- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 1,118
- ری ایکشن اسکور
- 4,480
- پوائنٹ
- 376
نصیحتیں میرے اسلا ف کی 13
اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے محدثین اپنے استاد محترم کے بیان کردہ فوائد کو لکھا کرتے تھے مگر آج یہ کام ناپید ہوتا جا رہا ہے ۔
صرف سماع اتنا فائدہ نہیں دیتا جتنا لکھنا فائدہ دیتا ہے، کیونکہ صرف سماع کی باتیں چند گھنٹوں تک محفوظ رہیں گی (الا ماشاء اللہ ) لیکن لکھی ہوئی چیز سے استفادہ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
لکھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ استاد محترم اپنی زندگی میں کئے ہوئے مطالعہ کی روشنی میں بات کرتا ہے جو شاید استاد کو بڑی محنت کے بعد حاصل ہوئی مگر شاگرد کو بڑی آسانی سے وہ فائدہ حاصل ہو رہا ہے ۔
لہذا اچھے طالب علم کی یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ علمی نکات کو اپنی کاپی پر نوٹ کرتا ہے ۔اس سے لکھنے کا انداز بھی آتا ہے ،بعد میں ایسے طالب علم کا مصنف بننا مشکل نہیں ہوتا ۔
کلاس میں یہ لکھا ہوا بعد میں مذاکرے میں بھی کار آمد ثابت ہوگا۔
لکھنے والا اور نہ لکھنے والا علمی پختگی اور وسعت علم میں کبھی برا بر نہیں ہوسکتے۔ یہ بات تو مشہور ہے کہ :'' قیدوا لعلم با لکتابۃ '' علم کو لکھنے سے قید کرو۔مدرس کو چاہئے کہ وہ طلباء کو کلاس میں لکھنے کی ترغیب دیتا رہے پھر آہستہ آہستہ طلباء میں لکھنے کی عادت پختہ ہو جائے گی ،ان شاء اللہ۔
یہ تو تجربہ بھی ہے کہ زمانہ طالب علمی میں لکھی ہوئی چیز زمانہ تدریس میں نہایت معاون ثابت ہوتی ہے اور تصنیف میں بھی اس کا بہت فائدہ ہوتا ہے ۔
خوش قسمت ہے وہ طالب علم جو اپنے اساتذہ سے دعائیں لیتا ہے طالب علم کی کامیابی میں ایک استاد کی دعا بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ جب استاد خلوص نیت سے دعا کردے تو وہ دعاپھر رنگ لاتی ہے یہ بھی مشکل ہے کہ استاد سے دعا کیسے لی جائے ؟
طالب علم کے لئے درج ذیل چیزوں کو اپنا نا ضروری ہے پھر ممکن ہے کہ ایک استاد اپنے طالب علم کے لئے دل سے دعا کرے ۔
١۔ اپنے آپ کو ہرئے عیب سے بچانے والا دوسرے لفظوں میں اپنے آپ کو برے کاموں سے بچانے والا (باعمل)۔
اگر ایک طالب علم اپنے آپ کو برے لڑکو ں کی صحبت سے بچائے ، کسی طرح کے بے حیا ئی کے کام نہ کرے ، اس کے ساتھ ساتھ فحش گو نہ ہو ، جھوٹ نہ بولے ، بے جا لڑکوں کی شکایتیں نہ لگائے ۔ریا کار نہ ہو نمازوں کو باجماعت اور صفِ اولیٰ میں پڑھنے کی کوشش کرنے والا نماز تہجد ، نمازِ اشراق اور سنتوں کا اہتمام کرنے والا ، اور کثرت سے اذکار اور دعائیں کرنے والا وغیرہ ۔ایسے طالب علم کو دیکھ کر استاد خوش ہوجائے گا اور دعا دے گا ۔
٢۔
جب ایک شاگرد دوران تعلیم خوب محنت سے پڑھتا ہے استاد محترم اس سے ہمیشہ خوش رہیں گے اور دعائیں بھی دیں گے۔
٣۔
یہ صفت بہت کم طلباء میں دکھائی دیتی ہے اگر طالب علم کو معلوم ہوجائے کہ میرا استاد میرا باپ اور خیر خواہ ہے اس سے میں نے علم حاصل کرنا ہے تو پھر کبھی بھی وہ استاد کی گستاخی نہ کرے ۔ ہم ببانگ دہل کہتے ہیں کہ جتنا مرضی ذہین طالب علم ہے اگر وہ استاد کا گستاخ ہے تو وہ کامیاب نہیں ہو سکتا ۔(اس پر ہمارا مشاہدہ ہے۔)
اساتذہ کا احترام کیسے کیا جائے ؟
استاد کے احترام میں مندرجہ ذیل باتوں کو ملحوظ خاطر رکھنا چائے ۔
٭ اگر استاد کسی معقول وجہ سے شاگرد پر سختی کرے تو اس سے ناراض نہیں ہونا چاہئے
استاد کو اپنا دشمن نہیں سمجھنا چاہئے ۔
٭ اگر استاد کوئی کام کرنے کو کہے تو اسے خوشی سے بجا لا نا چائے نہ کہ حیلے بہانے کر کے اسے ٹال دینا چاہئے۔
٭ استاد کے سامنے ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہئے کہ دو زانوں ہو کر بیٹھا جائے (اس پر آگے تفصیل آرہی ہے)
٭ استاد کی آواز سے اونچی آواز نہ کرے ۔
٭ استاد کی رائے کو آرام سے سنیں خواہ وہ اسکی رائے کے خلاف ہی ہو۔
٭ اگر استادسے کلاس میں کوئی بات غلط بیان ہو گئی ہو تو اس کا مذاق نہ اُڑائے ۔
٭ اگر کسی مصلحت کے تحت استاد کسی کام سے روکے تو اس سےرک جائے۔
٭ ہر استاد کے اپنے قوائد ہوتے ہیں ان قواعد و ضوابط کا مکمل لحاظ رکھے ۔
٭ اگر شاگرد کو معلوم ہو کہ استاد محترم بیمار ہیں تو انکی تیمار داری کرے اس کے لئے دعا کرے اور ہر ممکنہ طریقہ سے ان کا علاج اور خدمت کرے۔
٭ اگر استاد کی عدم موجودگی میں کوئی اور استاد محترم کے خلاف بات کر رہا ہے تو استاد محترم کا دفاع کرے ۔
٭ استاد کو ہمیشہ اچھے القاب اور احترام سے یاد کرے ۔
٭ ہر وقت اپنے استاد محترم کے لئے دعا خیر کرے۔
طلباء میں اچھی صفات کا تذکرہ:
کلاس میں استاد محترم کے بیان کردہ فوائد کو لکھنا :
اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے محدثین اپنے استاد محترم کے بیان کردہ فوائد کو لکھا کرتے تھے مگر آج یہ کام ناپید ہوتا جا رہا ہے ۔
صرف سماع اتنا فائدہ نہیں دیتا جتنا لکھنا فائدہ دیتا ہے، کیونکہ صرف سماع کی باتیں چند گھنٹوں تک محفوظ رہیں گی (الا ماشاء اللہ ) لیکن لکھی ہوئی چیز سے استفادہ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
لکھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ استاد محترم اپنی زندگی میں کئے ہوئے مطالعہ کی روشنی میں بات کرتا ہے جو شاید استاد کو بڑی محنت کے بعد حاصل ہوئی مگر شاگرد کو بڑی آسانی سے وہ فائدہ حاصل ہو رہا ہے ۔
لہذا اچھے طالب علم کی یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ علمی نکات کو اپنی کاپی پر نوٹ کرتا ہے ۔اس سے لکھنے کا انداز بھی آتا ہے ،بعد میں ایسے طالب علم کا مصنف بننا مشکل نہیں ہوتا ۔
کلاس میں یہ لکھا ہوا بعد میں مذاکرے میں بھی کار آمد ثابت ہوگا۔
لکھنے والا اور نہ لکھنے والا علمی پختگی اور وسعت علم میں کبھی برا بر نہیں ہوسکتے۔ یہ بات تو مشہور ہے کہ :'' قیدوا لعلم با لکتابۃ '' علم کو لکھنے سے قید کرو۔مدرس کو چاہئے کہ وہ طلباء کو کلاس میں لکھنے کی ترغیب دیتا رہے پھر آہستہ آہستہ طلباء میں لکھنے کی عادت پختہ ہو جائے گی ،ان شاء اللہ۔
یہ تو تجربہ بھی ہے کہ زمانہ طالب علمی میں لکھی ہوئی چیز زمانہ تدریس میں نہایت معاون ثابت ہوتی ہے اور تصنیف میں بھی اس کا بہت فائدہ ہوتا ہے ۔
اپنے اساتذہ سے دعائیں لینا:
خوش قسمت ہے وہ طالب علم جو اپنے اساتذہ سے دعائیں لیتا ہے طالب علم کی کامیابی میں ایک استاد کی دعا بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ جب استاد خلوص نیت سے دعا کردے تو وہ دعاپھر رنگ لاتی ہے یہ بھی مشکل ہے کہ استاد سے دعا کیسے لی جائے ؟
طالب علم کے لئے درج ذیل چیزوں کو اپنا نا ضروری ہے پھر ممکن ہے کہ ایک استاد اپنے طالب علم کے لئے دل سے دعا کرے ۔
استاد سے دعائیں لینا کیسے ممکن ہے ؟
١۔ اپنے آپ کو ہرئے عیب سے بچانے والا دوسرے لفظوں میں اپنے آپ کو برے کاموں سے بچانے والا (باعمل)۔
اگر ایک طالب علم اپنے آپ کو برے لڑکو ں کی صحبت سے بچائے ، کسی طرح کے بے حیا ئی کے کام نہ کرے ، اس کے ساتھ ساتھ فحش گو نہ ہو ، جھوٹ نہ بولے ، بے جا لڑکوں کی شکایتیں نہ لگائے ۔ریا کار نہ ہو نمازوں کو باجماعت اور صفِ اولیٰ میں پڑھنے کی کوشش کرنے والا نماز تہجد ، نمازِ اشراق اور سنتوں کا اہتمام کرنے والا ، اور کثرت سے اذکار اور دعائیں کرنے والا وغیرہ ۔ایسے طالب علم کو دیکھ کر استاد خوش ہوجائے گا اور دعا دے گا ۔
٢۔
روزانہ اسباق میں خوب دل لگا کر محنت کرنے والا ۔
جب ایک شاگرد دوران تعلیم خوب محنت سے پڑھتا ہے استاد محترم اس سے ہمیشہ خوش رہیں گے اور دعائیں بھی دیں گے۔
٣۔
اساتذہ کا احترام کرنے والا ۔
یہ صفت بہت کم طلباء میں دکھائی دیتی ہے اگر طالب علم کو معلوم ہوجائے کہ میرا استاد میرا باپ اور خیر خواہ ہے اس سے میں نے علم حاصل کرنا ہے تو پھر کبھی بھی وہ استاد کی گستاخی نہ کرے ۔ ہم ببانگ دہل کہتے ہیں کہ جتنا مرضی ذہین طالب علم ہے اگر وہ استاد کا گستاخ ہے تو وہ کامیاب نہیں ہو سکتا ۔(اس پر ہمارا مشاہدہ ہے۔)
اساتذہ کا احترام کیسے کیا جائے ؟
استاد کے احترام میں مندرجہ ذیل باتوں کو ملحوظ خاطر رکھنا چائے ۔
٭ اگر استاد کسی معقول وجہ سے شاگرد پر سختی کرے تو اس سے ناراض نہیں ہونا چاہئے
استاد کو اپنا دشمن نہیں سمجھنا چاہئے ۔
٭ اگر استاد کوئی کام کرنے کو کہے تو اسے خوشی سے بجا لا نا چائے نہ کہ حیلے بہانے کر کے اسے ٹال دینا چاہئے۔
٭ استاد کے سامنے ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہئے کہ دو زانوں ہو کر بیٹھا جائے (اس پر آگے تفصیل آرہی ہے)
٭ استاد کی آواز سے اونچی آواز نہ کرے ۔
٭ استاد کی رائے کو آرام سے سنیں خواہ وہ اسکی رائے کے خلاف ہی ہو۔
٭ اگر استادسے کلاس میں کوئی بات غلط بیان ہو گئی ہو تو اس کا مذاق نہ اُڑائے ۔
٭ اگر کسی مصلحت کے تحت استاد کسی کام سے روکے تو اس سےرک جائے۔
٭ ہر استاد کے اپنے قوائد ہوتے ہیں ان قواعد و ضوابط کا مکمل لحاظ رکھے ۔
٭ اگر شاگرد کو معلوم ہو کہ استاد محترم بیمار ہیں تو انکی تیمار داری کرے اس کے لئے دعا کرے اور ہر ممکنہ طریقہ سے ان کا علاج اور خدمت کرے۔
٭ اگر استاد کی عدم موجودگی میں کوئی اور استاد محترم کے خلاف بات کر رہا ہے تو استاد محترم کا دفاع کرے ۔
٭ استاد کو ہمیشہ اچھے القاب اور احترام سے یاد کرے ۔
٭ ہر وقت اپنے استاد محترم کے لئے دعا خیر کرے۔