کا فقدان:
معلم پر یہ اوّلین فریضہ ہے کہ وہ آنے والے نئے طالب علم کی تربیت کرے اور اس کا یہ ذہن بنا دے کہ قرآن و حدیث کا علم حاصل کرنا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک آپ متقی نہ بنیں گے کسی امام نے کہا :'' ما فقہ قوم لم یبلغوا لتقی '' وہ قوم کبھی علم حاصل نہیں کر سکتی جو متقی نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :''اتقو اللہ ویعلمکم اللہ '' تم اللہ سے ڈر جاؤ وہ تمہیں علم سکھلا دے گا۔پھر یہ بار بار یاد دہانی کرائی جائے ہفتے میں ایک دن ضررور طلباء سے تربیتی نشست کی جائے دل کی اصلاح پر زور دیا جائے کہ اگر آپ کے دل میں برے پروگرام ہوئے تو آپ علم سے محروم ہو جائیں گے ۔
حصول علم کے لئے دل کی صفائی شرط ہے ۔ معلم جب بھی شاگرد میں کوئی عملی کوتاہی محسوس کرے تو ایک باپ کی طرح خیر خواہی کا جذبہ لے کر اس بچے کو حکیمانہ انداز میں تنہائی میں سمجھائے اگر اس کے سامنے استاد کورونا بھی پڑے تاکہ وہ طالب علم سمجھے کہ میرا استاد میرا کتنا خیر خواہ ہے؟
تذکیہ نفس پر مشتمل کتب کا مطالعہ کرنے کا حکم دے مثلاََ فلاح کی راہیں ، آفات ِ نظر اور ان کا علاج از شیخنا ارشاد الحق الاثری حفظہ اللہ ، الفوائد از شیخنا امین اللہ پشاوری حفطہ اللہ ، ۔
الذہد لامام احمد ؒ وغیرہ۔)
محنت نہ کرنا :
ایک طالب علم کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ '' من جدّ و جد'' جس نے کوشش کی اس نے پا لیا ۔'' لا یستطاع العلم براحۃ الجسم ''جسم کو سکون پہنچا کر علم کا حصول ناممکن ہے۔
بد محنت طالب علم کو یہ نکتہ ذہن میں رکھناچاہئے کہ قرآن و حدیث کا علم تمام علوم سے افضل علم ہے یہ علم منزل من اللہ ہے ، اسی کے ذریعے لو گوں کی اصلاح ممکن ہے۔علماء انبیاء کے وارث ہیں ۔یہی وہ علم ہے جس کے ذریعے ایک عالم دین اپنے ایک ذہن کی فکر و کوشش کے ذریعے پوری کا ئنات کو روشن کر سکتا ہے ۔ شرک ، کفر عام ہورہا ہے اگر محنت سے علم کو حاصل نہیں کریں گے تو شرک و کفر کے خلاف کون اپنی آواز بلند کرے گا ۔
امام اسحاق بن یوسف بن مر داس واسطی بیس سال تک کتابوں پر اس طرح جھکے رہے کہ سر اٹھا کر آسمان کی طرف نہیں دیکھا ۔''
(تذکرہ الحفاظ: ١ / ٢٤٨)
بد محنت طالب علم کے لئے یہ بھی ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہر فرد پر کتنے اخراجات ہوتے ہیں اگر وہ ساری سہولتیں استعمال کرنے کے باوجود علم کو حاصل نہ کر سکا تو پھر والدین کے ساتھ ، انتظامیہ کے ساتھ ، تعاون کرنے والوں کے ساتھ ظلم کر رہا ہے کل قیامت کو کیا جواب دے گا۔
شاید یہ بات طالب علم جلد سمجھ لے کہ جتنا آپ کے پاس علم ہوگا اتنا ہی آپ دین کا کا م کر سکیں گے ۔ اگر بہت زیادہ محنت کر کے زیادہ علم حاصل کیا جائے تو اللہ تعالیٰ بھی آپ سے بہت زیادہ دین کا کام لے گا ۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
آج جو بو گے کل کو وہی کاٹو گے۔
استاذہ کی خدمت سے جی چرانا :
یہ بھی ناکامی کی ایک وجہ ہے ہمارا یہ تجزیہ ہے کہ وہ طالب علم جو تعلیم میں محنت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اساتذہ کی خدمت کرتا رہتا ہے وہ کبھی ناکام نہیں ہوا اللہ تعالیٰ اسے ضرور عزت سے ہمکنار کرتے ہیں اور اسی سے دین کا کام لیتے ہیں ۔
اے طالب علم ! اسا تذہ کی خدمت کامیابی کا پہلا زینہ ہے جس کو تو بھول چکا ہے ۔
ہم آپ کے لئے محدثین کے چند واقعات پیش کرتے ہیں کہ وہ اپنے اساتذہ کی کتنی خدمت کیا کرتے تھے ، شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔
اساتذہ کی خدمت کے واقعات :
١۔ مولا نا عبد الرؤ ف جھنڈانگری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:'[ حضرت عبد اللہ بن عباس کے فضل و کمال اور وسعت علم کی کچھ انتہا نہیں مگر طلب علم اور مسائل اور فرائض کے حصول کے لئے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں جاتے اور جب زید بن ثابت کبھی سوار ہو کر باہر نکلتے تو آپ انکی سواری کا رکاب تھامتے ، جب حضرت زید ان کو اس ادا سے منع کرتے تو آپ فرماتے : '' ھکذا امر نا ان نفعل بعلماء نا '' کہ اسی طرح ہمیں علماء کی تعظیم کا حکم دیا گیا ہے ۔(مرأۃ الجنان جلد اول : ١٢٣)
٢۔ حضرت ابو العالیہ تابعین کرام میں تفسیر قرآن کے سب سے بڑے عالم حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ انکی بے حد تعظیم و تکریم فرماتے۔جب قریش کے عام لوگ زمین کے فرش پر ہوتے تو ان کو اپنے ساتھ تخت و مسند پر بٹھا تے اور فرماتے :'' ھکذا العلم یزید الشریف شرفاََ و یجلس الملوک علی الأ سرۃ۔''
یعنی علم شریف کی شرافت کو بڑھاتا ہے اور اہل علم بادشاہوں کی طرح تخت پر جلوہ گر ہوتے ہیں۔
( تذکرہ الحفاظ : ج ا : ٥٨)
٣۔ حضرت مجاہد تفسیر قرآن کے ممتاز اور مشہور عالم ہیں ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے جلیل القدر مجاہد انکی تفسیری بلند پر وازیوں پر بے حد مسرور ہوتے اور حضرت مجاہد کی سواری کا رکاب تھامتے اور اسی کو اپنے لئے وجہ شرف سمجھتے حضرت مجاہد کا خود اپنا بیان ہے۔'' ربما اخذ نی ابن عمر باالر کاب ۔''
( تذکرہ الحفاظ ، ج ا : ٨٦)
٤۔ امیر لیث بن سعد والی مصر امام زہری کے رکاب کو تھامتے تھے۔
( آداب ِ الشریعہ : ٢٥٦)
٥۔ امام زہری ؒ اپنے استاد عبید اللہ بن عمر کی خد مت کرتے ، کنویں سے پانی نکال کر انکے کھیتوں کو سینچا کرتے ۔
(تذکرہ الحفاظ : ٧٤)
٦۔ حضرت امام ابو حنیفہ اپنے استاد حماد بن ابی سلیمان کی مختلف خدمات انجام دیتے کبھی ان کے گدّے کی روئی دھنتے کبھی بازار سے سبزی ترکاری اور گوشت وغیرہ خرید لاتے ۔ اسی طرح کے اور بہت سے کام کرتے ۔
( مقدمہ نصب الرایہ : ٤٠٤)
٧۔ عارف باللہ محدث ابراھیم حزلی کی تعظیم و تکریم کا واقعہ یا قوت حموی نے معجم الا دباء میں نقل کیا ہے کہ اسماعیل بن اسحاق قاضی وقت محدث یگانہ ابرا ھیم ہمیشہ یہ کہ کر ٹال دیتے کہ وہ قاضی مملکت اور وہاں دربانوں کو ہٹا کر آپ کو بصد اشتیاق بلا لیا ۔ امام ابراھیم پہنچے ،جوتا اتار کر فرش پر چلنے لگے تو قاضی صاحب نے حسنِ عقیدت سے ان کے جوتوں کو اٹھا کر ایک ریشمی کپڑے میں رکھ لیا ۔
تھوڑی دیر کے بعد جب امام صاحب واپس ہونے لگے تو قاضی صاحب نے ریشمی کپڑے سے ان کا جوتا نکال کر پیش کیا ۔ امام ابرا ھیم نے ا نکی عقیدت کا یہ حال دیکھا تو فرمایا :''غفرانکٰ اللہ ما اکرمت العلم۔'' یعنی اللہ تعالیٰ تکریم ِ علم کے سبب آپ کی مغفرت فرمائے ۔۔۔۔آمین ثم آمین۔
( علمائے دین اور أمراء اسلام : ٩٩۔١٠١)
جن بھی اپنے اساتذہ کی خدمت کرتے ہیں :
مولا نا ابرا ھیم میر سیالکوٹی ؒ لکھتے ہےں :'' ١٣١٦ھ میں جب یہ عاجز اپنے اور پنجاب کے استاد جناب حافظ عبد المنان صاحب مر حوم وزیر آبادی کی معیت میں پہلی بار حضرت میاں صاحب مر حوم ( سید نذیر حسین محدث دہلوی ؒ ۔ از ناقل) کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ تو آپ نے ان ایام میں ایک دن مسجد میں آکر فرمایا کہ آج رات اس کمبخت نے ہم کو سونے نہیں دیا ۔ کبھی اس طرف پاؤں آ دباتا اور کبھی اس طرف سے ۔ اس سے آپ کی مراد یہ تھی کہ جو جن آپ کا شاگرد تھا وہ رات کے وقت آپ کے پاؤں کو دبا یا کرتا تھا۔''
(تارےخ اہلحدیث : ٤٨٣)