• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نصیحتیں میرے اسلا ف کی 14

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
استاد کے احترام کے چند واقعات:

امام اوزاعی حج کے لئے تشریف لے گئے تو سفیان ثوری نے جو پہلے سے وہاں موجود تھے ، بستی سے باہر نکل کر استقبال کیا اور انکے اونٹ کی نکیل پکڑ کر آگے آگے چل رہے تھے، اور یہ کہتے جاتے تھے۔
''طرقو التشارع ۔شیخ کے لئے راستہ دے دو۔
( سیر الصحابہ: ٧ / ١ / ٢٥٧)
مجالد کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ مشہور فقیہ ابراہیم نخعی کے پاس بیٹھا تھا کہ امام شعبی تشریف لائے ، ابراہیم نے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا ، پھر لا کر انھیں اپنی مخصوص جگہ پر بٹھایا ۔''
(تذکرہ الحفاظ : ١ / ٨٣ ا)
بکار کہتے ہیں کہ :'' جب امام ابن عون بصریٰ کے تلا مذہ ان کی مجلس میں حاضر ہوتے تو انتہائی خشوع و خضوع اور بے حد سکوت کا مظاہرہ کرتے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں ۔''
(تذکرہ الحفاظ : ١ / ١٧٩)
ابرا ہیم بن اشعث کہتے ہیں میں نے امام سفیان بن عینیہ کو سو دفعہ نقیل بن ایاز کے ہاتھ چومتے دیکھا ۔''
(تذکرہ الحفاظ: ١ / ٢٠٠)
''راقم الحروف نے ایک طالب علم کو دیکھا کہ وہ سبق کے بعد شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کے پوروں کو بوسہ دے رہا تھا ۔''
قتیبہ بن سعید کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی نے امام سفیان بن عیینہ سے کہا یہ ( شیخ الاسلام ) حسین جعفی (کوفی) آ رہے ہیں یہ سن کر سفیان جلدی سے اٹھے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے ، مصافحہ کیا اور ان کے ہاتھ کو بوسہ دیا ۔''
(تذکرہ الحفاظ : ١ / ٢٦٨)
عبد اللہ بن منان کہتے ہیں کہ ایک دفعہ عبد اللہ بن مبارک مکہ معظمہ تشریف لائے ۔ میں بھی ان دنوں وہیں پر تھا پھر جب وطن واپس جانے لگے ،تو محدث مکہ امام سفیان بن عیینہ اور فضیل بن عیاض آپ کو الوداع کرنے کے لئے شہر سے باہر آئے ۔''
(تذکرہ الحفاظ : ١ / ٢٢٠)
احمد بن منان کہتے ہیں :'' امام عبد الر حمٰن بن مہدی بصری کی مجلس میں باتیں نہیں ہوتی تھیں کوئی وہاں قلم نہیں بنا سکتا تھا اور نہ ہی کو ئی بلا وجہ کھڑا ہو سکتا تھا ، لوگ اس طرح خاموش ہوتے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیںیا وہ نماز پڑھ رہے ہوں ۔
(تذکرہ الحفاظ : ١ / ٢٥٤)
ابو عبید کہتے ہیں کہ میں نے امام عبد الرحمٰن بن مہدی بصری سے سنا ہے ،فرماتے تھے کہ میں نے کسی استاد کی کوئی ایسی حدیث نہیں چھوڑی جسے بیان کرتے وقت ان کا نام لے کر خدا تعالیٰ سے ان کے حق میں دعا نہ کی ہو۔''
(تذکرہ الحفاظ : ١ / ٢٥٦)
جن کو بھی اللہ تعالیٰ بڑا مقام دیتا ہے ان سے پوچھ کر دیکھیں کہ آپ نے بڑا مقام کیسے حاصل کیا تو وہ یہی بتائیں گے کہ اللہ کی رحمت و توفیق اور مدد سے پھر اساتذہ کے احترام ، خدمت اور ان کی اور والدین کی دعاؤں کی وجہ سے ۔
احترام کا ایک عجیب و غریب واقعہ:

ہمیں مولا نا خالد حفظہ اللہ(خطیب ١٨ چک تحصیل پتوکی ضلع قصور) نے بتایا کہ استاد مکرم مولانا محمد گوندلوی رحمہ اللہ نے واقعہ سنایا کہ:'' کسی دیوبندیوں کے مدرسے میں ایک اہلِ حدیث لڑکا پڑھتا تھا وہ اپنے استاد محترم کے جوتے کو اٹھا کر لاتا تھا اور جب وہ واپس جانا چاہتے تو وہی دوبارہ اس جوتے کو استاد کے لئے اٹھا تا ۔ وہ روزانہ اس طرح کرتا تھا تو ایک دن اس استاد نے دوسرے طالب علموں کو ڈانٹا کہ میرا جوتا وہی اہلِ حدیث طالب علم اٹھاتا ہے تم کیوں نہیں ؟ لڑکوں نے کہا آئندہ ہم اٹھایا کریں گے لیکن پہلے وجہ بیان کرو فرمایا کہ:'' جو طالب علم استاد کا احترام کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے نورو عرفان عطا فرماتا ہے اور اس کا سینہ روشن ہو جاتا ہے میں نہیں چاہتا کہ یہ معرفت قلبی غیر مقلد کو حاصل ہو۔۔۔!!!
 
Top