- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 1,118
- ری ایکشن اسکور
- 4,480
- پوائنٹ
- 376
امام سعید بن المسیب فرماتے ہیں : ''
'' جو اللہ کے لئے مستغنی ہو جاتا ہے لوگ اس کے محتا ج ہو جاتے دنیا ذلیل ہے اور ہر ذلیل کی طرف مائل ہے اس سے زیادہ ذلیل وہ ہے جو اسے ناجائز ذرائع سے حاصل کرتا ہے اور ناجائز مصارف میں خرچ کرتا ہے۔''
(فقھاء مدینہ : ٦٨)
جس کی خوبیاں زیادہ ہوں اس کے عیب کا ذکر نہیں کرنے چاہئے:
اما م سعید بن المسیب ؒ فرماتے ہیں : ہر شریف ہر عالم اور ہر صاحب فضل میں کوئی نہ کوئی عیب ضرور ہوتا ہے لیکن لوگوں میں جس کی خوبیاں عیوب سے زیادہ ہوں ، اس کے عیب کا ذکر نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کے فضائل کو دیکھ کر اس کے نقائص سے در گزر کرنا چاہئے۔''
(فقھاء مدینہ : ٦٨)
علم پڑھنے کا فائدہ :
امام ابو بکر بن عبد الرحمٰن :
امام ابو بکر بن عبد الر حمٰن فرماتے ہیں : ''علم تینوں میں سے ایک کے لئے ہے ۔علم خاندانی انسان کے نسب کو مزےین کرتا ہے۔ دین دار کے دین کو آراستہ کرتا ہے ، یا پھر حکم ان سے میل ملاپ رکھنے کو فائدہ دیتا ہے ۔''
(فقھاء مدینہ : ٩٩)
علم حدیث پڑھے بغیر عبادت صحیح نہیں ہوتی:
عمر بن عبد العزیز نے اہلِ مدینہ کو خط لکھا کہ :'' جو شخص علم حاصل کئیے بغیر عبادت کا طریقہ اختیار کرے گا وہ اصلاح سے زیادہ فساد کا سبب بنے گا ۔ جو اپنی کلام کو عمل کاا یک حصہ سمجھے گا وہ بے فائدہ چیزوں میں کلام کرنے سے باز رہے گا اور جو اپنے علم کو جھگڑے اور خصومت کا نشانہ بنائے گا اسے اپنی بات سے بار بار رجوع کرنا پڑے گا۔''
(تذکرہ الحفاظ : ١ /٢٦٨)
پر ہیز گاری سیکھو:
امام بکر بن مضر مصریؒ:
امام بکر بن مضر مصری ؒ کے پاس آتے تو اکثر ان سے فرماتے : ''پر ہیز گاری سیکھو۔''
(تذکرہ الحفاظ: ١ / ١٩٦)
بدعتی کی شاگردی اختیار نہ کرو:
امام فضیل بن عیاض ؒفرماتے ہیں :'' جو شخص کسی بدعتی کی مجلس اختیار کرے گا علم و حکمت سے محروم رہے گا۔''
(تذکرہ الحفاظ: ١ / ٢٠٠)
حدیث کس سے پڑھیں؟
امام عبد اللہ بن مبارکؒ:
امام ابو عبد اللہ بن مبارک ؒ سے کسی نے پوچھا ہم علم کس سیکھیں فرمایا:''جس نے علم اللہ تعالیٰ کے لئے پڑھا ہو۔''
(تذکرہ الحفاظ : ١ / ٢٢٠)
طلب علم میں بھوکا ہوکر اپنی بھوک بھول جاؤ:
امام نضر بن شمیل فرماتے ہیں :''جب تک آدمی طلب علم میں بھوکا ہو کر اپنی بھوک کو نہ بھولے علم کی لذت سے لطف اندوز نہیںہوسکتا۔''
(تذکرہ الحفاظ: ١ / ٤٣٣)
محدث کون ہے؟
علامہ مروان بن محمد دمشقی طاطریؒ:
علامہ مروان بن محمد دمشقی طاطری ؒ فرماتے ہیں :''محدث کے لئے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ صداقت ، حافظہ اور صحیح کتابیں ۔اگر اس کے پاس صداقت اور صحیح کتابیں ہو ں توکبھی ضعیف نہیں ہو سکتا اس لئے کہ جب اسے حدیث یاد نہ رہے تو اپنی صحیح کتابوں کی طرف رجوع کر سکتا ہے۔''
(تذکرہ الحفاظ: ١ / ٢٦٧)
امیر المؤمنین فی الحدیث امام محمد بن اسمٰعیل البخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نصیحتیں:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
''اغتنم فی الفراغ فضل رکوع فصی ان یکون موتک بغتہ
کم صحیح رأیت من غیر سقم ذھبت نفسہ الصحیحۃ فلتہ۔''
''یعنی :''فراغت کے وقت رکوع (نماز) کی فضیلت حاصل کرنے کو غنیمت جانو۔''
کیا معلوم تمہاری موت اچانک پہنچ جائے ۔ بہتیرے صحیح اور تندرست آدمیوں کو میں نے دیکھا کہ ان کی جان جو ہر طرح صحیح سالم تھی، اچانک جاتی رہی۔''
''مثل البھا ئم لاتریٰ اجا لھا حتیٰ تساق الی المجاز تنحر۔''
یعنی :'' غافلوں کی مثال چارپائیوں جیسی ہے کہ منحر تک لے جا کر ذبح کرنے تک انھیں موت کی کچھ حس نہیں ہوتی ۔''
''خالق الناس بخلق واسع لاتکن کلبا علی الناس تھّرُ۔''
یعنی:''وسیع خلق کے ساتھ لوگوں سے ملتے جلتے رہو۔ اور خندہ پیشانی سے برتاؤ رکھو۔کتّے کی طرح لوگوں پر بھونکتے نہ رہو۔''
(یہ اشعار علامہ تاج الدین سبکی نے طبقات کبریٰ میں نقل کئے ہیں۔)
( سیرۃ البخاری : ٣۔ ١۔ ١٠٣)
حافظ محمد جمال ملتانی رحمتہ اللہ علیہ:
سبق ےاد کرنے کا نسخہ:
١۔ مولوی امام بخش مہا روی رقم طراز ہے:''اےک دن کا واقعہ ہے کہ آپ ( عبد العزےز پر ہاروی ؒ) دےوار کے ساتھ ٹےک لگائے انتہائی مغموم بےٹھے تھے، کتاب آپ کے سامنے تھی اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے کہ حافظ محمد جمال نے آپ کو اسی حالت مےں دےکھ لےا ، انہوں نے فرماےا عبد العزےز کےا بات ہے؟ تم پرےشان کےوں ہو؟''
آپ نے روتے ہوئے عرض کےا :''حضرت ! مجھے سبق ےاد نہےں ہو رہا ۔ تو حافظ محمد جمال نے فرماےا : آؤ مےرے پاس آکر سبق ےاد کرو ۔ جب آپ نے استاد کے سامنے بےٹھ کر سبق پڑھا اور استاد نے اُن کے لئے دعا کی تو قدرت ِ الٰہی اور اس کے فضل سے تمام عقلی و نقلی علوم کے دروازے آپ پر کھل گئے۔ آپ کسی بھی علم و فن کی کتاب کا مطالعہ کرتے ، آپ کے لئے وہ انتہائی آسان ہوجاتی۔''
( حرام احکام فی العقائد الا سلام ورق : ١٢٠ مکتبہ فاروقےہ ملتان بحوالہ ماہنامہ محدث : ٢٨٦ / ١٢٣۔١٢٤ مارچ ٢٠٠٥)
نصےحت کا ا نوکھا انداز :
٢۔ اےک دفعہ کسی غرےب آدمی نے حافظ محمد جمال اللہ کو کھانے پر بلاےا ۔ آپ وہاں تشرےف لے گئے پر ہاروی ؒ بھی ہمراہ تھے ۔ مےزبان نے گائے کا گوشت تےار کےا تھا، جو کچھ عمدہ نہ تھا اور پکا ہوا بھی ٹھےک نہ تھا بلکہ اس مےں کچھ ناگوار بو بھی تھی شاگرد پر ہاروی ؒ کے چہرہ پر ناگواری ظاہر ہوئی ۔استاد سمجھ گئے کہ اسے گوشت کھانے مےں رغبت نہےں ۔''
ملا حظہ کےجئے کہ اےسے موقع پر استاد نے کس طرح طالب علم کی تربےت کی ۔شاگرد رقم طراز ہےں کہ جب شےخ محترم نے مےرے چہرے پر ناگوار ی محسوس کی تو انہوں نے کھانے کی خوب مدح فرمائی اور خوب لطف ہونے کے انداز مےں خوشی خوشی کھانا کھاےا ۔ مےں نے بھی مجبوراََ ساتھ اور زہر مار کےا ۔دعوت سے فارغ ہوکر ہاتھ دھوئے رومال سے ہاتھ صاف کئے ۔ اور ہاتھ اٹھا کر ےوں دعا کی:
'' الٰھم اغفر لصاحب الطعام ولأ کلےہ ولمن سعیٰ فےہالٰھم بارک لنا بفضلک ےا أکرام کر مےن۔''
'' یا اللہ ! میز بان کی ، کھانے والوں کی اور اس کی تیاری میں کوشش کرنے والے سب لوگوں کی مغفرت فرما۔ یا اللہ اپنے فضل و کرم سے اس کھانے میں ہمارے لئے برکت فرما۔ اے سب سے بڑھ کر عزت والے رب !۔''
(گلزار جمالیہ : ١، ١١ مطبع ابی العلاد آگرہ ، ١٣٢٧ ھ )
عبد العزیز پر ہاروی ؒ:
( ضلع مظفر گڑھ کوٹ ادو کے قریب پر ہاراں کے رہنے والے تھے۔ متوفی ١٨٢٣ئ)
'' جو اللہ کے لئے مستغنی ہو جاتا ہے لوگ اس کے محتا ج ہو جاتے دنیا ذلیل ہے اور ہر ذلیل کی طرف مائل ہے اس سے زیادہ ذلیل وہ ہے جو اسے ناجائز ذرائع سے حاصل کرتا ہے اور ناجائز مصارف میں خرچ کرتا ہے۔''
(فقھاء مدینہ : ٦٨)
جس کی خوبیاں زیادہ ہوں اس کے عیب کا ذکر نہیں کرنے چاہئے:
اما م سعید بن المسیب ؒ فرماتے ہیں : ہر شریف ہر عالم اور ہر صاحب فضل میں کوئی نہ کوئی عیب ضرور ہوتا ہے لیکن لوگوں میں جس کی خوبیاں عیوب سے زیادہ ہوں ، اس کے عیب کا ذکر نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کے فضائل کو دیکھ کر اس کے نقائص سے در گزر کرنا چاہئے۔''
(فقھاء مدینہ : ٦٨)
علم پڑھنے کا فائدہ :
امام ابو بکر بن عبد الرحمٰن :
امام ابو بکر بن عبد الر حمٰن فرماتے ہیں : ''علم تینوں میں سے ایک کے لئے ہے ۔علم خاندانی انسان کے نسب کو مزےین کرتا ہے۔ دین دار کے دین کو آراستہ کرتا ہے ، یا پھر حکم ان سے میل ملاپ رکھنے کو فائدہ دیتا ہے ۔''
(فقھاء مدینہ : ٩٩)
علم حدیث پڑھے بغیر عبادت صحیح نہیں ہوتی:
عمر بن عبد العزیز نے اہلِ مدینہ کو خط لکھا کہ :'' جو شخص علم حاصل کئیے بغیر عبادت کا طریقہ اختیار کرے گا وہ اصلاح سے زیادہ فساد کا سبب بنے گا ۔ جو اپنی کلام کو عمل کاا یک حصہ سمجھے گا وہ بے فائدہ چیزوں میں کلام کرنے سے باز رہے گا اور جو اپنے علم کو جھگڑے اور خصومت کا نشانہ بنائے گا اسے اپنی بات سے بار بار رجوع کرنا پڑے گا۔''
(تذکرہ الحفاظ : ١ /٢٦٨)
پر ہیز گاری سیکھو:
امام بکر بن مضر مصریؒ:
امام بکر بن مضر مصری ؒ کے پاس آتے تو اکثر ان سے فرماتے : ''پر ہیز گاری سیکھو۔''
(تذکرہ الحفاظ: ١ / ١٩٦)
بدعتی کی شاگردی اختیار نہ کرو:
امام فضیل بن عیاض ؒفرماتے ہیں :'' جو شخص کسی بدعتی کی مجلس اختیار کرے گا علم و حکمت سے محروم رہے گا۔''
(تذکرہ الحفاظ: ١ / ٢٠٠)
حدیث کس سے پڑھیں؟
امام عبد اللہ بن مبارکؒ:
امام ابو عبد اللہ بن مبارک ؒ سے کسی نے پوچھا ہم علم کس سیکھیں فرمایا:''جس نے علم اللہ تعالیٰ کے لئے پڑھا ہو۔''
(تذکرہ الحفاظ : ١ / ٢٢٠)
طلب علم میں بھوکا ہوکر اپنی بھوک بھول جاؤ:
امام نضر بن شمیل فرماتے ہیں :''جب تک آدمی طلب علم میں بھوکا ہو کر اپنی بھوک کو نہ بھولے علم کی لذت سے لطف اندوز نہیںہوسکتا۔''
(تذکرہ الحفاظ: ١ / ٤٣٣)
محدث کون ہے؟
علامہ مروان بن محمد دمشقی طاطریؒ:
علامہ مروان بن محمد دمشقی طاطری ؒ فرماتے ہیں :''محدث کے لئے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ صداقت ، حافظہ اور صحیح کتابیں ۔اگر اس کے پاس صداقت اور صحیح کتابیں ہو ں توکبھی ضعیف نہیں ہو سکتا اس لئے کہ جب اسے حدیث یاد نہ رہے تو اپنی صحیح کتابوں کی طرف رجوع کر سکتا ہے۔''
(تذکرہ الحفاظ: ١ / ٢٦٧)
امیر المؤمنین فی الحدیث امام محمد بن اسمٰعیل البخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نصیحتیں:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
''اغتنم فی الفراغ فضل رکوع فصی ان یکون موتک بغتہ
کم صحیح رأیت من غیر سقم ذھبت نفسہ الصحیحۃ فلتہ۔''
''یعنی :''فراغت کے وقت رکوع (نماز) کی فضیلت حاصل کرنے کو غنیمت جانو۔''
کیا معلوم تمہاری موت اچانک پہنچ جائے ۔ بہتیرے صحیح اور تندرست آدمیوں کو میں نے دیکھا کہ ان کی جان جو ہر طرح صحیح سالم تھی، اچانک جاتی رہی۔''
''مثل البھا ئم لاتریٰ اجا لھا حتیٰ تساق الی المجاز تنحر۔''
یعنی :'' غافلوں کی مثال چارپائیوں جیسی ہے کہ منحر تک لے جا کر ذبح کرنے تک انھیں موت کی کچھ حس نہیں ہوتی ۔''
''خالق الناس بخلق واسع لاتکن کلبا علی الناس تھّرُ۔''
یعنی:''وسیع خلق کے ساتھ لوگوں سے ملتے جلتے رہو۔ اور خندہ پیشانی سے برتاؤ رکھو۔کتّے کی طرح لوگوں پر بھونکتے نہ رہو۔''
(یہ اشعار علامہ تاج الدین سبکی نے طبقات کبریٰ میں نقل کئے ہیں۔)
( سیرۃ البخاری : ٣۔ ١۔ ١٠٣)
حافظ محمد جمال ملتانی رحمتہ اللہ علیہ:
سبق ےاد کرنے کا نسخہ:
١۔ مولوی امام بخش مہا روی رقم طراز ہے:''اےک دن کا واقعہ ہے کہ آپ ( عبد العزےز پر ہاروی ؒ) دےوار کے ساتھ ٹےک لگائے انتہائی مغموم بےٹھے تھے، کتاب آپ کے سامنے تھی اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے کہ حافظ محمد جمال نے آپ کو اسی حالت مےں دےکھ لےا ، انہوں نے فرماےا عبد العزےز کےا بات ہے؟ تم پرےشان کےوں ہو؟''
آپ نے روتے ہوئے عرض کےا :''حضرت ! مجھے سبق ےاد نہےں ہو رہا ۔ تو حافظ محمد جمال نے فرماےا : آؤ مےرے پاس آکر سبق ےاد کرو ۔ جب آپ نے استاد کے سامنے بےٹھ کر سبق پڑھا اور استاد نے اُن کے لئے دعا کی تو قدرت ِ الٰہی اور اس کے فضل سے تمام عقلی و نقلی علوم کے دروازے آپ پر کھل گئے۔ آپ کسی بھی علم و فن کی کتاب کا مطالعہ کرتے ، آپ کے لئے وہ انتہائی آسان ہوجاتی۔''
( حرام احکام فی العقائد الا سلام ورق : ١٢٠ مکتبہ فاروقےہ ملتان بحوالہ ماہنامہ محدث : ٢٨٦ / ١٢٣۔١٢٤ مارچ ٢٠٠٥)
نصےحت کا ا نوکھا انداز :
٢۔ اےک دفعہ کسی غرےب آدمی نے حافظ محمد جمال اللہ کو کھانے پر بلاےا ۔ آپ وہاں تشرےف لے گئے پر ہاروی ؒ بھی ہمراہ تھے ۔ مےزبان نے گائے کا گوشت تےار کےا تھا، جو کچھ عمدہ نہ تھا اور پکا ہوا بھی ٹھےک نہ تھا بلکہ اس مےں کچھ ناگوار بو بھی تھی شاگرد پر ہاروی ؒ کے چہرہ پر ناگواری ظاہر ہوئی ۔استاد سمجھ گئے کہ اسے گوشت کھانے مےں رغبت نہےں ۔''
ملا حظہ کےجئے کہ اےسے موقع پر استاد نے کس طرح طالب علم کی تربےت کی ۔شاگرد رقم طراز ہےں کہ جب شےخ محترم نے مےرے چہرے پر ناگوار ی محسوس کی تو انہوں نے کھانے کی خوب مدح فرمائی اور خوب لطف ہونے کے انداز مےں خوشی خوشی کھانا کھاےا ۔ مےں نے بھی مجبوراََ ساتھ اور زہر مار کےا ۔دعوت سے فارغ ہوکر ہاتھ دھوئے رومال سے ہاتھ صاف کئے ۔ اور ہاتھ اٹھا کر ےوں دعا کی:
'' الٰھم اغفر لصاحب الطعام ولأ کلےہ ولمن سعیٰ فےہالٰھم بارک لنا بفضلک ےا أکرام کر مےن۔''
'' یا اللہ ! میز بان کی ، کھانے والوں کی اور اس کی تیاری میں کوشش کرنے والے سب لوگوں کی مغفرت فرما۔ یا اللہ اپنے فضل و کرم سے اس کھانے میں ہمارے لئے برکت فرما۔ اے سب سے بڑھ کر عزت والے رب !۔''
(گلزار جمالیہ : ١، ١١ مطبع ابی العلاد آگرہ ، ١٣٢٧ ھ )
عبد العزیز پر ہاروی ؒ:
( ضلع مظفر گڑھ کوٹ ادو کے قریب پر ہاراں کے رہنے والے تھے۔ متوفی ١٨٢٣ئ)